اُردوئے معلی…تہذیبی شناخت پروفیسربشیر احمد نحوی
زبان ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروح
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے
مغل سلطنت کے اختتام کے ساتھ ہی ہندوستان میں فارسی ، عربی اور اُردو کے مراکز بتدریج کمزور ہوتے چلے گئے اور برطانوی اقتدار نے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لاکر انگریزی زبان وادب اور تہذیب وثقافت کو استوار کرنے کی طرف بھر پور توجہ مبذول کی ۔ چنانچہ کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کاقیام اُردو کے لئے نہیں بلکہ انگریز افسروں کو اُردو سے متعارف کراکے اپنے اقتدار کی بنیاد کو مضبوط کرنے کی خاطر عمل میں لایا گیا تھا ۔ ہندوستان سے چلے جانے کے بعد انگریزوں نے اپنی زبان اور اپنا لباس یہاں ہی چھوڑا۔ دفتروں اور مدرسوں میں ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی رہا اور دیگر زبانیں مشاعروں ، بیت بازی کے مقابلوں اور مذہبی تقریروں تک محدود رہیں ۔اُردو جو ایک زمانے میں گنگا جمنی تہذیب کی علامت ، تمام زبانوں کی ترجمان اور رابطے کی زبان مانی جاتی تھی، رفتہ رفتہ اپنی افادیت اور مقبولیت کھوتی رہی اور چند ریاستوں کے محدود وعلاقوں تک سمٹ کر رہ گئی ۔ اس کے بے لوث ادیب ، شاعر اور خادم داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے اور ابن الوقت ، زبان دراز ،شاطر اور عیّار قسم کے اُرد ودان ادباء نے اپنے مفادات کے لئے انجمنوں اور اُردو کمیٹیوں میں اپنی شمولیت یقینی بناکر چاپلوسی ، مداہنت اور زلّہ خواری کے تمام ریکارڈ مات کرکے رکھ دئے ۔ بابا ئے اُردو مولوی عبدالحق کی ہڈیاں سرِ راہ بیچ ڈالیں اور دیاشنکر نسیم ،ؔچکبستؔ او رتلوک چند محروم ؔ کے جذبۂ اُردو کے ساتھ کھلواڑ کیا ۔ اشرف علی تھانوی ، محمد قاسم نانوتوی ، محمد زکریا ، عطااللہ شاہ بخاری ، علامہ اقبال ، ابو الکام آ زاد (رحمہم اللہ )کی اُردو ، شراب کی عفونت سے بھرپور زبانوں پر جاری ہونے لگی اور اس میں دہلی کے شرفاء کی پاکیزگی ، شگفتگی اور سلاست کی شناخت جسے اُردوئے معلیٰ کہا کرتے تھے ، کم ہوتی چلی گئی ۔ ہندوستان کے معروف اُردو گھرانے مغرب زدہ ہوگئے اور ان گھروں میں موجود شاندار اُردو کتابیں اور جریدے جامع مسجد دہلی اور پہاڑ گنج میں سنڈے مارکیٹ میں ردی کاغذ کے بھائو فروخت ہونے لگیں ۔ ملک کے تقریباً تمام اُردو اساتذہ کی اولاد نے سائنس کو میدان علم ودانش بنادیا اور اس طرح متاعِ کارواں کے محافظ کیمیا اور سیمیا کے مردِ میدان بن گئے ۔ 2002ء میں ہندوستان کے چند بڑے اُردو اساتذہ نے اشکبار آنکھوں سے ان پر گذری ایسی ہی صورتحال کا ماجرا مجھے دلّی یونیورسٹی میں سنایا ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
رہی سہی کسر نظامِ سیاست نے پوری کردی ۔ کئی ریاستوں میں اُردو کو اوّل سرکاری زبان اور کہیں ثانوی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا لیکن عملاً انگریزی اور ہندی میں دفتری کا م کاج ہوتا رہا۔اُردو سے فارسی اور عربی کے الفاظ آہستہ آہستہ غائب کردیئے گئے لیکن جس شاعر کو اُردو کا بڑا شاعر ہندوستان میں تسلیم کیا گیا وہ مرزا غالب ؔ ہیں جن کی ہر غزل میں اسّی فیصد الفاظ فارسی سے ہیں ۔ غالبؔ کے صد سالہ جشن کے موقع پر فلمستان کے شاعر ساحرؔلدھیانوی نے چند اشعار کہے تھے جو حقیت ِ حال کی عکاسی کرتے تھے ؎
جس عہدِ سیاست نے یہ زندہ زباں کچلی
اس عہدِ سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہو
غالبؔجسے کہتے ہیں اُردو کاہی شاعر تھا
اُردو پہ ستم ڈھا کے غالبؔ پہ کرم کیوں ہو
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی جامعات میں اُردو پڑھائی جاتی ہے ۔ حکومت نے چند سال پہلے مولانا آزاد اُردو یونیورسٹی بھی قائم کی ۔ ترقی اُردو، فروغِ اُردو ،ایوانِ غالب اور ساہتیہ اکیڈمی اُردو کی ترقی کے لئے یقیناً کوشاں ہیں لیکن یہ سب کچھ چندادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی دلچسپیوں تک محدود ہے جب کہ عوام آئے دن اُردو سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔دہلی اور ممبئی میں مسجد جامع اور محمد علی روڈ پر بالترتیب چند دوکانوں پر اُردو میں تحریر کئے گئے بورڈ نظر آتے ہیں ،باقی ہر مقام پر ہندی اور انگریز ی کا چلن ہے ۔باہر کی بات کیا کریں ہمارے یہاں کشمیر میں تمام دوکانوں ،دفتروں ، کارخانوں اور دیگر اداروں کے نام انگریزی زبان میں درج ہیں ، چاہے مالکِ دوکان یا ادارہ وہ حروف خود پڑھ بھی نہ سکیں لیکن انگریزی وضع داری ہر حال میں قائم رہنی چاہئے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ریاستی حکمت کے صوبائی انتظامیہ کی طرف دو سال پہلے اُردو کی پرموشن کے لئے چند ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن آج تک اس کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ۔
اُردو ایک تہذیبی روایت کا نا م ہے ۔اس کی پشت پر میرؔ، غالبؔ، انیس ؔاور اقبال ؔ جیسی اولو العزم شخصیا ت ہیں ۔ یہ زبان دنیا کی بہترین زبانوں میں اپنی فصاحت اور نفاست کے اعتبار سے منفرد ہے ۔ ایک عظیم تہذیب کی کوثر وتسنیم کے پانی میں دھلی ہوئی زبان نے ہزاروںدانشور، شاعر ، افسانہ نگار اور ادیب وخطیب پیدا کئے ہیں ۔ ویسے اس زبان کو مٹانا اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ ہندوپاک کے کروڑوں مسلمانوں کا مذہبی لٹریچر اُردو میں محفوظ ہے۔
اُردو کے خیر خواہوں پر یہ لازم آتاہے کہ وہ اپنی اپنی سطح پر اُردو کو اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، دفتروں اور بازاروں میں فروغ عطا کریں۔ اُردو اخبارات خرید کر پڑھیں ۔ بی بی سی کی اُردو سروس ،آل انڈیا ریڈیو کے اُردو پروگرام ، اِی ٹی وی اردو ، دوردَرشن سرینگر ، ریڈیو کشمیرسرینگر اور ملکی ومقامی اُردو اخبارات سے اپنا ذہنی ولسانی تعلق قائم کریں ۔ انگریزی زبان اور جدید علوم کا حصول ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے لیکن تہذیبی وثقافتی قدروں سے مالامال اُردوزبان کو حقیر جاننا اور اس کواپنی تحریر وتقریر میں بے دخل کرنافکری دیوالیہ پن کا مظہرہے ۔ ہمیں اپنی مادری زبان او راپنے علاقائی لہجوں میں بات کرنے میں خوشی محسوس ہونی چاہئے اور نئی زبانوں کے سیکھنے میں کوئی کمی روا نہیں رکھنی چاہئے ؎
ہائے ! اب کیا ہوگئی ہندوستان کی سرزمین
آہ! اے نظارہ آموزِ نگاہِ نکتہ بیں
گیسوئے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزیٔـ پرواز ہے
-----------
رابطہ :- اقبال انسٹی ٹیوٹ ،یونیورسٹی آف کشمیر
|
Search This Blog
Wednesday, 25 July 2012
اُردوئے معلی…تہذیبی شناخت
Labels:
EDUCATION
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment