اہانت آمیز فلم جل جائو گے گر دِل سوزاں سے کھیلا اشرف چراغ
یہ با ت بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت کہ دنیا کی کوئی حکومت ایسی نہیں جو دہشت گردی کی مخالفت میں زبانی خرچ نہ کر رہی ہو، کوئی اخبار ایسا نہیں جس میں اس سے متعلق مضامین نہ چھپ رہے ہوںاور مسلما نو ں کو اپنے اورغیر جمہو ریت، انسانی حقو ق اور امن پسندی اور کشادہ ذ ہنی کے اپدیش نہ دئے جا رہے ہو ں، کوئی دن ایسا نہیں گز رتا جس میں مسلمانوں کو دہشت گردی سے نہ جوڑا جا تا ہو اور دور کی کو ڑ یا ں لا کر ان کو معتوب نہ کیا جا رہا ہو ۔ مسلمانوں کے تعلق سے بھیانک و لرزہ خیز انکشافات کر کے ان کی خو اہ مخو اہ دل آ زاریا ور بد نا می کا کو ئی مو قع ہا تھ سے جا نے نہیں دیاجا تا ۔ ایک طرف ایسا لگتا ہے کہ گو یا ساری دنیا ’مسلمانوں کی دہشت گردی‘ سے پریشان ہے اوردوسری طرف یہ کتنی دل خراش حقیقت ہے کہ وقفہ وقفہ سے اسلام اور شعائر اسلام و نبی صلعم کی ذات گرامی کے خلا ف ہتک آمیز کتا بیں شائع کی جا رہی ہیں اور ان کے علا وہ اب توہین آمیز فلموں سے دین حق اور اسلا می شخصیات کو بھی رکیک حملو ں اور کردار کشیو ں کا خا کم بدہن تختۂ مشق بنایا جاتا ہے۔یہ سارا کچھ دیار مغرب کے ایو انو ں میں پسماندہ ، غیر ترقی یا فتہ اور تہذ یب سے عاری جتلائے جا نے والے ممالک میں نہیںہوتا بلکہ ان قوموں اور ملکو ں میں ہو رہا ہے جو دنیا سے انسانیت کی باتیں کرتے ہیں ،تہذیب کے سبق پڑھاتے ہیں ، رواداری کے گُن گاتے ہیں اور دنیا کو امن کا گہوارہ اور مساوات اور یک رنگی سے مزین دیکھنے کی لمبی چوڑی وعظ خوانیا ں کرتے ہیں۔
مغرب میں خاص طورجس تسلسل سے مسلمانوںکی دل آزاری کے واقعات ہو رہے ہیں اور جس وسیع پیما نے پر ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہچانے کی نازیبا حرکتیں ہورہی ہیں ۔اس سے ہرگز یہ نہیں لگتا کہ یہ لوگ مسلمانوں کی دہشت گردی سے پریشان ہیں کیونکہ اگر پریشان ہوتے تو ایسی اوچھی حرکتوں پہ نہ اُتر آ تے جس سے دنیا بھر میں ان کے خلا ف اشتعال پیدا ہو تا بلکہ وہ اس ڈر سے کہ کہیں شیرپنجرے سے با ہر نہ آ ئے مسلما نو ں کے تئیں زیا دہ محتاط اور محبتو ں کا دکھا وا کرتے ۔ کیو نکہ جو تصویر وہ کلمہ خو انو ں کی پیش کرتے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہی برآ مد ہو نا چا ہیے۔ لہٰذا ان دونوں متضا د رویو ں پر جب سنجید گی سے غور کیا جا ئے تو ہر گز یہ محسوس نہیںہو تاکہ یہ دونوں با تیں ایک سا تھ ہو سکتی ہیں ۔ اگر با لفرض مسلما ن واقعی خو ن تشنہ ہیں اور دنیا ان سے خا ئف ہے تو کو ن احمق ان کی دل آزاریاں کر کے ان میں غصے کی آ گ بھڑ کا نے کی مجنو نا نہ حرکات کی حامی بھر سکتا ہے؟
جو لوگ مو جو دہ دنیا کو درپیش پیچیدہ مسا ئل پر اور عالمی حالات کے اتار چڑھا ؤ پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ یہ با ت بخو بی جا نتے ہیں کہ ایک خا ص متعصب گروپ امریکہ اور اسرا ئیل میں سر گرم عمل ہے جو حالات کو ایک خاص رُخ د ے کر عالمی رائے عامہ کو مسلما نو ں کے حو الے سے آلودہ کر نا چا ہتے ہیں… انہیںعالمی رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنا نے میں مہا رت ہے اورجا نتے ہیں کہ پہلے مرحلے پر خو دمسلما نوں کو کس طرح اُکسا نا ہے اور پھر ایک بار ان کے وضع کردہ پلان کے مطابق بعض جذباتی مسلمان ان حرکتوں پر کو ئی رد عمل ظاہر کریں تو ان کو دہشت گرد ی کا شیدائی،منا فرت کے پیام برا ور نام نہاد جمہو ریت مخالف قرار دینا ان کے با ئیں ہاترھ کا کھیل بن جاتا ہے، یو ں سا ری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کو بد نام کرنے کی بھر پورکو ششیں روبہ عمل لائی جا تی ہے ۔
اب دیکھئے کہ امریکہ میں بیٹھ کرکسی کندۂ ناتراش نے پیغمبر اسلام صلعم اور آ پؐ کے خانوادے اور جا ں نثار صحا بہؓ سے متعلق ایک فلم بنا ئی جو اول تا آ خر فلم ساز کی پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ سے نا واقفیت بلکہ انتہا ئی ذلیل سوچ کی غماز ہے۔ یہ توہین ِآمیز گھٹیا اور حق دشمن فلم یو نہی نہیں بنی ہے ، اس کے پیچھے ضرور ایک ا نسان دشمن اور مسلم بیزار منصوبہ کا رفرماہو نے میں دورائے نہیں۔ اس فلم کو اس وقت جب کہ عالمی سطح پر امت اسلامی کو صدہا مصائب کا سامنا ہے اورافغا نستان ، عراق، فلسطین ، بر ما ، آسام ، پا کستان اور مختلف ملکو ں میں انہیںتہِ تیغ کیا جا رہا ہے ، یہ فلم مسلمانو ں کے ہر ے زخموں پر نمک پا شی کے برابر ہے۔ اس فلم کے ذریعے اصل مقصد بجز اس کے سوا کچھ نہیں کہ اُمت مسلمہ کے جذبات مجروح ہو ں اور جس طرح خود انہو ں نے اپنی مقدس مذہبی کتا بو ں میں تحریفیں کر کے پیغمبران کرامؑ کی سیرتو ں کو مسخ کیا ہے، اسی طرح کا بد بختا نہ کا م کر کے یہ سیرت رسولؐ کی پا ک و مطہرشبیہ کو نعوذ با للہ غلط رنگ میں پیش کر کے اپنی اسلام دشمنی اور دریدہ دہنی کا کھلا ریکا رڈ قائم کر نا چاہتے ہیں۔ یہ گھنا ئونی حرکت مسلمانوں کے جذبات سے نہ صرف کھلواڑہے بلکہ مسلمانوں کی واحد انمو ل اورعزیز انِ جان پیغمبر زما ںنبی محترم ؐ کی ذات گرامی کے با رے میں نعوذ باللہ گستاخیاں کی ہیں جو کسی بھی عام مسلمان کو مشتعل کرنے کے لئے کا فی ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایک مسلمان اپنے ماں باپ اور بھا ئی بہن کی بے عزتی اور بے توقیری برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنے رسولؐ کی عزت اور آ پ کا احترام پر کو ئی حرف گیری کرے یہ اسے اپنی جا ن کی قیمت پر بھی گوارانہیں۔جو لوگ ایسی مذ موم حرکتیں کر چکے ہیں یا کررہے ہیں وہ جان بوجھ کر مسلمانوں کو مشتعل کر رہے ہیں ۔ یہ جمہوریت اور اظہار رائے کی نام نہا د آزادی کے نام پر بد ترین قسم کی دہشت گردی کا ارتکاب ہے ۔ کیاکوئی گما ن کر سکتا ہے کہ ان مفتن لوگوں کے دل اگرمسلمانوں کے خوف سے لرزاں وترساں ہیںہے تو کیا وہ ایسی حرکت کرتے؟ظاہر سی بات ہے ہر گز نہیں۔ اس سے صاف یہ بات جھلکتی ہے کہ مسلما نو ں کے وجو د سے ان کی عریا ں تہذ یب اور بے خدا تمدن کو خطرہ لا حق ہے اس لئے اس کا خا طر خ واہ جواب دینے کے لئے وہ اس قسم کی غلیظ اور ذ لت آ میز حرکتیں با قاعدہ طور منصو بہ بند طریقے سے کررہے ہیں ۔مو ٹے طو ر پر ان کا مقصد مسلما نو ں کے خلا ف اپنے ظلم وتشد کو جو از فراہم کرنا ہے اور اسلام کی اصل حقیقت کو دنیا ئے انسانیت سے مخفی رکھنے کے لئے وہ چا ہتے ہیںکہ مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے عا لم رائے عا مہ کو مزید گمراہ کیا جائے اور ہر شخص کی آ نکھو ں میںمسلمانوں کی شیبہ خراب کی جائے۔
امریکہ اور اسرائیل بار بار اُمت مسلمہ کے جذبات مجروح کرکے اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت فراہم کرتے آ ئے ہیں اور توہین رلت ؐکے یہ پے در پے واقعات مغربی دنیا میں صیہونی اور صلیبی منصوبہ بندیوں کی ایک کڑی ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی کے لئے بھی کسی دوسرے انسان کے مذہب یا اعتقاد کی توہین کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم دنیا کو یہ بھجی جا ننا اور سمجھنا چا ہیے کہ نبی اکرم ؐ کے نام مبا رک پر ایک مسلمان اپنے وجود تک کو بھی مٹا سکتا ہے ۔ اس حقیقت کے تنا ظر میں دیکھا جا ئے تو مذکورہ توہین آمیز فلم کے خلاف مسلم دنیا کا شدید ردعمل ایک فطری بات ہے ۔ نیز پیغمبر اسلام ؐ کی شان اقدس میں کسی بھی معمو لی سی گستاخی تو دور بے ادبی کے خلاف صدائے احتجاج کر نا مسلمانوں کا اہم ترین دینی فریضہ ہے۔ اَنکل سام نے اتنا دیکھ کر بھی اُس بد کردارفلم ساز کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جس نے ایسی حرکت کی ہے کہ انکل سام کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے صبر و ضبط کا امتحان لینے کی کوشش نہ کریں اور جتنا جلد ممکن ہو سکے اس دل آزار فلم بنانے والے مجرم شخص کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کریں اور مسلمانوں سے اس واقعہ کیلئے معافی مانگیں۔ اس کے علاوہ اس فلم پر پوری دنیا میں پابندی عائد کی جائے گی۔
charag06@gmail.com
|
Search This Blog
Sunday, 7 October 2012
AHANAT AMEZ FILM
Labels:
ISSUES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment