زما نہ گواہ ہے یہ شمع ِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ہر جا چمکنے آ ئی ہے ایس احمد پیرزادہ
ابھی چند ہی دن پہلے راقم السطور نے ایک پاکستان کالم نگار کا مضمون پڑھاجس میں انہوں نے ایک یہودی سے کئی سال پہلے فرانس میں ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ بقول کالم نگار کے مذکورہ یہودی ’’اسلام میں شدت پسندی ‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کر رہا تھا اور جب اس کالم نویس نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی ریسرچ کہاں پہنچی ہے اور آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟ تو اس ریسرچ اسکالر یہودی نے درجواب کہا کہ میری ریسرچ مکمل ہوچکی ہے اور اب میں اپنیThesis لکھ رہا ہوں۔ میں نے اپنی ریسرچ میں یہ پایا ہے کہ ’’مسلمان اسلام کے بجائے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں، قرآن کے احکامات پر نعوذبا للہ تنقید کی جائے تو اِن کا ردّعمل شدید نہیں ہوتا ہے، مسجدوں کو العیا ذ با للہ مسمار کیا جائے یہ لوگ آپے سے باہر نہیں ہوتے ہیں،اُن کے نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا جائے اِنہیں اتنا دُکھ نہیں ہوتا، خدا نخواستہ اِن کی عزت مآب ماؤں بہنوں کی عزت لوٹ لی جائے تو یہ اپنے معمولات میں فرق نہیں آنے دیتے ہیں، انہیں اسلامی عبادات و غیرہ سے روک لیا جائے یہ برداشت کر لیتے ہیں لیکن جب اِن کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی معمولی سی گستاخی بھی کرتا ہے تو پھر یہ لوگ کٹ مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، تمام آپسی اختلافات کو بھلا کر یک جُٹ ہو جاتے ہیں اور ردّعمل میں خطرناک قسم کی شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو اگر مختلف خانوں میں بانٹے رکھنا ہے تو کسی بھی سطح پر اُن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا سوچا بھی نہیں جانا چاہیے اور مسلمان کو زیر کرنے کے لیے ایسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے کہ مسلمانوں کے دلوں سے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکل جائے۔‘‘
یہودی ریسرچ اسکالر کے تجزئیے کا ایک پہلو صد فیصد سچائی پر مبنی ہے کہ مشرق و مغرب میں مسلمانوں کو اپنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حد تک محبت ہے کہ اُنؐ کے لیے وہ اپنی جان، مال ، اولادیں یعنی سب کچھ لٹا سکتے ہیں۔ حُب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بات ہو تو ایک گنہگار اور نافرمان مسلمان بھی سر پہ کفن باندھ کر میدانِ عمل میں کود سکتا ہے ۔ پھر نہ مسلمانوں کا راستہ فوج رو سکتی ہے اور نہ ہی کروز میزائل اُنہیں ڈرا سکتے ہیں، نہ ڈرون اُنہیں خوف زدہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایٹم بم کی تباہ کاریوں کی اُنہیں پرواہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بغیر مسلمان بلا شبہ مسلمان ہی نہیں ہے، اُس کا ایمان مکمل نہیں ہے، اُس کی عبادات اور دینی مشغولیات اُسی وقت تک ثمر آور ثابت ہو سکتی ہیں جب تک نہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ اُس کے دل میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہو۔ موت کا ڈر تو دشمنانِ دین کو لگا رہے گا، کیونکہ اُن کے لیے سب کچھ یہی دنیا ہے، مسلمان کے لیے اس سے بڑا کوئی انعام نہیں ہے کہ وہ اللہ اور رسول کے لئے ہر مشکل اور ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کر ے۔
امریکہ کے شہر کیلیفورنیا کے ایک شیطان صفت ڈائریکٹر ’’سام باسیل‘‘ نے ایک اسلام دشمن عیسائی پادری ٹیری جونزTerry Jones کے ساتھ مل کر توہین رسالت پر مبنی 120 ؍منٹ کی فلمInnocence of Muslims بناکر عالم اسلام کی دل آزاری کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ وہی ٹیری جونز ہیں جنہوں نے2001 ء کے مشکوک اور متنازعہ واقعات کے بعد اپنی بیوی سلویا کے ہمراہ عالم اسلام کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا یہاں تک کہ امریکہ میں دونوں کُند ذہن میاں بیوی کے بارے میں طنزیہ انداز میں کہا جاتا ہے کہ ’’یہ میاں بیوی سمجھتے ہیں کہ گویا وہ اسلام کے خلاف لڑنے کے لیے خدا کے نمائندے ہیں۔‘‘اس شخص نے 2010 ء میں 11 ؍ستمبر کو ’’قرآن مخا لف ڈے‘‘ کے طور منانے کا اعلان کیا تھا۔ توہین رسالت ؐکے اس تازہ واقعے نے عالم اسلام میں احتجاجی لہر کو جنم دیا۔ دنیا بھر میں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سڑکوں پر نکل آئے اور ایسا زبردست ردّعمل دکھا دیا کہ اقوام متحدہ سے لے کر وائٹ ہاوس تک، برطانیہ کے حکمرانوں سے لے کر مغرب کے تلوے چاٹنے والے مسلم حکمرانوں تک ہر ایک نے اس گستاخی کی شدید الفاظ میں مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاجی مسلمانوں کے شدید احتجاج کو بھی ہدفِ تنقید بنا لیا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ’’ توہین آمیز فلم بنانے والے شخص نے آزادی اظہار کا غلط استعمال کیا ہے اور یہ فلم غیر مہذب اور شرمناک ہے۔‘‘مسلم دنیا میں ہو رہے احتجاج کو بعض حلقوں کی طرف سے کس بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ حالانکہ عام مسلمانوں کے پاس اس وقت دنیا بھر میں نعرہ زنی اوراحتجاج ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کا سہارا لے کر وہ دنیا بالخصوص اسلام دشمنوں پر باور کراسکتے ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں توہین رسالت ؐکے گھناؤنے جرم کو برداشت نہیں کریں گے بلکہ ایسی کسی بھی سازش یا حرکت کے ردّعمل میں مسلمان جان کی بازی لگانے کے لیے ہر دم تیار ہیں۔ مغرب اور اُن کے حمایتی مسلم حکمرانوں کا یہ سوچنا غلط ہے کہ مسلمان ایسی کسی بھی صورت حال میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہ کر تماشائی بن کر بیٹھیں گے ۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو کم ہمتی یا بے عملی کا پاٹ پڑھانا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے اُن کے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی گئی۔ ابھی دو دن پہلے کی ہی بات ہے کہ فرانس میںایک جریدے نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون شائع کئے ۔ ہر زمانے میں ایسے گستاخ قسم کے لوگ موجود تھے جنہوں نے شانِاقدس رسولؐ میں توہین کرکے آسمان پر تھوکنے جیسے عمل کا ارتکاب کیا ہے۔ سینکڑوں مستشرقین کے علاوہ ایسے ہزاروں اسلام دشمنوں نے اپنی دل و دماغ کی خباثت باہر نکال کر اپنے لیے دنیا وآخرت کی رسوائی کا سامان خرید لیا۔سرسید احمد خان کے زمانے میں ڈاکٹر سرولیم مور نے ایک کتابـ ’ لا ئف آف محمد ‘ لکھی جس میں اُنہوں اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی تھی۔اس پر سرسید احمد خان جیسے تجدد پسند اور مغرب کے ہم نوا نے بھی اپنی ذمہ داریو ں کو بروقت محسوس کر کے اپنے گھر کی اہم چیزیں حتیٰ کہ ایک روایت کے مطا بق اپنی بہو کے زیو ربیچ کر برطانیہ کی راہ لی جہاں اُنہوں نے ریسرچ کر کے ولیم مور کی کتاب کا جواب ’’خطباتِ احمدیہ‘‘ نام کتاب تصنیف کر کے دیا۔ بیسویں صدی کے ابتداء میں ہی ہندوستان میں ایک شدت پسند ہندو نے’’رنگیلا نبی‘‘ نامی کتاب لکھ کر توہین رسالتؐ کا ارتکاب کیا۔ اُسے بعد میں ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کر دیا۔ جس پر گاندھی جیسی اسلام سے واقف اور اس کی عظمت کی قائل شخصیت نے کہا کہ’’اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے‘‘ اُس کے جواب میں پھر مولانا مودودیؒ نے اسلامی جہاد پر شاہکار تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ تحریر کی۔ پھر ہمارے سامنے ہی سلمان رشدی اور تسلیمہ نصرین جیسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے سستی شہرت پانے کے لیے اپنی گٹھیا تصانیف ’’شیطانی آیات ‘‘اور ’’لجا‘‘میں اسلام اور پیغمبر اسلام کو نشانہ بنایا۔ ڈنمارک میں شائع ہونے والے توہین آمیز کارٹون توچند برس پہلے کی ہی بات ہے۔ غرض کہ ہر دور میں ایسے شیطانی خصلت رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں جو دین رحمت کے سرچشمے سے فیضیاب ہونے کے بجائے عذابِ الٰہی کا مستحق بن جاتے ہیں۔ روز محشر میں اللہ تعالیٰ اُنہیں کس عبرت ناک سزا سے دوچار کرے گا یہ تو اپنی جگہ ہے مگر یہاں اس دنیا میں ایسے لوگوں کا جو عبرت ناک انجام ہوتا ہے وہ دین دشمنوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نصرین دنیا کا کوئی بھی خطہ اپنے لیے محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ امریکہ میں بننے والی آج کی اس فلم کے ڈائریکٹر اور فلم سے جڑے دیگر تمام لوگ روپوش ہو گئے ہیں، وہ اب اپنے آپ کو امریکہ کی چار دیواری میں بھی محفوظ تصور نہیں کر رہے ہیں حالانکہ امریکہ میں سیکورٹی کے سخت انتظامات ہیں اور وہاں مسلمان بھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے انجام کو پہنچائیں۔ اس فلم میں کام کرنے والی ایک ادارکارہ سنڈی لی گارسیا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اُنہیں دھوکے سے اس فلم میں کام کروایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مسلمان اس فلم پر احتجاج کرنے لگے میرا سکون جیسے غارت ہو گیا، مجھے نیند ہی نہیں آتی ہے اور میں نیند کی گولیاں لیتی ہوں۔ انہوں نے کیلیفورنیا کی ایک عدالت میں یہ بھی درخواست کی ہے کہ وہ یوٹیوب کمپنی کو اس فلم کو انٹرنیٹ سے اُتارنے کا حکم دے۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اُن سے یہ کہا گیا کہ یہ فلم قدیم مصر کے بارے میں ہے اور جو فلم کا سکرپٹ اُنہیں دیا گیا تھا اُس میں پیغمبر اسلامؐ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی باتوں کو بعد میں دیگر آوازوں کے ذریعے فلم میں ڈالا گیا۔
امریکہ اور دیگر ممالک جہاں توہین رسالت ؐکا کارِ بد انجام دیا جا رہا ہے کے خلاف احتجاج صحیح، فلم اور توہین آمیز خاکوں کے خلاف نفرت بھی بجا… لیکن کیا یہ سب کرنے سے ہی حق ادا ہوگا؟ کیا یہی وہ کرارا جواب ہے جس سے اہلیانِ مغرب دوبارہ ایسی گستاخیاں کرنے کی جرأت نہیں کریں گے؟… دراصل ہمارے یہ احتجاج تو اس حد تک صحیح ہیں کہ وقتی طور دین دشمنوں کو جواب دیا جائے لیکن دور اندیشی اور بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظاہرہ مسلمان عملی طور کریں۔ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کوئی ایک جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں حقیقی معنوں میں وہ نظام اور وہ سماج موجود ہے جس کا قیام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ریاست قائم کر کے کیا ہے۔ غیر مسلم اقوام کو اسلام کے چلتے پھرتے عملی نمونے کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں، وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں کہ عد ل وانصاف پہ مبنی اسلام کا نظام کیا ہوتا ہے؟ وہ اسلامی اخوت، بھائی چارے اور ہمدردی کی فضا ہی مسلم دنیا میں کہیں نہیں پاتے، وہ مسلمانوں کی اُس جانثاری، اولولعزمی اورDedication کا کہیں نظارہ ہی نہیں کرتے جسے دیکھ کر قرونِ اولیٰ میں بڑی بڑی سلطنتوں کے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ غیر مسلم آج کے مسلمان کو دیکھ کر ہی اسلام کے بارے میں اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اوراس بات میں ذرا بھی شک و شبہ نہیںہے کہ ہمارا اجتماعی کردار روبہ زوال ہوچکا ہے ۔ایسے میں بھلا غیر ہماری کس چیز سے متاثر ہوں گے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں اسلام کے ماننے والوں کو مغرب کی اِن دل آزار اقدامات سے شدید تکلیف پہنچی ہے اور اب وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاکر اسلام کو بحیثیت نظام آپنے آپ ، اپنے خاندان اور اپنے سماج پر لاگو کرنا چاہیے اور ریاستی سطح پر اسلام کو بحیثیت نظام نافذ کرانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے ۔ یہی وہ جواب ہے جو مستقبل میں تمام مخالفین کے منہ بند کر دے گا۔
آج اُمت مسلمہ کو ایک مرتبہ پھر یک جُٹ ہونے کا موقع نصیب ہوا ہے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام کو ماننے والا ہر کوئی آج سراپا احتجاج ہے۔ آج نہ ہی فرقہ بندی ہے اور نہ ہی مسلک و مکتب کی جنگ۔ آج کوئی حنفی شافعی کی لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی دیوبندی بریلوی آپس میں دست گریباں ہیں۔ آج سارے مسلمان گروہوں، مسلکوں اور مکتبوں سے اوپر اُٹھ کر بحیثیت مسلمان اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے باطل طاقتوں کو للکار رہے ہیں۔اتحاد و اتفاق کا عظیم مظاہرہ ہو رہا ہے، جسد واحد ہونے کا حقیقی نمونہ دکھایا جا رہا ہے … اسی چیز کو جڑ پکڑانے کی اشد ضرورت ہے ، مصنوعی اختلافات کی دیواروں کو گرا کر مسلمان کو مسلمان کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ ایک جھنڈے تلے تمام مسلمانوں کو جمع ہوکر اسلام دشمن طاقتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ مسلمان حق اور باطل کی جنگ میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نظام کا بول بالا کرنے کے لیے کسی بھی خارجی سازش کوکامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اتحادِ ملّت کے لیے آج ہی ہر گروہ، مکتبہ اور مسلک کو عہد کر لینا ہوگا اوریہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحیح معنوں میں والہانہ محبت کا اظہار ہوگا۔
توہین رسالت ؐکرنے والوں کو بھرپور جواب دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کے لیے اعلیٰ تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ، عالمی پیمانے کی نیوز چینلز کا قیام عمل میں لاکر تمام طرح کے منفی پروپیگنڈوں کا توڑ کرنے کی سبیل ڈھونڈ نکالنی چاہیے۔اسلامی قوانی کے تحت ایسے تمام لوگوں کو سزا ملنی چاہیے جو مسلم ممالک میں توہین قرآن اور توہین رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان سزاؤں میں مسلم ممالک ذرا برابر بھی بیرونی دباؤ قبول نہ کریں تاکہ اس طرح کی خباثت سوچ میں لانے سے پہلے کوئی بھی شیطانی خصلت رکھنے والا فرد ہزار مرتبہ سوچے کہ اس کی بدی اور برائی کا انجام کتنا عبرت ناک ہو گا ۔ مزید برآ ںعالمی برادری کو دنیا میں امن ، روادای ، بقائے باہم اور احترامِ آ دمیت کا جھنڈا لہرا نے کے لئے انٹرنیشنل سطح پر اجما ع اوراتفاقِ رائے سے ایک ایسا بین لا قوامی طور مسلمہ قانو ن وضع کر نا چاہیے جس کی رُو سے تما م الہا می مذاہب کے پیغمبروں اور بر گزیدہ شخصیات سمیت ان کی مقدس کتا بیں اور شعائر مشترکہ طور واجب الا حترام ٹھہرتے ہو ں اور جوکو ئی ان کی بے توقیری یا ان کے خلا ف دریدہ دہنی کا مرتکب پا یا جا ئے وہ عالمِ انسا نیت کا ازلی دشمن مانا جائے اور اسی منا سبت سے کڑ ی سے کڑی سزا کا مستوجب قرار پا ئے۔ اس سلسلے میں عالمی عدالت انصاف میں ملزم یا ملز ما ن کے خلا ف مقدمہ دائر کر نے کی قانو نی گنجا ئش ہونی چا ہیے تا کہ کو ئی بھی فتنہ با ز،دیو انہ یا مخبوط الحواس اولو العزم مذ ہبی شخصیا ت کے تئیں بے ادبی کا مر تکب ہو نے کی بے جا جسارت نہ کر ے ۔ اس قانو ن کی ضرورت سے شاید ہی کسی کو اختلا ف ہو گا کیو نکہ موجودہ گلو بل ولیج میں دنیا کے بڑ ے مذاہب کے بین بین رنگا رنگ کلچر وں ، مختلف دھرمو ں ، زبا نو ں ، نسلو ں اور رنگو ں کو با ہم دگر تصادم کی بجا ئے ایک دوسرے کے ساتھ رودای کے ساتھ پیش آ نے کی پہلے سے کئی زیا دہ ضرورت ہے۔ اس حقیقت کے پس منظر میں نا پا ک عزائم کی تکمیل کے لئے بنا ئی جا نے والی اشتعال انگیز فلم کے پرڈویوسر ،اداکارو ں اور دیگر متعلقین کو آ ج کھلی چھو ٹ ملی تو کل کلا ں وہ اس بھی زیا دہ زہر افشانی کر کے عالمی امن کو چشم زدن میں درہم برہم کر سکتے ہیں ۔
……………
essahmadpirzada@gmail.com
courtesy Kashmir Uzma Srinagar
|
Search This Blog
Sunday, 7 October 2012
SHAMAE RISALAT
Labels:
SEERAT
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment