Search This Blog

Wednesday 3 October 2012

Madda Parasti ki daud

مادہ پرستی کی دوڑ پُرسکون زندگی کے لیے زہر قاتل

ڈاکٹر خالد مشتاق…

’’سر اس بچے کا سانس پھولتا ہے، سر میں درد رہتا ہے، اسے نیبولائز کرانا پڑتا ہے۔‘‘
یہ مریض ایک بچہ تھا جس کا نام راشد تھا۔ عمر 13 سال تھی۔ والدین اسے لے کر OPD میں آئے تھے۔ یہ 2006ء کا واقعہ ہے۔ میں چمن کوٹ اسپتال برائے امراضِ سینہ و جنرل اسپتال دھیر کوٹ باغ میں Visiting Consultant کے طور پر OPD کرتا تھا۔ بچے کا معائنہ کیا گیا۔ جسمانی طور پر کوئی خرابی تشخیص نہیں ہوئی۔ خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کروایا۔ خون میں اس کا ہیموگلوبن 13آیا جو پہاڑی علاقے میں رہنے کے لحاظ سے نارمل تھا۔
ہیموگلوبن کی مقدار پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں میں میدانی علاقے کے رہنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ 3000سے 5000 فٹ یا اس سے زیادہ بلندی پر آکسیجن کی مقدار کم ہوتی ہے۔ پریشر کم ہوتا ہے اس لیے یہاں رہنے والوں کا ہیموگلوبن زیادہ ہوتا ہے۔
بچے کے والدین نے دوا دکھائی تو میں حیران رہ گیا۔ بچے کو سانس کی نالی کی بیماری کی دوا دی گئی تھی۔ اس دوا کے استعمال سے نبض بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے بچے کی نبض کافی بڑھی ہوئی تھی جو190 سے زیادہ تھی۔ نبض تیز رفتار ہونے کی وجہ یہ بھی نظر آئی کہ بچہ گھبرایا ہوا تھا۔ انگزائٹی، پریشانی کی حالت میں نبض کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔
بچے کے والدین سے تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ سانس کی نالی کی بیماری و دمہ کی کوئی علامت نہیں تھی۔ اسے بس ایسے ہی… وہ بتانے لگے کہ ہم پریشان ہوگئے ہیں۔ آٹھویں کلاس تک یہ ٹھیک تھا۔ اب نویں کلاس میں جب سے آیا ہے اس کی طبیعت اکثر خراب رہتی ہے۔ تفصیل پر پتا چلا کہ پہلے یہ ایک عام اسکول میں تھا، پھر اسے کیڈٹ کالج میں داخل کرادیا گیا۔ وہاں اکثر اس کو سانس کی تکلیف ہوتی۔ کلینک میں دکھاتے، وہ نیبولائزر لگاتے اور اسے آرام کا مشورہ دیتے۔ ایک دن آرام کے بعد یہ پھر بیمار ہوجاتا۔ دو ہفتے بعد انہوں نے والدین کو بلایا اور کہا کہ آپ اس کا علاج کرائیں، اس طرح ہاسٹل میں نہیں رہ سکتا، یہ کالج ہاسٹل ہے اسپتال نہیں۔ ہم نے دھیر کوٹ اسپتال میں دکھایا، انہوں نے کہا اسپیشلسٹ کو دکھائو۔ اس لیے یہاں لائے ہیں۔
انہیں انتظار کرنے کے لیے کہا۔ میں جب OPD مریضوں سے فارغ ہوگیا تو اس بچے سے ملاقات کی۔ بچے نے بتایا: ’’کالج میں سینئر طلبہ کا رویہ بہت ہی بے عزتی کرنے والا ہے۔ وہ کبھی کھڑا کردیتے ہیں، کبھی ایسے جملے کہتے ہیں جس سے انسان خود کو اتنا کمتر محسوس کرتا ہے… ( وہ رونے لگا) ورزش کرنے میں کوتاہی ہوجائے تو بہت سخت سزا دی جاتی ہے، سب کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے۔ میرا تو اس ادارے میں دم گھٹتا ہے، سر میں درد رہتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ میرا سر پھٹ جائے گا۔ پہلے ہفتے میری طبیعت خراب ہوئی، میں گھر آیا، میں نے والدین سے کہا کہ میں یہاں نہیں پڑھ سکتا۔لیکن یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ میری ہر چیز کا خیال رکھنے والی امی اور ابا نے نہ صرف مجھ سے اختلاف کیا بلکہ ڈانٹا بھی کہ اگر تم نے یہ چھوڑ دیا تو خاندان میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ امی نے کہا کہ میں بہنوں میں کیا منہ دکھائوں گی، تمہارے سارے ننھیال نے کیڈٹ کالج سے پڑھا ہے۔ دیکھو تمہارے ماموں انجینئر ہیں، جرمنی میں رہتے ہیں‘ تمہارے دوسرے ماموں ڈاکٹر ہیں امریکا میں رہتے ہیں، بڑی خالہ کے بچوں نے کیڈٹ کالج سے پڑھا، سب باہر سیٹ ہوگئے، 2 کمیشن آفیسر ہیں، تمہارے ماموں کتنے بڑے عہدے پر ہیں، وہ کہتے تھے میں بھانجے کو بھی بڑا افسر بنائوں گا… میں نے ابا کی طرف دیکھا، وہ کہنے لگے ماں اگر تمہیں بڑا آدمی بنانا چاہتی ہے تو یہ کوئی غلط خواہش تو نہیں۔ میں نے ابا سے کہا کہآپ تو مجھے بچپن سے صحابہؓ کے واقعات سناتے تھے۔ آپ نے تو بتایا تھا کہ مسلمان بچوں کے آئیڈیل حضرت اسامہؓ بن زید اور انس ؓبن مالک ہونے چاہئیں۔ مجھے امی جان درس میں لے جاتیں۔ انہوں نے مجھے اقبال کے شعر یاد کرائے جو نانا جان نے انہیں یاد کرائے تھے۔ یہ آپ لوگ ایک دم…‘‘
بتانے لگا: ’’اس پر والدین نے ڈانٹ دیا۔ اب مجھ سے بے عزتی والے اس ماحول میں رہا نہیں جاتا۔‘‘
اس نے مجھ سے گزارش کی: ’’خدا کے واسطے آپ والدین سے یہ نہ کہیں کہ مجھے سانس کی بیماری نہیں ہے، ورنہ وہ مجھے زبردستی کالج بھیج دیں گے، کیونکہ جب آپ نے بتایا تھا کہ ٹیسٹ نارمل ہے، ایکسرے ٹھیک ہے تو وہ کہہ رہے تھے کہ راشد ٹھیک ہے، بہانے بنارہا ہے۔‘‘
میں نے اس کے والدین سے نشست کی اور ان سے کہا کہ بچے کا ذہنی طور پر کچھ مسئلہ ہے۔ وہ دونوں چیخ پڑے اور کہنے لگے: ’’جس بچے کے 8th کلاس میں 90 فیصد نمبر آئے ہیں آپ اسے پاگل کہہ رہے ہیں!‘‘
انہیں بتایا کہ میں نے یہ کب کہا! بلکہ آپ سمجھیں یہ ذہنی دبائو میں ہے۔ اس کے خیالات منتشر ہیں۔ اسے کسی اچھے تھراپسٹ کو دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں اچھے قابل ڈاکٹرز… اسے اتنے دن سے دوائیں کیوں دی جارہی تھیں جبکہ اسے کوئی بیماری ہی نہیں تھی! اچھا سائیکو تھراپسٹ کہاں سے ملے گا۔
اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد ریلیف کا کام جاری تھا۔ ملائیشیا کی سائیکوتھراپسٹ y.y.yong پیما اسپتال باغ میں آئی تھیں۔ بچے کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے والدین اور بچے سے تفصیلی انٹرویو کیے۔
سائیکو تھراپسٹ نے والدین کو بتایا کہ آپ لوگوں نے بچے کو بچپن سے مختلف طرح کی زندگی کی آئیڈیل شخصیات کے ماڈل دیے۔
-1 بچے کو بچپن میں جو بھی چیز بتائی جائے وہ اسے اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔ آپ اب جو اسے آئیڈیل بتارہے ہیں وہ اس سے 180 ڈگری بالکل مختلف بات ہے۔ بچے کا ذہن اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
-2 کالج میں جو ماحول ہے وہ کسی بھی طور پر صحت مند نہیں۔ ہر انسان کی ایک Self Respect ہوتی ہے۔ پرائمری کے بچوں ہی سے ہوتی ہے۔ لیکن اس عمر میں زیادہ ہوتی ہے۔ جب سب کے سامنے سینئر لڑکے اس کی بے عزتی کرتے ہیں، یا ٹیچر سب کے سامنے سزا دیتا ہے تو اس کی عزت نفس اندر سے ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ یہ بچہ ذہنی طور پر اس سب سے بہت متاثر ہوا ہے۔
ملائیشین سائیکو تھراپسٹ نے انہیں مشورہ دیا کہ اس بچے کو ابھی ایک ماہ تک کالج نہ بھیجیں اور انگزائٹی کے لیے جو دوا دی گئی ہے وہ استعمال کرائیں۔
وہ میرے پاس آئے اورکہنے لگے کہ آپ نے جو دوائیں دی تھیں ہم نے میڈیکل اسٹور والے سے پوچھا، اس نے بتایا کہ یہ تو پاگلوں کو دی جاتی ہیں۔ انہیں بتایا کہ ایک دوا مختلف مریضوں کو مختلف امراض میں دی جاتی ہے۔ اس لیے پہلے تو آپ کا اس انداز سے اسٹور والے سے پوچھنا… ایک ہی دوا بہت سی تکالیف میں استعمال ہوتی ہے۔ اس لیے کبھی بھی بغیر ڈاکٹر کے مشورے یا فارمسٹ کے علاوہ دوائوں کی مقدار یا وقت تبدیل نہ کریں۔
وہ بولے کہ آپ کے کہنے پر ہم نے دوا دینا شروع کی، ملائیشیا کی سائیکو ڈاکٹر کو دکھایا، لیکن آپ یہ بتائیں کہ ہمیں کیا فائدہ ہوا؟ وہ تو ہم پر ہی تنقید کررہی ہے اور بچے کو کیڈٹ کالج میں نہ پڑھانے کا مشورہ دے رہی ہے، آپ کیا کہتے ہیں۔
بتایا کہ میری بھی یہ تشخیص تھی کہ بچے کو ایسے ماحول میں نہ رکھیں جہاں اس کی دماغی صحت متاثر ہو۔ آپ کو اطمینان دلانے اور ایک ماہر کی رائے لینے کے لیے وہاں بھیجا تھا۔
وہ غصہ میں آگئے، کہنے لگے: ’’آپ لوگ خود تو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ترقی نہ کریں۔‘‘
یہ جملے اکثر ڈاکٹروں کو سننے کو ملتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد صاحب ماہر امراض چشم ہیں۔ اسٹار اسپتال وائرلیس گیٹ میں ایک مرتبہ ان کے پاس مریض آیا۔ والدین نے بتایا کہ بچے کے سر میں درد رہتا ہے، ہمیں شبہ ہے کہ آنکھیں کمزور ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا۔ بچے کی نظر کمزور تھی۔ ڈاکٹر شاہد محمود نے ان سے کہا کہ بچے کی پڑھائی کے بارے میں بتائیں۔ والدین نے بتایا کہ یہ کلاس III میں پڑھتا ہے۔ صبح اسکول کی وین ساڑھے چھ بجے آتی ہے۔ ڈھائی سے پونے تین بجے واپس آتا ہے۔ پھر 4 بجے سے 6 بجے تک ٹیوشن پڑھنے جاتا ہے۔ وہاں سے آتا ہے تو قاری صاحب ساڑھے چھ بجے سے ساڑھے سات بجے تک پڑھاتے ہیں۔ ہم اسے قرآن کے ساتھ سورتیں حفظ کروا رہے تھے۔ پھر آٹھ بجے کھانا کھا کر ٹیوشن کا کام اور حفظ کا کام مکمل کرتا ہے۔ اس طرح ساڑھے نو بجے تک فارغ ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ آپ کا بچہ ہے، آپ نے کیا اسے جن سمجھ لیا ہے! صبح ساڑھے چھ بجے سے رات ساڑھے نو بجے تک مسلسل کام مَیں نہیں کرسکتا تو یہ تو پھر بچہ ہے۔ اس کے سر میں درد نہیں ہوگا تو کیا ہوگا!‘‘
والدین کہنے لگے: ہم اسے بڑا آدمی بنانا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ اسکول وین سے یہ روزانہ تین گھنٹے سفر کرتا ہے۔ اسکول کا طویل وقت اور پھر ٹیوشن… آپ اسے قریبی اسکول میں داخل کریں اور اس کے چھوٹے سے ذہن پر اتنا بوجھ نہ ڈالیں۔
وہ غصے میں آگئے اور اس طرح کے جملے کہے ’’خود ڈاکٹر بن گئے ہمارے بچے کو بڑا آدمی بننے سے منع کرتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی اچھے انداز میں انہیں سمجھا دیا کہ اگر بچے پر اس کی جسمانی اور ذہنی سطح سے زیادہ بوجھ ڈالیں گے تو وہ پڑھائی میں بھی کمزور ہوجائے گا، ذہنی طور پر بھی متاثر ہوگا، اور جسمانی صحت بھی خراب ہوگی۔
اُس وقت تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے دلائل اور حقائق پر مبنی گفتگو سن کر ہاں کرلی تھی، بعد میں کیا ہوا…؟
معاشرے میں بچوں کی تربیت کے معاملے میں والدین کے متضاد رویّے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کررہے ہیں۔
میڈیا میں کیریئرازم کا شور… خاندان‘ معاشرے میں کیریئر ازم اور بڑا آدمی بننے کو کامیابی قرار دینے کی سوچ نے معاشرے کی ذہنی صحت کو تیزی سے متاثر کیا ہے۔
معاشرے کے اکثر افراد کی سوچ یہ بن گئی ہے کہ مہنگے، بڑے نام والے اسکول میں پڑھانے سے ہی کوئی بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے گھر کے کمانے والے دو دو نوکریاں کررہے ہیں، کیونکہ ایک نوکری میں بچوں کی پڑھائی کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔ اس طرح اکثر والدین اپنے بچوں کو وقت نہیں د ے پاتے۔
جنہیں اپنے شہر یا ملک میں اتنی آمدنی نہیں ہوتی وہ گھر سے مسلسل دور رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچے والدین کی شفقت سے اکثر محروم رہتے ہیں۔
اس تمام سوچ کے نتیجے میں یہ ہوا کہ کلینکس میں بہت سے بچے سردرد‘ کمر درد‘ ٹانگ کے درد‘ سانس پھولنے‘ پڑھائی میں دل نہ لگنے‘ پیٹ کی خرابی کی شکایت لے کر آتے ہیں۔
ان میں سے اکثر کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بچپن میں سنی گئی اچھی کہانیاں‘ آئیڈیل کچھ اور ہوتا ہے اور ماڈرن کیریئر ازم کے کچھ اور تقاضے۔ اس سے اکثر بچوں کا ذہن منتشر رہتا ہے۔ یہی چیز ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے اور ان میں بیان کردہ تکلیفوں میں سے ایک یا کئی ہوتی ہیں۔
ان تکالیف کے اثرات ماں باپ پر بھی پڑتے ہیں۔ وہ بھی جسمانی اور ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
ابھی پچھلے ہی مہینے کا واقعہ ہے کہ ایک مریض بچے کا بڑے اسکول میں داخلہ نہیں ہوسکا، اس کی وجہ یہ تھی کہ داخلہ ٹیسٹ میں کم نمبر آئے تھے۔ باپ نے ماں کو الزام دیا کہ تم نے صحیح تیاری نہیں کرائی تھی۔ بچے کا KG میں اچھی جگہ داخلہ نہیں ہوسکا، اس پر ماں نے بچے کو مارا۔ ماں باپ کا جھگڑا ہوا اور… اچھے اسکول اور بڑا آدمی کے پُرفریب نعرے میں لوگ اپنے بچوں کی اور اپنی ذہنی اور جسمانی صحت خراب کررہے ہیں۔
جس اسکول کو وہ اچھا کہہ رہے تھے اس کا ریکارڈ دیکھیں تو اس میں پڑھنے والے کئی بچے ذہنی طور پر متاثر ہوئے اور میرے مریض رہے۔
بڑا آدمی‘ ڈسپلن کے نام پر سختی‘ بچوں پر پڑھائی کا زیادہ بوجھ… اس کے نتیجے میں معاشرے میں بے سکونی بڑھ رہی ہے۔
ترقی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ انسان معاشرے میں پُرسکون زندگی گزار سکے، جسے نہ کوئی خوف ہو نہ غم… جو بھی اسکول اس قابل بنادے یا انسان کی پرسکون زندگی کی طرف رہنمائی کرے وہی اچھا اسکول کہلائے۔
بڑے عہدے‘ اچھی تنخواہ‘ مراعات‘ گاڑی… اگر یہ سب میسر ہوں لیکن زندگی پُرسکون نہ ہو، تو یہ ناکام آدمی ہے۔ پُرسکون زندگی کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں جانے کا معیار بتایا: (ترجمہ) ’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑ کر چل‘‘۔
مغربی ممالک میں لوگ پُرسکون رہنے کے لیے نیند کی گولیاں اور انگزائٹی کی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں پُرسکون زندگی کے لیے ماڈل کردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیے۔ آپؐ کی زندگی، صحابہؓ کا معاشرہ پُرسکون زندگی کی واحد مثال ہے۔
ہمیں پُرسکون زندگی گزارنی ہے تو مادہ پرستی کے معیار کو چھوڑ کر مدینہ کے معاشرے کے معیارات اور انداز کو اپنانا ہوگا۔ اسی انداز میں بچوں کی تربیت اور مستقبل کی تیاری کرانی ہوگی

No comments:

Post a Comment