Search This Blog

Sunday, 28 October 2012

LABBAIK UMMATE WAHIDA KI PUKAR

لبیک اُمتِ واحدہ کی پکار
امامِ برحق تلاش کر کے سلامتی کی نما ز پڑ ھ لیں

حج اسلام کا بنیادی رکن ہو نے کی حیثیت سے جو اخلاقی ، روحا نی، معاشرتی ، اقتصادی ، سیاسی ، قومی و ملی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے ۔خدا وند کریم کے واضح حکم پرعلمبرداران توحیدگوشہ ہائے ارض سے جوق در جوق بری ،بحری اور فضائی راستوں سے سفر کرتے ہوئے خدا کے مقرر کر دہ اس سالانہ عالمگیراجتماعِ امت میںشریک  لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے پوری دنیا پر واضح کرتے ہیں کہ حج کایہ اجتماع مسلمانوں کی بین الاقوامی حیثیت کا عکاس ، اور ان کا امتِ واحد ہ ہو نے سب سے بلند معیار ہے۔ یہ مہتمم بالشان سالانہ اجتماع مرکز اسلام مکہ المکرمہ کے میدان عرفات میں منعقد ہوتا ہے کہ جہاں سے حق و سچائی کا چشمہ اُبلا اور اس نے دنیا کو سیراب کیا ۔بلد الامین روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع صافی ہے جس کی کرنوں نے روئے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیااور تاقیام قیامت کر تا رہے گا ۔یہ وہ روح پرور شیرازہ ہے جس میں ملت کے وہ تمام نفوس بندھے ہوئے ہیں جو مختلف لباس پہنتے ،  مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اور جو مختلف ملکوں اور اقلیموں میں بستے ہیں لیکن وہ سب کے سب باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں۔ بیت اللہ ہی وحدت کا وہ رنگ ہے جو ان تمام امتیازات کو مٹا دیتا ہے۔
حج بیت اللہ کے سامنے’’  لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک ‘‘حاضرہوں اے میرے پروردگار !حاضر ہوں کے اعلان اور نعرے سے شروع ہوتا ہے ،فرزندان توحید لبیک کہتے ہوئے اورتوحید خالص کا اقرار کرتے ہوئے اپنی عبدیت کا صاف طور پر اظہار کررہے ہوتے ہیں۔حج کے اجتماع میں شریک وہ قولاً وفعلاً گو یااس امر کا اعتراف کررہے ہوتے ہیںکہ اے ہما رے اللہ عزوجل !تیری ذات کے سوا کسی کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان رہنااور خوشنودی حاصل کرنا ہر گز ہما را شیوہ نہیں اور ساتھ ساتھ وہ اس امر کے بھی معترف ہوتے ہیں کہ جوبھی نعمت مسلمان کو حاصل ہے وہ بس تیری ہی دی ہوئی ہے۔ یہ فرزندان توحید خدا کی اصل اور حقیقی حاکمیت کااقرار کرتے ہوئے یہ اقرار با لسان اور تصدیق با لقلب کررہے ہوتے ہیں کہ انہیں اس اصل حکمرانی کے سوا انہیںکرۂ ارض پر کسی کی حکمرانی قبول نہیں اور دنیا میںجہاں بھی تیرے دئے ہوئے نظام کیلئے تگ ودو جاری ہے وہ اس تگ ودو میں برابر کے شریک ہیں۔تلبیہ کہتے ہوئے وہ بزبانِ حال وقال یہ عہد دہرا رہے ہوتے ہیں کہ خداکے قانون کے بغیر وہ کسی بھی قانون کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے اور نہ مانتے ہیں۔تیرے دیئے ہوئے نظام کے پابند ہیں اور اسی کے نفاذ کیلئے وہ اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ سر کا ری اعداد وشمار کے مطا بق 30لاکھ سے زائد فرزندان توحید حج کے اس اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک ہی وردی میں ملبوس، بن سلے دوچادروںجسے احرام کہتے ہیں اور بیک آواز اللہ کی کبریائی کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہوئے ہر طرح کی اورتمام تراونچ نیچ، تفرقے، فرقہ بندی،علاقائی اور لسانی تعصبات کوعملاً حرام قرار دیتے ہوئے کندھے سے کندھا ملا کر میدان عرفات کی طرف دوڑتے ہوئے یہ حجاج بنیان مرصوص کا عملی اظہار کررہے ہوتے ہیں اور سفید لباس میں ملبوس یہ فرزندان توحید ایک اور نیک ہونے کا خدا کے سامنے عملی مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں۔ ایام حج کے دوران دور سے نظر آرہے خیموں کے اس شہر میں رہنے والوں کے درمیان کوئی تفریق نظر نہیں آتی۔
 ہم آہنگی ، یگانگت ، اتحاد اور یکجہتی کا یہ فقید المثال مظاہرہ رسمی عبادت گزاری نہیں بلکہ سماجی زندگی کا وہ سلیقہ اور شعار ہے جسے اختیار کر کے اسلام کے پیروکار ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں ،جس میں کوئی ظالم اور سفاک قوت شگاف نہیں ڈال سکتی لیکن کیا وجہ ہے کہ اس ساری یکسانیت، یک رنگی اور یکجہتی کے باوجود ملت واحدہ عملا ًپارہ پارہ ہے؟ حج کے اجتماع کے ذریعے مسلمانان عالم کو ایک دوسرے کے حالات جاننے ،ضرورتوں میں مدد دینے ،باہمی معلومات اور علوم و فنون سے استفادے کی صورت نکالنے، مسائل حل کرنے کے لئے اخلاص کے ساتھ سوچ بچار کرنے کی صورت پیدا کی گئی لیکن افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کو حج کے اصل مقاصد سے جان بوجھ کر بے خبر رکھا جا رہا ہے۔مسلمان حج کے اجتماع میں شریک تو ہوتے ہیں لیکن اکثر لوگ اس اجتماع کے اصل روح سے بے خبرہیں حتیٰ کہ دنیا میں جاری اسلامی تحریکوں اور ان تحریکوں سے وابستہ جانثاروں،جانبازوںاور مظلومین کے حق میںحج کے دوران جمعہ کے خطبوں اورمیدان عرفات کے اہم خطبے میں ہمدردی کاایک لفظ تک نہیں کہا جاتا،ساتھ نبھانے کی بات دور کی ہے۔ دنیا بھر میںمسلمانوں کی ایک جماعت کو مخصوص امریکہ کی وضع کردہ اصطلاح کے تحت ’’دہشت گرد‘‘کا نام دے کر قتل کیا جارہا ہے۔ انہیںمختلف بہا نو ں سے تنگ طلب کیا جا رہا ہے اورتمام مسلمان قاتل کے خوف اور ڈر سے لرزاں وترساں سہمے بیٹھے ہیں ، ستم با لا ئے ستم یہ کہ حج کے اس عظیم الشان اور سب سے بڑے عالمی اجتماع میں اس طرف مطلقاً کوئی التفات نہیں ہو رہا ہے۔حتیٰ کہ جوقبلہ اول مدت سے یہود کے قبضے میں ہے حج کا یہ مہتم بالشان اجتماع قبلہ اول کو آج تک واپس نہ سکاکیو نکہ حج کے اس عظیم اجتماع سے ملت کا ضمیر جاگ نہیں اٹھتا یا اُسے جا گنے نہیں دیا جا تا۔
 اس وقت امت مسلمہ کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔بالا دست اور طاغوتی قوتوں نے پوری ملت اسلامیہ کے مالی وسائل پر مختلف حیلوں سے قبضہ کرنے اور مسلمانوں کا مال شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے کو شعار بنا رکھا ہے۔دشمنان ِاسلام اپنے خوفناک اسلحہ و گولہ بارود کا نشانہ مسلم سر زمین کو بنا رہے ہیں اور خون مسلم کی ارزانی کے نت نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں دہشت گردی کا مضحکہ خیز الزام عائد کرنے کے بعد وہ ہمارے خلاف خبث ِباطن کے اظہار اور مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے شب و روز مصروف عمل ہیں جبکہ امت مسلمہ کے عوام و خواص دونوں ہی یہود ونصاریٰ اور دیگر ستم گران ِ زمین کے بڑھتے ہوئے مکر و فریب ، چیرہ دستیوں ، ریشہ دانیوں اور کہنہ مکرنیوں کے سد باب کی کسی عملی کوشش کی فکر سے تہی دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ بات بلاخوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ مسلم ممالک کے ارباب بست و کشاد کوحالات کی سنگینی کا احساس ہے نہ ہی معصوم بچوں ، خواتین اور بزرگوں سمیت امت مسلمہ کا بہتا ہوا لہو فرزندان توحید کی کسمپرسی ، لاچارگی اور بے بسی کی قابل رحم تصویر انہیں نظر آ رہی ہے۔ حج کے عالمگیر اجتما ع کے مو قع پر بھی اس حوالے سے زبا نو ں پر تا لے پڑ تے ہیں ۔ ایسا کیو ں ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
ہماری اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ آج مسلمانوں کی سر زمین مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو رہی ہے اورمسلمان وحشیانہ مظالم کا شکار ہیں۔ ہمارے دشمن پوری دنیائے اسلام پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش منصوبہ بندی کر چکے ہیں لیکن دنیائے اسلام کی ان مسائل و معاملات پر حج کے عالمگیر میں اس پر فکری و نظریاتی ہم آہنگی کہیں نظر نہیں آتی اور ہمارے مشترکہ دشمن کے عزائم کو دن بدن تقویت مل رہی ہے۔ صلیبی علم بردار، زنا ری ظالم اور سامراجی عزائم رکھنے والے دیگر دشمنان ِدین دنیا میں ہونے والے ہر طرح کے تشدد کے پیچھے مسلمانوں کے ہاتھ کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر ان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت و حقارت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔اگر پوری امت مسلمہ اپنے سیاسی طا قت،اقتصادی وسائل اور افرادی قوت کو امتِ واحدہ ہونے کی بنیاد پر یکجا کرلے تو نہ صرف اہل اسلام کا ایک نیا دور عروج وعظمت شروع ہو سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ بھی ایک حقیقت بن کر ابھر سکتا ہے ، جس سے اسلامی تعلیمات کی برتری کا تصور تقویت پکڑے گا اور اسلام کے حلقہ اثر کو بھی فروغ حال ہو گا۔
یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ کے صاحبانِ بصیرت بااثرشخصیات کوایام میںحج آگے آکر اپنااثرورسوخ استعمال کر کے اپنے ممالک کے حکمران طبقے کواس بات پر آمادہ کرادیناچاہیے تھاکہ وہ او آئی سی کی تطہیرکراکے اسے ملت کے مجمو عی مفاد میں زیا دہ متحرک کر یں ،اس کے کپکپاتے گھٹنوں کو تقویت بخش دوا فراہم کر کے انہیں مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کریں،اس ملی پلیٹ فارم کی مکمل اوورہالنگ کرکے اسے تقویٰ اورپاکیزگی کے سانچوں میں ڈال کر ایک مجلس شوریٰ کی حیثیت دے دیں اور اس مجلس شوریٰ میں امت کے چنیدہ ،جیدحریت فکر کے علمبردار دانشوروں کو شامل کریںجو ملت اسلامیہ کو اپنی عظمت رفتہ یاد دلادیں، خواب غفلت سے بیدار کریںاورانہیں اغیار کی ذہنی وجسما نی غلامی سے نجات دلانے کی سطر عنوان پڑھا دیں۔ قسم باللہ امت میں ایسی بااثر شخصیات کی کوئی کمی نہیں جویہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں   ع  لیکن اے بساآرزو کہ خاک ۔
اس میں کوئی شبہ و ابہام نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر امت پر مسلط حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور امریکہ اور یورپ کی ناراضگی کے خدشات کی وجہ سے وہ خودمسلمان ممالک کے ایک متحد و منظم کمیونٹی کی صورت میں فعال ہونے کی راہ میں حائل ہیں ۔ جب تک یہ حکمران اپنی منفی فکر چھوڑ نہیں دیتے اور انہیںملت اسلامیہ کی فکر انہیں دامن گیر نہیں ہو جاتی اور اس کے بعد جب تک وہ پورے عزم بالجزم کے ساتھ امت کو متحد و منظم کرنے پر کمر بستہ نہیں ہوں گے اور دنیائے اسلام کے پاکیزہ اذہان کے حامل اہل دانش اپنی صلاحیتیں اتحاد بین المسلمین کے لئے وقف نہیں کریں گے تب تلک کبھی نتیجہ خیز اور موثر نتائج بر آمد نہیں ہوں گے۔اے کاش اوآئی سی کی مکمل اوورہالنگ کرنے کے بعداس پلیٹ فارم کو ایک مشترکہ پارلیمنٹ بناکر امت مسلمہ کو در پیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا حل سوچاجاتااور سلامتی سے متعلق امور پر لائحہ عمل مرتب کیاجاتااورپھراسی پلیٹ فارم کے ذریعے سے مسلمان ممالک کی مشترکہ منڈی، مشترکہ میڈیا پالیسی، مشترکہ کرنسی اور دوسرے اقدامات کے ذریعے امت مسلمہ کی فلاح وبہبود پر توجہ دی جاتی، کسی کوامت مسلمہ کے مفاد کے لئے کچھ کرنے کا سلیقہ ہوتاتوبلاشبہ ان مقاصدکے حصول کے لئے ایک باضابطہ سیکرٹریٹ قائم کرکے مسلم ممالک میں رابطے کا ایک نیٹ ورک مضبوط نظام بنایا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ اس عظیم اور بڑے کام کا آغاز مرکز اسلام مکہ مکرمہ سے حج کے عالمگیر اور عظیم اجتماع سے ہی کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام دشمنوں کی معاشی اورسیاسی پالیسیوں نے امت پر مسلط حکمران ٹولے کی امت کی فلاح کے لئے سوچنے کی صلاحیت چھین رکھی ہے اوروہ عالمی طاغوت کے ہمہ تن ہمہ گوش نوکربن بیٹھے ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ مسلمان دنیا بھر کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ یہ افرادی طاقت خود بھی ایک انمول دولت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں جنہیں موثر طور پر بروئے کار لانے اور درست طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے مگر مسلم ممالک میں اجتماعیت کے جذبے کے فقدان کے باعث امت مسلمہ کے وسائل بھی مسلمانوں کے کام آنے کی بجائے یہود و نصاریٰ اورہنودکے تصرف میں آرہے ہیں ۔ ہائے یہ عربستان کی دولت تیل کویہودونصاریٰ اورہنودکے حوالے کرنے کے ضمن میں عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل جیسی علاقائی سطح پر اشتراک کی انجمنیںبنیںجنہوں نے فرسودہ عرب قومیت کا نعرہ دیکرامت مسلمہ کوفائدہ دینے کے بجائے عربستان کی اس دولت کو دشمنان اسلام کے قدموں پرنچھاور کردی ۔
کاش حج کے اس عالمگیر اجتماع میں57مسلمان ممالک کے صدوریا وزرائے جو بھی ہوں بالخصوص عربستان کے حکمرانوںکوبلاکرکان پکڑ واکربٹھایاجاتا اورکعبہ کے درپران سے ناک رگڑواکرغیراللہ کی غلامی سے توبہ کروائی جاتی اور ان سے اس امر کاعہد لیا جاتا کہ آج کے بعدتمہیں اپنے اپنے مما لک میںاسلام کے دئے ہوئے عادلانہ نظام کونافذکر کے امت مسلمہ کی عظمت رفتہ بحال کرنا ہے جونہیں کرے گا اس کے ساتھ تمام قسم اورہرنوعیت کے تعلقات منقطع رہیں گے ۔اس سلسلے میںاگرچہ ٹھنڈی ہوا کاایک جھونکابہار عرب کے نام سے کئی عرب ممالک سے چل پڑا،تاہم ہماری اس آرزوکی تکمیل کے لئے ابھی تک عملی طورپر دور دورتک جلدازجلد کوئی ایسی راہ سمجھائی نہیں دیتی الایہ کہ جب خدا اس امت پر کوئی مہربانی فرمائے۔  
  دنیا بھر کے57 کے لگ بھگ آزاد خود مختار مسلمان ممالک اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ان مسلمان ممالک کی افرادی قوت، قدرتی وسائل ، ان کی جغرافیائی اہمیت، دین کی بنیاد پران کے مابین فطری، نظریاتی و فکری ہم آہنگی کوزیر استعمال لانے اور فروغ دینے کے لئے مدت طویل سے اس امر کا شدت سے احساس ابھرتا ہے کہ عالم اسلام کا ایک ایساامام برحق و سربراہ حاضر و موجود ہو جو اُمت مسلمہ کو بیدار کر سکے اور اسے زوال و انحطاط سے نجات دلا سکے ۔آج جب ہم امت مسلمہ کی محرومیوں، مایوسیوں، مسائل و مشکلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو بلا شبہ اس کے اسباب و علل میں اخوت اسلامی کے فقدان اور آپس کی ظلم و نا انصافی کے ساتھ ساتھ حج کے عظیم اجتماع کوبروئے کارنہ لانے اورآخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاحجۃ الوداع کے موقع پر فراہم کردہ چارٹرپرعملدرآمد نہ کرنا سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔ امت مسلمہ کاخانوں میں تقسیم ہونایہی امت کے زوال اور پستی کی بنیادی وجہ ہے ۔
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment