شادی بیاہ کی بے ہو دہ تقریبات لغویا ت کے پھندے میں احساسات کی موت سیّدمحمد مبشر رفاعی
آج کل شادیوں کا موسم بہار چل رہا ہے ۔ وادی کے چہار اطراف شادی بیا ہ کے شادیا نے بج رہے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی ڈور میں بند ھنا ایک مقدس رشتہ کی ابتداء اور انسانی تمدن کا آغاز ہے۔ خوشی کے اس موقع پر دعوتوں کی تقریب منعقد کرنے سے اول شہرت واعلا ن کا شرعی کی شرط وپ ری ہو تی ہے ، دوم یہ ایک ایسا خو شگوار سما جی عمل ہے جو حیا ت اجتما عی کے تانے بانے کو مستحکم بنانے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ با لعموم اس نو ع کی تقا ریب سے رشتوں میں مٹھاس بھر جا نے کے ساتھ ساتھ تعارفی مجلس کا بنابنا یا اہتما م بھی ہو تا ہے جس سے رشتے کی وساطت سے دوخا ندانو ں یا گھرانو ں کے درمیان تعارف بھی ہو جا تا ہے ۔ دوریا ںقر بتو ں میں بدل جا تی ہیں اور کل تک کے دو اجنبیو ں میں با ہم دگرمزاج شنا سی کا ایک اچھا مو قع فراہم ہو تا ہے۔ مزید برآ ںآج کل کی بھا گ دوڑ والی زندگی میں اسی بہانے عزیز واقارب، دوست و احبا ب اور رشتے داروں وغیرہ کو آپس میں ملنے جلنے کا فرصت بھی مل جا تی ہے ۔ یو ںدوست و احباب اور ہمسائے وغیرہ صاحبِ دعوت کے یہا ںضروری کاموں میں اپنا ہاتھ بٹاکر اپنی محبت و شفقت کا اظہار کرتے ہیں اورسب لوگ مل جل کر خوشیاں مناتے ہیں۔ اس طرح یہ عمل ہر معنیٰ میںنہایت ہی مستحب قرار پاتا ہے۔ ان دنو ں ہر کسی کو کہیںنہ کہیںسے شادی کی دعوت میں شریک ہو نے کا موقعہ ملتا رہتا ہے۔ مجھے بھی اِس برس کئی ایک شادیوں میں شر یک طعام ہونے کا موقعہ ملا۔شادیوں کے سلسلے میں پر مسرت تقریبات کا انعقاد کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ عمل غالباً اُتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ ازدواجی رشتوں کے بندھن کی تاریخ۔ ہاں یہ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن تقریبات کے انعقاد کے طور طریقوں اور مقا صدمیں تبدیلیاں در آتی رہی ہیں۔ کسی بھی سماجی تقریب کے انعقاد میں جن باتوں کا بنیادی عمل دخل ہوتا ہے اُن میں اُس سماج کی تہذیب، تمدن ،ثقافت ،رہن سہن کے طور طریقے ، کھانے پینے کی عادتیںاور روایات شامل ہیں۔ دراصل اِن ہی باتوں کو بنیاد بنا کر اور اِن ہی اصولوں کو خاطر میں لاکر سماجی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں آ ئے دن شادی بیا ہ کی جو تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ، اُن کی اپنی روایات ہیں جو ہماری تہذیب کے ساتھ میل کھاتی ہیں۔ جب بھی اُن روایات کی بنیاد پر شادی کی تقریب منعقد کی جاتی ہے تو میزبان کے ساتھ ساتھ مدعو مہمان بھی تقریب کا پورا لطف اٹھاتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ روایات و تمدن کی پاسداری سماج کیلئے مثبت نتائج کا موجب بنتی ہے۔ اِس کے برعکس جب شادی کی تقریب میں روایات و تہذیب کو بالائے طاق رکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ پورے سماج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ تقریب کا انعقاد بھی سنجیدگی کے لحا ظ سے ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔
چنانچہ شادی دو اجنبی افراد کے ازدواجی بندھن کا نام ہے۔ اِس کے ذریعے جہاں ایک لڑکا اورایک لڑکی آپس کے تا حیات ازدواجی رشتے میں بندھ جانے کا عہد با ندھتے ہیں ،وہیں دو کنبوں اور دو خاندانوں کا ملن بھی ہوتا ہے۔نئے رشتوں کا وجود میں آنا انتہائی خوشی کی بات ہے اور اِس معاملے کی نسبت خوشیاں منانا فطرت کا تقاضاہے۔ اسی بنا پر سما ج میں ہمیشہ سے شادی بیاہ کے موقعے پر عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو مدعو کرکے مشتر کہ طور خوشیوں اور شادما نیو ں کااظہار کیا جا تا ہے۔ ہما رے یہا ں یہ روج پا میا جا تا ہے کہ شادی کی تقریب بیک وقت دو نو ںمتعلقہ گھرانوں میں منعقد کی جاتی ہے۔ دلہن کے گھر میں بھی اور دولہے کے گھر میںبھی ۔ ہماری شادیوں میںروایتی طور پر تین دن کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں: حنا بندی، مسند نشینی اور ولیمہ۔ تینوں ایام کے جو نام ہیں وہ تقریبات کے حوالے سے اپنے آپ میںتشریح رکھتے ہیں۔حنابندی کا تعلق دلہن کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ کشمیر میںحنابندی کو مہندی رات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تقریب دن کو نہیں بلکہ رات کو منائی جاتی ہے۔ ہماری روایات کے مطابق دلہن والے اِس روز خاندان کی بڑی اور بزرگ خواتین کو مدعو کرتی تھیں جو دلہن کے ہاتھوں میں مہندی جمانے کے علاوہ اُس کے بال بھی سنوارتی تھیں۔دلہن کے بال سنوارنے اور اُس کے ہاتھوں میں مہندی رچانے کے دوران یہ بزرگ خواتین، جن کے چہرے پُر نور ہوا کرتے تھے، شادی کے روایتی گیت ’’ونہ وُن‘‘ گاتی تھیں۔ ونہ ون میںبے ہودہ کلام نہیںبلکہ خالصتاً اللہ کی ثنا کئے جانے کے ساتھ ساتھ نعتیہ کلام اور منقبت پڑھے جاتے تھے۔ ونہ ون کے ذریعے دلہن اور دولہے کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتا تھا۔اِس کے علاوہ روایتی ’’روف ‘‘میں بھی بامعنی اور سبق آموز اور برجستہ خو ش نو اکلام کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ مہندی رات کی ساری کاروائی کے دوران مذہبی عقائد اور یاد خدا کا خاصا خیال اور اہتما م کیا جاتا تھا۔ ہر کسی عمل میں اللہ کی رضا ملحوظِ نظر رکھی جاتی تھی۔یہ بزرگ خواتین شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑے کو دعاوں کی لازوال سوغات سے نوازتی تھیں۔ مدعو مہمانوں کو انتہائی محبت اور عقیدت کے ساتھ کافی سادہ کھانا پیش کیا جاتا تھا جس میں خلوص کا عنصر چھلکتا تھا۔ دور حاضر میں حنابندی کو دیکھا جائے تو یہ برائے نام رہ گئی ہے۔ جو کام ماضی ٔ قریب میں خاندان کے با بر کت بزرگ خواتین کے ہاتھوں انجام دیاجاتا تھا وہ اب غیر ریاستی باشندوں( نا محرم مردوزن ) کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ بیوٹی پارلر ہماری شادیوں کا جزولاینفیک بن گیا ہے۔ دلہن کے ہاتھوں ، کہنیوں اور تلوؤں تک میں ڈئزائین دارمہندی رچانے کیلئے اب غیر ریاستی Beauticiansکی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اِن میں خواتین اور مرددونوں شامل ہیں۔ اِس کام کیلئے ہزاروں روپے کی رقم فضول میں خرچ کی جاتی ہے۔مہندی رات میں قبیلے کی بزرگ خواتین کو نہیں بلکہ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بلایا جاتا ہے۔ مہندی رات میں اُن کی شرکت کو بچوں کی آزادی اور زمانے کی ترقی کے ہم معنی بتایا جاتا ہے۔ اس تقریب میں ونہ ون کے ذریعے نہ اللہ کی حمد بیان ہوتی ہے اور نہ دلہن و دولہا کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار بلکہ اب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے ہودہ گانے گاکر اخلاقیات کا جنازہ اٹھا تے ہیں۔ دلہن اور دولہے کے گھر میں کیا کیا بے ہودہ اور نازیبا و نا شائستہ حرکات کا ارتکاب ہوتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔مجلس میں کچھ بزرگ خواتین اگر ہوں بھی تو انہیں کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا کردوائیاں لینے اور آرام کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ اگر چہ آج کل حنابندی بظاہر زیادہ جاندار دکھائی پڑتی ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ مہندی رات اب بالکل بے جان ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دولہا اور دلہن بڑے بزرگوں کی نیک خواہشات اور دعاؤں سے محروم رہتے ہیں۔اِس طرح کی بے ہودہ تقریب کو کس حد تک حنابندی کانام دیا جاسکتا ہے، آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ہماری شادیوں کے طور طریقے اب اس قدر تبدیل ہوگئے ہیں کہ مسند نشینی کے معنی یکسر بدل گئے ہیں۔ دولہا اب مسند نشین نہیں بلکہ کرسی نشین ہوتا ہے۔ روایتی طریقہ یہ تھا کہ دولہا اپنے گھر میں مدعو مہمانوں کے بیچ بیٹھ کر عزیز و اقارب کی ملاقات کا شرف حاصل کرکے اُن کی نیک خواہشات طلب کرتاتھا۔ دولہے کو مدعو مہمانوں کے بیچ بٹھانا ہماری شادیوں کی روایت رہی ہے۔ اِس کے لئے مجلس میں ایک چھوٹی قالین بچھائی جاتی تھی جو کہ عام مہمانوں کے لئے بچھائے گئے فرش سے قدرے مختلف اور دیدہ زیب ہوتی۔دولہے کیلئے بچھائے جانے والی اِس قالین کو مسند کہا جاتا تھا اور اسی مناسبت سے تقریب کا نام مسند نشینی پڑا ہے ۔خاندان کا کوئی باریش بزرگ دولہے کا ہاتھ پکڑ کر اسے مسند نشین کراتا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ دولہا بڑے ہی ادب کے ساتھ اپنے پیروںسے جوتے اُتارتا اور بڑے ہی ادب کے ساتھ قبلہ رو ہو کرمسند نشین ہوجاتا۔عزیز و اقارب اُس کے ساتھ بغل گیر ہوکر دست بوسی کرتے اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے لیکن اِس روایت نے اب دم توڑ دیا ہے۔ ان دنو ں اکثر جب دولہا مدعو مہمانوں کی مجلس میں آتا ہے تو مسند نشین نہیں بلکہ کرسی نشین ہوجاتا ہے۔ جب مہمان فرش نشین ہوں تو میزبان کی کرسی نشینی میں ادب کا لحا ظ کہاں رہا؟ آداب ، مجلس تو کجا، پاؤں کے جوتے اُتارنا بھی دولہے کے شایا ن شان نہیں سمجھا جاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی جاگیر دار لگان کی وصولی کیلئے کرسی پر براجمان ہوا ہو۔اب اُس کے ساتھ خاندان کا کوئی بزرگ دکھائی نہیں دیتا۔ دست بوسی کرنے اور بغل گیر ہونے کو اس طرح ترک کیا گیا ہے گو یا یہ عیب اور پسماند گی کی علا مت سمجھی جاتی ہے اور جس کسی نے دولہے یا دلہن کے ساتھ بغل گیر ہونے کی حماقت کی تو اس کو دقیانوسی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ’’بے ادب‘‘ نے بغل گیر ہو کر میک اَپ خراب کردیا۔بہرحال میری دانست میں کرسی نشینی اور مسند نشینی میں اچھا خاصا فرق ہے۔ اگر دولہے کو کرسی پر ہی بٹھا نا ہی ہے تو دعوت نامے پر مسند نشینی کیوں لکھنا؟
اب دیکھئے اُس مجلس کا حال جس کو عرف عام میں برات کی مجلس کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ مجلس دلہن والے دولہے اور اس کے براتیوں کی آمد کے سلسلے میں سجاتے ہیں۔ اِس مجلس کو تمام دوسری مجالس پر ترجیح دی جاتی تھی۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کیلئے چند ایک پکوان زیادہ بنائے جاتے۔ اتنے زیادہ بھی نہیں کہ جس میںکھانا کم اور دکھاوا زیادہ ہو۔ یہاں بھی دولہے کو مجلس کا روح ِرواں سمجھ کر مسند نشین کرایا جاتا تھا لیکن اب اس میں ایک ایسی تبدیلی آئی ہے جس کے ساتھ’’بے ہودہ‘‘کا لفظ آ سانی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ دولہے کواب مسند نشین نہیں بلکہ تخت نشین کرایا جاتا ہے۔ دلہن والے دولہے کے لئے لکڑی کا ایک عارضی تخت بنواتے ہیں جو ذرا سی اونچائی پر ہوتا ہے۔باقی مہمانوں کو ان کی کم اوقات کا احساس دلا کر دولہے کے قدموں میں بٹھایا جاتا ہے۔ پھر جب دولہے کو طعام پیش کیا جاتا ہے تو اور تین لوگ بھی تخت نشین ہوجاتے ہیں لیکن تخت پر جگہ کی کمی کے باعث تناولِ طعام کے دوران ان کی ٹانگیں لٹکتی رہتی ہیں جو کہ اس پورے عمل کو بے ہودہ اور مضحکہ خیز بنادیتا ہے۔ کل پرسوں ہی پا نپو ر میں کا کہ پو رہ سے آ ئی برات میں جب مغربی میوزک اورفلمی طرز کے بینڈ با جے پر لو نڈے نما براتیو ں نے نا چناتھرکنا شروع کیا تو شادی کی تقریب میں شریک کچھ نو جو ان یہ حما قت آ میز حرکت دیکھ کر آ پے سے با ہر ہو ئے اور انہو ں نے ان اخلا ق با ختہ براتیوں کی خوب مرمت کی ۔ یہ واقعہ اس با ت کا ایک بلیغ اشارہ ہے کہ ہما رے گئے گزرے سما ج میںہر کو ئی لغویات اور ابلیسی حرکات کا دلداہ نہیں بلکہ کچھ استثنیٰ ضرور ہے جو ان چیزوں سے با غی ہے۔ یہ نو جو ان وقتاًفوقتاً اسلا می رنگ کی شادیو ں پر لبیک کہہ کے اچھی اور قابل تقلید مثا لیں قائم کر تے ہیں۔ ا لغرض بہ حیثیت مجمو عی ہم نے اپنی شادیوں کے سلسلے میں منائی جانے والی تقریبات میں روایات ،تہذیب و تمدن اور دینی واخلاقی اقدار کی پامالی کو اپنا شیوہ بنایا ہے۔ ہماری شادیوں میں اب خاندان کے بڑے بزرگوں کا کوئی عمل دخل ہی نہیں رہتابلکہ یہ مقدس اور حساس کام اب ناتجربہ کار نوجوانوں کے ہاتھوںبے ہودہ طریقے پر انجام پاتے ہیں۔ ان غیر اخلاقی اور ہمارے کلچر سے نا ما نو س حرکات کے الٹے نتائج ہمارے سامنے واضح ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے بعض لو گو ں کی آنکھوں پر جدیدیت کی کالی پٹی بندھی ہے یا وہ اندھے پن کے شکا ر ہیں۔ شاید ہی کسی کو اس ازلی وابدی حقیقت سے انکار ہو سکتا ہے کہ سادگی میں عظمت ہے اور بڑے بزرگوں کے سائے میں کئے جانے والے کاموں کاانجام نہایت ہی لطیف اور مفید تریں ہوتا ہے۔
قارئین کرام کالم نویس کے ساتھ ا س پتہ پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
syedmmubashir@gmail.com
|
Search This Blog
Sunday, 7 October 2012
Shadi beyah ki behuda taqreebat
Labels:
URDU ARTICLES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment