Search This Blog

Sunday, 7 October 2012

IMAM HASNUL BANNA

امام حسن البنا
مصر ی انقلا ب کا ایک لا زوال مرقع
محمد یوسف مکروہ

مال بے مثال ہو تو تعریف مشکل ہو جاتی ہے اور یہ حسنِ اخلاق اور اعمال و کردار کی رعنا ئیو ں سے مزّ ین ہو تو قلم یا زبان سے اس کا احاطہ کرنا مشکل تر بلکہ بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔ پروردگارِ عالم نے انبیائے کرام ؑعالمِ انسانیت کی ہدایت ورہنما ئی کے لئے مبعوث فرما ئے اوران کے مخلص و جاں نثار متبعین کی شکل میں ہرزما نے میںکئی ایسے مومنین صادقین پیدا فرمائے جن کا ذکر تاریخ و تذکار کے اورق میںجمیل مشک و عنبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی اکرم اور پیغمبر اعظم و آ خر صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ کرامؓ کی مثال آسما نِ رسالت کے درخشندہ ستاروں کی مانند ہے۔ ان کے بعد تا بعین اور تبع تا بین کی تا بنا ک ہستیا ں رُشد و ہدایت کی مسند پر جلوہ افروز ہیں۔ بعدازاں شہداء ،صلحا ئ، اتقیائ، اولیا ء ، مجددین ، علما ئے ربا نین، داعیانِ حق اور صوفیائے عظام کا وہ قافلہ سخت جا ں تاریخ دعوت وعزیمت کا ہم رکاب وہمسفر ہو ا جن کی پاک سیرتو ں اور بیش قیمت خدمات اور احسانات کا قرضہ امت اسلا میہ پر ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ انہی برگزیدہ اور چنیدہ شخصیات میں ایک نامو ر ہستی اخوان المسلمین مصر کے پہلے مرشد عام حسن البنا شہیدؒ ہیں۔ اُن کی نصف صدی پر محیط قابل رشک انقلا بی زندگی اور پوری صدی پر محیط اس کے خوشگواراثرات و ثمرات کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تجدیدِ دین ہی کے لیے پیدا کیا تھا۔ حسن البنا کی شخصیت میں ایک غیر معمولی سحر انگیزی اور دِل کش جاذبیت کا امتزاج نظر آتا ہے۔ ایسا دکھا ئی دیتا ہے جیسے حسن البنا کے قالب میں کا رخا نۂ قدرت سے ایک ایسی بے چین روح سمو ئی گئی تھی جو اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے اُس کی مرضی وہدایت کی ر وشنی میں دنیا کو بدل ڈالنے اور اسے مالک و خالق کی اطاعت میں لانے کے لئے ہر آں سرگرم عمل اور مضطرب ہے۔ یہ کیفیت اُن کے بچپن سے لے کر جوانی اور پھر شہادت کے لمحات تک رواں دواں نظر آتی ہے۔ امام حسن البنا کی آپ بیتی یا دعوتی سفر کی یاد داشتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسی عظیم شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ان کی حیاتِ مستعار کی ورق گردانی کر تے ہوئے ہر ایک انوکھامنظر چشم بصیرت کو وا کر تا ہے اور یہ یقین ثقہ کر دیتا ہے کہ آ پ میں فطری طور پر اللہ جل شانہ کی مہر با نی سے نیکیا ں اورخو بیا ں کو ٹ کو ٹ کر بھر ہو ئی تھیں۔ اس نیک نہا د بچے کی عمر ابھی چھ سات سال ہی تھی کہ گویا اشارہ ٔ غیب پر اس کا دل دینی جذبات کا اُمنڈتا ہوا سر چشمہ بنا۔ پھر یہی بچہ سترہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ کر قاہرہ اور اسکندریہ کے ریستورانوں، قہوہ خانوں اور سماجی محفلوں حتیٰ کہ تفریحی مقامات پر جا جا کر اور وہا ں مو جو د مختلف المزاج لوگوں سے بہت ہی پیا رے اوردل کو چھو نے والے اسلو ب میں علمی اور تذکیری مذاکرات کر تے اور انہیں ایک اللہ کی بند گی کی طرف بلا تے تو ان کی شان دو بالا ہو تی۔ دعوت کا یہ کام کر تے ہو ئے انہیں لو مت لا ئم کا ڈر تھا نہ نتا ئج وعواقب کا خو ف، حکومتی عتاب کا واہمہ لا حق تھانہ مخا لفین کی ریشہ دوانیو ں کا کو ئی ادنیٰ سا وسوسہ۔ بس انسانیت کے ساتھ ایک غیر مشروط محبت اور عہدِ وفا نبھانے کی بے کلی اور بے چینی تھی جو انہیں ہر جگہ ایک مثا لی خدائی خدمت گار کے روپ میں پیش کر تی ۔ اسلام کے نظا م رحمت سے روحانی ا ور وجدانی اُنس ، قرآن مجید کا حقیقی فہم، پیغمبر آ خرالزما ںؐ سے بے محا بہ عشق اور مسلما نوں کی غفلت و بے شعوری پر قلبی اضطراب… انہی اوصاف حمیدہ نے حسن البنا ؒ میں بے چین روح ودیعت کر دی تھی اور ان کی شخصیت کومحبت ومٹھا س کی دلآ ویز قالب میں ڈھا لاتھا کہ الفا ظ اس کا احا طہ کر نے سے قاصر ہیں ۔ ویسے یہ لا یق صد ستا ئش صفات اور کیفیا ت ہر اُس اصول پر ست داعیٔ دین کا گہنہ ہو تی ہیں جو اپنے مالک سے محبت اور تعلق خاطر کی لذت سے سرشار ہو کر تما م انسانوں کو فی اللہ وللہ خالق کا ئنات سے جو ڑنے کا بیڑہ اٹھا ئے۔ البتہ یہ با ت بلا مبا لغہ کہ اپنے دیگر ہم عصر وہم قدم داعیو ں میں مصر کی اس تا ریخ ساز شخصیت کا زیادہ خوبصورت اور نما یا ں پہلو یہ ہے کہ وہ نیکی اور پاکیزگی ، کامیابی اور ابدی کامرانی کی اس لذت آ شنا ئی کے قرآ نی تصور کو کچھ زیا دہ ہی انہما ک بلکہ اضطرابِ قلب کے ساتھ اللہ کے دوسرے بندوں تک منتقل کر نے میں عزیمت کی راہ پر گا مز ن ہوئے تاکہ ان کے ہم وطن اللہ کے غضب سے بچ جا ئیں اور ان کی پوری قوم بلکہ دنیا ئے انسا نیت بندگی ٔ رب کے رنگ میں رنگ جا ئے ۔ یہ اسی خلو ص ، عقل سلیم اور فعالیت کا نتیجہ ہے کہ ۱۲ سال کے اندر ہی اندرمصر کا ہی نہیں بلکہ عالمِ عرب کا پورا فکری اور ایما نی نقشہ بدل گیا اور عرب ممالک میں کا فی عرصہ تک خدا فرامو شی اور خو د فرامو شی کی آندھیاں چلنے کے بعد یہ یک قلم تھم گئیں اور حسن البنا کی شروع کردہ اخوان کی تحر یک سے ایک روحانی، اخلا قی اوراصلا حی انقلا ب بر پا ہو اجس نے دنیا میں ایک تہلکہ سا مچا دیا۔

1928 ء میں اسماعلیہ کے مقام پر منظم انداز سے دعوت دین کا آغاز کرنے والے حسن البنا نے دوسرے حق پر ستو ںکی طرح بہت جلد اپنے دشمن اور مخالفین پیدا کئے ۔ ہردور کے استبدادی حکمران کی طرح جمال نا صر کی حکو مت کے لئے اس دعوتی تحریک کی کا میا بی کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ اپنا بو ریا بسترہ لپیٹ دے۔ چونکہ اس کا راج تاج خدا پر ستا نہ اصولوںکی بیخ کنی پر استوار تھا، اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی با طل حکومت ، سیا سی دبدبے اور عیا شیو ں کی قیمت پر سچے اور بے عیب جمہو ری سسٹم کو پنپنے کی اجازت دیتا؟ حسن البنا کی تحریک کا گلا گو نٹھنے کے لئے نا صر جو خو د کو مصری قومیت کا علمبردار جتلا تا اور فخر کے ساتھ اپنے آپ ’فراعنہ کی اولا د‘ کہلوا نا پسند کر تا تھا، امام البنا کے انقلا ب کو اپنے لئے بجا طو ر پیغام اجل سمجھ رہا تھا۔ چنا نچہ اس نے سازشوں کا تا نہ بانہ بُن کر اپنی دانست میں راستے کے اس کا نٹے کو ہٹا دیا لیکن تاریخ نے اُسے جھٹلا یا کیونکہ تعذیب و تخریب کے جملہ یزیدی حربے آ زما نے کے با وجو د اخوان کی تحریک جاری وساری رہی اور آ ج کی تا ریخ میں اخو ان کے ہی رہنما محمد مرسی مصر کی کرسیٔ صدارت پر براجما ن ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جھوٹ چا ہیے اپنے سارے لا ؤ لشکر کے ساتھ حق کو پسپا کر نے کے لئے کتنا ہی ایڑی چو ٹی کا زورلگا ئے سچ کا سورج طلو ع ہو کر رہتا ہے۔ بہر صورت فروری 1949 ء میں حسن البنا ؒ کو سرراہ گو لی ما رکرجامِ شہادت نوش پلا یا گیا۔ ان کی شہادت کے وقت پورے مصر میں اخوان کے لاکھوں وابستگان تھے اور ۲؍ہزار سے زیادہ شاخیں تھیں، جب کہ صرف قاہرہ میں 200 تنظیمی حلقے سرگرم تھے۔

ا مام البنا مہینے میں بیس با ئیس دن مسلسل دعوتی سفر پر رہتے تھے۔ شہر شہر، قریہ قریہ لوگوں سے ملتے جلتے اور ان سے مخاطب ہو کر ایک عام فہم اور دل میں اُتر نے والے مخلصانہ طرز بیان میں ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ ان کی یہ ادا دیکھ کر لگتا گویاکنواں خود پیاسوں کے پاس پہنچتا، رات دن کی پرواہ کئے بغیر، نیند اور تھکن کو خاطر میں لائے بغیر، قلب و روح کے دروازوں پر دستک دینے والے اس محسن کا احسا نات کا قرضہ شاید ہی ان کی قوم چکا سکتی ہے ۔ جن دنوں وہ طو یل دعوتی سفر میں نہیں ہوتے تھے، ان ایام میں جہاں کہیں بھی اُن کا مستقر ہوتا وہیں پر دعوتی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ کوئی مسجد، کوئی محلہ حتیٰ کہ وہ جگہیں بھی جنہیں سادہ لو ح لوگ بالعموم اہل تقویٰ کے لئے کوئی بہت اچھی جگہ نہیں سمجھتے، مثلاً کلب اور ریستوران جہاں نغمہ و سرور اور لذت کام ودہن کی کی محفلیں برپاہوتیں، وہ وہاں بھی پہنچ جا تے ۔ یو ںحسن البنا نے ملک میں کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انہوں نے مقدرو بھر شہادت حق کا فریضہ ادا نہ کیا ہو۔ شہید حسن البنا کو اپنے مقدس کاز اور مشن سے کس درجہ والہانہ عقیدت اور اس کا کس درجہ فہم و ادراک تھا، اس کا انداز اس خطبے سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے 1938 ء کو اخو ان کے پانچویں اجلاس میں دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا ’’اخوان فکر و عمل کی سطحیت پر ریجھ جانے والے نہیں ہیں بلکہ وہ گہری فکر اور وسیع زاویۂ نظر کے حامل ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی چیز کی گہرائیوں میں ڈوب کر نہ دیکھیں… وہ جانتے ہیں کہ قوت کی مدارج کیا ہیں ،ان میں اوّلیت عقیدہ و ایمان کی قوت کو حاصل کرنا ہے۔ اس کے بعد وحدت و ارتباط کی قوت کا حصول ہے اور ان دونوں کے بعد زورِ بازو کا درجہ آتا ہے… الاخوان متشددانہ انقلاب کے بارے قطعی طور پر کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتے ۔ وہ کسی حال میں اس طریق کار پر اعتماد نہیں کرتے اور نہ اس کا نفع بخش اور نتیجہ خیز ہونا انہیں تسلیم ہے… تاہم اگر حالات کی رفتار یہی رہے گی اور اصحابِ اقتدار اس کا علاج نہیں سوچیں گے تو اس کا لازمی نتیجہ متشددانہ انقلاب کی صورت میں ظاہر ہو گا لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس میں اخوان کا ہاتھ ہو گا بلکہ یہ حالات کے دباؤاور اصلاح سے گریز کا لازمی نتیجہ ہو گا۔ ضرورت یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی کے سیاۃ و سفید پر قابض طبقے اپنی ذمہ داری اور صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں۔‘‘ (ترجمان القرآن حسن البنا شہید نمبر مئی 2oo7 ء صفحہ نمبر 42 )۔ عالمی سطح پر تحریک اسلام جو مختلف ممالک میں مختلف ناموں کے تحت طاغوتی قوتوں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے، کی قیادت کے لئے شہید حسن البنا نہ صرف مشعل راہ ثا بت ہو ئے ہیں بلکہ جدید حالات میں رول ماڈل بھی… کیوں ؟ امام حسن البنا نے بنیادی طور پر صرف ایک ہی ہدف کو اپنا نصب العین بنایا جو باقی تمام متعلقہ اہداف کا سرچشمہ ہے۔ وہ تمام آرزوئیں اور خواہشات اس سے خارج ہو جاتی ہیں جو انفرادی اور اجتماعی طور پر انسانی زندگی کو لاحق ہو تی رہی ہیں۔ بنیادی ہدف کو بالکل واضح بلند اور محبوب ہونا چاہیے۔ اس مقام کو صرف وہ حا صل کر سکتا ہے جو اسے خوب اچھی طرح سمجھ لے اور اس کے حصول کے لئے اپنے دل میں اخلاص اور جان کھپا نے کی جرأت وقوت پیدا کرلے۔ وہ پہلے مرحلے میں لوگوں کو اللہ سے جوڑے اور دوسرے مرحلے میں فا نی دنیا کی آرزوؤں کو جنت کے لئے مؤخر کر لے۔ یہ بلند نصب العین اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے جس کے لیے امام حسن البنا نے تگ و دو کی، اسے اپنا شعار بنایا اور لوگوں کو دعوت دی کہ اس کو اپنے نفس اور اپنی زندگی میں ڈھال دیں تاکہ وہ اللہ والے بن جائیں۔ اللہ والا بن جانا تو اُسی باایمان کی غایت اولیٰ ہے جس کا شعار ہی ربانی یاد میں جینا بن جائے۔ اس فقیر کا پسندیدہ شعر تھا    ؎

مالذۃ العیش الا صحبۃ الفقراء ھم اسلاطین و السادات والامرء

(زندگی کا لطف اللہ والوں کی صحبت ہی میں ہے۔

 دراصل وہی ہمارے سلطان، سردار اور راہنما ہیں)

اخوان المسلمون نے اس اصولی وایما نی ہدف کو امامؒ کی زندگی میں اور اُن کی شہادت کے بعد اپنی دعوت ِرجو ع الی اللہ:’’ اللہ ہمارا مقصود ہے‘‘ کے ذریعے دوام بخشا۔ چنانچہ امام کی زندگی ہی میں انہوں نے بھر پور جرأت اور اعتماد کے ساتھ اپنے زور دار اور پر تا ثیر دعوتی کام کے ذریعے زمین کو  اقامت دین کے لئے ہمو ارکر کے رکھ دیا۔اسلام کا احیا ء نو محض نعرہ نہیں تھابلکہ یہ ایک قابلِ تنقید پروگرام اور قابل عمل رویہ ہے جو قرآ ن کریم کا مقصود اور سیرت مبا رکہ ؐ کا اصل الاصول ہے۔ آئیے اخوان کی دعوت کا جا یزہ لے کر اس بات کا پتہ لگا ئیں کہ امام اور اُن کے ممبران کی روحانی اور ایما نی زندگی کی کیفیت و کمیت کس درجہ کی تھی … ان کا واضح منشور یہ ہے : اللہ ہمارا مقصود ہے… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے قائد ہیں… قرآن ہمارا دستور ہے …جہاد ہمارا راستہ ہے اور حق و صداقت کی راہ میںشہادت ہماری اعلیٰ ترین آرزو ہے۔ یہ منشور نہ صرف نشاط انگیز بلکہ میدانِ عمل ما رنے کے لئے کسی قابل عمل دستو رِ حیات سے کم نہیں…یہ منشورالفاظ کا پلندہ ہے نہ خالی خو لی نعرہ بلکہ حسن البنا نے اسے قرآ ن کریم اور سیر ت طیبہ ؐ کے گہرے اور عارفا نہ مطا لعہ کے بعد قبو ل کر کے اس کو اپنی روح اور اپنے ضمیرکے روئیں روئیں میں اور زندگی کے ہر سانس میں جذ ب کرکے اُتار لیا تھا۔ منشور کے ہر لفظ کو ایک عہد وپیمان سمجھ کر اپنی روح میں اُتارکر اسی جذبے اور تابانیٔ روح کو اپنے ساتھیوں کے دلوں میں منتقل کیا اور اپنے ظاہر و باطن کو اس کے انو ارات سے اُجلا کر دیا۔  یوںحسن البناؒ نے اپنے مخا طبین اور حامیو ں کے ذہن وقلب میں اسلام کا حقیقی تصور اُجاگر کیا۔
لوگوں نے یہ جان لیا کہ اسلام ہی مکمل ضابطۂ حیات ہے اور یہ سلطنت، وطن، حکومت کا احا طہ کر کے اس پر چلنے والے ہرفرد کو ایک ضابطۂ اخلاق اور روحا نی طاقت سے معمور کر تا ہے، اس کو رحم ، عدل، پرہیزگاری، متوازن ثقافت، معتدل تہذیب ،قابل عمل قانون اور بہترین اسلوب معیشت و معاشرت عطا کر تا ہے، اور یہ سب خا صیتیں ایما ن یا فتہ سما ج میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں ۔ اسلام دعوت بھی ہے او رمجا ہدہ بھی۔ حسن البنا شہید کی دوررس نگاہ نے تزکیہ نفس کے بعض مروجہ طریقوں کی خامیو ں اور کو تا ہیو ںکے بارے میں لوگوں کا ذہن صاف کیا۔ دلیل کی روشنی میں حقیقت تک پہنچنے کی راہ سمجھائی۔

انہو ں نے اپنے ساتھیو ں کو اس عہدکا پابندبنا یا کہ وہ نیک لوگوں سے تعلقات بنائیں، نیک صحبت اختیار کریں اور ان کو اس جانب متوجہ کیا کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، وہ سب اِس کی تلاش میں اور اس کے حصول میں کوشاں رہیں۔ اُن کے تر بیتی نظام میں’’فہم‘‘ پہلا نکتہ تھا جس کو انہوں نے ایک عہد و پیمان کی طرح لوگوں کی روح و قلب میں اُتار دیا اور ساتھ ہی اخلاص کا وہ رنگ زندگی کے تمام گو شو ں میں میں پختہ کر دیا کہ وہ صرف اللہ رب العالمین کو اپناحزر جان اور کعبۂ مقصود بنا ئیں ۔ چو نکہ پختہ فہم و اخلاص کا لازمی نتیجہ ’’عمل ‘‘ صا لحہ ہے اور اس عمل سے مراد ایسافعل ہے جو فہم اور اخلاص کا میٹھاپھل ہو۔اس پھل کو حاصل کرنے کے لئے کچھ منازل طے کرنا پڑتے ہیں۔ ان منازل کو طے کرانے کے لئے حسن البنا شہید نے خصوصی تربیتی کورس کروائے۔ سب سے پہلے مرحلے میں مضبوط جسم کے لیے صحت کا خیال رکھنا۔ اس کے لئے ورزش، محنت، مشقت ، خواہشاتِ نفس پر کنٹرول پا نے کی تربیت، نفس کے خلاف جہاد اور اس سلسلے میں اپنا کڑا محاسبہ اور امتحان لیتے رہنا جیسے امور شامل ہیں۔ دوسرا مرحلہ: اپنے گھر کے ہر فرد میں حتیٰ کہ خادموں کی تربیت اور حقوق کا دینی شعور پیدا کرنا۔

تیسرا مرحلہ:- معاشرے کی اصلاح کرکے رائے عامہ کو اسلامی فکر کے لئے ہموار کرنا۔

چوتھا مرحلہ:- اپنے وطن کو بے خدا نظام کے چنگل سے چھڑا نے کی داعیا نہ جدوجہد کرنا۔

پانچواں مرحلہ:- حکومت کی اصلاح تاکہ وہ صحیح اور صالح نظا م کا کل پر زہ بنے اور حکومت کو صحیح اسلامی خطوط پہ استوار رکھنے کے لیے اس کی رہنمائی کرنا۔

چھٹا مرحلہ: -اُمت مسلمہ کے حاکمانہ وجود کا احیاء کرنا، اس کے لئے اُمت مسلمہ کی شیرازہ بندی کرنا اور اُمت مسلمہ کی مایوسی ، پژمردگی، غلامانہ ذہنیت کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا۔ اسی تر بیتی سسٹم میں حکمت اور مصلحت جو قرآن کے سکھلا ئے ہو ئے اصول ہیں، ان دونوں کا مفہوم سیرت پاک کے مطالعے سے متعین ہوجاتا ہے۔ اسلامی تحریکوں کو ہر زما ں و مکا ں میں چاہیے کہ وہ ان اصولوں کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا کر شہادتِ حق، تطہیر افکار اور تعمیر معاشرہ کا راستہ اپنائیں۔ اس راستے کا انتخاب کرتے ہوئے غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن غلطی تو اس صورت میں بھی ہو سکتی ہے کہ آپ پورے معاشرے سے کٹ کر کسی جنگل بیابان میں چلے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اجتہادی غلطی کا بھی ایک اجر ہے اور اگر اجتہاد صحیح ہے تو اس کے دو اجر ہیں۔ اسی اسلا می فریم ورک کے اندر اخوان کے لئے بھی اور ہمارے لیے بھی آئیندہ آ نے والی پشتوں کے لئے بھی اہم سبق ہے۔ وہ کارواں جو حو صلہ شکن اور صبر آ زما حا لا ت میں امام حسن البنااور اُن کے چند ساتھیوں کی جدوجہد سے شروع ہوا تھا، زمانے کے تمام ترستم سہنے کے باوجود آج کہیں حماس کی صورت میں ناقابلِ شکست بن چکا ہے، کہیں یہ اخوان المسلمون کی کا میا بیا ں اپنی جھو لی میں بھر رہا ہے ۔ اس اعتبار سے مصر میں اخوان المسلمون کی حالیہ کامیابی نہ صرف استعماری اور سامراجی قوتوںبلکہ صہیونیت کے خونین چہرے پر زور دار طمانچہ ہے۔ ما ضی میں اس کا رواں کی آ ہٹیںالجزائر کی اسلا مک سالو یشن فرنٹ کی انتخا بی کا میابی کی صورت میں سنا ئی دیں۔ بے شک اس قافلہ کے سا لار اوراخوان المسلمون کے محبوب قائد کو شہید کیا گیا، اُن کے ساتھیوں میں سے بھی کئی عدالتی قتل کی سولی پر چڑھا ئے گئے ،ہزاروں کی تعداد میں انہیں جیلو ں کی صعوبتیں برداشت کر نا پڑ یں ، بہت سارے اسی راہ ِ عزیمت میں ستائے گئے یا آزمائے گئے اور انہیں اُن کے گھر والوں کو حال اور مستقبل کے حوالے سے آزمائش میں ڈالا گیا لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ انہی چیز و ں کی بدولت ا خوان کی ایمانی حرارت اور ثابت قدمی میں اضافہ بھی ہو تا رہا اور اقبال ؒ کے اس فرما ن کی صدا قت پت مہر تصدیق ثبت ہو ئی  ع   

کہ خو ن صد ہز ار انجم سے ہو تی ہے سحر پیدا

آخر میں امام شہیدؒ کی دس ہدایات یا وظا ئف حیا ت ملاحظہ ہوں جن سے ان کے وسیع تحریکی کینو اس ،وژن اور روحانی ارتقاء کا تصور ہی پردہ ذہن پر منعکس نہیں ہو تا بلکہ یہ ایمانی زندگی میں نکھار اور تازگی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ یہ ہدایات یوں ہیں:

(۱)-جب اذان کی آواز مکان میں پڑے تو نماز کے لئے اُٹھ کھڑے ہو۔ (۲) -تم قرآن کی تلاوت کرو یا مطالعہ یا دوسروں سے قول صا لحہ سنو۔ (۳)-اپنے وقت کا کوئی بھی حصہ بے مقصد کام میں صرف نہ کرو۔ (۴)-گفتگو ہمیشہ صاف ستھری زبان میں کرو۔ یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے۔ (۵)-معاملات میں زیادہ بحث و تکرار سے کام نہ لو۔ (۶)-زیادہ نہ سنو کہ اس سے دلوں میں سختی آتی ہے۔ (۷)- بلند آواز میں گفتگو نہ کرو اس میں تکبر بھی ہے اور دوسروں کے لئے اذیت بھی۔ (۸) -مسخرہ پن اختیار نہ کرو، مجاہد سنجیدہ ہوتے ہیں۔ (۹) -غیبت اور الزام تراشی سے بچو، تمہاری زبان سے خیر کے سوا کوئی کلمہ نہ نکلے۔(۱۰)-جس رفیق سے بھی تمہاری ملاقات ہو، اسے اپنا تعارف کراؤ، خواہ اس نے یہ چاہا ہو ، اظہار کیا ہو، یا نہ کیا ہو کیونکہ ہماری د عوت محبت اور تعارف پر استوار ہے۔ کام زیادہ ہے اور وقت کم، لہٰذا تم اپنے دوسرے رفقا ء کی اس میں مدد کرو تا کہ وہ اپنے وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔ اگر تمہارے ذمہ کوئی خاص مہم ہو تو اسے کم سے کم وقت میں پایۂ تکمیل تک پہنچاؤ۔ 

(ختم شد)

No comments:

Post a Comment