ٹھوکر کھا کے واپس پلٹناکا میا بی کا واحد راستہ محمد عمربٹ
آج ہمارا معاشرے کا ایک معتد بہ حصہ بے راہ روی کے دور سے گزر رہاہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ قرآن وحدیث سے ہماری دوری ، علم وعمل صالحہ سے مہجو رہی اور یہودونصاریٰ کی اندھی تقلید ہے ۔ اس کے علاوہ مخلوط نظام تعلیم ،بے پردگی ، اخلاق سوز ٹی وی چینلیں ، حیا سوز فلمیں ،فحش گانے وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طوربر ہنہ فیشن کا جنو ںہمارے زندگیوں میں کچھ اس طرح رچ بس گیا ہے جیسے یہ ہماری بنیادی ضرورت بن گیا ہو ۔ اس کے علا وہ بہت سی دیگر اخلاقی اور معاشرتی برائیاں ہیں جس میں سود خوری اور رشوت ستا نی بھی شامل ہیں ۔ سود کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’میں سود خور سے دنیا میں اعلان جنگ کرتاہوں ‘‘یعنی سود خوروں کو اللہ تعالیٰ دنیا میںہی عبرت ناک سزا دیتاہے اور رشوت خوری لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔ ان ساری برا ئیوں اور بدیوں کا مجموعی اثر یہ ہو رہا ہے کہ پورا معاشرہ غیر محسوس انداز میں اس بے راہ روی اور اخلاقی تنزل کی لپیٹ میں آرہاہے ۔ مخلوط نظام تعلیم ، بے پردگی ،فیشن وغیرہ اسی کے ثمرات ہے ، ہاں ایک ایسا اقلیتی طبقہ ہم میں ضرور ہے جو ان برا ئیو ں اورگنا ہو ں سے بچا ہو اہے۔ با ت واضح ہے کہ جہا ںمخلوط نظام ہوگا وہاں بے پردگی لازمی ہوگی اور جب بے پردگی ہوگی تو غلط خیالات پیدا ہونا فطری عمل ہے اور ان خیالات کو تقویت دینے کے لئے فلمیں ،فیشن شو ، گانے اور بے ہودہ لٹریچر اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔آڑے ترچھے کپڑے پہننا،عریاںلباس زیب تن کرنا ، بدتہذیب اوراخلاق باختہ الفاظ کا بے دریغ استعمال کرنا ہمارا معمول بن چکا ہے۔ آج مختلف بر ہنہ رسالہ منگواکر ہم اپنے اخلا ق کا جنا زہ خود اٹھا رہے ہیں۔ ان رسالو ں میں انتہائی غیلظ، غیر اخلاقی اور ناشائستہ قسم کا مواد اورتصاویریں ہوتی ہیں ۔ غیر اخلاقی اور فحش مواد تک رسائی نوجوانوں کو تباہی اور گمراہی کی جانب لے جارہا ہے ۔ آپ اگر غلطی سے ٹی وی کا سوئچ آن کریں تو ما رے شرم کے آ نکھیں بند کر نا پڑ تی ہیں۔ یہی سے ہمیں اجنبی تمدن اور فیشن پر ستی کا بخار جا ن لیوا بخار لگ جا تا ہے۔ ہمارے یہا ں بلا محنت دولت کی فراوانی نے فیشن پرستی اور بے راہ روی کو بڑھانے میں نمایاں کرداراداکیاہے ۔ دیدہ زیب لباس کا مطلب خوبصورت ڈیزائن تو ہوسکتاہے لیکن لباس کو مختصرکرنا یااس کی وضع قطع ایسی کر نا کہ انگ انگ کا اتار چڑھا ؤ ابھر کر سامنے آئے، ہرگز نہیں۔ یہ عمل دین کے خلا ف سرکشی اور بغا وت ہے ۔ یادرکھیں کہ اس دنیا کو چھو ڑنے کے وقت ہمیں کفن کا لباس پہننا ہو گا۔ اس سے پہلے وہ ساعت آ ئے ہمیں اپنے لباس سے لے کر خیالا ت اور جذ با ت کا جا ئزہ لینا ہو گا ۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا جو پوزیشن آج علم ، سائنس اور ہنر مندیو ں کے میدان میں امریکہ اور یورپ کی ہے کبھی یہ پو زیشن مسلمانوں کی ہو اکر تی تھی۔ اللہ ان سے راضی تھا ، وہ اللہ کے چہیتے بندے تھے، ان کے اخلا ق بھی بڑ ے ہی سجے سنورے تھے، اپنے تو اپنے غیر بھی ان کا فخراًعزت واحترام کر تے اور تاریخ ان کے سامنے سر نگو ں تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانو ں نے غیروں کی تقلید کی نہ وہ احساس کمتری کے شکا رتھے ۔مسلمان مفکر اور سائنسدان ان حق ِ اخلا قیا ت اورمفید علوم کے پیش کار تھے جن سے دنیا کی کا یا پلٹ ہو ئی ۔ غیر مسلم اقوام تک نے خو شی خو شی اس کی خوشہ چینی کی اور انسانیت کی تقدیر سنو اری مگر آ ہ! آج کا مسلمان نوجوان دین سے نا واقف، اخلاق سے بے گا نہ، فیشن کا دلداہ ہے ۔ وہ علم ، پر ہیز گا ری اور اچھا ئی اور بلند کردار کو میلی قمیص سے کم تر اہمیت دیتا ہے الا ما شااللہ ۔ ہمیں جا ننا چا ہیے کہ جب تک ہم قرآ ن اور سیرت طیبہؐ کی ابدی روشنی میں چلتے رہے تو اللہ نے ہما راساتھ دیا ۔ چناں چہ آج بھی ہم یو روپ کی کئی یونیورسٹیوں میں اپنے اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں سے دنیا کو مستفید ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں نے علم کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جو ان کی تحقیقات سے تشنہ رہا ہو۔ آ ج بھی ہماری بنیا دی علمی تحقیقات و اکتشا فا ت پوری دنیا کے لئے مشعل را ہ ہیں۔ مغربی ممالک کی لائبریریاں آج بھی ہمارے اسلاف کی کتابوں سے بھری پڑ ی ہیں ۔یہ وہ مسلمان دانشور تھے جنہوں نے ریسرچ کرکے علوم کی شمعیں روشن کیں ۔مسلمانوں نے دنیا میں اُس وقت روشنی پھیلائی جب عالم انسا نیت جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔اگر مسلمانوں کو اپنے پوزیشن پر واپس آنا ہے تو اللہ اوررسول ؐ کی طر ف رجو ع کر کے بے علمی، بے راہ روی اور کج عقلی پہ روک لگانے کی سخت ضرورت ہے۔ آج ہی سے ہم قرآن کریم او رسنت رسولؐ کی پیروی کا عہدکریں اور یہود وملحدین کے بچھائے ہوئے جال سے خود کومکمل طور پر آزاد کرنے کی کوشش کریں ۔ اگر ہم نے ایسا کیا تووہ وقت دور نہیں جب پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا اور مسلما نو ں کا دوردورہ ہو گا۔
courtesy: KashmirUzma Srinagar
|
Search This Blog
Sunday, 7 October 2012
Labels:
URDU ARTICLES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment