Search This Blog

Tuesday 30 October 2012

CHAND - HAMARA NAZDEEK TAREEK HAMSAYA

چاند۔۔۔۔۔۔ہمارا نزدیک ترین ہمسایہ


چاند ہماری زمین کااکلوتا سیارہ ہے۔ زمین سے تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار میل دورچاند کا قطر 2163 میل ہے۔ چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گلیلیو نے 1609ء میں کیں۔ اس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے۔ اس نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ چاند پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ اس میں نہ ہوا ہے نہ پانی۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ یہ بات انسان بردار جہازوں کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔ دن کے وقت اس میں سخت گرمی ہوتی ہے اور رات سرد ہوتی ہے۔ یہ اختلاف ایک گھنٹے کے اندر واقع ہو جاتا ہے۔چاند کادن ہمارے پندرہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ زمین کے گرد 29 یا 30 دن میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ چاند کا مدار زمین کے اردگرد بڑھ رہا ہے یعنی اوسط فاصلہ زمین سے بڑھ رہا ہے۔ قمری اور اسلامی مہینے اسی کے طلوع و غروب سے مرتب ہوتے ہیں۔ چاند ہمیں رات کو صرف تھوڑی روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی کشش سے سمندر میں مدوجرز بھی پیدا ہوتا ہے۔ سائنس دان وہاں سے لائی گئی مٹی سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چاند کی ارضیات زمین کی ارضیات کے مقابلے میں زیادہ سادہ ہے۔ نیز چاند کی پرت تقریباً ایک میل موٹی ہے۔ اور یہ ایک نایاب پتھر اناستھرو سائٹ سے مل کر بنی ہے۔چاند کی ہیت کے متعلق مختلف نظریات ہیں، ایک خیال یہ ہے کہ یہ ایک سیارہ تھا جو چلتے چلتے زمین کے قریب بھٹک آیا، اور زمیں کی کشش ثقل نے اسے اپنے مدار میں ڈال لیا۔ یہ نظریہ خاصہ مقبول رہا ہے، مگر سائنسدانوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا ممکن ہونے کے لیے چاند کو ایک خاص رفتارسے زمین کے قریب ایک خاص راستے پر آنا ضروری ہو گا،جس کا امکان بہت ہی کم ہے۔موجودہ دور میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 4.6 بلین سال پہلے ایک دمدار ستارہ زور دار دھماکے سے زمین سے ٹکرایا، جس سے دمدارستارہ اور زمین کا بہت سا مادہ تبخیر ہو کر زمین سے نکل گیا۔ آہستہ آہستہ یہ مادہ زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اکٹھا ہو کر چاند بن گیا۔ پانی اور ایسے عناصر جو آسانی سے اُڑ سکتے تھے نکل گئے، اور باقی عنصر چاند کا حصہ بنے۔ اس نظریہ کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ چاند کی کثافت زمین کی اوپر والی مٹی کی پٹیوں کی کثافت کے تقریباً برابر ہے، اور اس میں لوہا کی مقدار بہت کم ہے۔ کیونکہ دمدارستارے کا آہنی حصہ زمین میں دھنس گیا تھا جو زمین کا آہنی گودا بنا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئی تھیوری پیش کی ہے جس کے مطابق چاند کبھی زمین کا حصہ تھا جو کسی دوسرے سیارے سے ٹکرانے کے نتیجے میں وجود میں آگیا۔ سارہ سٹوارٹ اور میتجا نے جو نال میگزین میں جاری رپورٹ میں دونوں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی پیش کردہ نئی تھوری اس بات کی وضاحت کرے گی کہ زمین اور چاند کی مسافت اورکیمسٹری ایک جیسی کیوں ہے۔ نئی تھیوری کے مطابق چاند کے   وجود میں آنے کے وقت زمین آج کی نسبت نہایت تیزی سے گردش کررہی تھی اس وقت دن صرف دو یا تین گھنٹے رہتا تھا۔ اتنی تیزی سے گردش کی وجہ سے کسی دوسر ے فلکی جسم کے ساتھ ٹکر کے نتیجے میں چاند وجود میں آگیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بعدازاں زمین سورج کے گرد اپنی مدار اور زمین کے گرد چاند کے مدار کے درمیان کشش ثقال باہمی تعامل کے ذریعے موجود ہ شرح کے گردش پر پہنچ گئی۔
چاند کی تسخیر20 جولائی 1969ء کو نیل آرم سٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جس کے قدم چاند پر پڑے۔چاند کی حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ عام نظریہ یہ ہے کہ یہ زمین سے جدا ہوا ہے۔ چاند پر ہوا اور پانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہاں سبزہ وغیرہ ہے۔ چاند پر سب سے پہلے اپالو 2 اتارا گیا تھا۔ اس کی سر زمین سے جو نمونے اکھٹے کئے گئے ان کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کی ان میں کثیر مقدار میں لوہا، ٹیٹانیم، کرومیم اور دوسری بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔
چاند پر کالونیامریکا 2020ء تک چاند کے جنوبی قطب پر ایک کالونی کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ناسا کے مطابق اس کا مقصد نظامِ شمسی کے بارے میں دریافتوں کی غرض سے مزید انسان بردار مشن روانہ کرنا ہے۔ 1972ء  کے بعد یہ کسی انسان کو چاند کی سطح پر بھیجنے کا پہلا منصوبہ ہے۔ قومی ہوائی و خلائی انتظامیہ (این اے ایس اے) نے کہا ہے کہ یہ طویل المدتی منصوبہ دنیا کے 14 خلائی اداروں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کشش ثقل اس کی کشش ثقل  force gravitational  زمین کی نسبت چھ گنا کم ہے۔ چودہ دنوں میں سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ پر جا پہنچتا ہے۔زمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباً41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔ زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000 کلو میٹر ہے جو افزائشِ مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔تحقیق کاروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چاند جیسے مزید سیاروں کا وجود ہو سکتا ہے محققین کا کہنا ہے کہ زمین کے چاند کی مانند نظامِ شمسی سے باہر ستاروں کے گردگردش کرنے والے سیاروں کے بھی اپنے چاند ہو سکتے ہیں۔ان کے مطابق ایسے سیاروں میں سے ہر دس میں سے ایک کا چاند کی طرح کا اپنا سیارہ بھی ہو سکتا ہے۔ہمارا چاند نسبتاً بڑا ہے اور اس کا سائز زمین کے ایک چوتھائی حصے کے برابر ہے۔ اب تک سمجھا جاتا تھا کہ زمین کے گرد چکر لگانے والے چاند کا وجود اپنے آپ میں انوکھی بات ہے۔لیکن لگتا ہے کہ اب ایسا نہیں ہے۔کمپیوٹر کے ذریعے سیاروں کی تخلیق کے عمل کو دہرا کر تحقیق کاروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے بڑے دھماکے جس کے نتیجے میں چاند وجود میں آیا تھا عام ہو سکتے ہیں اور چاند جیسے مزید سیاروں کا وجود ہو سکتا ہے۔اس تحقیق سے ایسے دوسرے سیاروں کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو شاید زندگی کے لائق ہوں۔گزشتہ برس میونخ یونیورسٹی اور امریکہ کی کولاراڈو یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے بھی کمپیوٹر کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سیاروں کی تخلیق کس طرح گیس اور پتھروں سے ہوتی ہے۔خیال ہے کہ چاند کی تخلیق بھی زمین کی تاریخ کے ابتدائی اوائل میں ہوئی تھی جب مریخ کے گرد گھومنے والا ایک سیارہ زمین سے آ ٹکرایا تھا۔ یہ سیارہ زمین کے گرد چکر لگانے لگا جسے بعد میں چاند کہا جانے لگا۔میونخ یونیورسٹی کے پروفیسر سباستین ایلسر کا کہنا ہے کہ چاند کے حجم کے سیاروں کے اندازوں کے بعد نظامِ شمسی سے باہر موجود سیاروں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چاند کی موجودگی سے زمین کے ماحولیات پر ایسا اثر پڑا ہے جس میں زندگی کی تخلیق آسانی سے ہو سکے۔
چاند کا مدارچاند زمین کے اردگرد 27.3 دن میں چکر لگاتا ہے۔ اس کے راستے کو چاند کا مدار کہا جاتا ہے۔ چاند زمین کے مرکز سے اوسطاً 385000 کلومیٹر کے فاصلے پر 1.023 کلومیٹر فی سیکنڈ کی اوسط رفتار سے چکر لگاتا ہے۔ عمومی سیارچوں کے برعکس اس کا چکر خطِ استوا کے مستوی کی بجائے اس مستوی کے قریب ہے جس میں زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چاند کا مدار بڑھ رہا ہے یعنی زمیں سے اوسط فاصلہ زیادہ ہو رہا ہے۔ اسے افزائش مدوجزری کہا جاتا ہے۔ کئی لاکھ سال پہلے چاند کی محوری گردش کا دورانیہ اس کے زمین کے گرد ایک چکر پورا کرنے سے زیادہ تھا مگر زمین کی کشش نے چاند کی محوری گردش کی رفتار کم کر کے اسے اس طرح محدود کر دیا ہے کہ اس کی محوری گردش کا دورانیہ زمین کے گرد مدار میں ایک چکر پورا کرنے کے برابر ہو چکی ہے۔
چاند اور زمینزمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباً 41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔ زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000 کلو میٹر ہے جو افزائشِ مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment