احساسِ حمیت فدا حسین بالہامی
عالمِ بشریت میں ہر فردِ بشر اپنی شخصیت کے تئیں جداگانہ حیثیت کا نہ صرف خواہاں ہے بلکہ حتی المقدور کوشاں بھی نظر آتا ہے۔ جسے دیکھئے وہ اپنی منفرد حیثیت کو دوسروں پر ظاہر کرنے کیلئے ہزار جتن کرتا دکھائی دے گا۔اس سلسلے میں ہر فرد ِ بشرمشقت طلب مراحل سے گزرنے پر بھی ہمہ وقت آمادہ رہتا ہے۔ دنیا میں ایسا شخص شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گا جو اوروں کی توجہ کا مرکز بننے سے گریزاں ہو۔ خود کو دوسروں کی توجہ کا مرکز بنانے کے لئے امتیازی صلاحیت درکار ہوتی ہے جس کے بل پر ایک فردِ واحد جم غفیر میں ابھر تا ہوادکھائی دے۔ ایک خوب رو اور خوش پوش نوجوان جب بازار کی بھیڑ بھاڑ میں جلوہ نما ہوتاہے تو اس کے ذہن کے کسی کونے میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ جو بھی اسے دیکھے بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ طالب علم دن رات ایک کرکے امتحان میں امتیازی نمبرات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ باقی ہم جماعت طالب علموں پر سبقت لے جائے اور ممتاز کہلایا جائے۔ دنیا کے اس ہنگاموں سے بھرے میلے میں جب تک کوئی شخص بھیڑ میں گم ہے اسے عدم توجہ کا شکار ہونا پڑے گا اور اس گمنامی سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے اپنے اور بے شمار انسانوں پر مشتمل بھیڑ کے مابین خطِ امتیاز کھینچتا ہوگا۔ یہ خط امتیاز نمایاں کارکردگی کاہی ثمرہ ا ور نتیجہ ہوسکتا ہے۔ غیر معمولی صلاحیت و صلابت کا اظہار ہوسکتا ہے یا پھر قضائے الہٰی کے ہاتھوں کھینچیں گئی مقدر کی لکیروں کا کرشمہ بھی ہوسکتا ہے لیکن انسانی جمیعیت سے کسی فرد واحد کا نمایاں طور پر سامنے آجانا اور ہرکس و ناکس کی توجہ کا مرکز بننے کی ایک اور نوعیت بالکل مختلف بلکہ متضاد ہے۔ یہ لازمی امر نہیں ہے کہ ایک فرد کے لئے ہر وقت عوام الناس سے ہٹ کر ایک الگ پہچان قائم کرنا بہر صورت مستحسن قرار پائے۔ بعض اوقات اس کی نوعیت منفی بھی ہوسکتی ہے۔ مثبت امتیازی حیثیت اور منفی امتیازی حیثیت کے مابین حد ِفاصل کرنے میں یہ مثال ضرور معاون ثابت ہوگی کہ ہمارے یہاں (کشمیری سماج میں) ماضی ٔ قریب میں شادی بیاہ کو ایک خاص اہمیت ہوا کرتی تھی۔ نیز دلہا دلہن اس پر مسرت تقریب کے خاص الخاص کردار کے حامل ہوتے تھے۔ ان کے مخصوص کردار کو ظاہر کرنے کے لئے دلہے میاں کو پرزیب لباس پہنا کر اور سرپر سہرا باندھ کر بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ گھوڑے پر بٹھایا جاتا تھا اور پھر اُسے اس انداز میں مختلف گلی کوچوں میں گھمایا پھرایا جاتا تھا کہ اس کی معیت میں مردو زن پر مشتمل ایک بڑ اہجوم متحرک ہوتا تھا۔ شادی بیاہ کی اس رسم سے مماثلت رکھنے والا ایک اور منظر پیش کیا جائے تو بظاہر دونوں میں کوئی خاص تفاوت دکھائی نہیں دے گی لیکن مماثل دکھائی دینے والے ہر دو مناظر اصلا ً متصادم ہیں۔ ایک اور شخص کو بھی اسی طرح گدھے یا گھوڑے پر بٹھاکر گلی کوچوں میں پھرایا جاتا تھا۔ا س کے تعاقب میں لوگوں کا ہجوم شوروغل مچاتا ہوا تماشہ بینوں کو گدھے یا گڑے پر سوار مذکورہ فرد کی جانب متوجہ کراتا تھا گویا اسے بھی ایک مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی مگر یہ مرکزی حیثیت ہرگز مستحسن نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ یہ سلوک کسی جرم کی سزا کے طور کیا جاتا تھا۔اب ذرا ہر دو مناظر کا تقابلی جائزہ لیجئے۔ اول الذکر سماجی رویہ ایک فرد کے تئیں بہت سے افراد کی نیک خواہشات کا غمازہے جب کہ موخرالذکر مثال میں کسی مجرمانہ فعل کے خلاف عوام الناس کا انوکھا احتجاج ملتا ہے۔ وہ بھی سینکڑوں نظروں کا مرکز ہے اور اس پر بھی بہت سی نگاہیں مرکوز ہیں مگر وہاں نظریں پیغام ِتبریک لے کر کسی دوسری طرف اٹھتی ہیں۔ادھر قلوب جذبہ خیر خواہی سے مملو دکھائی دیتے ہیں لیکن ادھر نفرت و بیزاری کے ہزاروں تیر دیکھنے والوں کی نظروں سے بیک وقت ایک ہدف کی جانب روانہ ہوتے ہیںاورملامت کے الفاظ زبانوں پر جاری ہوتے ہیں۔ گویا وہاں اظہارمسرت ہے اور یہاں اظہار برأت پایا جاتا ہے۔ اس کا برمحل نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دلہے کے چہرے پر حیا آمیز خوشی کے آثار مچلتے دکھائی دیتے ہیںاور مجرم و خطاکار کی جبین خجالت و شرمساری سے عرق آلود ہوتی ہے۔بیان کردہ مثال سے ہم اس نتیجہ پر پہنجے کہ ایک فرد کا اپنے معاشرے یا دیگر افراد سے جدا گانہ حیثیت مستحسن بھی ہو سکتی ہیں اور با عث ننگ و عار بھی۔ممتاز شخص اگر کسی اچھے کارنامے کی وجہ سے ابھر کر سامنے آگیا تو اس کی عزت و توقیر دوبالا ہوگی۔ اس پر پھول نچھاور ہوں گے بصورتِ دیگر یہی امتیاز اس کے وقار اور شخصیت کو لے ڈوبے گا اور اس پر پھول نہیں برسیں گے بلکہ پتھروں کی بارش ہوگی۔ آؤ بھگت کے بجائے اس کودھتکارا جائے گا، اسے سماجی اور اجتماعی سطح پر دھتکار اور پھٹکار کا سامنا ہوگا۔ اس قسم کے انتخاب و امتیاز سے ہر انسان خائف رہتا ہے۔ ذہن میں اس طرح کا خیالی منظر بھی اضطرابی کیفیت پیدا کرسکتا ہے کہ ایک جانب و ہ شخص ہے جس کے ذہن میں یہ خیال گزرے اور دوسری جانب لوگوں کا اژدھام اسی شخص کے حق میں اظہارِ نفرت کررہا ہے۔معاشرے میں جرائم کی روک تھام کے لئے اس طرح کا خوف بہت ہی موثر ہوتا ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مومن کے سامنے اسی طرح کا ایک منظر کھینچا ہے۔ ان چند تمہیدی سطور کی غرض و غایت بھی درج ذیل منظر کی حساسیت کو اجاگر کرنا ہے اور قرآن پاک کی ایک آیتِ مبارکہ سے بقدر ظرف سامانِ عبرت حاصل کرنا ہے ۔ سورہ یسٰین کی آیت نمبر( ۵۹ )کو اس کے پس منظر کے ساتھ ذہن میں منعکس کیجئے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ قیامت بپا ہوگئی ہے ،روزِ حساب آن پہنچا ہے ،تمام جن و انس میدان محشر میں اپنے ہاتھوں میں دفتر عمل لئے لرزاں و ترساں ہیں،ہر سوالنفسی النفسی کا عالم ہے، کوئی کسی کا یارو یاور نہیں… سوائے پروردگار کے کوئی کسی کا حامی و ناصر نہیں۔ اس آ پا دھا پی کی فضا میںاپنے بیگانے سب یہاں پر یکساں ہیں۔ باپ کوبیٹے کی فکر نہیں، بیٹے کو باپ کا اَتہ پتہ نہیں،ماں اپنی بیٹی سے بے خبر ہے ،بہن اپنے بھائی سے لا تعلق ہے۔ با لفاظ دیگر ہر نفس اپنے ہی غم و رنج میں مبتلا ہے۔ اب ذرا اس اجماعِ عظیم کی ہیتِ ترکیبی پر بھی خیالی نظر دوڑائیے۔ پوری کائنات میدانِ حشر میں سمٹ آئی ہے۔ خالق کائنات کی عدالت برپا ہے۔ رسول کائینات ؐشاہد و گواہ اور بحیثیتِ شافع محشرؐ موجود ہیں۔ تمام انبیا ؑ و صالحین زینت افروز ہیں۔ ایسے میں ایک آواز گونجی:
’’اے مجرمو!آج تم چھٹ کر الگ ہو جاؤ‘‘(ترجمہ از تفہیم القرآن)
اتنے بڑے اجتماع میں بطور مجرم جو کوئی ممتاز ہوگا،جو کوئی بھی الگ ہوگا اس کی بدبختی کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور اس کی روحانی کیفیت کا احصا دنیاوی عزت و ذلت کے پیمانے سے نہیں ہوسکتا ہے۔چنانچہ جب بھی ایک انسان کو کسی خفت کا سامنا ہوتا ہے تو جسمانی آزار سے بڑھ کر اسے روحانی عذاب تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کو اس کی غلطی کی پاداش میں کوئی دوسرا شخص برسرِ بازار زوردار تھپڑماردے۔ تووہ اپنے چہرے کے درد کو اس احساس کے مقابلے میں ہیچ محسوس کر ے گا،جو ذلت کے تصور سے اس کے اندرون سے ابھرتا ہے۔ اس کے برعکس قیامت میں انسان کا روحانی پہلو پورے وجود پر غالب ہوگا۔ لہٰذا وہاں کی ہر سزا روح کو زیادہ متاثر کردے گی۔ دنیاوی عزت و ذلت کے بعض معیارات ایسے بھی ہیں جو سراسر غیر اصولی اور غیر منطقی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں دولت مند افراد کی ہرجگہ آؤ بھگت کی جاتی ہے خواہ وہ اس کے حقدار نہ بھی ہوں۔ اسی طرح غربت و تنگدستی کو باعثِ ننگ و عار تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بنیادی طورپر غریبی میں کوئی عیب نہیں ہے مگر روزِ قیامت ذلت و عزت کا معیار الٰہی اصولوں پر مبنی ہوگا۔ وہاں کی ذلت حقیقی ذلت ہے ۔یہاں کی ذلت کے بارے میں طے ہے کہ ایک مدت کے بعد وقت خود بخود اس کے نقوش مٹادیتا ہے یا پھر گناہ اور غلطی کی تلافی کرکے خود انسان اپنا وقار پھر سے بحال کرسکتا ہے لیکن ذلتِ عقبیٰ معدوم ہوسکتی ہے نہ اس کی تلافی ہی ممکن ہے۔ پھر اس انسان پر حیرت کیوں نہ ہو جو یہاں کی بے عزتی سے دامن بچانے کی حتی الامکان سعی کرتا ہو مگر روز قیامت مجرموں کی فہرست میں سے اپنا نام خارج کرنے کیلئے کوشاںنہ ہو۔ جب گناہ گاروں کو الگ کرنے کا حکم ہوگا تو اسے بھی انہی کے ساتھ الگ کیا جائے گا۔ آپ تصور کیجئے کہ جب اوائل ِ عمری میں کبھی اسکول ٹیچر نے بہت سارے بچوں میں سے چن کر بطورِ سزا آپ کو الگ کیا تھا تو آپ کی کیفیت دگرگوں ہو چکی ہو گی تو پھرآپ کے وجود کو میدانِ محشر کا وہ ہولناک منظر ہلاکر کیوں نہ ر کھ دے کر جب یہ آواز گونجے گی۔
ـ’’اے مجرمو!!ٓج تم چھَٹ کر الگ ہو جاؤـ‘‘ (ترجمہ از تفہیم القرآن)اور اس حکم کی تعمیل میں اسے بھی مجرموں کی صف میں کھڑا ہونا پڑے گا اور جمیع انبیا ؑو صلحاء کے بشمول تمام جن و انس اس منظر کا مشاہدہ کریں گے۔ اس پر مستزادیہ کہ رحمت اللعالمین ؐکی نگاہ کے سامنے ہی اتنی عظیم رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ایک حقیقی مسلمان کے لئے اس طرح کا خیال بھی اس کی غیرت و حمیت پر کاری ضرب ہے کہ کل روز قیامت اس کوبھی مبادا مجرموں کے ساتھ اٹھا یا جائے گا۔ عشق رسول ؐ کے اولین تقاضوں میں سے ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ اس کے دعوی ٰ داروں کو ایسے عظیم اجتماع میں کائنات کی محبوب ترین ہستی کے سامنے کسی قسم کی خفت و رسوائی کا سامنا نہ ہو ۔ جو مسلمان اس فانی دنیا میں خطارکار انسانی جمعیت کے سامنے خجالت کا بارِگراں دوشہائے حمیت پرلینے کے لئے تیار نہیں ہے، اسے کیوں کر یہ بات منظور ہو کہ کائنات کی عزیز ترین،معصوم ترین،اعلیٰ ترین اور اس کی محبوب ترین شخصیت کے روبرو خالقِ کائنات کی بار گاہ کا مناد اس کا نام بھی مجرموں کی فہرست میں پکارے اور اسے بطور مجرم الگ ہونے کا حکم سنائے۔کیا یہ روحانی عذاب ،عذابِ جہنم سے کچھ کم ہے؟خاصانِ خدا تو جہنم سے بھی زیادہ اسی شرمناک مرحلے سے خائف ہوا کرتے ہیں ۔ان کی عاجزانہ دعا یہ ہوتی ہے:
ہمیں اپنے نبی حضورِ اکرمؐ کے حضور شرمساری کا منہ نہ دکھانا ، اس لئے (اے خداوند!ِ روز جزا مجھ عاصی پر یہ کرم کیجئے)کہ( گناہوں سے اٹا ہوا )میرا نامہ اعمال نگاہ رسالت مآبؐ کے سامنے نہ لانا۔ آمین یارب العالمین ۔
|
Search This Blog
Sunday, 7 October 2012
IHSASE HAMIAT
Labels:
URDU ARTICLES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment