روبوٹ ٹیکنالوجی کے لامحدود امکانات جاوید ملک
روبوٹ ایک خود کار مشین ہے جو کمپیوٹر پروگراموں کی بدولت کا م کرتے ہیں۔ یہ شعبہ جدید ٹیکنالجی کا بھرتا ہوا شعبہ ہے اور مستقبل قریب میں اس سے سائنس دانوں نے کافی امیدیں باندھ کریں ہیں۔ حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں نے انسانی خصوصیات کا حامل ایک نیا روبوٹ متعارف کرایا ہے جسے سونامی اور زلزلے سے تباہ ہونے والے 'فوکو شیما جوہری بجلی گھر' کے بحران سے نمٹنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔جاپان کی ہونڈا موٹر کمپنی کی جانب سے ٹوکیو کے نزدیک منعقدہ ایک تقریب میں نئے روبوٹ کی رونمائی کی گئی جو کمپنی کے ’اسیمو‘ روبوٹ سیریز کا نیا ورژن ہے۔نیا روبوٹ نو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے اور پیچھے کی جانب دوڑنے کے علاوہ ایک فٹ تک چھلانگ لگانے، بند کنٹینر کو کھولنے اور گلاس میں مائع سیال انڈیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔روبوٹ تیار کرنے والے سائنس دانوں بتایا کہ روبوٹ انسانی صورتوں کو پہنچاننے اور انہیں ردِ عمل دینے اور بیک وقت پکار کر دیے گئے تین مختلف احکامات پر عمل درآمد کر سکتا ہے۔'ہونڈا' کا کہنا ہے کہ وہ 'فوکو شیما جوہری بجلی گھر' کے منتظم ادارے 'ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی' کے اشتراک سے تباہ شدہ بجلی گھر کی صورتِ حال پر قابو پانے کی کوششیں کر رہی ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ بجلی گھر کے ایٹمی ری ایکٹرز رواں برس مارچ میں آنے والے زلزلے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سونامی کے باعث متاثر ہوئے تھے۔ ادھرامریکی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا روبوٹ متعارف کرایا ہے جس میں ہر ہفتے انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہزاروں کیمیکلز کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس روبوٹ کے ذریعے نہ صرف لیبارٹریوں کی کارکردگی بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ مختلف چیزوں میں موجود مضر اجزا کی جانچ کے لیے انہیں جانوروں پر آزمانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس نئے تیز رفتار روبوٹ کو ماہرین ایک انقلابی اقدام کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے امریکی ادارے کے ڈائریکٹر رابرٹ کابلیک کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک سائنس دان سال بھر میں دس یا 20 کیمیائی مرکبات پر کام کرسکتا ہے لیکن نیا روبوٹ ہر ہفتے ایک ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔نئے روبوٹ پر پانچ بڑی امریکی وفاقی اداروں نے مشترکہ طورپر سرمایہ کاری ہے۔ یہ پانچوں ادارے کیمیائی مادوں کی جانچ پڑتال کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان اداروں میں ای پی اے اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ بھی شامل ہے۔ روبوٹ انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں موجود رہے گا۔ایک منصوبے کے تحت زہریلے اور صحت کے لیے نقصان دہ کیمیائی مرکبات کا ڈیٹا مرتب کرنے کے لیے ایک لائبریری بنائی جارہی ہے۔ فی الحال امریکہ میں ایسی کوئی لائبریری موجود نہیں ہے۔اس وقت روبوٹ کو صنعتی شعبے ،مصنوعات ، خوراک اور ادویات میں انسانی صحت کے لیے مضر اجزا کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔تیزی سے ٹیسٹنگ کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ روبوٹ میں ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی وقفے کے بغیر مسلسل کام کرسکتا ہے۔ اسے چھٹی کی ضرورت ہے اور نہ ہی آرام کے لیے وقت درکارہے۔اس سے قبل بعض تجربات جانداروں پر کیے جارہے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اب یہ کام بھی روبوٹ ہی سنبھال لے گا۔ آجکل انسان کے زیر استعمال بہت سے کیمیائی مرکبات کے تحفظ کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں۔ ہر سال تقریباً 15 سونئے کیمیکلز مارکیٹ میں متعارف کرائے جاتے ہیں۔ نیا روبوٹ سائنس دانوں کو نئے کیمیکلز کی ایک واضح تصویر پیش کرے گا جس سے انہیں مضر صحت اجزا سے پاک کرنے میں مدد ملے گی۔ نسل انسانی بقاء کیلئے سائنس دانوں کی نظر روبوٹوں پر ہے۔امریکہ میں مقیم ریمنڈ کرزوائل کی عمر اس وقت 63 سال ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اگر وہ خود کو 2050ء تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو پھروہ اپنے آپ کو روبوٹ میں تبدیل کر لیں گے۔نیویارک میں رہنے والے کرز وائل ،سائنس دان اور کمپیوٹر کے ماہر ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں انہوں نے دنیا اورانسانیت کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہوئے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ وہ کئی ایجادیں کرچکے ہیں جن میں الیکٹرانک کی بورڈ اور ایک ایسا آلہ بھی شامل ہے جس کے ذریعے نابینا افراد ہر کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے وہ ایسی خوراک پر کام کررہے ہیں جس سے انسان لمبے عرصے تک جی سکے۔کرزوائل کے پاس 13 یونیورسٹیوں کی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں ہیں اور وہ فلسفہ، روحانیت اور سائنس سے متعلق کئی تنظیموں کے عہدے داروں میں شامل ہیں۔کرزوائل کہتے ہیں کہ 21 ویں صدی کا انسان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس ہمیشہ زندہ رہنے کا موقع موجود ہے۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے والے پہلے شخص بننا چاہتے ہیں۔ کرزوائل کا کہناہے کہ میڈیکل شعبے میں ترقی سے انسان کی اوسط عمر میں اضافہ ہورہاہے۔ اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں اوسط عمر 80 سال سے بڑھ چکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2050ء تک ایسے لوگ بڑی تعداد میں نظر آئیں گے جن کی عمریں سوسال سے زیادہ ہوں گی۔ ان کے اعضاء قوی اور ذہنی صلاحیتیںبرقرار ہوں گے اور وہ اپنے معمولات عام افراد کی طرح سرانجام دینے کے قابل ہوں گے۔کرزوائل کہتے ہیں کہ 2050ء سے پہلے پہلے طبی شعبے میں حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں گے۔ علاج معالجے کا طریقہ کار یکسر بدل جائے گا۔ ٹیکنالوجی کے فروغ سیانسانی اعضا بنانا آسان ہوجائے گا۔ مشینوں اور موٹر گاڑیوں کے کل پروزوں کی طرح انسان اپنے خراب اعضا کاعلاج کرانے کی بجائے انہیں باآسانی تبدیل کراسکے گا۔مستقبل کانقشہ پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بیماریوں کے علاج کے لیے آج کل کی دواؤں کی بجائے نینو ٹیکنالوجی سے کام لیا جانے لگے گا اورجوہری سطح پر کام کرنے والی یہ ٹیکنالوجی جسم کے بیمار حصے میں پہنچ کر، کسی دوسرے حصے کو متاثر کیے بغیر اسے ٹھیک کردے گی۔ کرزوائل کہتے ہیں کہ مستقبل کے انسان کی غذا زیادہ تر وٹامنز اور معدنیات پر مشتمل ہوگی جو اسے طویل عرصے تک زندہ اور صحت مند رکھیں گے۔ وہ 2050ء تک خود کو زندہ اور صحت مند رکھنے کے لیے روزانہ 150 سے زیادہ وٹامن اور معدنیات استعمال کررہے ہیں۔ روزانہ پانی کے آٹھ کلاس اور سبز چائے کے دس کپ پیتے ہیں۔ گوشت ، چکنائی اور چینی سے پرہیز ، باقاعدگی سے ورزش اور ہر مہینے اپنا طبی معائنہ کراتے ہیں۔ تاہم کرزوائل ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے صرف میڈیکل کے شعبے کی ترقی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ وہ اسے ہمیشہ کی زندگی کی سیڑھی پرایک قدم سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان اس زینے پر چند قدم اور چڑھ کر ہمیشہ کے لیے جی سکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ کیسے؟ زیادہ ترسائنس دانوں کا خیال ہے کہ تمام ترسائنسی ترقی کے باوجود انسانی جسم سے لامحدود عرصے تک کام نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ گوشت پوست سے بنا جسم آخر کس حد تک ساتھ دے سکتاہے؟ ڈیڑھ دوسوسال یا اس سے کچھ زیادہ اور پھر اس کے بعد۔؟کرزوائل کا جواب بہت سادہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تب بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ مگرکیسے…؟ کرزوائل کا خیال ہے کہ اس کے بعد ٹیکنالوجی انسان کو زندہ رکھے گی۔ وہ کمپیوٹر میں انسان کا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کمپیوٹر کو انسان پر سبقت حاصل ہوجائے گی اور وہ انسانوں کے احکامات کی تکمیل کی بجائے خود سوچنے اور خود فیصلے کرنے لگے گا۔ وہ ذہانت میں انسان کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔کرزوائل اپنی ایک کتاب میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر کئی پیش گوئیاں کرچکے ہیں، جن میں سے کئی ایک حرف بحرف اور کئی ایک جزوی طورپر پوری ہوچکی ہیں۔حال ہی میں آئی بی ایم کے ایک کمپیوٹر واٹسن نے ذہانت کے مقابلے میں تمام انسانوں کو شکست دے کر77 ہزار ڈالر کا انعام جیتاہے۔کرزوائل کا نظریہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ذہانت رکھنے والا کمپیوٹر انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنا غلام بنا لے، انسان کو اس کے اندر داخل ہوجانا چاہیے۔ بظاہر یہ نظریہ کسی سائنس فکشن فلم جیسا لگتا ہے ، مگرکرزوائل مستقبل میں ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کئی تجزیہ کار ان کے اس تصور کو روحانیت کے قریب تر سمجھتے ہیں ، جس کے مطابق جسم فنا ہوجاتا ہے مگر روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور بعض روحانی علوم کے ماہرین کے خیال میں روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوسکتی ہے۔ کرزوائل بھی منتقلی کی ہی بات کرتے ہیں۔کرزوائل کے نظریے کی وضاحت میں ماہرین کا کہناہے کہ انسان کو اس کا دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ کمپیوٹر کی طرح ایک مخصوص برقی نظام پر کام کرتا ہے۔ اور یہی نظام غالباً اس کی اصل روح ہے۔کمپیوٹر کے برقی نظام کو، جو اس کے آپریٹنگ سسٹم ، یاداشت اور دوسری چند چیزوں پر مشتمل ہے، اسے دوسرے کمپیوٹر یا کسی ہارڈ ڈسک میں منتقل کیا جاسکتا ہے، اس کی نقل تیار کی جاسکتی ہے، اسے دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ روبوٹ کی شکل کے ذہین کمپیوٹروں میں ایسی چپ نصب ہوگی جس پرانسانی دماغ کا برقی آپریٹنگ سسٹم اور اس کی یاداشت کو منتقل کرنا ممکن ہوجائے گا۔لیکن وہ عام روبوٹ نہیں ہوں گے، بلکہ انسان ہوں گے مگرروبوٹ کی شکل میں…غالباً رے کرزوائل نے ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی کا نظریہ پیش کرتے ہوئے اسی سمت اشارہ کیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ 2050ء کا پہلی انسانی روبوٹ ریمنڈ کرزوائل ہی ہو۔
موبائل نمبر :-9906834557
courtesy: Kashmir Uzma Sringar
|
Search This Blog
Tuesday, 9 October 2012
ROBOT TECHNOLOGY KE LAMAHDUD IMKANAT
Labels:
SCIENCE
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment