Search This Blog

Sunday, 7 October 2012

DIL AZAR WA HAQ BEZAR FILM

دل آ زار و حق بیزار فلم
نیا اندازِ بو لہبی نیا بُت خا نۂ آذری
شفیع نقیب

اسلام اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ذات اقدس کے خلاف امریکہ میں تیار کی گئی ویڈیوفلم دراصل صلیبی اور صیہونی طاقتوں کی جانب سے تیار کی گئی پہلی یا آخری فلم نہیںبلکہ اس سے قبل بھی مغربی میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی بد باطن افراد اس طرح کی اہانت میز فتنہ انگیزیا ں کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے رہے ہیں اور آ ئندہ بھی اس طرح کی بدنما حرکات کی تو قع کی جا نی چا ہیے۔اسلام کے تئیں مغرب کے جنونی عناصر کا دل آ زار رویہ اختیار کرنا اورتوہین آمیز فلم اور خاکوں کے ذریعے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستا خانہ جسارتیں کرنا حقیقت میں ان بدقما شوں کے ذہنی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتی ہیں۔ مغرب جو خود کو متمدن اقوام میں سرفہرست سمجھنے کے احمقانہ پندار میں گرفتارہے اور اپنے اخلا ق باختہ فلسفۂ حیات کو بہ جبر منوانے کے مجنو نا نہ ضد پرا صرار پر اڑاہواہے ، فی الحقیقت تہذیب وشرافت کے تمام حدود و قیود پھلا ندکر ساما ن ِحرب و ضرب اور جھو ٹ کی تشہیر کر نے والے میڈیاکی طاقت کے بل بوتے پر دنیا کو زیر کرنا چاہتا ہے ۔صاف ظاہر ہے سائینس اور جدید تیکنا لو جی کے علا وہ بجز بے حیائی اور بدمعاشی کے ان کے پاس کوئی ایسی اخلاقی قوت یا الہامی کتاب کی سند پراستوار کوئی ضابطہ ٔحیات موجود نہیں ہے جسے پیش کرکے یہ دنیا کی امامت کا فریضہ انجا م دے سکیں۔اب ہر محاذ بالخصوص اخلاقی محاذ پر زچ ہوکر اہل مغرب اپنی منفی ذہنیت کے دباؤمیں پاگل پن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس کا بین ثبو ت یہ ہے کہ بار باراور جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے خلاف دل کی بھڑاس نکال کر مغربی ممالک دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو مجروح کرکے در اصل یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شرافت،انسانیت اور اخلاقیات کا وہی ماڈل لائق اتباع ہے جسے مغرب کے سیاہ کاروں نے تجویز کیا ہو ۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کو خاکم بدہن نشانۂ تنقید بنانے کے پیچھے اُن کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک میں خو د ان کے اپنے با شعور، روشن خیال اور با ضمیر شہری جو تہذ یب مغرب کے مکروفریب اور اس کے داخلی جا ں لیوا نقائص سے نجا ت پا نے کے لئے امن اور حق کے متلاشی ہو نے کی بنا پر دامن توحید میں آ با د ہو رہے ہیں، ان کے دلوں کا میل ، ضمیروں کا زنگ اُٹھ رہا ہے ۔ اس چیلنج کا علمی توڑ کر نے کی بجا ئے مغرب کے مجنون امن کے نظریے اورسچائی کے واحد رول ما ڈل یعنی اسلام اور داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے شکوک و شبہات پیداکر نے کی جی توڑ شیطا نی کا وشیں کر رہے ہیںتاکہ اپنے ریوڑ کو راہِ حق اختیار کرنے سے باز رکھ کر با طل پر کمر بستہ رکھا جا ئے۔ یہ کام مدت مدید سے وسیع پیما نے پرہورہا ہے ۔چنا نچہ اس بارباسولی نکولا نامی مشنری نے اپنے دیگر شیطان صفت ساتھیوں سے مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں توہین آمیز اور گستاخانہ الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر کے تمام حق دشمن مفتن چہروں سے وہ مصنوعی پارسائی کی نقاب بھی اُتاردی جس کا چرچا دنیا بھر میں کر کے یہ گھٹیا عنا صر حق دشمنی کا اپنا من پسند گھناؤ نا کھیل رہے ہیں۔ یہ لو گ دنیا کے کونے کونے میں جس جھوٹ اور شرانگیزی کا پرچار کررہے ہیں۔ اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور دین اسلام اور مسلمانوںکے خلاف اس طرح کی زہر نا ک مہم بھی اس کا حصہ ہے ۔ اگر ان میں اخلا قی جرأت ہے تو ا انہیں برملا یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ یہ جو صلیبی جنو ن کا سودا سروں میں سما کرامریکی اور اسرائیلی افواج کے زیر سایہ مسلم ممالک میں دہشت اور بر بریت کاماحول ی نا ٹو کے کما نڈ میں یہ مما لک بپا کر رہے ہیں، وہ دراصل ان کی شیطانی سیاست اور مذہبی تعصب اور تنگ نظری کارستانی ہے اور یہ کہ اس ضمن میں شان رسول صلعم میں گستاخی کرنا ٰ ان کے حق دشمن ایجنڈے کی ایک مجبو ری ہے۔ بہرکیف صیہونی طاقتیں اقرار کریں یا نہ کریں اللہ تعا لیٰ نے قران میں جا بجا ان پرفرد جرم عائد کرکے ان کی فطرت میں موجود دغابازی، سود خوری،طمع،لالچ،بے راہ روی،نخوت اور رعونت کے منفی خصائل اور دھوکہ دہی کی عکاسی کی ہے اور ان کے لئے ذلت اور عالم گیر رسوائی کامژدہ بھی سنا یا ہے ۔ یہودیوں کے نگیٹوکردار کی قرآن نے جس انداز سے تصویر کشی کی ہے اس میں تمام انسانوں کے لئے درسِ عبرت ہے۔قرآن نے جو قرارداد جرم ان کے خلا ف تا قیا م قیا مت مرتب کی ہے، اس کی گواہی خو د ان کی بعض الہا می کتابوں تک میں دیکھی جا سکتی ہے۔

یہ کو ئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آزادیٔ اظہار کی آڑ میں دیگر مذاہب بالخصوص دین اسلام اور رسول اللہ صلعم کی شان میں گستاخی کرنا مغربی حکو متو ں اور مسلم مخالف قوتوں کی پہچان بن چکی ہے ۔ ان کے ماتھے پر تب تک بد نامی اور ذلت و رسوائی کا یہ داغ موجود رہے گا جب تک ان کے دلوں کے اندر اس ناسور زدہ سوچ کو مٹانے کا کام خود ان کے اپنے دانشور، مدبر اور فلسفی نہیں کر تے اور یہ ان کی عقل ٹھکا نے لگا نے کے لئے مقصد زندگی کے با رے میں ان کے زاویۂ نگا ہ کو بد لنے اور ما دیت ورو حا نیت کے ما بین کشمکش اور آ ویزش میں حق کا ساتھ دینے کے لئے ہدایت اوراصلا ح کا دامن نہیں پکڑتے ۔حقیقت حال یہ ہے کہ چا ہے دانش ورانِ مغرب اسے تہذ یبو ں کے تصادم کی خو د ساختہ اصطلا ح میں کتنا ہی چھپا دیں،بہر کیف مغربی اقوام ایک شدید نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان کی بے چین روحوں کے علاج کے لئے مغربی تہذیب میں کوئی تریا ق نہیںکیو نکہ یہ اپنے خالی پن کے سبب لب ِگور پہ مبہو ت کھڑی ہے اور انتظار کر رہی ہے کہ کب اس کے آ خری رسوما ت پورے کئے جائیں۔ دنیا گو اہ ہے کہ خاندان اور گھریلومعاملات کو بہ طریق احسن نپٹانے کیلئے ان کے پاس کوئی فطری حل یا نقش راہ موجود نہیں ، بزرگوں اور نوجوان نسل میں دوریاں بڑھ رہی ہیں، خانگی زندگی کا تصور ٹوٹ چکا ہے ، جنسی بے راہ روی ،ہم جنس پرستی،لوٹ مار،ڈاکہ زنی اور دیگر بداخلاقیاں ان کے سماج کا خاصہ بن چکا ہے اور ملکی اورعالمی پیمانے پر ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظاہرہ مسلم ملکوں میں اُن کی یو رشوں اور سازشوںاور اس کے نتیجے میں خون ریزی دیکھ کر ہی سمجھ میں آتی ہے۔ عورتوں کی نیلامی، گلی کوچوں میں عریانیت اور فحاشی کے نظارے، نوجوانوں میں منشیا ت ،بے راہ روی ،بزرگوں کی ناقدری اور بے خدا سماج میں نوجوان نسل کی بے چینی نے مغربی عوام کو ایک ایسے نفسیاتی کشمکش میں مبتلا کیا ہے۔یہ لوگ دل کے سکون کے لئے شراب،شباب اور نشہ آور ادویا ت میں ڈوب ر ہے ہیں۔ مذہبی مقامات کے اندر ان کے مبلغین کے سیاہ کارناموں اور جنسی جرائم کے کیا کیا گل کھلاتے ہیں اور خیرات کی آمدنی کو مذہبی پروہت عیا شیوں میں پھو نک کر درپردہ اپنے شیش محلوں میں کیا گل کھلا تے ہیں ، دنیا اس سے بے خبر نہیں۔ کس طرح بر ہمچار اور سنیا س کی آڑ میں مال وزر کی ہو س رانی چلائی جا رہی ہے اور عورتوں کی عصمت و عزت کس کس عنوان سے لٹتی ہے، خود مغربی ذرایع ابلاغ ان رنگین داستا نو ں کی تشہیر کا سامان کر رہے ہیں۔غرض یہ کہ مغربی معاشرہ ہمہ گیراخلاقی بحران میں مبتلا ہے اور بدی و بُرائی کے دلدل میں دھنس رہا ہے ۔ اب ان میںشاید بچنے کی امید بھی باقی نہ رہی ہے۔ ہتھوڑے اور درانتی کا انتم سنسکار تو نہتے افغانیوں نے کیا، ان بدبختوں کے لئے کفن دفن کا انتظام کہاں سے ہوگا ،کن کے نصیب جاگیںگے اور کن ہاتھوں سے یہ مبارک کام انجام دیا جائے گا ،ابھی دیکھنا باقی ہے  ؎

فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب 

کہ روح اس مدنیّت کی رہ سکی نہ عفیف

زندگی اور اس سے جُڑے مسائل کاحل مسخ شدہ ادیان اور انسان کے تراشیدہ فلسفوں میں نہیں ہے، اس لئے حق کے متلاشی اپنے دلوں کی بے قراری دور کرنے اور اپنے درد کا درمان  ڈھونڈ نے کے لئے دیگر مذاہب بالخصوص اسلام کا بہ چشم و سر مطالعہ کررہے ہیں۔ لطف یہ کہ انہیں اسلام کی چھائوں میں وہ سب کچھ ملتا ہے جس کی ان کی محروم الا رث روحوں کو تلاش رہتی ہے۔یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ مختلف مذاہب کے ٹھیکیدار اور جاگیردار اپنے ہاتھوں سے نوجوان نسل کے پھسلنے اور ان کے دلوں میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کرپیچ و تاب دکھا رہے ہیں ۔ ادھر یورپی ممالک اپنے حدود میں عوام کا مشرف بہ اسلام ہو نے یا با لفا ظ دیگرمسلمانوں کی آبادی میں معتدبہ اضا فہ ہو نے سے انتہائی خائف ہیں ، با ت واضح ہے کہ اس صورت میں اہل پورپ کو دھڑکا لگاہے کہ اگر یہ سلسلہ جا ری رہاتو مسلم کمیو نٹی کا وجود ان کے درمیان اپنی عددی برتری کے سبب داخلی چیلنج بن جا ئے گی ۔ اگرچہ یہ خدائی اہتمام رسول محترم صلعم کے حق میں اس قرانی اعلان وَ َرْفَعَنَاَلک ِذْکرَکْ کے خدائی نقشہ سے طا بقت رکھتا ہے مگر اس کی راہ کھو ٹی کر نے کے لئے برابر نا قابل بیان اوچھے حر بے آزما ئے جا رہے ہیں تاکہ دیار مغرب کے افق پہ اس آ فتا ب عالم تاب کی ضیا پا شی روکی جا سکے۔ صداقت کے نو ر کی اسی تقسیم کا ری کو روکنے کے لئے ساحران تہذیب ِنوا ورشیشہ گران ِ مغرب جدید سامری کے مذموم ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔
باوجودیکہ وہ کو ئی محا ذ خا لی نہیں چھو ڑتے تاکہ اسلامی شعائر کا مذاق اُڑے، پیغمبر اسلام صلعم کی سیرت پا ک کی حقانیت دنیا سے پو شیدہ رہے اور مسلما ن بہ حیثیت مجمو عی ایک انتہا پسند دین کے طور مسخ ہو کر رہے ، ان ساری کرتوتوں کے با وصف اسلام اور رحمت اللعالمین صلعم کے تئیں عام لوگ نہ صرف تجسس اور سنجیدگی کے ساتھ مائل ہو رہے ہیں بلکہ اسلام کی پیا ری تعلمات کے قائل ہو کر دامن رسالت ؐ میں پنا گزین ہو نے اور اللہ کے آ خری رسول صلعم کے گرویدہ ہو رہے ہیں۔ مغرب میں اس وقت با قی مذا ہب کے مقابلے میں اسلام ہی واحد دین ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بڑ ی بڑ ی سرکردہ شخصیات روز اسلام کو دریا فت کر کے اپناساحل مراد پا تے ہیں ۔ اگر دیار مغرب میں مسلما نو ں بننے کی یہی رفتار رہی تو عنقریب وہاں مشرق سے زیا دہ دین حق کا چر چا ہو گا۔ اس صورت حا ل سے پر یشان ہو کر با طل کے دل ودماغ میں طو فا ن مچ رہے ہیں ۔ وہ جا نتا ہے کہ اس نے اشتراکیت سمیت انسان کے تراشیدہ کئی ازمو ں کو صفحہ ٔ  ہستی سے مٹا یا مگر دین اسلام کی پشت پر اللہ کی تا ئید وحما یت کی سند اعزاز ہے اس لئے وہ چا ہیے رشدی کا فتنہ کھڑا کرے ، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کو خو د زمیں بو س کراکے مسلمانو ں کو تاراج کر نے کا بہانہ ڈھو نڈے ، کا رٹونو ن سے اسلام اور مسلما نو ں کا مضحکہ اڑائیں ، یا فلم سازیا ں کر کے اپنے اند ر کی خبا ثتوں کا بے تحا شہ مظاہرہ کرے، اس کا ہر فلسفہ ، ہرازم اور ہر سیا سی وعسکری اتحاد ، اس کا ہر حربہ اور اس کا ہر جھو ٹ اور دیر داؤ پیچ اسلام کے سامنے پسپا ہونا ہی ہونا ہے اوراسے ہا ر نے کے سوا کچھ اور نہیں کر نا ہے ۔

مغرب کے خدا بیزار عناصر کی ریشہ دوانیو ں سے آ ج تک یہی ہو اور آ گے بھی یہی ہو گا کہ تعفن اور فالج زدہ تہذیب کے چنگل سے جا ن چھڑا کر اسلام کے حصار میں آ نے والے صالح مزاج اہالیانِ مغرب اپنے آ با ئی فلسفۂ حیا ت سے لا تعلقی کا اعلان کریں گے اور ابھی کئی دہا ئیو ں تک یہ با طل کے پرستا روں کی نیندیں حرام کر یں گے ۔ طا غوت کے پروردہ عنا صر اپنی خفت مٹانے کے لئے بدترین حربے استعمال میں ضرورلا ئیں گے ہیں، جس کی ایک تا زہ مثال خو ن کھو ل دینے والی انگر یزی فلم ہے لیکن دنیا بھر میں مسلمانو ں کے صدائے ا حتجاج سے یہ پیغام شیطا ن کے ان مریدوں کو ضرور ملا کہ یہ چیزیں ان کے لئے گھا ٹے کا سوداہیں کیو نکہ با ت طے ہے کہ اس سے الٹا مغرب میں اسلام کی تبلیغ واشاعت میں زیا دہ وسعت اور سرعت آئے گی۔ یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ما ضی بھی میںصیہونی اور سر پھرے مشنریوں کو سرکا ری سرپر ستی کے با وجود منہ کی کھانی پڑی ۔ حتیٰ کہ ان کی فتنہ پرداز اسلام مخالف سرگرمیوں کے با وجودخودان کے ہی کئی نام نہادمفکرین نے اگرچہ رسول اللہ صلعم کے خلاف اپنے دلوں کی بھڑاس نکالنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی لیکن انہیں چا ر ونا چا ر تسلیم کرنا پڑا کہ پیغمبر اسلام صلعم کا کردار بے داغ ہے اور یہ کہ مستقبل میں اگر کوئی دین رہنمائی کے قابل ہے تو وہ صرف اسلام ہے ۔ ہندوستان میں انگریزسامراج کے دوراقتدار میں ان کے ایک گورنر سر ولیم میور نے حضور صلعم کے خلا ف اپنی ایک کتاب ’لائف آف محمدؐ  ‘ میں یہ لکھ کر کیا خود اپنی باطل تھیو ری کی تکذیب نہ کی کہ ’’ہماری تمام تصنیفات محمد صلعم کے چال و چلن کی عصمت اور اور ان کے اطوار کی پاکیزگی میں جو اہل مکہ میں کم یاب تھیں، پرمتفق ہیں‘‘۔ میور جیسے کٹر اسلام مخالف کو یہ لکھنے پر اس لئے مجبور ہونا پڑا کیونکہ وہ جا نتا تھا کہ تما تر مخالفتوں اور رقابت وعناد کے با وجود پیغمبر اسلام صلعم کے زما نہ میں مکہ و مدینہ کے بدترین مخالفین بھی آپؐ پر کردار اور گفتار کے حوالے سے کوئی ادنیٰ الزام تک نہ لگاسکے ۔

یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ مغرب کے پاس  جدیدیدنیا کے لئے کوئی ضابطۂ حیات یا اسلوبِ زندگی کا نظام نہیں جس سے وہ  انسانی دنیا پراپنی فوقیت کی دھا ک بٹھا سکے ۔ وہ زیادہ سے زیا دہ وہ غریب اور کمزور وبے نو اقوموں اور مصیبت زدہ افراد کی نارسائی کا نا جا ئز فا ئدہ اٹھا کر فائدہ اُٹھاکر ان کو اپنے ہتھیا روں سے تہ تیغ کر سکتے ہیں یا جنسی بے راہ روی اور مادی فوائد کا لالچ دے کر کسی کسی کا ایمان لوٹ سکتے ہیں۔ اس کے بر عکس اسلام کے مخلص وبا ہو ش داعی نہ کسی کو عسکری دباؤ میں ڈال سکتے ہیںنہ کسی کو لا لچ کے دلدل میں پھنسا سکتے ہیں بلکہ یہ بے تیغ سپاہی اسلام کی ا پنی ابد ی صداقت اور دین کے دنیوی حسن کا مظاہرہ کر کے ان کو اپنے رفیع الشان پیغمبر ؐ کے بلند ترین کردار سے دائرہ اسلام میں لاتے سے۔ تما م تر خرابیوں اور کو تا ہیو ں کے با وجود حقیقی مسلمان جب بھی کسی قوم یا فرد کے سامنے دین پیش کرتے ہیں تو اخلاق کی قوت اور خلوص کے اُس طریق کار سے مخا طبین کے دلوں کو مسخر کرتے ہیں جو نبی ٔ رحمت صلعم نے ان کو سکھا ئے۔ ما ضی قریب میںافغانستان میں کئی ایک صحافیوں نے جو ایک خاص مسیحی مشن کے تحت افغانستان میں داخل ہوئے تھے،کو جب نہتے افغان طا لبان نے ان کی مشکوک سرگرمیوں کی پا داش گرفتار کیا تو انہی میں سے ایک سرکردہ خا توں صحافی ان کے طریقۂ کار اور حسنِ سلو ک سے اندرہی اندر متاثر ہو کر اسلام کواپنا دل دے بیٹھی اور دین اسلام کو گلے لگالیا۔یہاں نہ زور زبردستی نے کام کیا اور نہ لالچ نے۔بس اسلام کی سادہ اور دل کو موہ لینی والی تعلیمات نے پڑھے لکھے مغربی لوگوں کو حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبورکیا۔

 ایک انتہا ئی اشتعال انگیز فلم بنا کرتوہین رسالتؐ کے مرتکب افراد نے پریشاں حال اور دبے کچلے اوربے عمل مسلما نو ں کے دل میں مشتر کہ طور موجود حُب رسول صلعم کے جذبے کا مظاہرہ دیکھا اور یہ بھی سمجھ لیا کہ مسلمانوں کے زندگی کی سب سے عزیز متاع اپنے رسول صلعم سے محبت ہے ۔عالمین کی سب سے معزز اور مقدس  ترین ہستی سے ہماری انمٹ محبت میں کوئی دو رائے نہیں لیکن کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ ہماری زندگیوں میں اس مقدس ہستی کی تعلیمات کا کتنا اثر باقی رہا ہے ؟ خود مسلمانوں کی زندگیوں سے دین اسلام کا اظہار کس طرح ہو رہا ہے۔یہ تو حیران کرنے والی بات ہے کہ ہم دعویٰ تو حُبِ رسول صلعم کا کررہے ہیں لیکن ایک مٹھی بھر اقلیت کو چھوڑ کر ہماری زندگیوں میں دور دور تک ان کی پاک تعلیمات کاکوئی اثر نہیں دِکھ رہا ہے۔جس ہستی سے محبت ہو اس کا تقاضا ہے کہ اس شخصیت کی تعلیمات کی چھاپ ہماری زندگی میں صاف نظر آنی چاہئے ۔ ایمان اور عمل میں یکسانیت ہمارے دعوے کی صداقت بیان کرے گی۔دعویٰ کے ساتھ عمل بھی ہو تو دعویٰ کرنے والے کی بات پر یقین آئے گا، ورنہ شاید مغرب یہ طعنہ ہمیں دے گا کہ جس نبی صلعم کی شان کو دوبالا کرنے کے لئے اپنی جان تک لٹانے کے لئے تم خلو ص قلب کے ساتھ تیا ر رہتے ہو، ان کی تعلیم کو عملا ً رد کر کے تم بھی ہما ری لا ئین پر چل رہے ۔ پھر ہم سے یہ بے جا گلہ کیو ں اور فضول لڑائی کس بنا پر ؟ ۔ یہ بات بسر وچشم تسلیم ہے کہ محمد عربی کے ہم سب گنا ہ گا ر ہو نے کے با وصف شیدائی ہیں مگر اس محبت کی لاج رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہ توجا نیں کہ ہمارے پاس دین و دنیا کی رہنمائی کے لئے ایک ایسا نظام رحمت ہے جو ہر جان بلب معاشرے کو بچالینے کے لئے نہ صرف کافی ہے بلکہ اس نظام پر عمل کرنے والی قوم کو دنیا کی قیادت و رہنمائی کی صلاحیت اور دنیا میں ایک امتیاز بھی عطا کرے گی۔اسلامی تعلیمات سادہ اور پر کشش ہونے کے باوجود اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلم امت خود اس کا عملی نمونہ بنیں۔اگر ایسا ہوا تو غیر مسلم ،مسلمانوں کے طرز عمل کو دیکھ کر ہی اسلام سے متاثر ہوسکتے ہیں ۔برعکس اس کے اگر یہ ہم سے نہ ہو سکا تو اللہ تعالیٰ کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں کہ وہ خیر امت کے لقب کے لئے کسی اور قوم کا انتخاب کرے جو مغربی دنیا بھی ہو سکتی ہے ، البتہ ہمیں اس نعمت سے خدا نخوا ستہ محروم کیا جا سکتا ہے ۔ہمیں یہ بھی جا ننا چا ہیے کہ اسلام محض چند قوانین کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک خدا کے پسندیدہ اور مقر ر کردہ  واحد ضابطۂ حیات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے اوررحمت کا بحر بے کراں ہے جو تڑپتی اور سسکتی روحوں کو سیراب کرتا ہے اورویران دلوں میں امن و سکون کی پر کیف بہاروں کا موجب بھی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم خود کو دامنِ اسلام سے اپنی وابستگی کا اظہار صرف عقیدے کی حد تک نہ کریں بلکہ عمل کی سطح پر بھی یہ ہماری زندگیوں میں نظر آئے ۔ اسی سے دریدہ دہن عنا صر کو شکست فاش ہو گی۔ 

……ختم شد……

 موبائل نمبر:-  9622555263

No comments:

Post a Comment