Search This Blog

Wednesday, 31 October 2012

ISLAH TALAB NIZAM TALEEM

اصلا ح طلب نظامِ تعلیم
ترقی کا ضامن اُجالوں کا حامی


کئی دہائیوں قبل کے تعلیمی نظام اور آج کے ایجو کیشن سسٹم میں ایک بہت بڑ ی خلیج صاف صاف نظر آ تی ہے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاںہے کہ کتنے بڑ ے اور معروف اسکالر، سائنس داں، جج، وکیل، ڈاکٹر،انجینئر اور دیگر اعلیٰ عہدیدار،لیڈران،شعراء وادباء نے اپنے کیریئر کی تعمیر کے لئے کسی پرائیوٹا سکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ انہوں نے سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی اور کا رزار حیا ت  کے مختلف شعبوںمیں ممتاز ہو گئے کہ آ ج بھی ان کی صلا حیتوں اور کنٹربیو شن کی مثا لیں فخراً دی جا تی ہیں مگر آج کل ہماری نئی نسل تعلیم اچھے نامی گرامی نجی تعلیمی ادارو ں میں تعلیم وتدریس کا فیضا ن حاصل کر کے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی چلی جاتی نظر آرہی ہے۔ جہا ں تک سر کا ری تعلی،ی ادارو ںکا تعلق ہے ان کا خدا ہی حا فظ ہے ۔ ان میں کو ئی ڈھنگ کا کا م نہیں ہو تا ۔ حا لا نکہ بجٹ کا ایک وافر حصہ اسی مد پہ خر چ ہو تا ہے اور بڑ ی بڑی تعلیمی اسکیمیں اور پروجکٹ کروڑ و ں رو پے کا صر فہ اٹھا کر طمطرا ق سے شروع کئے جا تے ہیں تا کہ علم و آ گہی کے چراغ ہر سو اجا لا کر یں لیکن یہ سب ہا تھی کے دانت جیسی با تیں ہو تی ہیں ۔ یہ الگ معا ملہ ہے کہ سیا سی ایوانو ں سے لے کر عوامی اجلا سوں میں حکو متی اکا بر ین گلا پھا ڑ پھا ڑ کر شرح کوخو اندگی بڑ ھ جانے کے بلند با نگ چر چے اور اعداد وشمار کے گو رکھ دھندوں سے اپنے ’کا ر ہا ئے نمایا ں‘کا ڈھو نڈرا پیٹ کر اپنی دھا ک بٹھا تے ہیں ۔یہ بات خم ٹھو نک کر کہی جا سکتی ہے کہ سر کا ری اسکو لی نظا م ایک ڈھکو سلہ ہے جو تعلیم کے نا م پر ایک بد نما دھبہ ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اسکولوںاور کالجوں میں تعلیم دینے والے اساتذہ کرام یا نظام سنبھالنے والے حکمران اور افسر شاہی یا پھر پورا سماج؟ اس نکتے پرایک واقعاتی اور مبنی بر صدا قت تجزیہ کیا جا ئے تو معلوم ہوگا کہ اس خرابی میں کو ئی ہی ایک واحد ذمہ ادر نہیں بلکہ یہاں کے عوام ،یہاں کے حکمران ، بیرو کر یسی اور اساتذہ حضرات سب اس میں برابر کے شریک ہیں۔
جہا ںتک عام لوگوں کی ذمہ داری کا سوال ہے، اس سلسلے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے دانستہ یا نا دانستہ غفلت برت رہے ہیں۔شہر ہو یا گائوں،قصبہ ہو یا دیہات، میدانی علاقہ ہو یا پہاڑی علاقہ جہاں بھی سرکاری اسکول قائم ہو،وہاں کے رہنے والے لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں میںداخلہ تو دلواتے ہیں مگر اس کے بعد ان پر بچے اور بچی کی ذ ہنی نشونما اور اخلا قی تربیت کے حو الے سے کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،اس کی طرف زیا دہ تروالدین یا افراد خا نہ تو جہ دیناگوارہ نہیں کرتے۔اپنے بچے اور بچی کی اصلا ح کا رانہ دیکھ ریکھ، اسکول سے ان کے واپس لوٹنے کے بعد ان کی پڑھائی کے متعلق جان کاری حا صل کر نا، پڑھائی لکھا ئی اور دیگر غیر نصا بی سر گرمیو ں میں ان کا حال چال اور سب سے بڑ ھہ کر اساتذہ کی کارکردگی جیسے اہم نکا ت کو در خوراعتناء ہی نہیں سمجھتے نہیں۔ اسکو ل میں بچہ اور بچی کی مشغولیت کیا رہی ، ان کی دلچسپی کن امور میں بڑ ھ رہی ہے اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اور میل جول کس طرح کے گھریلو ، سما جی اور ذہنی پس منظر رکھنے والے دوسرے ہم جماعتیوں کے ساتھ بڑ ھ رہا ہے، ان چیزوں کی طر ف متوجہ ہو نا ایسے والدین کا گو یا کو ئی فرض ہی نہیں ہو تا ۔ حتی ٰ کہ یہ لو گ یہ تکلف بھی نہیں کر تے ذرا سادیکھیں کہ آ یاان کے بچے یا بچیاں اسکول جاتے بھی ہیں یا نہیں،وہ اسکول کا ہوم ورک کرتے بھی ہیں یا نہیں۔ان باتو ں کی طرف والدین کی توجہ بھلا کیسے ہو جب کہ اس نا پائیدار دنیا میںجائز و نا جا ئز طریقوں سے دولت کمانے کی فکر سے ہی تقریبا ً سب لوگوں کو فرصت ہی نہیں ملتی۔ حا ل یہ ہو توبھلا وہ اپنے بچوں کی کیوں کر فکر کرسکتے ہیں؟
اگر چہ سبھی لوگ اس لا ٹھی سے ہا نکے نہیں جا سکتے میںشامل نہیں ہیں کیو نکہ محنت، ایمان داری اور مشقت سے چا ر پیسے کمانے والے بھی ہمہ وقت اپنے کام دھندے میں مصروف ہو ے کے با عث اپنے اسکو لی بچوں اور بچیو ں کی جانب پو ری یا جزوی تو جہ بھی نہیں دے پا تے ۔ پا پی پیٹ کے ہا تھو ں مو جو دہ کمر توڑ مہنگا ئی کے زما نے میںمجبو راً ہی سہی یہ بھی ان کی طرف عدم تو جہی کے مر تکب ہو نے کے الزام سے بچ نہیں سکتے ۔  یو ں والدین بھی غیر شعوری عالم میں اپنے لخت ہا ئے جگر کی تباہی کا سامان خود مہیا کرتے ہیںاور بعد میںخودان کاخمیا زہ بھی بھگتے ہیں۔ بچو ں کو حد سے زیا دہ لا ڈ پیا ر دینااور اپنی ما لی استطا عت سے ما وراء بچوں  اور بچیو ں کو بلا ضرورت ان کی ضد یا فر ما ئش پر تمام سہولتیں انہیںمیسر رکھنا بھی بچے کو تعلیم وتر بیت کے نور سے دور لے جا نے بلکہ الٹابگاڑنے کا سبب بننا لازمی ہے۔ آج سے تقریباً تیراہ یا چودہ برس پہلے جب ہم اسکول جاتے تھے تو کبھی کبھی میلوںپیدل چل کر سفر کرنا پڑتا ،جیب خالی ا ورورد ی پھٹی ہوئی،ایک دوسرے کی کتابوںسے پڑھائی کرتے یااُدھار کتابوں سے کام چلاتے تھے۔ یہ کو ئی ڈھکی چھپی با ت نہیں کہ ہما رے یہا ں آج کل جتنے بھی بڑ ی شخصیات مثلا ً معروف ڈا کٹر ، انجینئر، صحا فی ، دانشور ، جج، وکیل، اسکالر، فلاسفر، پروفیسرا وردیگر اعلیٰ آفیسران حضرات زند گی کے مختلف میدانوں میں اونچا مقام رہیںسبھی ان ہی حالات میںتعلیم وتعلم کا نورحاصل کر چکے ہیں۔ البتہ یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی ہے کہ خود ان کی محنت ، ذہا نت ، سنجیدگی کے اوصاف پر والدین کی بہتر نگرانی، کا ر آ مد اخلا قی فضا ، مذ ہبی ماحول اور سب سے اول ایک متوازن نظام تعلیم کا ان کی شخصیت بنا نے میں بڑا اہم رول ہے۔ والدین با لخصوص ان پر کڑ ی نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ اکثر ایسے بھی ہیں جو خود فاقہ کشی کرتے تھے مگر بچوں کی تعلیم وتر بیت کے ساتھ کو ئی چھو ٹا سا بھی سمجھو تہ نہ کر تے ۔ یہی ایک تعمیری جذبہ تھا جسے بچہ بھی اپنی رگ رگ اور نس نس میں موجز ن کرتا تھااور بڑے شوق و ذوق سے دل لگا کرکے ساتھ پڑھتا لکھتاتھا۔اپنے والدین کے حالاتِ زندگی خصوصی طور ان کی غریبی اور وآ رزوئیں کبھی اس کی آنکھوںسے اوجھل نہیں ہوتی تھیں۔اس لئے وہ بھی ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے اپنے ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی کا احترام کرتا تھا۔ وہ اپنے بڑوںکے نقش قدم پر چل کر ایمان داری،نیک نیتی، محبت اور خلوص کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوںکو جاری رکھتا تھا اور معاشرے کے لئے فوائد کا ایک بحر بیکراں بن جا تاتھا ۔
 اساتذہ حضرات بھی ان دنوں حلال خوری اور احساس ِ ذمہ داری میں یکتا ئے روز گا ر تھے۔ اپنی تدریسی ذمہ داریاںنہا یت ہی خوش اسلوبی اور نیک نیتی سے نبھانا ان کی فطرت ثا نی تھی ۔وہ اسکول میںزیر تعلیم بچوںکو محض اپنا لا ڈلابچہ سمجھ کر اس کی تعلیم و تربیت میں کو ئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے بلکہ ایسے بھی مسلم و پنڈت ٹیچر گزرے ہیں جو طا لب علموں کو نہا نے دھو نے اوران کی ذا تی ضروریات پو ار کر نے میں اپنے خون پسینہ کی کما ئی کو شوق سے لتا دیتے مگر افسوس آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ آج وہ اساتذہ ماضی کے افسانو ں میں زندہ ہو ں تو ہو ں عملا ً ان اک کو ئی وجو د نہیں،۔آ ج کا ٹیچرگزرے ہو ئے زما نے کے اپنے ہم پیشہ کا عشر عشیر تک کا کنٹری بیوشن نہیں کر ات ۔ آ ج ایجو کیشن کمر شیلائز ہو کر محض دوکا نداری اورنفع نقصان کا دھندا بن چکی ہے۔ گزشتہ برسوں سے ایسے دل آ زار واقعات بھی رونما ہو یئے جنہو ں نے اساتذہ کے عزت وقار کو ایک بہت ہی بڑ ا دھچکا دیا ہے ۔ ایسے ٹیچروں میں بے شک ایک ایسی اقلیت ہمیں قانو ن قدرت کے تحت دکھا ئی دے رہی ہے جو اپنے پیشے سے انصاف کر نے میں رشک ملا ئکہ ہیں لیکن ان کی تعداد آ ٹے میں نمک کے برا بر بھی نہیں ۔ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایسے  ھا ال ت میں تعلیم کا نظا م،خصوصیت کے ساتھ سرکا ری اسکولوں میں لکھا ئی پڑ ھا ئی کا سسٹم کو زنگ نہ لگے تو اور کیا ہو گا ؟
اساتذہ کرام کا پیشہ ایک عظیم اور مقدس پیشہ تھا اور تاقیام قیا مت رہے گا ۔کون انکار کرسکتا ہے کہ کل تک انسان سے انسان کی پہچان،قرآن وحدیث، مذہب و ملت کا تصور، خدا اور اس کے رسولؐ کی معرفت،صیحح اور غلط کی پہچان ، گناہ اور ثواب کا احساس،بڑوں ا ور بزرگوں کی عزت اور والدین کی خدمت جیسی شخصیت ساز باتیں تو یہی اساتذہ سکھاتے تھے،اور دینی و دنیوی مفید باتوں سے ہمکنار کراتے تھے، مگر افسوس کہ اب یہی اساتذہ اسکو ل میں جا کر کلا س روم کو ایک چٹی سمجھتے ہیں اور اگر وہا ں با دل نخواستہ جا تے بھی ہیں تو فلمو ں اور کر کٹ میچوں اور دوسری گپ شپو ں میں بچو ں اور بچیو ں کا قیمتی وقت ضائع کر نے میں کو ئی مضا ئقہ نہیں سمجھتے ۔ہے۔جس سما ج کا استاد بدل گیا، اس کا دل بدل گیا، اس کا جذبہ بدل گیا، اس سما ج کا زوال شروع ہو اور اس کا ضمیر بر با د ہو ا۔ آج کے اساتذہ حضرات اسکولوں کے بجائے گھروں میں نام نہاد تعلیم  وتدریس کی داکا ن سجا تے ہیںوہ بھی محض تجارت یا لوٹ مچا نے کی بنیاد پر۔ ہفتے میں دو دن سکول آنااور وہ بھی ۱۲بجے سے دو بجے تک،جب کہ پرائیو یٹ کوچنگ سنٹروں میں اپنا وقت بڑے شوق سے گزارتے ہیں۔ کو ئی افسر ان کو  روکتا تو کتا نہیں کیو نکہ یہ پہلے ہی ان کی جیب میں تے ہیں۔ اب ان کو فکر ہو تو کا ہے کی ؟
سرکاری اسکولوںمیں غیر تسلی بخش تعلیمی نظام ہونے کے علاوہ ان میں زیر تعلیم بچوںاور بچیو ں کے لئے اکثر وبیشتر کسی بھی قسم کی سہولت کا انتظام نہیںہوتا۔بچھانے کے لئے فرش کا نہ ہو نا، ٹوٹی پھوٹی عمارتیں ، موسمی حالات سے بچنے کے واسطے دروازوں، کھڑکیوں یا شیشوں فقدان ، کلاس روموں میںبچوں کی تعلیمی ضروریات کی عدم دستیا بی، یہا ں تک کہ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور بیت الخلا کی نا یا بی کا مسئلہ بھی ان اسکولوںکے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے۔پلے گراؤ نڈ کا نہ ہو نا، یا اگر یہ مو جو د ہو تو کھیل کو دکے سامان کامیسر نہ ہونا، سائنس تجربہ گاہ میں ضروری سامان کی عدم مو جو دگی بھی ان اسکولوں سے طلباء وطالبات کو تعلیم یا تو خام رکھ چھو ڑتا ہے یامنہ اس سے موڑنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ ایسی صورت حال میں سرکاری اسکولوں میںتعلیمی نظام کا روبہ زوال ہونا طے ہے ۔ اس پر طر ہ یہ کہ روزنئے نئے تعلیمی نصاب کا ادلنابدلنا ، اور پھرط یہ نصاب جب اساتذہ کی سمجھ سے باہر ہوتو بھلا طلباء کی کیا درگت ہوگی، وہ بات نے کی ضرورت نہیں۔اسکولوں میںاساتذہ کی تقرری، تبادلے ،نظم و ضبط،وقت کی پابندی کا خیال رکھنا اعلیٰ حکمرانوں کا ہی کام تھامگر جہا ں تک  اعلیٰ تعلیمی حکا م کا تعلق ہے وہ کبھی بھی ان اسکولوں کا رُخ نہیں کرتے ہیں،جس کی وجہ سے سرکاریا سکول محض ایک تماشابنے ہوے ہیں۔ حاصل بحث یہ کہ یہاں کے تعلیمی نظام کو ابتر کرنے اور زوال پذیر کر نے میںتینوںطبقے شامل ہے۔اگر ان تینوں طبقوں میںذرا بھربھی انسانیت، دیانت داری اور جذبۂ تعمیرموجودہو تو اس کو بروئے کارلاکریہ بات کوئی مشکل نہ رہے گی کہ تعلیمی نظام بہتر ہو جائے اور ہمارے عزیز و شفیق تعلیم کے نور سے منور ہو سکیں۔ یہ سب کچھ تبھی حاصل ہو سکے گا جب یہ تینوں طبقے سرکا ری ا سکولوں میں بچوں کے داخلے سے لے کر ان کی مو زوں ذہنی نشو نما کے لئے ایک دوسرے کے ستھ تعاون کر یں۔اساتذہ اپنے پیشے کو مقدس فرض سمجھ کر نبھائیں۔والدین یا یہاں کے عوام اسکولوں میں ہورہے تعلیمی کام کاج میں مداخلت کرنے سے پرہیز نہیں کریںاور حکام اسکولوںمیں ہمہ گیرسدھار لانے کے لئے اپنے تما م افرادی وقت کو استعمال کر یں اور ان کو پر کشش بنانے کی خاطر وہ تمام تر تعلیمی سہولتیں میسر کرنے میںدیر نہیں کرنی چاہیے ۔ سایھ ہی ساتھ ہیڈ آف دی انسٹی ٹیوٹ کو اس سلسلے میںپورے اختیارات دئے جا ئیں تاکہ وہ نچلے سطح پر بھی عوام کی خدمت کر سکے۔ واضح رہے اس تعلیمی نظام کو سدھارنے کی خاطر سماج کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ کوشش کرنی ہوگی ( بالخصوص نوجوانوںکو )،چاہے وہ کوشش انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی سطح پرتب جا کر اس نطام کی آ لا یشٔیںاور آ میزیشٔیںقصہ پا رینہ ہو ں گی ۔………………
رابطہ:-گوفہ بل، کنزر ۔ٹنگمرگ، کشمیر
ishfaqparvaz@hotmail.co.uk

No comments:

Post a Comment