پنجاہ و دو سال صرف کردم شب و روز
معلومم شدکہ ہیچ معلوم نہ شد
یعنی اپنی زندگی کے باون سال شب و روز اسی علمی کام میں لگا دئیے لیکن پھر بھی یہی معلوم ہوا کہ کچھ نہیں معلوم ہوا۔ تین سو سال تک بو علی سینا کی کتاب’’القانون فی الطب‘‘ یورپ کے میڈیکل کالجوں کے کورس میں انگریزی ترجمے کے ساتھ شاملِ نصاب تھی۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اقبالؒ بوعلی سینا کی علمی کاوشوں کو داد و تحسین دے چکے ہیں لیکن حضرت جلال الدین رومیؒ کے علم و عرفان کو ہی اقبال کامیابی سے ہمکنار تصور کرتے ہیں ؎
بُو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومیؔ پردۂ محمل گرفت
بو علی، علم و حکمت کی اونٹنی کی راہ کے گردوغبار میں گم ہے۔ رومی کے ہاتھ نے اونٹنی (سواری) کا پردہ پکڑلیا ہے۔ (یعنی رومیؔ منزل مراد پا گیا)وہ علم جو منزل مراد کی رہنمائی کے بجاے گمراہی کی طرف لے جائے وہ علم نہیں بلکہ عشق و آہ کے سرمایے کے لیے راہزن کا کام کرتا ہے۔ علم اگر بدگوہر اور کج فطرت بنتا ہے تو اقبال اسے حجابِ اکبر (بہت بڑا پردہ) قراردیتے ہیں ۔ کتنے عالم، فاضل ،دانشور ایسے بھی ہیں جو فقظ نِری دانشوری، ریاکاری، عیاری اور جہاں داری کے لیے اپنے علم کا ستعمال کرتے ہیں اور ایسے بھی عالم و فاضل موجود ہیں جو علم کے نام پر جہل، دجل، دقیانوسیت اور قدامت کے ایسے اسباق پڑھاتے ہیں کہ روشنی کے اس دور میں انکے علم و ہنر پر کفِ افسوس ملنا پڑتا ہے۔ ہمارے گردوپیش میں ہزاروں پروفیسر، ڈاکٹر اور آفیسر موجود ہیں جن کے پاس علم اور تحقیق کی بڑی بڑی ڈگریاں ہیں ۔ وہ اپنی تعلیم اور تحقیق کو باضابطہ سر راہِ بیچ دیتے ہیں ۔ اور ان لوگوں سے بھی یہ سماج محروم نہیں ہے،جو علم کو عام کرنے، تعلیم کے نور کو پھیلانے ، انسان سازی اور مردم دوستی کو بڑھا وا دینے اور صالح قدروں کی آبیاری کرنے میں اپنی طاقت ، توانائی ، صلاحیت اور وقت کو استعمال میں لا کر علم کے حقیقی وارث اور خادم بننے کی سعی و جہد کر رہے ہیں ۔
آج کی دنیا کو ایک بار پھر اسی علم کی روشنی سے منور ہونا ہے، جس علم کی بنیاد خدا کے انتہائی پاکباز، صالح، سچے اور ہر اعتبار سے کامل بندوں نے استوار کی ہے، ورنہ آج کا علم اور تعلیم انسانی شکل میں وحشیوں ، درندوں ، اور مادیت کے پرستاروں ے ہاتھوں میں آچکا ہے ؎
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم توجدھر چاہے اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
( اقبال ؒ)
-----------
رابطہ:-اقبال انسٹی ٹیوٹ یونیورسٹی آف کشمیر
No comments:
Post a Comment