Search This Blog

Wednesday 3 October 2012

MAZHAB AUR ADAB مذہب اور ادب

مذہب اور ادب

مذہب اور ادب کے موضوع پر غور کرتے ہوئے مجھے اکثر یہ خیال گزرا ہے کہ ان دونوں کی اساس ایک ہی ہے۔ مذہب وہ رشتہ ہے جو ذاتِ مطلق اور انسان کے درمیان ہمیشہ سے استوار رہا ہے۔ مذہب کا تعلق اس Substance (کسی شے کی اصل) سے ہے جو Phenomena (ایسے واقعات جن کا مشاہدہ ان کی وجہ اور جواز کا طالب ہو) کے پسِ پردہ ہوتا ہے۔ اور ان فرائض اور ذمہ داریوں سے بھی جو انسان پر اس ذات کے حوالے سے واجب ہیں کہ جو آفاقی، جاوداں اور بے کراں ہے۔ مذہب اپنے خاص تناظر میں ان سوالوں کا جواب فراہم کرتا ہے کہ ہم کیا ہیں؟ کہاں سے اس دنیا میں وارد ہوئے اور کدھر جارہے ہیں؟ ادب بھی مآلِ کار ذاتِ مطلق سے اسی وابستگی کی شرح اور تعبیر کرتا ہے۔ صرف شرح و تعبیر ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی توجیہہ بھی پیش کرتا ہے اور انسان کو ان ذمے داریوں کا جو مذہب کی رو سے اس پر عائد ہوتی ہیں، ان پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ان کی تاویلات کرتا ہے اور انسان کے دل کو زندگی کو سلیقے سے بسر کرنے میں جو دشواریاں اور مشکلات پیش آتی ہیں یا آسکتی ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے ڈھارس اور قوت عطا کرتا ہے۔
آپ نے یقینا دنیا کے سب سے پہلے عظیم ترین شاعر ہومر، جس کا تعلق یونان سے تھا، کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہوگا۔ اس کی نظمیں مذہبی ماحول میں سانس لیتی ہیں اور ایسے حیرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہیں جو انسان کو اس ذاتِ مطلق و جاوداں کی اطاعت پر راغب کرتی ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو ہدایت بخشتا ہے، نیکی کی ترغیب اور بدی سے پناہ مانگنے کے لیے۔ یونان کے الم ناک ڈراموں میں تو مذہب کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ایک الوہی نظام، ہمیشگی یا بے کرانیت، آفاقیت اور قانونِ خدا کی غیر تغیر پذیری، اس قانون کی خلاف ورزی کی سزا کی ناگزیریت اور اس پر قائم رہنے کا اجر یونانی المیوں کے اٹل عناصر تھے۔ ورجل کی شاعری بھی مذ ہب کی سریت اور انسان کی اس کے سامنے سپردگی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ لیو کریٹس کا شاہکار: De rerum natura انسانی ذہن کی اس کاوش میں ڈوبا ہوا تھا جو اس کائنات کی اور من حیث الکل وجود و عدم کی گتھیاں سلجھانے کی روداد کا آئنہ دار تھا۔ جنوب کے عیسائیوں کا دیو مالائی ادب اور ازمنۂ وسطیٰ کے ادب کا موضوع بھی وجودِ مطلق اور اس سے پیدا ہونے والے سسٹم سے وابستہ تھا اور اسکینڈے نیوین ممالک میں تو ادب اور مذہب کا سنگم عروج پر تھا۔
ادب اور مذہب دونوں ہی زندگی کی بہتر تشکیل و تعمیر کے خوگر ہیں۔ دونوں ہی عقل و دانش کے منظم استعمال کے قائل ہیں اور دونوں انسانی جذبات مثلاً محبت، احترام، خوف و ہراس اور سچ کی جستجو کے قائل ہیں۔ ادب اور مذہب دونوں ہی انسان کے ضمیر اور اس کے ارادے کے تقاضوں اور انسان کی آزادی، بھلائی اور اس کی قوتِ ارادی کے دائرۂ عمل کے قائل ہیں۔ دونوں انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر تسلط قائم کرنے والے عناصر کو فوکس کرتے ہیں اور اس کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دونوں ہی دراصل انسانی شرف اور وقار اور اس کی اہمیت اور ضرورت کو مانتے ہیں اور اسے سراہتے ہیں۔ مذہب اور ادب کے عظیم موضوعات میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے اور یہ موضوعات انتہائی حیات آفریں ہیں مثلاً محبت، جذبات، انسان کی قوتِ ارادی اس کا گناہ اور اس کی سزا اور اس سے نجات حاصل کرنے کے طریقے اور جبر و قدر کا مسئلہ، انسانی خود مختاری کی وسعتیں اور اس کی حدود یہ سب باتیں ادب اور مذہب میں مشترک ہیں۔ مغرب میں ان موضوعات پر دانتے، چوسر اور شیکسپیئر سے لے کر آج کے ناول نگاروں اور شاعروں تک سب نے بہت کچھ لکھا ہے اور بہت خوب لکھا ہے۔
جہاں تک ادب اور مذہب کے اسلوب کا تعلق ہے، اس میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں زندگی کی معنویت کو اجاگر کرنے میں سائنس سے زیادہ آرٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔ دینیات کو، جو مذہب کی سائنس سمجھی جاتی ہے، اگر ہم تجزیاتی استغراق سے پڑھیں اور سمجھیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ بھی بالآخر انسانی جذبات اور قلبی واردات کی تعبیر و شرح سے گہرا تعلق رکھتی اور اسے خاص اہمیت دیتی ہے۔ لیکن اپنے خاص انداز اور مخصوص اسلوب میں دونوں کا طریقہ منطق، فلسفے اور سائنس سے الگ ہوتا ہے۔ ادب اور مذہب دونوں ہی دلائل پر انحصار تو کرتے ہیں لیکن ان میں بہت کچھ عقل و خرد اور فلسفہ و منطق سے بالاتر ہوتا ہے، لہوذا دونوں زندگی کے اسرار و رموز ہمیں بیشتر اوقات اشاروں اور کنایوں میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی میں بھی حتمی تعقلاتی فیصلے نہیں ملتے۔ تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں انسان کی نجی زندگی اور اس کی محسوساتی شخصیت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، وہ تعقلاتی سطح پر بھی پورا اترتا ہے چونکہ وہ انسانی ہمدردی سے لبریز ہوتا ہے۔
مذہب ادب کو بہت ہی عمیق اور وسعت سے بھرپور موضوعات بخشتا ہے۔ آسمانی صحیفوں میں آپ ایسے استعارے اور کنایے اور تشبیہات پائیں گے جو شاید دنیا کی بہترین شاعری میں یا ادب میں بھی نایاب ہیں۔ اس کے چند نمونے مغرب کے مشہور ترین شعرا کی نظموں سے پیشِ خدمت ہیں۔ مغرب کے شعرا کی شاعری کو پڑھنا اس لیے لازم ہے کہ کیا ہمارے افسانے، کیا ناول اور کیا جدید شاعری، مغرب کے ادب نے مشرق کے ادب کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ اب تو وہ اس کا ایک جزوِ لاینفک بن گیا ہے۔ بعد میں مذہبِ اسلام نے مشرق کے ادب میں جو وسعتیں پیدا کیں، ان کی اہمیت اور ان کی خیر و برکت سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ ساری باتیں ہم اک ذرا تفصیل سے اگلی قسط میں کریں گے۔ اس کالم میں ہم صرف مغرب کی اس شاعری کے نمونے پیش کریں گے جس سے مذہب اور ادب کا صدیوں پرانا سنگم ہمارے لیے سمجھنا زیادہ آسان ہو جائے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ ذیل میں آپ جن نظموں کے ٹکڑوں کے تراجم پڑھیں گے، وہ دراصل نظموں کے تراجم سے زیادہ ان کے مفاہیم ہیں۔ ترجمے سے گریز اس لیے لازم ہے کہ ایک تو اس کی ضرورت نہیں، دوسرے یہ کہ یہ کالم کو بلا ضرورت طوالت کا شکارکر دے گا۔ تو آئیے دیکھتے ہیں شہرۂ آفاق برطانیہ کے شاعر پوپ اور جرمنی کے شاعر گوئٹے اور برطانیہ ہی کے شاعر ورڈز ورتھ کی شاعری میں مذ ہب اور ادب کا تال میل کس طرح نظر آتا ہے:
یہ ہیں پوپ جن کی نظم ایک ’’آفاقی مناجات‘‘ سے اقتباس پیشِ خدمت ہے: ’’اے ذاتِ قدیم تو جو میرے ادراک کے محیط سے ماورا ہے میں تیرے بارے میں بس اتنا ہی سمجھ سکا ہوں کہ تو خیرِ کل ہے اور میں نابینا ہوں لیکن پھر بھی تو نے مجھے اس گھور اندھیرے میں خیر و شر کو پرکھنے کی صلاحیت بخشی مجھے مقدر کا تابع کرنے کے بعد بھی مجبورِ محض نہیں کیا بلکہ میرے اندر نت نئے ارادوں کو باندھنے کا اختیار بھی پیدا کیا!‘‘ اسی نظم میں پوپ نے یہ دعائیہ کلمات بھی لکھے کہ اے خدا مجھے دوسروں کے دکھ بانٹنے کی توفیق عطا کر اور دوسروں کے عیب چھپانا اور ان سے ہمدردی کرنا سکھا اور انسان سے محبت کی اتھاہ گہرائیوں میں گم کردے۔
ورڈز ورتھ کہتا ہے: ’’ہماری روح کا مسکن اگرچہ آسمانوں میں ہے لیکن وہ نہ ہم سے بہت ہی دُور ہے نہ ہم پر عیاں۔ جنتِ گم گشتہ ہمارے بچپن کی معصومیت میں پنہاں ہیں اور جوں جوں ہم عمر رسیدہ ہوتے جاتے ہیں، ہم پراس دنیا کے قید خانے کی مادیت پرستی کی سلاخوں کے سایے گہرے ہوتے جاتے ہیں۔‘‘
اور یہ ہیں گوئٹے کے فائوسٹ کے چند الفاظ: ’’اے خدا جو ساری کائنات کو سنوارے اور سنبھالے ہوئے ہے، میں تجھے نہ دیکھتے ہوئے بھی دیکھتا ہوں، آسمانوں میں، زمین پر اور اپنی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون میں ترے وجود کو محسوس کرتا ہوں۔‘‘
آخر میں ٹینی سن کے یہ الفاظ: ’’خدا صرف کائنات ہی میں نہیں، ہمارے اندر بھی موجود ہے۔‘‘
اب اس کے بعد ہم مشرق کا رخ کریں گے اور دیکھیں گے کہ ادب اور مذہب مشرق میں کس رنگ اور طور سے بہم ہیں۔

…آخری قسط…

پچھلے کالم میں ہم نے مغرب کے حوالے سے بات کی تھی اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق، خاص طور سے برصغیر میں مذہب اور ادب کس طرح اور کب سے باہم ہیں؟ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مذہب اور شاعری پر بات کرتے ہوئے ہم مذہبی شاعری پر بھی بات کریں گے لیکن ان دونوں باتوں میں جو فرق پایا جاتا ہے اس کو اگر ملحوظِ خاطر نہ رکھا گیا تو ہم یقینا اپنے موضوع سے انصاف نہیں کر پائیں گے، اس لیے کہ مذہبی شاعری تو ایک طرح سے مذہب کی تبلیغ یا اُس کی پیغام رسانی کا ذریعہ ہوتی ہے جب کہ مذہب کا شاعری میں ایک فکر یا ایک اصول یا پھر ایک قدر کی حیثیت سے در آنا نہ تو کوئی مذہبی بھاشن ہوتا ہے اور نہ مذہبی تبلیغ بلکہ یہ تو حقیقت میں ادب اور مذہب کے روابط کا ایک وجدانی اور محسوساتی یا کہ تخلیقی سطح پر اظہار ہوتا ہے۔ مذہبی ادب بیشتر تمثیلی ہوتا ہے اور اس میں استعمال ہونے والی علامتیں اور تشبیہات سب تمثیلی ہوتی ہیں۔ جب کہ وہ شاعری جو مذہبی نہیں ہوتی بلکہ جس کو مذہب نے نمو بخشا ہوتا ہے، وہ اپنی روح میں مذہبی ہوتی ہے اور اپنی ہیئت میں شاعرانہ محاسن کو سموئے ہوئے ہوتی ہے۔ یہ بات آگے چل کر ادبی حوالوں سے اور شاعری کے اقتباسات سے زیادہ واضح ہو جائے گی۔
چلیے تو اب بات کرتے ہیں مشرق میں مذہب اور ادب کے تال میل کی۔ جب بھی انڈیا کے ادب کی بات چھڑے گی تو ’’مہابھارت‘‘ اور ’’رامائن‘‘ کا تذکرہ سب سے پہلے آئے گا۔ یہ دو نظمیں جو کہ اپنی اصل میں رزمیہ ہیں، ان میں انسانی فلاح و بہبود کے فروغ کی خاطر صفحات کے صفحات بھرے پڑے ہیں جن میں اخلاقیات کی پاس داری اور مذہبی احکامات کی پابندی کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یوں یہ نظمیں مذہبی ادب کے زمرے میں شامل کیے جانے کی مستحق ہیں۔ ان میں جو عقائد بیان کیے گئے یا جو فلسفہ یا آئیڈیالوجی ہے، ہم اس کو نظرانداز کرکے بھی ان سے محظوظ ہوسکتے ہیں، بشرطے کہ ہم اپنے مذہبی اختلاف کو بالائے طاق رکھ دیں، جیسے کہ مغرب کے ٹی ایس ایلیٹ نے کیا اور آئرلینڈ کے شاعر ییٹس نے۔
(اپنے اپنے عقیدے کے سیاق میں) نثر میں منشی پریم چند اور ڈپٹی نذیر احمد وہ بڑے نام ہیں جنھوں نے ادب اور مذہب کو اتنا قریب کردیا اپنے فن کے کمال سے کہ ان کے ناول اور افسانے پڑھ کر آپ کے دل میں یہ بات اُتر کر رہتی ہے کہ مذہب یقینا ادب کا سرچشمہ ہے اور ادب اس سرچشمے سے بہتا ہوا جھرنا۔ اب رہی شاعری کی بات تو کون ہے جو اس سلسلے میں سب سے پہلے مسدسِ حالیؔ کی بات نہیں کرے گا۔ مگر میں پھر آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مسدس کو پوپؔ کی عالمی مناجات کی طرح کی چیز سمجھنا ہوگا اور یوں وہ ایک مذہبی ادب پارہ ہے، جس میں مسلمانوں کی پس ماندگی، ان کے زوال کا نقشہ بیان ہوا ہے اور ان کی فلاح کی دعائیں مانگی گئی ہیں، بہت پرخلوص اورعاجزانہ انداز میں۔ یوں مسدس ایک مرقع ہے، اسلام سے محبت کا اور مسلمانوں کی بدحالی پر ایک پر گداز اظہار کا۔
اس سے پہلے کہ ہم اقبال کی شاعری میں مذہب کے انسلاکات کا ذکر کریں، غالبؔ کے بارے میں بات کرنا بھی ضروری ہے۔ اگرچہ غالب کے یہاں بھی بہت بلند شعر مذہب کے وسیلے سے تخلیق ہوئے، خصوصاً تصوف کے ذیل میں، لیکن غالب کی ظرافت نے جو کہیں کہیں مذہبی تصورات سے چھیڑ خانی کی ہے اس پر کچھ لوگ انھیں برا بھلا کہتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس شعر کو جو اکثر لوگ دُہراتے رہتے ہیں، اگر اپنے اندر ذرا سی ظرافت پیدا کرکے پڑھیں تو آپ غالب کی عمیق مذہبیت اور اس سے جنم لینے والی شاعرانہ لطافت کے قائل ہو جائیں گے۔ ان کے یہ اشعار:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
یا
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
یہ اشعار صرف کٹھ ملائیت کو جز بز کرنے کے سوا اور کوئی مقصد نہیں رکھتے اور غالب کی اس طرح کی شوخی اور چھیڑ خوباں والی عادت پر سنجیدہ ہوجانے اور تنقید کرنے والوں کے بارے میں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ غالبـ ہی کو نہیں سمجھتے۔ بہرحال اس نقطۂ نظر کے حق میں اور اس کے خلاف بھی لکھنے والوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں اور دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں کی بات میں اپنی اپنی جگہ وزن بھی نظر آتا ہے، لیکن اس وقت اگر ہم اس بحث کو چھیڑیں گے تو بات لمبی ہوجائے گی، جس کی اس کالم میں گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ ہمارے زیرِ مطالعہ موضوع سے ایسا کوئی خاص تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے اس بحث کو یہیں ختم کرکے ہم اس شاعر کی بات کرتے ہیں جس کی شاعری نے مذہب اور شاعری کے سنگم کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا اور وہ ہے اقبالؔ۔ ان کا مذہب کا مطالعہ، کیا مشرق اور کیا مغرب، کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن ان کی شاعری میں اسلام سے وابستگی کا اظہار ہند و پاک کی تاریخ کے اس موڑ پر ہوا جو سیاسی، اخلاقی، تہذیبی اور مذہبی لحاظ سے اپنا ایک الگ سیاق و سباق رکھتا تھا۔ اس دور کے اپنے کچھ تقاضے تھے، جن پر مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور قومی زندگی اور اُن کے مستقبل کا انحصار تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی شاعری میں اقبال کے لیے اسلام سے یہ وابستگی ایک بہت ہی گہرا تجربہ اور فکر انگیز امر تھا۔ ویسے تو حقیقت یہ ہے کہ صرف اقبالؔ ہی کیا، دنیا کے ہر بڑے شاعر کے ساتھ مذہب سے وابستگی کے تجربے میں ایسا ہی ہوا، مثلاً دانتےؔ، رلکےؔ، ییٹسؔ اور ٹی ایس ایلیٹؔ۔ ان تمام شعرا نے مذہبی تجرنے کو لاشعوری نہیں بلکہ شعوری طور پر قبول کیا۔ اقبال اور ہر بڑے شاعر کے الفاظ اس کے مذہبی تجربے اور اس کے مذہبی جذبات کے عکاس ہوتے ہیں۔ لیکن اقبال کا معاملہ دوسرے شعرا سے کچھ الگ یا مختلف اس لیے ہو جاتا ہے کہ وہ انفرادی حیثیت کے ساتھ ہی ساتھ اپنی قومی اور ملّی سطح کی بھی نمائندگی کر رہے تھے۔ وہ شخصی احساسات کے علاوہ قومی رُجحانات کی آواز بھی تھے۔ تاہم اقبال کی شاعری اور ان کی نثر پڑھ کر اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اُن جیسا بڑا شاعر اپنے مذہبی اعتقادات کی تشہیر نہیں کرتا بلکہ اس احساس کو اجاگر کرتا ہے جو مذہبی تجربے سے گزرنے کے بعد اس پر مرتب ہوتے ہیں، اور اس کو اجاگر کرتے ہوئے وہ جس طرزِ بیاں سے کام لیتے ہیں اور جو وہ علامتیں، تشبیہات اور کنایے استعمال کرتے ہیں، اُن کے توسط سے مذہبی تجربے کی الوہیت ہم کو ایک شاعرانہ اور ادبی سحر میں لے لیتی ہے۔ یہیں سے آپ ادب اور مذہب کی اساس کے ایک ہونے کے قائل ہوتے ہیں۔ اس طور سے ہم ایسے ادب سے جس کے سوتے مذہبی تجربے سے پھوٹے ہوں، صرف مذہبی آگاہی سے فیض یاب نہیں ہوتے بلکہ ایک ایسی استعداد سے مستفید ہوتے ہیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ارد گرد اور اطراف پھیلی ہوئی دنیا میں مذہب کی روح کو دیکھ سکتے ہیں اور اپنے اندر اس کو اترتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ ۱قبال کی نظم ’’اسرارِ خودی‘‘ میں جو انھوں نے کہا ہے کہ زندگی کا راز اس کی جستجو اور اس کے جوہر کی تلاش کی تمنا میں مضمر ہے، وہ ادب اور مذہب کے کُل تعلق کو محیط ہے۔ ہر زبان کا ادب ہر مذہب کی طرح انسان کو مذہبی رواداری، انسانیت، خیر کے فروغ کی خاطر شر سے جنگ کرتے رہنے، آپس داری، غم گساری اور بھائی چارے کی تلقین کرتا ہے اور یوں ہم کو شرفِ انسانیت سے متعارف کراتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ادب بھی جو مذہب کی رسمیاتی سطح سے متصادم ہوتا ہے، اس کی گہرائی میں بھی مذہب ہی کی روشنی پھیلی ہوتی ہے، مثلاً دوستوئیفسکی کے ناولوں کے کفر بکتے ہوئے کردار بھی اپنے دل میں مذہب ہی کی اَن مٹ پیاس لیے ہوئے ملتے ہیں۔ ان سب باتوں کو سمیٹتے ہوئے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ادب مذہب سے محبت اور بظاہر فرار یا بیزاری دونوں طرح کے تجربوں میں یکساں کارفرما ہوتا ہے۔
مذہب اور ادب دونوں ہی زندگی میں اور اس دنیا میں امن و امان اور انسانی بھائی چارے کے پرچارک ہیں اور مجھے تو اکثر ان کو ایک دوسرے سے الگ دیکھتے ہوئے سوائے اندھیرے کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔

No comments:

Post a Comment