دل آ زاری کا ابلیسی حربہ اسلام کیا ڈرے گا با طل کے تما شوں سے؟ اشفاق پرواز
یہ سوچ کرقلم تھرتھر کا نپ رہا ہے ، خیال کی دُنیا لرز رہی ہے ، احساس کا گلشن مر جھارہا ہے کہ کسی نے رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ِاقدس میں گستا خا نہ حرکت کا ارتکاب کیا… ایک دل آ زار فلم نے تاجدار مدینہؐ کے خلاف بغض وعناد کا عَلم بلند کیا ۔ اس نری بد معاشی پر اسلا م کے نا م لیو ا پو ری دنیا میں امر یکہ اوراسرا ئیل کے خلاف آگ بگو لہ ہو چکے ہیں ۔ لیبیا کے اہم شہر بن غازی میں امریکی سفیر کی ہلاکت ، قاہرہ میں امریکی سفارت خانہ پر مشتعل مسلم مردو زن پر حملہ اور ایشیا سے لے کر افریقہ اور یورپ میں بدبختانہ فلم پر عوامی احتجا ج اور زور دار مظا ہر ے جیسے واقعات یہ سطو ر لکھے جا نے تک برابر جا ری ہیں۔ برصغیر میں بھا رت ، بنگلہ دیش اور پا کستان اور کا بل میں بھی اس فلم پر تھو تھو کر نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ ریاست میں دو نو ں حریت دھڑوں بشمول لبریشن فرنٹ، با رایسو سی ایشن اور مذہبی گروپو ں کے شانہ بشانہ سول سو سائٹی اور تا جرین کے اکنا مک الا ئینس نے اس سلسلے میں ہمہ گیرہڑ تا ل کی کال پر لبیک کر کے پیغمبر اسلا م ؐ کے تئیں اپنی والہا نہ اور غیر مشروط عشق و عقیدت کا اظہا ر کرنے کے لئے ۱۹ ستمبر کو ایک روزہ بند ھ منایا ۔ اس کے نتیجے میںکا روبا رِ زندگی مکمل طو ر ٹھپ ہو نا ہی ہو نا تھا لیکن یہ اسلام دشمن فلمساز اورا س کے امریکی واسرائیلی آقاؤں اور با طل کے حامیو ں کے خلا ف ایک بھر پو رعوامی احتجاج تھا جس کے ذریعے کشمیر کے فردفرد نے تما م بیک آ واز اپنے واحد سرما یہ ٔ حیا ت اوراپنی زند گی کے خلا صہ یعنی ایما ن با لرسالتؐ کی تجدید کرکے دیا رِ مغرب کے سرکش جنو نیو ںتک یہ بات پہنچادی کہ ہر مسلمان اپنی گردن میں محمد عربیؐ کی غلا می کا قلا دہ ڈال کراور آ پ ؐ کے ایک ایک حکم اور ہدایت پر ہزار جانیں قربان کر نے کو ہی اپنی واحد آ رزو اور تمنا جا نتاہے کہ اسی سے اس کی دنیو ی اوراُخروی کا میا بی کا سرشتہ بندھا ہے۔
اسی پس منظر میںمیرے ایک دوست نے مجھے توہینِ رسالتؐ پر بنائی گئ اس دلآزارفلم پر قلم اُٹھانے کی ترغیب دلا ئی اور ساتھ ہی کہا کہ مغرب کو حقیقی معنوں میں علم ہی نہیں کہ پیغمبرآخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی محبت و عقیدت کا کیا عالم ہے۔میری رائے اس کے برعکس یہ ہے کہ مغرب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ مسلمان با عمل ہو یا بے عمل ،عالم ہو یا عامی ، ماڈرن ہو یا روایت پسند ہر کوئی حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ماں باپ اور مال و اولاد سے بڑھ کر محبت کرتا ہے اور یہی ایمان کی پہلی اور نا قابل التواء شرط ہے۔ اسی لئے تو شاطرانِ مغرب کے اور ساحرانِ با طل ہمارے دل پر وہاں چوٹ لگاتے ہیں جہاں سب سے زیادہ درد محسوس ہو اور سکون و چین چھن جائے ۔وہ ہمیں تڑپتا دیکھتے ہیں تو اس سے ان کی اسلام دشمن سر شت کو تسکین ملتی ہے ۔ میں اس با ت کا قائل ہو ں کہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے کسی شیطان صفت یہودی ’’سام باسیل‘‘ نے خوب سوچ سمجھ کر یہ فلم بنائی ۔اس میں خلا صۂ کا ئنا ت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبا رک کے با رے میں بے جا جسارت کی گئی ہے ۔شروع سے آخر تک دو گھنٹے کی بے ہو دہ اور اشتعال انگیزفلم انتہائی منفی انداز میں بنا ئی گئی ہے۔ اس فلم کے بارے میں چودہ منٹوں کا ایک ٹریلر عربی زبان میں تیار کیا گیا ہے ۔یہ ٹریلر جب مصر کے ایک عربی چینل پر چلا تو دنیائے عرب میں دفعتاً آگ لگ گئ ۔ یہ آ گ اب عجم اور خو د گو روں کے ممالک میں پہنچ چکی ہے ، چنا نچہ مسلم بلا ک میں اس شدید ردعمل کودیکھ کر امریکہ نے اس فلم سے اپنی لا تعلقی ظا ہر کر دی اور اسرائیل نے بھی اس میں اپنے کسی رول کو مسترد کر دیا۔
ایک دریدہ دہن اسلام مخا لف فلم پروڈیوسر کے با رے میں زیا دہ تر لو گو ں کا خیال ہے کہ وہ ایک چھپا ئی کر نے والی کمپنی کے منیجرکے ہاں پیدا ہوا اور اس کی پرورش رومن کیتھولک عقا ئد کے مطابق ہوئی ۔وہ ایک لادین شخص ہے اور اسے اسلام سے سخت عناد ہے۔ یہ خبیث باطن حیو ان نیدر لینڈ کے ایوانِ نمائندگان کا رُکن اور پارٹی فور فریڈم کا سر براہ بھی رہا ہے ۔جوانی کے دو سال اسرائیل کے علاقے موشار میں رہنے سے اسے نا جا ئزصیہو نی ریا ست سے اتنی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ وہ خود کو اسرائیل کا دوست کہلا نے لگا۔اسرائیل سے دوستی کا یہ حال ہے کہ گذشتہ پچیس سال میں وہ چالیس دفعہ سے زائید با راسرائیل کا دورہ کر چکا ہے۔اس نے مارچ ۲۰۰۵ ء اپنا سیاسی منشور تحریر کیا جس کے اہم نکات میں سے ایک نکتہ یہ تھا ’’مساجد اور اسلامی سکولوں کی تعمیر پر پانچ سال تک پابندی عائد کر دی جائے۔ مذہبی سرگرمیوں میں پیش پیش مساجد کو مقفل کر دیا جائے اور ایسے مسلمانوں کو سما ج سے بے دخل کر دیا جائے جو مذہبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں‘‘ ۔اس نے ۸؍اگست۲۰۰۷ میںایک اخبار کو یہ خط لکھا کہ ’’قرآن پر نیدر لینڈ میں پابندی لگا دی جائے۔‘‘پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوے اس نے ایک دفعہ شکایتاً اور نفرت بھرے لہجے میں کہا:’’میڈم سپیکر ! ہمارے ملک میں خواتین برقعہ پہننے لگی ہیں ،اشیائے خوردونوش کی دکانوں پر حلال گوشت بکنے لگا ہے، ہم جنسی کو برُا بھلا کہا جانے لگا ہے،بسوں اور ٹرینو ں میں عربی لکھی نظر آتی ہے ۔‘‘۲۰۰۸ ء میں وہ نیدر لینڈ کا سب سے زیادہ غیر محفوظ سیاست دان بن گیا۔وہ حکومت کی طرف سے تعینات کئے گئےمحافظوں کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا تھا ۔اس سے ملنے والے ہر شخص کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔ رشدی کی طرح اس کی ذاتی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئ ہے ۔نیدر لینڈ کے تینتالیس فی صد لوگ اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ڈنمارک کے اس سیاست دان کانام گیرٹ ولڈر ز ہے جس نے ۲۷مارچ ۲۰۰۸ کو سولہ منٹ اور اڑتالیس سکینڈ کی فلم ’’فتنہ‘‘ بنا کر پوری دنیا کے مسلمانوں کی شدید دل آزاری کی ۔اس سے پہلے ۱۹۸۹ میں سلمان رشدی نے ناول کے ذریعے مسلما نو ں کا مذاق اُڑایا جس پر مغرب نے نہ صرف اسے تحفظ فراہم کیااور سیا سی پناہ دی بلکہ اسے ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا ۔۲۰۰۵میں ’’نیوز ویک‘‘ میں گوانتا ناموبے جیل میں قرآن پاک کی بے حر متی کی خبر چھپی تومغرب نے کبھی بھی اس کی مذمت نہیں کی ۔فروری ۲۰۰۶میں ڈنمارک کے ایک اخبار نے حضور صلعم کے بارے میں گستاخانہ خاکے شائع کئے۔ یہ خاکے ڈنمارک کے کسی پاگل کارٹونسٹ نے بنائے تھے جس پر مسلما نا نِ عالم بر افروختہ ہو ئے۔
۲۰۰۶ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق بتیس فی صد برطانوی، اکتالیس فی صد فرانسیسی، باون فی صد جرمن اورسٹھ فی صد ہسپانوی باشندے مسلمانوں کو انتہا پسند سمجھتے ہیں ۔ اب عالم اسلام پر تازہ زخم اس وقت لگا جب ایک اور انتہا پسند امریکی پادری ٹیری جانز نے اسلام دشمنی اور حضورصلعم کی شانِ مبارک کے خلاف فلم کی تیاری اور اس کی تشہیر میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس کا ٹریلر جاری کرنے کا اعلان کیا ۔اس فلم کے بنانے میں کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی نژاد امریکی ’’ سام باسیل‘‘کا بھی کلیدی کردار ہے۔ ٹیری جانز ہی نے ۱۳ ستمبر ۲۰۱۰ قرآن کریم کی اہا نت کا منصوبہ بنایااور ۲۰۱۲ �میںاس نے اس شیطا نی منصوبے کو عملی جا مہ پہنا کر کر کے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری بھی کی تھی ۔اگر اس وقت مسلم امہ اور اوآئی سی نے دینی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوے ٔاس سلسلے کو رکوایا ہوتا تو آج ٹیری جانز ایک اور قدم نہ اٹھاتا ۔اگر امریکہ وکی لیکس کے شہری جولین اسانج جس نے وکی لیکس کے ذریعے امریکہ کی چند سیاہ کاریوں کا انکشاف کیا ،کی گرفتاری سے لے کر اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی کو شش کی جا سکتی ہے تو اپنے ہی شہری ٹیری جانز کے خلاف مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کا مقدمہ قایم کیوں نہیں کر سکتا ہے ؟
۱۳اپریل ۲۰۰۸ ء کو ایک امریکی ماہر تعلیم ،مصنف اور سیاسی تجزیہ نگارنے لکھا تھا کہ اسلام کے سنہری اصولوں کی وجہ سے اسلام مغرب میں تیزی سے پھیل رہا ہے ۔۲۷مارچ۲۰۰۶ ء کو سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے قرآن کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ’’ قرآن کے بارے میں انتہا ئی قابل تعریف بات یہ ہے کہ یہ ایک جدت پسند کتاب ہے۔ میں دوسرے مذہب کا پیرو کار ہونے کی حیثیت سے عاجزی سے کہوں گا کہ میں قرآن پر تبصرہ کرنے کا اہل نہیں لیکن میں نے قرآن کو ایک اصلاح پسند کتاب کے طور پر پایا ہے۔یہ سائنسی علوم کا مخزن ، حصو ل علم کی حوصلہ افزائی اور توہمات کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔اس کی رہنمائی میں اسلام حیران کن لحاظ سے پھیلا۔‘‘
دکھ اس امر کا ہے کہ’’ ہر ملک ملک ما است کہ ملک خدائے ما است‘‘کہنے والے آج دنیا کے سامنے یہ تک ثابت نہیں کر پا تے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ہماری زبا نیںتو یہ بتا نے میں گنگ بنی ہیں کہ دنیا کو اگر تازہ دم مساوات کا نطا م چا ہیے، جمہو ریت اور حقوق البشر کی مہک درکا ر ہے، معاشی اونچ نیچ سے نجا ت حاصل کر نے کا خو اب ہے یا رنگ ، نسل، زبان، جغرافیہ، مذ ہب اور قومیت کی بنیا دو ں پرتقسیم ہو نے کی بجا ئے ایک انسانی وحدت قائم کر نے کا شوق چرا یا ہے تو اسے چار ونا چار دامن ِ رسالت ما ٓ بؐ میں یہ ساری عظمتیں ملیں گی۔ چو نکہ ہم ہی سوگئے داستان کہتے کہتے کے مصداق اسلام کا اصل فیضا ن پوری دنیا تک پہنچا نیا ور محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرزما ں ومکا ن کا رول ما ڈل کے طور پیش کر نے سے ہم غافل ہو ئے تو یہ صورتحا ل پیدا ہو ئی ۔ اگر ہم سچ مچ عشق حبیب خدا ؐ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اسلام کو عملاً ڈنیا کے سامنے لا تے ہیں تو یہ سب مخالفتیں اور دشمنیا ں خود بخو د کا فور ہو جا ئیں گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سیرت طیبہ کا اجلا کر نے کی بجا ئے اپنے ہونٹ سینے اوراپنے ضمیر پر بے عملی اور بے حمیتی کا پہرہ بٹھا نے سے با زآئیں۔ اسی طرزعمل سے مغرب ومشرق کے گمراہ اورجاہل عنا صر کو راہ ہدایت اور عشق رسول صلعم کی ڈگر پر گا مز ن کیا جا سکتا ہے۔
………
رابطہ : گوفہ بل،کنزر۔ٹنگمرگ ،کشمیر۔
ishfaqparvaz@hotmail.co.uk
Courtesy: Kashmir Uzma Srinagar
|
Search This Blog
Sunday, 7 October 2012
DIL AZARI KA IBLEESI HARBA
Labels:
ISSUES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment