امت ِمسلمہ پر یہ وقت بھی آنا تھا!
خداوندا! امت ِمسلمہ پر یہ وقت بھی آنا تھا۔ مغربی دنیا تواتر کے ساتھ ہمارے دلوں سے ’’روحِ محمدؐ‘‘ کو نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ہم سے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں دنیا کے تمام تر رشتوں کی محبت سے اولیٰ آپؐ کی محبت ہونی چاہیے۔ لیکن ہماری بے بسی کا عالم یہ ہے کہ ہم ان دین دشمنوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جوش میں آتی ہے تو ہم اس کا اظہار محض احتجاجوں کے ذریعے کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ہمارا احتجاج ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہماری حالت تو اس شخص کی سی ہوگئی ہے جسے محلے کے شریر بچے مختلف انداز میں چھیڑتے رہتے ہیں لیکن وہ بیچارہ سوائے چیخ و پکار کے کچھ نہیں کرسکتا۔ ہمارے لیے زمین کی پیٹھ زمین کے پیٹ سے بھی بدتر ہوگئی ہے اور ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہم زمین کے پیٹ میں سما جائیں۔ اس بے بسی کے عالم سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اب ہم نے وہی حرکت شروع کردی ہے جو وہ پاگل کرتا ہے کہ شریر بچوں کی ایذ ا رسانی سے تنگ آکر ہاتھ میں پتھر اٹھالیتا ہے۔ لیکن کیا اس طرح ہم اس اذیت سے نجات پاجائیں گے؟ اس کا جواب ہمیں صرف اس صورت میں مل سکتا ہے جب ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں رہنمائی حاصل کریں۔
مکی دور میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ چاہے تمہارے چیتھڑے اڑا دئیے جائیں، تمہیں جوابی کارروائی نہیں کرنی ہے، البتہ اپنے دین پر ڈٹے رہنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس زمانے میں بھی کفار و مشرکین کی جانب سے توہین آمیز کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہی لوگ جو نبوت سے قبل آپؐ کو صادق اور امین کے نام سے پکارتے تھے،اب شاعر، ساحر اور مجنون جیسے القابات سے نوازنے لگے۔ اس طرح توہین آمیز کارروائیوں کا آغاز ذہنی اذیت پہنچانے سے ہوا۔ صرف اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ جسمانی تشدد سے بھی باز نہ آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی یہ موصول ہوئی کہ (’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس سے آپؐ کا سینہ بھنچنے لگتا ہے‘‘۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ آپؐ صبر فرمائیں، خوبصورت صبر۔‘‘ اور آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی ان ہدایات پر پوری طرح عمل کیا۔ کیا ان حالات سے صحابہ کرام ؓکو تکلیف نہیں پہنچتی تھی؟ لیکن انہوں نے بھی صبر سے کام لیا اور ہاتھ کے بندھے رکھنے کے حکم پر پوری طرح عمل کیا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرامؓ نے دین کی دعوت کا کام جاری رکھا۔ آج امت ِمسلمہ کی صورت حال مکی دور کے مسلمانوں کی صورت حال سے مختلف نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جسمانی تشدد کا کلائمکس سفرِ طائف کے موقع پر ہو ا جس کے بارے میں خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ پر طائف کے واقعے سے زیادہ کوئی واقعہ شدید نہیں گزرا۔ اس موقع پر آپؐ کے ساتھ وہ جلیل القدر صحابی موجود تھے جن کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور ان کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار کرکے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو آزادی پر ترجیح دی تھی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینکے ہوئے پتھروں کو اپنے سینے پر روک کر آپؐ کا دفاع کیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس موقع پر بھی کوئی جوابی کارروائی نہیں کی کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا۔ ہم نہ قرب کے اعتبار سے اور نہ ہی جاں نثاری کے اعتبار سے ان کی گرد کو پہنچ سکتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا اندازہ اس دعا کے الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے جو اس موقع پر انہوں نے اللہ سے فریاد کرتے ہوئے کی:
’’بارِالٰہا! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تُو کمزوروں کا رب ہے اور تُو ہی میرا بھی رب ہے۔ تُو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تُو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تُو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر نازل ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تُو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔‘‘
اب ذرا ہم اپنا جائزہ لے لیں۔ ہم جو عشقِ رسولؐ کا دم بھرتے ہیں، دعوتِ دین کا کتنا کام کررہے ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کام نہیں ہورہا، بلکہ ساری دنیا میں لاکھوں افراد اس کام میں پورے خلوص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، لیکن غور کی بات یہ ہے کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہورہا ہے! اگر مطلوب نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم نے قرآن کو دعوتِ دین سے خارج کررکھا ہے، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ ہے کہ آپ ؐ نے دعوت ہمیشہ قرآن کے ذریعے دی۔ مزید برآں، ہم دین کی دعوت دینے کے بجائے مذہب کی دعوت میں لگے ہوئے ہیں اور اسلام کے اجتماعی نظام کے مختلف گوشوں مثلاً معاشرت، معیشت اور سیاست پر گفتگو ہی نہیں کرتے، لیکن دعویٰ پھر بھی پورے دین کی دعوت کا کرتے ہیں۔ سارا زور امر بالمعروف پر ہے اور اس سے اہم تر فریضے نہی عن المنکر کو فراموش کیا ہوا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینے تشریف آوری کے بعد آپؐ کو جو تمکن حاصل ہوا تو پھر آپؐ نے ہر توہین کرنے والے کی نشان دہی کرکے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ اس کی ایذا سے مجھے کون نجات دلائے گا۔ اس طرح ہر توہینِ رسالت کا مرتکب اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن تمکن کے حصول کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محض دعوت تک ہی معاملے کو محدود نہیں رکھا بلکہ جن کو دعوت و تربیت کے مراحل سے گزارا گیا تھا انہیں باطل نظام سے ٹکراکر اس پر غلبہ حاصل فرمایا۔ ہم بھی اگر یہ کام کریں تو اپنے اپنے ممالک میں جاری باطل نظاموں کی بیخ کنی کرکے اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی یعنی نظام خلافت کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ اور اگر کسی ایک ملک میں بھی یہ نظام قائم ہوگیا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ تمام اقوام عالم کو عدل کی ضمانت مل جائے گی اور توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن جیسے فتنے خود ہی دم توڑ دیں گے۔ اللہ تعالیٰ امت ِمسلمہ کو اس کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔ اس وقت تک صبر و تحمل کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے اور پُرامن احتجاج کے ذریعے دنیا کو بتادینا ہے کہ ’’روح محمدؐ کو مسلمانوں کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔‘‘ ورنہ اگر ہم نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو اس سے مغرب کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ مسلمانوں کے عدم برداشت کے رویّے نے انہیں دہشت گردی کا عادی بنادیا ہے۔
مکی دور میں مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ چاہے تمہارے چیتھڑے اڑا دئیے جائیں، تمہیں جوابی کارروائی نہیں کرنی ہے، البتہ اپنے دین پر ڈٹے رہنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس زمانے میں بھی کفار و مشرکین کی جانب سے توہین آمیز کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہی لوگ جو نبوت سے قبل آپؐ کو صادق اور امین کے نام سے پکارتے تھے،اب شاعر، ساحر اور مجنون جیسے القابات سے نوازنے لگے۔ اس طرح توہین آمیز کارروائیوں کا آغاز ذہنی اذیت پہنچانے سے ہوا۔ صرف اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ جسمانی تشدد سے بھی باز نہ آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی یہ موصول ہوئی کہ (’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!) ہمیں خوب معلوم ہے کہ جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس سے آپؐ کا سینہ بھنچنے لگتا ہے‘‘۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ آپؐ صبر فرمائیں، خوبصورت صبر۔‘‘ اور آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی ان ہدایات پر پوری طرح عمل کیا۔ کیا ان حالات سے صحابہ کرام ؓکو تکلیف نہیں پہنچتی تھی؟ لیکن انہوں نے بھی صبر سے کام لیا اور ہاتھ کے بندھے رکھنے کے حکم پر پوری طرح عمل کیا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرامؓ نے دین کی دعوت کا کام جاری رکھا۔ آج امت ِمسلمہ کی صورت حال مکی دور کے مسلمانوں کی صورت حال سے مختلف نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جسمانی تشدد کا کلائمکس سفرِ طائف کے موقع پر ہو ا جس کے بارے میں خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ پر طائف کے واقعے سے زیادہ کوئی واقعہ شدید نہیں گزرا۔ اس موقع پر آپؐ کے ساتھ وہ جلیل القدر صحابی موجود تھے جن کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور ان کی جاں نثاری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار کرکے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو آزادی پر ترجیح دی تھی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینکے ہوئے پتھروں کو اپنے سینے پر روک کر آپؐ کا دفاع کیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس موقع پر بھی کوئی جوابی کارروائی نہیں کی کیونکہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا۔ ہم نہ قرب کے اعتبار سے اور نہ ہی جاں نثاری کے اعتبار سے ان کی گرد کو پہنچ سکتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا اندازہ اس دعا کے الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے جو اس موقع پر انہوں نے اللہ سے فریاد کرتے ہوئے کی:
’’بارِالٰہا! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تُو کمزوروں کا رب ہے اور تُو ہی میرا بھی رب ہے۔ تُو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تُو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تُو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر نازل ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تُو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔‘‘
اب ذرا ہم اپنا جائزہ لے لیں۔ ہم جو عشقِ رسولؐ کا دم بھرتے ہیں، دعوتِ دین کا کتنا کام کررہے ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کام نہیں ہورہا، بلکہ ساری دنیا میں لاکھوں افراد اس کام میں پورے خلوص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، لیکن غور کی بات یہ ہے کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہورہا ہے! اگر مطلوب نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم نے قرآن کو دعوتِ دین سے خارج کررکھا ہے، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ ہے کہ آپ ؐ نے دعوت ہمیشہ قرآن کے ذریعے دی۔ مزید برآں، ہم دین کی دعوت دینے کے بجائے مذہب کی دعوت میں لگے ہوئے ہیں اور اسلام کے اجتماعی نظام کے مختلف گوشوں مثلاً معاشرت، معیشت اور سیاست پر گفتگو ہی نہیں کرتے، لیکن دعویٰ پھر بھی پورے دین کی دعوت کا کرتے ہیں۔ سارا زور امر بالمعروف پر ہے اور اس سے اہم تر فریضے نہی عن المنکر کو فراموش کیا ہوا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینے تشریف آوری کے بعد آپؐ کو جو تمکن حاصل ہوا تو پھر آپؐ نے ہر توہین کرنے والے کی نشان دہی کرکے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ اس کی ایذا سے مجھے کون نجات دلائے گا۔ اس طرح ہر توہینِ رسالت کا مرتکب اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن تمکن کے حصول کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محض دعوت تک ہی معاملے کو محدود نہیں رکھا بلکہ جن کو دعوت و تربیت کے مراحل سے گزارا گیا تھا انہیں باطل نظام سے ٹکراکر اس پر غلبہ حاصل فرمایا۔ ہم بھی اگر یہ کام کریں تو اپنے اپنے ممالک میں جاری باطل نظاموں کی بیخ کنی کرکے اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی یعنی نظام خلافت کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ اور اگر کسی ایک ملک میں بھی یہ نظام قائم ہوگیا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ تمام اقوام عالم کو عدل کی ضمانت مل جائے گی اور توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن جیسے فتنے خود ہی دم توڑ دیں گے۔ اللہ تعالیٰ امت ِمسلمہ کو اس کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔ اس وقت تک صبر و تحمل کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے اور پُرامن احتجاج کے ذریعے دنیا کو بتادینا ہے کہ ’’روح محمدؐ کو مسلمانوں کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔‘‘ ورنہ اگر ہم نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو اس سے مغرب کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ مسلمانوں کے عدم برداشت کے رویّے نے انہیں دہشت گردی کا عادی بنادیا ہے۔
No comments:
Post a Comment