محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلا می ہے سند آ زاد ہو نے کی
ایم جے لون
آج کل عرب وعجم اور مغرب و مشرق میں گوروں کے گھورکھ دھندے اور امریکیو ں واسرائیلیوں کے پھندے سرعام مندے ہو رہے ہیں۔ ان عقل کے اندھو ں اور دل کے فریبیو ں نے پہلے نیو ورلڈ آ رڈر یعنی jew world order کی ڈفلی بجا ئی اور کام دھندا چلا یا۔ آ گے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے وار آ ن ٹرئر کا نیا پلاٹ ’’نو دو گیا رہ‘‘ کے عنوان سے لکھ کر ورلڈ ٹریڈ ٹا ور کو ملبے کا ڈھیر بنا یا۔ یہ ننگ انسانیت کام مسلم مملکتوں کو یکے بعد دیگرے تہس نہس کر نے اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا نے کے لئے جو ں تو ں جیمزبا نڈ کی ایکٹنگ کے ساتھ پو را ہو ا ، تو اب کر نے کو بچا ہی کیا تھا ؟ شیطا ن بزرگ نے اس دوران صلیبی جنو ں،انتقام کی صدیوں پرا نی آ گ ، بے وفا ئی کی عادت، غنڈہ گردی کی فطرت، لو ٹ پا ٹ کی خصلت، آ رام حرام ہے کی بے اصولی ، اخلا ق اور آداب ِانسا نیت سے بیر ، جمہوریت کے پر دے میں چنگیزیت کو پوجنے کی منافقت… انہی پکو انو ں سے اپنے دبدبے کا ’وازہ وان‘ پکا پکا کر فتنہ گرانِ مغرب نے تہذیب کے تصادم کا جھنڈا لہر ایا اور خجل وخو ار ہوا ۔ ابو غریب اور بگرام ائربیس سے لے کر گو نتا نا ما بے تک انسانی حقوق کی مٹی پلید کرتے ہو ئے اس دانائے زما نہ نے کیا کیا گل نہ کھلا ئے ، پھر بھی پاپی پیٹ نہ بھرا۔ دفعتاًدل آ زارکا رٹو ں بنا بنا کر حق کے چمکتے سورج کو روشن ہو نے سے روکنے کا رقص نیم بسمل کیا، مسجدوں کے مینا رو ں پر پا بند ی عا ئد کر کے اپنی بد معاشی کا ڈنکا بجا یا، حجا ب کو زیر عتاب لاکر اپنی بے حیا سوچ کا پھریرا لہرا نے کی حما قت کی… اور جب اس سب کے با وجو د حق کااُجا لا لگا تار ان کے دروازوں پر دستک دیتا رہا تو اپنے بد دما غی اور ذ ہنی فتورکا علا ج کرنے کیلئے ان فتنہ با زوں نے کنجروں اور کنجرا نیو ں کو جمع کر کے ایک دل آ زار فلم کو معرض وجود میںلا یا تاکہ یہ تا رعنکبو ت ان کی شکست فا ش کو چند لمحے کے واسطے مؤخر کر ے ۔ اپنے قلم کی طرح کیمرے کا لینس آ ن کر کے ان تن کے سفید اور من کے سیا ہ لعینوں نے دریدہ دہنی، سب وشتم اور ناقابل برداشت گالم گلوچ کو فن اور کلا کے نام سے پیش کر کے انسانیت کے منہ پر کا لک پو ت دی۔ اس دل آ زار فلم کے خلاف مسلما نا نِ عالم میں اسی طرح بجا طور غم وغصہ کی آ گ پھیل رہی ہے اور امریکہ اور اسرئیل کی ذ لت وخو اری اور اخلا قی پسپا ئی کا اسی جو ش و جذ بے کے ساتھ ہر جگہ چر چا ہو رہا ہے جیسے قبل ازیں شاتم رسولؐ رشدی کے خلا ف ایران و توران میں ہو اتھا۔ آ ج ہمیں پھر سے ان حق دشمنو ں کے یہاں فتنہ وفساد اور تعصب وعناد کی جھلکیاں د یکھنے کو مل ر ہی ہیں۔وہ مغر بی سیاہ فام اور سفید فام بہت گندے کام انجام دے رہے ہیں۔وہ جب جام پیتے ہیں تو اپنا نام تک بھول جا تے ہیں۔ان میں کچھ ما درپدر آزاد دنیا کو بر با د کر نے پر تلے ہو ئے ہیں، ان کا مشغلہ ہی صرف فساد پھیلا نا ہے ۔آزادیٔ اظہا ر کا نام مگر شیطا نی کام۔یہ بد قما ش در اصل ذ ہنی طور غیر آباد اور برباد ہیں، اسی لئے یہ لوگ بس فتنہ اور فساد کی سوچ رہے ہیں۔ہر روز نئے فساد، کھبی رُشدی تو کبھی ڈ نما رک کے شیطا ن،کبھی اسرائیلی حیوان،امریکی بد کاران، انسان کو پر یشان اور دنیا کو ویران دیکھنا چا ہتے ہیں۔اپنی جھو ٹی شان اور نان نفقہ کے لئے دوسروںکو پر یشان کر تے ہیں۔ دراصل یہ انسان کے بھیس میں شیطان ہیںاور دنیاکی عیا شی کے لئے حیوان بن رہے ہیں۔ان کے حکمران بھی شیطان کی پر ورش اور نا زبرداری کر تے ہیںکیو نکہ یہ شیطان ان شطنیت صفت حکمرانوں کے کام آ تے ہیں اور ان کے ہی سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑ ھا رہے ہیں سنو شیطان کے پرستارو! تمہا رے یہ سارے وار ا لٹا تم کو ہی کو ذلیل و خوار کر رہے ہیں۔ تمہا رے چھپے ہو ئے سیا ہ چہرے کو بے نقاب ہو رہے ہیں۔ تمہا ری تہذ یب آ پ اپنا بد لہ لے رہی ہے۔ تم پا ما ل ہو رہے ہو، دنیا تم پر تھو تھو کر ہی ہے، تمہا را کروفر ملیامیٹ ہو رہا ہے کیو نکہ یہ سب شاخ نازک پر استوار ہے، ما نا کہ اسلحہ کے انبا ر تمہارے پا س ہیں ، معاش کی رگو ں پر تمہارا کنٹرول ہے، عالمی داادگری کا سرپھرا نظا م تمہا رے اشاروں پر چل رہا ہے، تم دجا لی سسٹم کے پروردہ ہو اور تم نہیں چاہتے کہ دنیا میں کہیں امن چین کی با نسری بجے، حقیقی جمہو ریت اور آ دمیت کا بول با لا ہو لیکن یا د رکھو ہما رے پا س اللہ کا آ خری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اما نت ہے ، ہم ان کے اور ان کے غلام ہیں، ہم کو فخر ہے کہ ہم ان کے ابروئے چشم کے تابعدار ہیں۔ یہ واحد سرما یہ ہما رے لئے ہی نہیں ساری کا ئنات کے لئے اللہ کا اعزاز ہے جس کی آ ن با ن شان تا قیامِ قیامت اور اس کے بعد بھی اابد سے ازل تک قائم ودائم رہے گی۔ تم اپنی دریدہ دہنی سے آ سما ن پر تھو کنا بند کرو اور آؤ محمد کی غلا می میں قرآ ن کے روشن ثارغ کے سائے تلے کیو نکہ یہی ایک سند ہے ہر قوم اور ہرفرد کے آ زاد ہو نے کی۔
mjlone10@gmail.com
|
No comments:
Post a Comment