مکّہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک
کچھ شوق نے کھینچا کہ کچھ جذ بوں نے پکا را
بشارت بشیر
سوا پانچ ہزار برس قبل جب سیدنا ابراہیم ؑ نے مکہ کی بے آب وگیاہ سرزمین میں خدا ئے واحد کی نشان زدہ جگہ پر ایک مرکز عبادت کی بنا ڈالی، جب سے اب تک برا بر خشکی و تری میں شعور کی آنکھ کھولنے والے ہر خو ش نصیب اہل ایمان کی سب سے بڑی تمنا اس بیت عتیق کی زیارت اور اس کے گرد پروانہ وار گھومنے کی ہے۔ آخر کیوں نہ ہو، مقدس گھر کی تعمیر کی تکمیل کے ساتھ ہی رب جلیل کا سیدنا ابراہیم ؑ کو یہ حکم دینا کہ ’’اور لوگوں میں حج کی منادی کردے لوگ تیرے پاس پاپیادہ وہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دوردراز کی تمام راہوں سے آئیں گے اور (الحج ۲۷)۔کوہ بوقیس سے یہ صدائے ابراہیمی ؑ گونجی اور پھراسے اللہ کی بے پا یا ں عطا و کرم سمجھئے یا پیغمبرانہ صدا کا اعجاز کہئے کہ سوا پانچ ہزار سال سے پورے تواتر اور جو ش و جذبے کے ساتھ سفر کی صعوبتیں اور بے شمار مال و زر کی صرفہ کے ساتھ ہزاروں لاکھوں قافلے ہر سال اس مقدس گھر کی زیارت کے لئے رواں دواں ہوتے ہیں۔ مشتاقانِ دید کے یہ قافلے پورے جذب و شوق کے ساتھ جون ، جولائی اور اگست کی چلچلاتی دھوپ میں بھی چلتے ہیں اور دسمبر جنوری کی ہوش ربا ٹھنڈ میں بھی، امن وراحت کے ایام میں بھی اور جنگ و جدل کے اوقات میں بھی ۔ ان قافلوں کو نہ صلیبیوں کے لشکر روک پائے ہیں اور نہ قرامطہ جنہوں نے مطاف تک کی سرزمین کو خون سے تربتر کردیا اور نہ مغول جو تیز و تند آندھی کی طرح ہر شے کو تہس نہس کرگئے۔ کروڑوں اربوں انسان آج تک اس گھر کی زیارت سے مستفید ہوکر آسودۂ خاک ہوگئے اور ان میں سے لاکھوں بقید حیات اس عنایت کی دوبارہ عطائیگی کے لئے گریہ کناں ہیں۔ اسے اللہ تعالیٰ کا بے پایاں کرم ہی کہئے کہ اس بند ۂ حقیر و نا چیز کو ماضی ٔ قریب میں دومرتبہ اس سفر سعاد ت کا اعزاز حاصل ہوا ۔ پہلی بار دنیائے اسلام کے معروف ادارے رابطہ عالم اسلامی کی وساطت سے خصوصی دعوت پر اللہ جل شانہ نے اپنے گھرکی زیارت کے لئے بلایا۔ بلاواعجلت میں تھا عجلت میں ہی رختِ سفر باندھا ،مزید تین اور ساتھی اس خصوصی دعوت پر رفیق ِسفر بنے رہے۔ رابطہ نے بڑی شاہانہ انداز کی مہمانداری کی ہر بات کا خیال رکھا، رابطہ کے گیسٹ ہاوس میں قیام ،طبی سہولیات کی فراہمی، ٹرانسپورٹ کا شاندار بندوبست اور خوردونوش کا اعلیٰ اہتمام کہ سوچا تک نہ تھا کہ مولا ئے کریم اس عاصی پر قدر آمادہ بہ کرم ہوگا۔ روانگی بڑی عجلت میں ہوئی تھی اور پروگرام کچھ اس انداز سے ترتیب پایا تھا کہ واپسی بھی بڑی جلدی یعنی صرف کوئی بیس دن کے اندر اندر ہوئی ۔ تشنگی باقی تھی ، ربِ کعبہ سے واپسی کے موقعے پر پھر بلانے کی وجدانگیز دعائیں کیں ۔ انہیں شرف قبولیت حاصل ہوچکا تھا اور مائل بہ کرم مولا نے ماضیٔ قریب میں پھر سفر محمو د پر بلایا۔ قرعہ اندازی کے عمل میں قرعہ فال مجھ حقیر وکم ما یہ شخص پر بھی پڑا۔ اس مرتبہ میری اہلیہ اور کچھ اور رفقاء بھی ہمراہ تھے ۔ خوشی سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے اور مسرتوں نے کئی راتوں کی نیندیں اُڑالیںاور پھر وہ دن آہی گیا جب اقبال مندانِ ازلی کے ایک قافلۂ شوق کے ساتھ سرینگر کے طیران گاہ سے سوئے حرم روانگی ہوئی۔ عجب کیفیت اور مسرتوں کا عالم یہ تھا کہ اسے بیا ن کر نے میں الفاظ کا پہناوا شاید برابر نہ آسکے ۔ طیارہ فضا میں اڑنے لگا کہ دل بھی اڑاجارہا تھا۔ مقام میقات پر پہنچنے میں ابھی کوئی دس منٹ کا وقت باقی تھا کہ ایک ائیرہوسٹس نے یہ کہہ کر ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اٹھئے آپ کو اندر کیبن میں بلایاجارہا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے بھلا کیبن میں کون سا کام اور کیا رشتہ داری ؟ اندر چلاگیا تو پیغام ملا کہ میں ہی جہاز میں نصب مائک کے ذریعے حجاج کرام کو مقام میقات پر پہنچے اور یہاں سے قرآن و سنت کی روشنی میں ان پر عائد لو ازما ت اورآداب سے انہیں آگاہ کردوں۔ اسے بھی خدائے رحیم ورحمان کی عنایت سمجھ کر مائک ہاتھ میں لے کر عازمین حج کو احرام اور اس حوالے سے عائد پابندیوں، شرائط اور آ داب عمرہ اور زیارت بیت اللہ کے مناسک کی ادائیگی کے اسباق کی یاد دہانی کے ساتھ اس عظیم سفر کے حکمت وفلسفہ سے کما حقہ آگاہی دلائی۔ کعبہ ، اس کی تاریخ ،اس کے ساتھ ہمارے اٹوٹ رشتے کو واضح کیا تو ماحول انتہا ئی روح پرور بن گیا ۔ ہر سو سسکیوں اور ہچکیوں کی آ واز یںصاف سنائی دے رہی تھیں اور یوں اشکباردعاؤں کا سلسلہ چل پڑا کہ زائرین حرام داڑھیں مار مار کر روتے نظر آئے۔ میرا اپنا حال تو ناقابل بیان تھا۔ اب ہم کعبۃ اللہ کے قریب تھے۔ آنسوپونچھے جانے لگے ،اس لئے کہ ان آنسوؤں سے اب زمین حرم ، منیٰ و عرفات کو تر بہ ترکردیناتھا۔تلبیہ کی صدائیں گونج رہی تھیں، طیارہ فضا سے نیچے جدہ ائیرپوٹ پر اترا، نماز کی ادائیگی طیران گاہ پر ہوئی، سفری دستاویزات چیک کئے گئے کچھ خوردونوش کا سامان دیا گیااور آرام دہ گاڑی میں سوار ہوکر سوئے منزل رواں دواں رہے۔ راستے میں عربوں نے روایتی انداز میں مہمان نوازی کی ریت کو قائم رکھا۔ حدود حرم میں داخل ہوئے تو دل سینوں میں نہیں بلکہ آ نکھو ں میں رقصاں ہو ئے ، کعبۃ المکرم سے پانچ یا چھ کلو میٹر دور بطحا قریش کی تعمیر شدہ نئی اور عالی شان بستی میں پروگرام کے مطابق ایک شاندا ہوٹل میں ڈیرہ ڈال دیا۔ عشاء کی نماز کی ادائیگی ہوئی، کچھ سستانے بیٹھ گئے مگر دل بیٹھنے پر آمادہ نہ تھا۔ ادائیگیٔ عمرہ کے لئے سوئے حرم چل پڑے۔ اس جانب بڑھنے والا ہر قدم جذب و شوق میں اضافہ کئے جارہا تھا۔ کعبہ وحرم کے دروبام صاف نظر آنے لگے کہ عجیب کیفیت طاری تھی جو بیان سے باہر ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں سے آئے امیر و وزیر و فقیر سبھی ایک ہی لباس میں حرم کو دور سے دیکھتے ہی زار و قطار رورہے تھے اور اب وہ ساعت سعید آہی گئی جب ہم حرم کعبہ میں داخل ہوئے۔ کعبہ شریف پر پڑنے والی پہلی نگاہ نے تو دنیا و مافیہا سے بے خبر کرکے رکھ دیا، میں پسینہ پسینہ ہورہا تھا اور ماتھے سے عرقِ ندامت کے قطرے مسلسل ٹپک رہے تھے اور آنکھیں تھیں کہ اشکوں کا ایک نہ رُکنے والا سیلاب بہار رہی تھیں۔ تلبیہ کا عمل بندہوا کہ یہی حکم ہے اور حکم کی تعمیل ہی عبادت ٹھہری اور حج و عمرہ کے دوران ہر رکن کی ادائیگی کا مقصد ہی بس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ حکم کے سامنے کسی کی کج بحثی اور کٹ حجتی نہیںچلتی ، کسی چیز کی حکمت قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھ میں آئے توخیر ،نہیں تو اپنی کوئی تاویل کا کوئی اختیار و اعتبار نہیں ۔ بس حکم جان کر تعمیل کیجئے، حج کی تکمیل ہوگی۔ یہاں سب خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قواعد و ضوابط چلتے ہیں ،محض نا قص عقل کی ضرورت سے زیا دہ رہنما ئی یا عشق و محبت کے نام پر کوئی اپنی اختراع حج کے سارے عمل کی قبو لیت میں سنگ گراں پیدا کردیتی ہے۔ ہاں، میں کعبہ شریف کو اپنی گناہ گا رآ نکھو ں سے دیکھتا جا رہا تھا،آنکھیں اشکبار تھیں، اپنی سیاہ کاریوں اور بداعمالیوںکی سیاہ کتاب کا ورق ورق اور حرف حرف لرزہ بر اندام کئے دے رہا تھا، اب بس مشتاقانِ دید کے ساتھ مطاف میں کعبہ کے گرد گھومنے والوں کے سمندر میں کودنے کی تیاری کرہی رہاتھا کہ پھر ہچکیاں بندھ ہوگئیں اور لگ رہا تھا کہ سماعت سے یہ صداٹکرارہی ہے ؎
بطواف کعبہ رفتم بحرم ندا بر آمد
تو برون در چہ کردی کہ درون خانہ آئی
ہاں! صاف لگ رہا تھا کہ حرم ِکعبہ صرف مجھ سے مخاطب ہے :کہ اے راندۂ خلق! تو کون سا منہ لے کر یہاں آیا ہے؟ تیری یہ جرأت و جسارت ، اپنی ساری زندگی خدائے وحدہ لا شریک کی نافرمانی میں گزاری ،مادی مفادات کے لئے کون سی چھلانگ ہے جو نہ ماری، باطل و طاغوت سے تعلق و ربط بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ، دنیا کے ایوانوں، محلات اور دہلیزوں کی خاک بھی چھانی اور کوچہ گردی بھی کی، اب اس کوئے دلبر میں کون سا چہرہ لے کر آئے ہو!کتنے ڈھیٹ اور بے شرم ہو! صدا بر حق تھی، میں کچھ بھی بول نہ پارہا تھا ، پیکر شرمندگی و ندامت بن کے کھڑا رہا، قریب تھا کہ غش کھاکر گرجاؤں کہ واللہ صاف محسوس ہواکہ رحمت ِرحمان نے اسی طرح تھام لیا جیسے کوئی ما ں اپنے شیرخوار بچے کی شرارتوں اور بچگا نہ حر کات کو نظرا نداز کر کے اس کا بو سہ لیتی ہے، دل کو ایک ناقابل تصور تسلی سی ہوئی کہ میں گناہ گارخود نہیں آیا ہوں بلایاگیا ہوں، گناہوں کے اعتراف اور بخشش کیلئے ہی میں طواف کرنے والوں میں شامل ہوگیا، عصیاں ونسیاںسے معافی کی بار بار درخواستیںکیں، بہتی آنکھوں کے ساتھ امت مسلمہ کی حالت زار وزبوں بیان کی۔ دین سے دوری اور اس کے نتیجہ میں برسنے والی قہر و ستم کی یورشوں پر رویا ، اس دوران حجر اسود کا استلام بھی کیا۔اس کی تاریخ بھی آنکھوں میں پھر گئی، ملتز م اور رکنِ یمانی کی بیان کردہ عظمتیں آ نکھوں کے اسکر ین کے سامنے آگئیں۔باب کعبہ کے سامنے جانے کی کوشش اور اسے کم نزدیک سے دیکھنے کی کوشش تو کی کہ یہیں سے تو رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فاتح مکہ بن کر اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کرنے کا اعلان عام فرمایا تھا۔باب کعبہ کے نزدیک پہنچنے میں ہائے !یہ درد کمر رکاوٹ بنا رہا، یہ خواب شرمندۂ تعبیر پہلے ہوا تھا نہ اب کے ہوا، نظریں جھکائے ، پلکیں بچھائے، کعبہ کے ارد گردمستانہ وار طواف کر رہا تھا، اور تصور کی دنیا میں سیدنا ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے مبا رک ومقدس ہا تھو ں اس گھر کی بناء کی قیاسی تصویر بنا رہا تھا اور پھر وہ خوں آشام زمانہ بھی آنکھوں کے سامنے آنے لگا جب محبوب خدؐا نے دعوت حق کی پاداش میں اپنوں کی جانب سے گرائی جانے والی قہر و ستم کی مسلسل یورشوں اور بارشوں کے درمیا ن ایک مدت تک صبر و ثبات کے اظہار کے بعد یہاں دو رکعت نماز کی ادائیگی کی اور ہجرت کا آغاز کیا تھا اور وائے ! کعبہ شریف کے ارد گر کئی بار اس غم خوار امت، محسن انسانیت ؐ کو شبِ غم کی ظلمت کے محافظوں کے دست جفا کیش کا شکار ہونا پڑا تھا۔تاریخ کے یہ چشم دید واقعات صحنِ کعبہ میں ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے اور دل میں ایک طوفان بپاکئے جارہے تھے اور پھر وہ دن بھی بے اختیار یاد آگیا جب اس مظلوم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتح اعظم بن کر قل جاء الحق وزھق الباطل کا مژدہ ربا نی سناکر حرمِ کعبہ میں شکم پرستوں کی جانب سے رکھے بتوں کونکال باہر کیا اور پھر دوئی پسند باطل کو ایسی شکست ہوئی کہ مدتوں کراہتا رہا، پھر توحید کا غلغلہ ہوا، ہاں توحید و سنت ہی تو مسلمان کا مقصودِ زندگی بھی ہے اور متاعِ حیات بھی ، اس کلمۂحق کے بول با لاکے لئے کبھی جان کی بازی لگانی پڑتی ہے، کبھی مال و دولت ، دنیا و رشتہ وپیوند سے کٹ جانا پڑتا ہے اور کبھی سرزمین وطن کو بھی خیر باد کرنا پڑتا ہے، مسلمان ہونا کوئی حلوہ خوری اور شیرین فروشی کا عمل نہیں یہاں قدم قدم پر سختیاں اور مصائب ہیں اور پھر حق پر جم جانا ہی اسلام کی روح ہے اور یہی لبیک اللھم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک کا مطلب و مفہوم ٹھہرا۔
یہ شہا دت گہہ ٔ الفت میں قدم رکھنا ہے
لو گ آ ساں سمجھتے ہیں مسلما ں ہو نا
ہاں تو ذکر کعبہ شریف کا ہورہا تھا جس کے بارے میں محققین و شارحین نے کہا ہے کہ یہ کر ہ ٔ ارض کے وسط میں واقع ہے۔ یہی بات چوتھی صدی میں مسلم جغرافیہ داں ابو علی البحیہان نے او ر دسویں صدی میں مصر ی جغرافیہ داں الصفاقسی نے اپنی تحقیق میں کہی ہے اور پھر ۱۳۹۳ھ میں مصری سائنسداں ڈاکٹر کمال الدین کا نتیجہ ٔ فکر یہ ہے کہ کعبہ شریف ہی تمام براعظموں کا مرکز ہے ۔بہر حال طواف کی وار فتگی میں اضافہ در اضافہ ہو رہا تھا ۔اس عاشقانہ وعارفا نہ عمل سے فراغت ہوئی تو مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے دو رکعت نمازیں ادا کیں، سجدوں میں لرزاں و ترساں تھا، کعبہ کی مقدس زمین تھی اور میری گناہوں سے آلودہ یہ جبیں ! نہ جانے کتنے صالحین اور صدیقین کی مبارک پیشانیاں یہاں سجدہ ریز ہوئی ہوں گی، پھر سجدوں میں اپنی سیاہ کاریوں نے رُلادیا۔ شرمندہ تھا، اور حال یہ تھا ؎
بہ زمین چو سجدہ کردم زِ زمین ندابر آمد
تو مرا خراب کردی کہ بہ سجدہ ریائی
زمین کعبہ و حرم سے یہ صدائیں قوت سماعت سے صاف ٹکرارہی تھیں کہ اے خاطی و ریا کا ر! بند کر یہ رونا دھونا، تمہاری سیاہ کاریاں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں، کتنے دنیا پرستیو ں، اِزموں فلسفوںاور ابلیس کے بنا ئی مختلف دہلیزوں پر سرجھکاکے اب زمینِ حرم کو آلودہ کرنے چلے آئے ہو۔ یہ سن کر میں زمین میں گڑاجارہا تھا کہ پھر خدائے رحیم کی شفقتوں اور رحمتوں نے ڈھانپ لیا اور یو ں لگا کہ یہ رحمتیں میری پیٹھ تھپتھپارہی ہیں کہ غم نہ کر تو میرے بلاوے پر آیاہے ۔ آج معافی مانگ اور پھر آ گے حین حیات میں مسلم کے معنی سمجھ کر مسلم بن کر رہ۔ میں تجھے اپنے دریائے رحمت میں دھوڈالوں گا۔ اس تسلی سے ایک دم سکون سا محسوس ہوا تو آنسو بہائے صفا و مروہ کی جانب چل پڑا۔ ایک بار پھر تاریخ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی، ہاں! یہاں ہی تو پیاس کی شدت سے بے بس و بے تاب معصوم اسماعیلؑ کو چھوڑ کر حضرت حاجرہ ؓ پانی یا کسی قافلے کی تلاش میں صفا مروہ اور مروہ سے صفا کی جانب بے قرار ی اور اضطرار و اضطراب کا عملی مظہر بنی تھی اور یہاں ہی معصوم اسماعیل ؑ کی صدائے العطش نے رحمتِ الٰہی کو یوں جوش دلایا کہ معصوم نے ایڑی رگڑی کہ زمزم کا بحر بیکراںتب سے پورے آب و تاب سے جاری ہے۔ صفا پر مسنون کلمات پڑھے ،مروہ کی جانب چلا ،دمیان میں دعائیں بھی ہوئیں اور مناجات بھی۔ سات چکروں کے بعد یہاں سے فراغت ہوئی تو اب باہر آئے، سرمنڈوایا کہ یہی حکم ہے۔ قیام گاہ پر پہنچ گئے، سفید لباس بدن سے اترگیا اور اب معمول کی زندگی بحال ہوئی۔ اب روز ہم تھے اور حرم و کعبہ ! ۔ رحمتِ رب برستی رہی اور ہم اپنے اپنے ظرف کے مطابق دامنِ مراد بھرتے رہے، کبھی کھبار اپنی رہائش گاہ کی مقامی مسجد میں نمازوں کی ادائیگی ہوتی رہی، عرب مالداروں کی اس جدید بستی کے کیا کہنے ، پیر و جوان ہی کیا معصوم بچے بھی نمازوں کے پابند اور جھوٹ و دجل و فریب سے سخت متنفر ۔ ہزاروں سال کی مہمان نوازی کی ریت کا بھرم اب بھی نہیں ٹوٹا ہے ۔کئی بار اس بستی میں قیام پذیر حجاج کرام کی مسجد میں ضیافت کا بندوبست کیا اور خود اپنے مرتبوں کا لحاظ کئے بنا میزبانی کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ اپنے ہوٹل کی اوپر والی منزل سے’’ثور‘‘ کا تاریخی غار دیکھا جاسکتا تھا، جہاں سے نبی دوعالم صلعم نے اپنے رفیق محترم حضر ت ابو بکر صدیق ؓکے ساتھ ہجرت کا مقدس سفر شروع فرمایا تھا۔ افتاں و خیزاں اس کوہ کے دامن تک تو پہنچ گیا لیکن یہاں بھی نقاہت و درد کمر سدراہ بنے رہے ، دور سے اسے دیکھتا رہا اور اس کی تاریخ کی ورق گردانی تصوارت کی دنیا میں کرتا رہا ،پھر غار حرا تو غار حرا ٹھہرا، وحیٔ ربانی نے ظلمت کدہ دہر کے سینہ کے چیرنے کے لئے سب سے پہلے اسی تاریک غار کو منور کیا تھا اور یہیں سے صاحب قرآن صلعم نے وہ نسخۂ کیمیا دنیا کے سامنے لاکے رکھ دیا جس نے عرب کے صحرا نشینوں کو کج کلاہوں کا سردار اور خشکی و تری کا حکمران بناکے رکھ دیا۔ بقول اقبال ؎
در شبستان حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکوت آفرید
صاحب دعوت و عزیمت کی قربانیوں کی تاریخ کا ورق ورق سامنے آتا رہا اور اس روشنی میں اپنے ’’علماء و عقلاء ‘‘کو دیکھا جا نچا تو شرمند گی کا احساس ہوا۔ عربوں کا بات بات پر بارک اللہ اور ہداک اللہ کے دعائیہ کلمات روح پرور و دل مسرور کئے دیتے ہیں… اور ہاں ! پھر وہ ساعت ہمایوں آہی گئی جب آٹھویں ذوالحجہ کو ہمارا قافلہ شب کو سوئے منیٰ روانہ ہوا ، منیٰ جو تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ خود ایک تاریخ ہے، جہاںچشم فلک نے بوڑھے باپ کو اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان گاہ کی جانب لے جادیکھا ہے ، ہاں! ہنسی خوشی اپنے تابعدرا بیٹے کا اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے انداز سے بھی واقف ہے، منیٰ جہاں اس وقت بھی جب نبی دوعالم صلعم پر مکہ کی زمین تنگ کی جارہی تھی ، مدینہ منورہ کے کچھ سعادت مندوں نے رات کی تاریکی میں ہی ان سے عہد وفا باندھا اور واردِ مدینہ ہونے کی درخواست دی۔ منیٰ جہاں غارو المرسلات بھی ہے جس کی آخری آیت امت کو خاص پیغام دے گئی، منیٰ جہاں مسجد خیف بھی ہے، جہاں کئی انبیاء و رسل ؑ نے بارگاہِ صمدیت میں سر نیاز خم کئے ہیں۔ ہاں منیٰ جہاں آج رابطہ عالم اسلامی کا مرکز گیسٹ ہاؤس بھی ہے، جہاں اس ادارے کی جانب سے خصوصی دعوت پر آنے والے مہمانان ِگرامی کے قیام و طعام کا بندوبست رہتا ہے، اسی منیٰ میں ظہر و عصر کی نماز قصر کے ساتھ باجماعت ادا کی، نوویں ذوالحجہ کی شب کو ہی عرفات کی جانب روانگی کی ہدایت ملی، فجر کے قریب میدان عرفات میں پہنچ گئے ۔ وہا ں حاجیو ں کی نماز کی باجماعت ادائیگی میری ہی پیشوائی میں ہوئی، جبل رحمت کو دور سے دیکھ لیا حضور اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہاں ہی خطبہ حجۃ الوداع دیا تھا اور انسانیت کو تا قیام قیا مت ایک اس پیغمبرانہ منشور سے نوازا تھا جو عالم انسانیت کیلئے واحد پرا وانۂ آ زادی ہے، یہاں ہی ملت اسلا میہ کو اخوت و مساوات کا درس ملا تھا، یہاں ہی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا سے وداع ہونے کے واضح اور بلیغ اشارات فر ما دئے تھے، یہاں ہی زبا ن ِ حق بیا ں سے فرما یاگیا تھا کہ حسب و نسب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر تمہیں کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ، معیار صرف تقویٰ( یعنی خدا خوفی)ہے، قومیت اور قبیلہ نہیں ،خا ندان اور کو د تراشیدہ نسبتیں نہیں۔ عرفات کا یہ بے مثال عظیم اجتماع بزبان حال کہہ رہا تھا ؎
بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ ایرانی رہے باقی نہ طورانی نہ افغانی
مسجد نمرہ میں خطیب نے خطبہ دیا۔خیمے میں ظہر و عصر کی نمازیں قصر کے ساتھ پھر میری ہی پیشیوائی میں سینکڑوں بندگانِ خدا نے ادا کی ، پھر ایستادہ دعاؤں کا ایسا دور چلا کہ ہر سو آہ بکا اور گریہ وزاری کی دل گداز صدائیں سنائی دینے لگیں۔ یہاں نمازوں کے علاوہ اذکار و تلاوت و مناجات کا حکم ہے اور اس مقام پر ٹھہرنے کو ہی کلام نبوی ؐ میںحج کہتے ہیں۔جس نے وقوف کیااس کا حج ہوا۔ جویہاں نہ آسکا کوئی فدیہ بدلہ یا نذر و نیاز اس کا بدل نہیں، آخر یہ وقوف عرفات ہے کیا؟ میرے سامنے اس وقت بھی نامور مفکر شیخ علی طنطاوی کی ایک زندہ جاوید تحریر کایہ اقتباس ہے۔ آپ کو بھی انشاء اللہ حج کی یہ سعادت حاصل ہو ئی تو اس عبارت کو بطور خاص ذہن نشین رکھئے حجاج کرام کے اجتماعِ عرفات کے با رے میں آ پ لکھتے ہیں:
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ باریک رگیں کیسے جسم کے کناروں سے خون اٹھاکر بڑی بڑی رگوں میں پہنچاتی ہیں، یہاں تک کہ وہ خود اپنا چکر پورا کرلیتا ہے، دل میں اکھٹاہوکر اور پھیپھڑے میں منتشر ہوکر پھر وہ گدلے پن کے بعد صاف ہوتا ہے اور متحرک رگوں میں نیا سرخ خون بن کر لوٹتا ہے۔ بعد اس کے کہ وہ رگوں میں کالا اور فاسد خون کی شکل میں تھا، ایسے ہی حج ہے۔ مسلمان زمین کے چاروں طرف سے آتے ہیں، پھر عرفات میں جو اسلامی جسم میں پھیپھڑے کی حیثیت رکھتا ہے منتشر ہوجاتے ہیں، تو یہ پھیپھڑا ان کے نفس کو شہوتوں کے گدلے پن سے صاف کردیتا ہے اور گناہوں کے میل سے پاک کردیتا ہے اور وہ اپنے وطن کو اس حال میں لوٹتے ہیں کہ اپنے نفس کو جدید نفس میں بدلے رہتے ہیں، گویا یہ نفس گناہوں کو جانتی ہی نہ تھی‘‘۔
جی ہاں! عرفات میں تو سب گناہوں کی ایسی بخشش ہوتی ہے جس کا کوئی حد و حساب نہیں ۔ بہر حال نماز مغرب کا وقت قریب تھا، عقل تو کہتی ہے کہ نماز ادا کی جائے پھر چلا جائے لیکن حکم یہ ہے کہ اٹھو اور مغرب و عشاء ایک ساتھ مزدلفہ میں ادا کرو۔ اللہ کے مخلص بندوںکے قافلوں کے قافلے مزدلفہ پہنچے، مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کیں ، کنکریاں چن لیں، صبح پھر منیٰ روانگی ہوئی، جمرہ عقبہ کی رمی اللہ اکبر کہتے ہوئے کی۔ہاں اللہ ہی سب سے بڑا ہے، قانون سازی اور حکمرانی اسی کو زیب دیتی ہے، باقی ہر شئے فانی ہے ۔ اب قربانی کا عمل تھا ختم ہوا، پھر منڈاہوا سر منڈایا کہ اس میں رضائے رب ہے ،پھر سوئے کعبہ چلے، طواف و سعی سے فراغت ہوئی پھر دعاؤں کا سلسلہ چل پڑا۔ بعد ازاں منی کی جانب لوٹے۔۱۱؍ اور ۱۲ ؍ ذوالحجہ کو پھر شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے حجاج یہ عہد کرتے ہوئے لوٹتے ہیں کہ ہر شیطانی اکساہٹ کو بھانپ کر اس کے شر سے بچنے کی ہر کوشش و سعی کریں گے۔ ۱۲؍ ذوالحجہ رہائش گاہ کی جانب واپسی ہوئی۔ حج کا مرحلہ اختتام کو پہنچ گیا، اب مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی صلعم کی زیارت کے لئے سینوں میں رقصاں تھا۔ جب یہ ہدایت ملی کہ یہ سعادت اگلے روز نصیب ہورہی ہے تو پھر خانہ کعبہ کا رُخ کیا پھرسے درکعبہ پر دستک دے دی اور لگا کہ رحمت رب ہنسی خوشی رخصت کررہی ہے۔ طوافِ وداع کرتے ہوئے بچشم نم پھر بلانے کی صدادیتا رہا اور لب پر بس ایک ہی صدا تھی:
خدایا ایں کرم باردگر کن
مدینتہُ ا لنبی ......اے خنک شہر ے کہ آنجادِ لبراست
الوداع اے مکۃ المکرم! ہاں اب وہ ساعت سعید آہی گئی جب ہم نے مدینہ النبی ؐ کی جانب رختِ سفر باندھا۔پوری رات اس سفر شوق میں گذر گئی اور جب شہر نبی صلعم میں قدم رکھے تو دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ زندگی بھر کے خوابوں کی تعبیر ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے تھی۔ اس شہر مبارک کی عظمتوں کے کیا کہنے، خود پیغمبر مدنیصلعم کا ارشاد ہے کہ (قیامت کے قریب) ایمان سمٹ کر مدینہ میں آئے گا، ایسے جیسے سانپ اپنے سوراخ کی طر ف سمٹ کر پناہ لیتا ہے۔ یوں کہئیے کہ اس مقدس سرزمین کا ہر ذرہ ماہتاب اور ہر خار گلوں کا تاج وقار ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ’’جذب القلوب ‘‘میں لکھتے ہیں کہ امام مالکؒ مدینہ طیبہ میں اپنے گھوڑے پر یہ کہہ کر سوار نہ ہوتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس مبارک زمین کوگھوڑے کے سم سے نہ روندوں جس پر محبوب خداصلعم کے قدم مبارک پڑے ہوں۔ مدینہ طیبہ! جی ہاں مدینہ جس کے باسیوں نے حبیب کبریاصلعم سے عہد وفاباندھا تو لاج کچھ اس طرح رکھی کہ فلک پیرا اس جانثاری پر ہنوز عش عش کرتا نظر آرہا ہے۔ہم کیا اور ہماری اوقات ہی کیا ۔ دنیا کے بڑے صلحا ء عبقری شخصیات ، اولیاء ، علماء ، اتقیاواصفیا اس مبارک سرزمین میں کیا آئے تو ادب و تعظیم کے ایسے نقوش چھوڑگئے جو ابدتک نمونہ عمل بنے رہیں گے۔ اقبال تو ساری عمر اس شہر منور کے تعلق سے اپنے قلبی جذبات کا اظہار یوں کرتا رہا ؎
خاک یثرب ازدوعالم خود شتراست
اے خنک شہرے کہ آنجادِ لبراست
دور سے محبوب خدا صلعم کی مسجد کے دروبام نظر آنے لگے ،گنبد خضریٰ آنکھوں میں سماگیا تو روح و دل نے عجب طرح کی لذت محسوس کی، شوق گویا تھا کہ دوڑ کے چل اور ادب کا تقاضا تھا کہ سبک خرام رہ ،مقام مقدس کی عظمتوں کو پیش نظر رکھ کر۔ عجب بیم و مسرت کا عالم تھا، صحن مسجد نبویؐ میں قدم کیا رکھا کہ پو رے وجود میں ارتعاش پیدا ہوا، زبان خوددرودوسلام کا ورد کرنے لگی، کہاں میں کہاں مولا ئے کا ئینات کی یہ کرم نوازیاں! اپنی قسمت پر خود رشک ہونے لگا، مسجد میں داخل کیا ہوا عجب وارفتگی کا عالم تھا، دل چاہتا تھا کہ نظریں بچھاؤں یا قلب و جگر قربان کردوں ۔ دو رکعت نماز بہ چشم نم ادا کی اور پھر دل روضۂ محبوب صلعم کی جانب فوری طور حاضری کی بے تا با نہ آرزواورخواہش ۔ آخر یہ امید بھی بر آئی، ہزاروں لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں شامل ہوا۔یہ آسمان کے نیچے سب سے بڑ یاو برتر ادب گاہ ہے، یہاں کوئی شوروشغب نہیں اور نہ کوئی اچھل کود۔ اس مقام کے ادب کے حوالہ سے قرآنی آیات خود اس روضہ کی جالی پر تحریر ہیں۔ سسکیوں اور ہچکیوں کا عجب عالم تھا۔ ہر شخص درود و سلام کی سوغات لئے روضہ انور کے سامنے سے گزر رہا تھا، میری بد اعمالیاں مجھے خون کے آنسو رلارہی تھیں۔ یہ عا صی وننگ ِاسلا ف حضور صلعم کے مبارک روضہ ٔ مبارک کے سامنے کیا حاضر ہواکہ ایسا لگا کہ خود اپنے پر قابو پا نہیں رہا ہوں۔ امت کا درد اور اپنے محور سے اس کی دوری کے نتائج بھی سامنے تھے، اپنے عروج کا زمانہ بھی یاد آرہا تھا اور زوال امت کی خون چکاں داستان بھی۔ آقاؐ کے سامنے درود سلام کانذرانہ پیش کیا کیا کہ روتے روتے آواز رندھ ہوگئی۔ محبوب صلعم کے دو عظیم ساتھیوں کی مبارک مرقدوں سے جبینِ نیا ز جھکا جھکا کرگذرا ، سلام عقیدت پیش کیا تو ایک سنہری تاریخ یا خیرالقرون کی جھلکیاں آنکھوں میں پھرنے لگیں۔ شیخینؓ کی جاں بازیاں او ر وفاداریاں ایک ایک کرکے سامنے آنے لگیں۔ حجرۂ عائشہؓ اس کی عظمتیں اور اس میں بار بار جبرئیل امین ؑ کا وحی ربانی لے کر آنا ایسا لگا جیسے ابھی یہ سب کچھ ہورہا ہے،نفسی الضرا ء لِقبرِ انت ساکنہُ کی حسانی ؓمدح اور وصال نبوی صلعم پر ان کے جگر خراش جذبات آج بھی مقدس جالی کے اوپر تحریر نظر آتے ہیں جو دل کی دنیا کو تہ وبالا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ یہاں زیادہ دیر ٹھہرا نہیں جاسکتا کہ قافلوں کے قافلے اس سعادت سے بہرور ہونے کے لئے قطا ر اندر قطار اپنی باری کے منتظر نظر آتے ہیں ۔باہر آگیا آنسو پونچھ لئے ،کچھ دیر صحن مقدس میں بیٹھ گیا اور حسانؓ وجامیؒ کا محبوب صلعم کے تئیں نذرانۂ عقیدت خودبخود زبان پر آگیا۔ عجب وارفتگی کا عالم تھا اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔
مسجد نبوی ؐمیں آمد اور نمازوں کی بلاناغہ ادائیگی ہوتی رہی، یہ مسجد ہے کیا؟ دراصل اس کی ہر شئے سے ایک عظیم تاریخ وابستہ ہے۔ اس کی باطنی عظمتوں کے کیا کہنے۔ اس کا ظاہری جلال و جمال بھی مبہوت کرکے رکھ دیتا ہے ۔ چلئے کچھ اس حوالہ سے بھی بات ہو۔توسیع مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک ۹بار یہ وسعت پاچکی ہے اور آج اس میں ۵۳۵۰۰۰ نمازیوں کی گنجائش موجود ہے ۔اس کی بلند وبالا اور دل کش میناروں کی تعداد دس ہے۔ متحرک گنبد حرکت میں آتے ہیں تو عجب سماں بندھ جاتا ہے۔ تعداد کے اعتبار سے یہ ۲۷ ہیں جن پر ۶۸ کلو گرام سونا استعمال ہوا ہے۔ عام سیڑھیوں کے علاوہ چار متحرک سیڑھیاں زائرین کو دوسری منزل پر پہنچانے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ مسجد میں ۵۴۳ نگران کیمرے ہر نمازی کے حرکات وسکنات عکس بند کرتے رہتے ہیں ۔مسجد کے گرد مبارک صحن کا رقبہ ۰۰۰ــ۲۳۵ ہزار میٹر ہے ، گرینائٹ پتھروں سے مزیں رقبہ ۴۵۰۰۰ مربع میٹروں پر مشتمل ہے۔ جی ہاں، مسجد نبوی ؐجہاں قدم قدم پر رحمتِ رحمٰن برستی ہے، یہاں ہی ’’ریاض الجنۃ‘‘ بھی ہے جو کلام نبوی صلعم کی روشنی میں جنت کے باغات میں سے ایک باغیچہ ہے۔ یہاں دورکعت نماز کی ادائیگی کے لئے بھیڑ لگی رہتی ہے۔ خدائے لم یزل کا شکر و سپاس کہ یہ سعادت بھی حاصل رہی۔ یہاں لگے کئی ستو نوں کو دیکھنے کو تو سب دیکھتے ہیں لیکن ان کی تاریخ سے حا ل حا ل ہی لو گ واقف ہو تے ہیں ۔ منبر و محراب نبوی ؐ رلارلا کر بے حال کرکے رکھ دیتے ہیں۔استوانہ حنانہ پر لگا ستون آج بھی حنانہ کی فراق یار میں جدائی کے موقع کے اضطراروبے قراری کا بزبان حال اظہار کرتا ہے ، استوانہ ابولبابہؓ ،حضرت ابولبابہؓ کے توبہ اور داستانِ قبولیت توبہ کی ساری تاریخ بیان کرتا ہے۔ استوانہ سریر اور استوانہ مخلقہ بھی اپنی تاریخ کا اظہا ر بہ زبان حال کرتے ہیں۔ کاش سبھی زائرین ان باتوں سے واقف ہوں تو جذب شوق کی حدت وشدت میں اضافہ دراضافہ ہوگا۔ عام زایئرین تو ان اہم اور تاریخی مقامات کو بھی دیکھ نہیں پاتے جو مسجد نبوی ؐ کے بالکل گردونواح میں ہیں۔ ہاں، اس کے متصل ہی عید گاہ ہے جہاں مختلف مواقع اور مقامات پر نبی ؐ نے عیدین و استسقا کی نمازیں اد ا کیں اور یہی میدان ہے جہاں آپؐ نے نجاشی کی غائبا نہ نماز جنازہ کی ادائیگی کرکے نجاشی کی عزتوں اور شہرتوں کو بام عروج پر پہنچادیا۔ ان مقامات پر حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ نے مساجد تعمیر کی ہیں۔جنوب مغر ب میں ۳۰۵میٹر کے فاصلے پر مسجد غمامہ ہے اور اس مسجد سے ۴۰ میٹر کے فاصلے پر مسجد علی ابن طالب ؓہے ۔ سلطان محمدترکی نے ان مساجد میں سے کئی کی دوبارہ تعمیر کی۔ اور ۱۴۱۱ھ میں شاہ فہد نے ان کی مرمت و تجدید کی۔ یہ مساجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ہاں! یہاںپہ بھی بتاتا چلوں کہ مسجد نبویؐ سے مغرب کی جانب ۲۰۶ میٹر کے فاصلے پر وہ تاریخی جگہ بھی ہے جوسقیفہ بنو ساعدہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں ہی حضور اکرمؐ کے انتقال پرملال کے موقع پر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب عمل میں آیا تھا، آج یہاں ایک الیکٹرک پاور اسٹیشن قائم ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک باغیچہ بھی ہے ۔ مسجد نبویؐ کے قریب ہی وہ تاریخی قبرستان بھی ہے جو مزار بقیع کے نام سے موسوم ہے۔ اس زمین میں کتنے آسمان آسودہ ہیں، تاریخ کا مطالعہ بتائے گا۔ یوں اس میں دس ہزار صحابہؓ کی تدفین عمل میں آئی ہے ا ور مزید کتنے صالحین ؒاور تابعین ؒاس میں آسودہ ہیں، ان اقبال مندانِ ازلی کا کوئی شمار فی الوقت نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہاں تشریف لاکر مدفون حضرات کے لئے بارگاہ ربانی میں ان کی درجات کی بلندی کی دعائیں فرماتے تھے(صحیح مسلم)۔حضرت عثمان بن مظعونؓ،حضرت عثمان بن عفان ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت رقیہؓ ، حضرت ام کلثوم ؓ ، آپ ؐ کے فرزند حضرت ابراہیمؓ او ر حضرت خدیجہ ؓ او ر حضرت میمونہؓ کے سوا ساری ازواج مطہرات کے ساتھ ساتھ آپ کے چچا حضرت عباس ؓاور پوپھیاں صفیہؓ اور عاتکہؓ ، حضرت حسن ؓ، فاطمہ بن اسدؓ اور حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بھی یہاں ہی آسودہ ہیں اور یہاں ہی حضرت امام مالکؒ ، امام نافعؒ ، امام زید العابدین ؒ، امام جعفر صادقؓ اور حضور صلعم کی رضائی والدہ حلیمہ سعدیہ کی آخری آرام گاہیں بھی ہیں۔اس گورستان میں تاریخ و سیرکا کوئی طالب علم داخل ہوجائے تو اسلام کی تاریخ کا ایک وسیع باب اسے دور بہت دور تک لے جاتا ہے۔اس مزار میں شرکیات و بدعات سے اجتناب کی سخت تاکید بھی ہے اور اہتمام بھی ۔شاہ فہد کے زمانہ میں اس کی آخری توسیع ہوئی اور اس کا رقبہ ۱۷۴۹۶۲مربع میٹر ہے ،جس کے گرد چار میٹر اونچی اور ۱۷۲۶ میٹر لمبی دیوار ہے۔ ہاں شارع قربان پر واقع مسجد قربان اور مسجد بلالؓ تو قربانی کی تاریخ اور بلالی صدائے حق کی یاد ایک بار پھر دلاتی ہیں…مسجد قبا کو تو ہماری تاریخ میں اہم ترین اہمیت حاصل ہے ۔ یہ وہی مسجد جس کے بارے میں خدائے قدوس نے کہا’’ یہ وہ مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ وہی زیادہ موزون ہے کہ تم اس میں عبادت کے لئے کھڑے ہوں‘‘ مسجد دارخثیمہ بھی اس سے متصل تھی جو شاہ فہد کے دور میں مسجد قبا ء میں ہی شامل کردی گئی ۔ مسجد قبا مسجد نبوی صلعم شریف سے ۳۲ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہا ں آسانی سے عازمین کے واسطے ٹرانسپورٹ دستیاب رہتا ہے۔ مسجد قبلتین کی تاریخ سے سبھی واقف ہوں نہ ہوں نام ضرور سنا ہوگا۔ شارع خالد بن ولید ؓ کے کنارے اور وادی عقیق کے قریب یہ عظیم مرکز عبادت اپنے نام سے ہی اپنی تاریخ بیان کررہا ہے۔ یہ وہ مرکز ہے جہاں امام دوعالم صلعم نے عین نماز کے دوران ہی اپنا مقدس رخ کعبہ کی جانب کردیا۔ ہاں یہاں ہی تحویل قبلہ کا حکم ملا تھا۔ جس کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۴ میں ہوا ہے ، یہ مرکز عبادت مسجد نبوی صلعم سے ۳۵ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں یہ بھی نہ بھولئے کہ مسجد قبا سے صرف ایک کلو میٹر کی دوری پر تاریخی مسجد جمعہ واقع ہے۔ مدینہ تشریف آوری کے وقت حضور صلعم نے بنوسالم کی بستی میں یہاں ہی نماز جمعہ ادا کی تھی۔ مسجد عتبان و مسجد نبی انیف کی بھی اپنی تابناک تاریخ ہے، مسجد نبوی صلعم شریف کے شمالی جانب ۹۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد ابی ذؓرفقر بوذرؓ کی یاد دلاتی ہے ۔مسجد اجاجہ مسجد نبی ظفر ، مسجد فضیح، مسجد سیقیا، مسجد نبی دینار ، مسجد نبوی کے شمال مغر میں ۵۲۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد بسبق ، شارع سید الشہداء ؓ کے قریب مسجد مستراح کے جنو ب میں ۳۰۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع مسجد شیخین اور مسجدمستراح کی کڑیاں تاریخ سے ملاکر دیکھ لی جائیں تو ہرزائر عرصہ تک تاریخ کی وادیوں میں سیر کرتے ہوئے عجب حظہ ولطف وسرور وعزم و ہمت کا احساس کرے گا۔
ثینتہ الوداع اپنی تاریخ خود بتائے گا، شارع سید الشہداء اورشارع ابوبکر ؓ کے سنگم پر واقع تھا۔مسجد نبویؐ کے شمالی مغربی کونے سے قریباً ۷۵۰ میٹر یہاں ایک مسجد قائم ہے،دوسرا ثنیتہ قبا کی طرف تھا۔ مکہ مکرمہ آنے جانے والے یہاں سے گذر تے تھے ۔یہاں ہی آمد مدینہ کے موقع پر چھوٹی بچیوں نے حضور صلعم کے استقبال کے دوران’’طلع البدرعلینا‘‘ کے مسرت بھرے گیت گائے تھے ۔ یہاں آج ایک گرلز اسکول قائم ہے ۔یہ جگہ بھی حضورؐ کے سفر ہجرت کی یاد دلاکر ذہن و دل میں انقلاب بپاکئے دیتی ہے۔ یہاں عبرت کے لئے اس قلعے کے کھنڈرات بھی دیکھے جاسکتے ہیںجو قلعہ کعب بن اشرف کے نام سے موسوم ہے۔ یہ قلعہ اسلام کے خلاف سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مکروفریب کے تانے بانے بُننے کا مرکز رہا۔ کعب بن اشرف ایک مالدار شاعر تھا، ماں یہودی تھی ۔ یہودیت رگ و پے میں سرایت کرچکی تھی۔ بدترین اسلام دشمن تھا، اپنے اشعار میں اسلام اور پیغمبر اسلا م صلعم اور صحابہ ؓ کیخلاف زہر افشانیاں کرنے کا عادی تھا۔ اپنے ہی قلعہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے اس قلعہ کے کھنڈرات آج بھی مدینہ منورہ کے جنوب مشرق میں بطحان ڈیم کے راستے میں دائیں جانب ہر دیکھنے والے کو ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘ کہہ کر نصیحت حاصل کرنے کا درس دیتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں جبل احد اور میدان احد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔کچھ زائرین یہاں آتے ہیں لیکن تاریخ سے عد م واقفیت کی بنا پر بس ادھر ادھر نظر دوڑاکر اپنا راستہ لیتے ہیں۔جبل احد جس کے بارے میں حضور صلعم نے فرمایا کہ’’یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘ اسی میدان احد اور جیل رماہ میں ہوئے حق و باطل کے درمیان ہونے والے معرکہ نے عجب غلغلہ پیدا کیا ۔ فتح بالکل قریب تھی لیکن چند جانثار اپنی مقرر کردہ جگہوں سے تھوڑی دیر کے لئے کیا ہٹ گئے کہ زبردست پریشانیوں اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ خود حضور صلعم صرف اپنے چندساتھیوں سمیت میدان احد میں ڈٹے رہے اور کئی زخم مبارک چہرے کو لگے۔فداہُ اَبی وَاُمی ۔ انہیں کہا گیا تھا ؎
فلک ٹوٹے زمین پھٹ جائے موت آئے کہ دم نکلے
مگر ہرگز نہ ہادی کی اطاعت سے قدم نکلے
بس تھوڑی دیر دائر ہ اطاعت سے باہر آئے تو ہوش ربا مناظر دکھائے گئے، پھر سنبھلے ، دامن اطاعت میں آگئے تو ہاری ہوئی جنگ جیت کر ظفر یاب ہوئے ۔یہاں پہنچ کر اسلا می تا ریخ کا طالب علم تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتا ہے۔ جبل رماۃ کے تیراندازوں کی یا د سید الشہداء حمزہؓ کی شہادت اور حضور ؐ کا کوہ استقامت بن کے کھڑا رہنا ،یہ سب یاد آکر ذہن و دل میں عجب طرح کا انقلاب بپا کردیتا ہے۔شہدائے احد کو حضور صلعم کے ارشاد کے مطابق میدانِ قتال میں ہی دفن کیاگیا۔احد پہاڑ کے دامن میں غار کے نیچے جس جگہ حضور صلعم نے احد کے دن ظہر کی نماز ادا کی وہاں ایک مسجد بنی تھی جس کے اب آثار باقی ہیں۔ارد گرد حفاظتی جنگلہ لگایاگیا ہے۔
مدینہ منورہ کے عین وسط میں جبل سلع ہے، مغربی دامن میں بنو حرام کی آبادی تھی۔ جنگ خندق کے دوران اسی پہاڑ کے قریب غار میں حضورصلعم نے قیام فرمایا، دعائیں کیں، فتح نصیب ہوئی۔ سعودی حکومت نے اس پہاڑ کے گرد لوہے کے مضبوط جنگلے نصب کئے ہیں ۔اسی پہاڑکے دامن میں جنگ خندق کے دوران صحابہؓ خیمہ زن تھے ، اور اس کی خوبصورتی کے لئے مصنوعی آبشار لگائے گئے ہیں ۔ ایک باغیچہ بھی باغیچہ فتح کے نام سے یہاں موسوم ہے ۔مدینہ منورہ کی تاریخ میں مساجد سبعہ کو جو سلع پہاڑ کے دامن میں واقع ہیں، بڑی اہمیت حاصل ہیںاور جن عظیم ترین شخصیات کے مبارک ناموں سے یہ مساجد موسوم و منسوب ہیں، ان کی حیات مبارک کا ورق ورق انسان کے اندر انقلاب انگیز تبدیلیاں بپا کردیتا ہے۔ مسجد نبی حرام ، مسجد منارتین، مقام بیداء وادی عقیق، وادیٔ بطحان، وادیٔ مہزور، وادیٔ قناہ عاقول ڈیم، بس دیکھنے اور ان کی تاریخ جاننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مدینہ منورہ میں بعض تاریخی کنویں بزبان حال اپنا اپنا ماضی بیان کرتے ہیں۔ بئر رومہ، بئر حا، بئر غرس، بئرعروۃ، بس ان کی تاریخ جاننے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بئر اریسں تو وہ کنواں ہے جس میں حضور صلعم کے وصال پرملال کے بعد خلفاء کے ہاتھ میں آنے والی وہ مقد س انگوٹھی جس پر محمد رسول اللہ ؐ کے مبا رک الفا ظ کندہ تھے، حضرت عثمان ؓ کے مقدس دست مبا رک سے گر گئی ہے۔ یہ کنواں مسجد قبا کے قریب مغربی جانب واقع تھا۔او رچودھویں صدی کے آخر میں سڑک کی توسیع کے دوران زیر زمین آگیاہے۔ بئرغرس کو میں دیر تک دیکھتا رہا کہ میرا محبوب فدا ابی و امی اس کا پانی نوش فرمانے یہاں تشریف لے آتے اور اسی کے پانی سے غسل دینے کی وصیت بھی فرمائی تھی۔ یہاں زائرین اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ مسلمانوں کے تہذیبی اور تعلیمی ورثہ کو محفوظ رکھنے اور نئی نسل کو قرآن و سنت کے لازوال پیغام سے آگاہ کرنے کے لئے یہاں کیا ہورہا ہے ۔ مسجد نبویؐ شریف کے شمالی سمت ۱۳۵۲ھ میں قائم کی گئی لائبریری ۱۳۹۹ھ میں باب عمر سے متصل ہال میں منتقل کی گئی جس میں علوم حدیث، کتب علوم تفسیر ، فقہ، کتب اصول فقہ، تایخی کتب،مخطوطات، نادررسائل و رجرائد شامل ہیں۔ ملک عبدالعزیز لائبریری بھی اپناخاص نام کما چکی ہے۔ عام مخطوطا ت و کتب کی تعداد ۱۳۰۰۰ ہے جب کہ نادر و نایاب کتابیں ۲۵۰۰۰اور دیگر مطوعہ کتب ۴۰۰۰۰ سے زیادہ ہیں۔ اس لائبرری میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کو جمع کرنے کا اہتما م بھی کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ کنگ فہد پرنٹنگ پریس بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے نسخوں کی بہترین وطباعت کاکام یہاں ہوتا ہے۔ اس پریس سے اب تک دنیا کی ۳۹ زبانوں میں قرآن حکیم کے تراجم و تفاسیر شائع ہوئے ہیں جن میں کشمیری زبان بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ مرکز تحقیقات بھی قابل دید ہے ، جہاں ریسرچ کاکام ہوتا ہے۔
بہر حال بات شہر تا جدار مدینہ صلعم سے شروع ہوگئی تھی اور محبوبؐ کے شہر کے ذرّے ذرّے سے محبت ایمان کی دلیل ہے۔ ممکن نہیں کہ مدینہ منورہ کی ساری تاریخ کا احا طہ کر پاؤں۔ یہاں کا ہر حجروشجر اپنے اندر ایک تاریخ لئے ہوئے ہے اور یہ سب اس لئے کہ یہ شہرِ جانان ہے اور سب عظمتیں اور رفعتیں انہی محبوب ؐکی نسبت سے اسے حاصل ہیں۔ ہاں عازم مدینہ ہوئے تو ان مقامات میں سے اکثر کو دیکھ کر جہاں روح و دل عجب طرح کا سکون محسوس کرتا ہے، وہاں دل مسجد نبویؐ میں اٹکا رہتا تھا۔ ہر نماز یہاں ادا کرنے کی کوشش کی اور پھر وہ گھڑی آہی گئی جب جذبات کے تلاطم خیز سمندر پر قابو رکھ کر کوئے دلبر سے سوئے وطن جانے کی ہدایت ملی۔ بس اس دن کا شوق و اضطراب مت پوچھئے ۔ محبوب ؐ کی مسجد سے چمٹے رہے ، روتے رہے، بلکتے رہے اور پھر روضۂ اطہر پر جانے کی بے جا جسارت تک کی ۔ اپنے اعمال نامہ کی سیا ہی دور رہنے کا تقاضا کررہا تھی لیکن محبوبؐ سے تعلق اور امت کے تئیں راتوں ان ؐکے رونے جاگنے کا عمل نزدیک سے گذرنے کا دلاسادے رہا تھا۔یہ امید بھی بر آئی اور یہ نصف شب سے کچھ پہلے کا سماں تھا۔ بھیڑ بہت کم تھی، ہزاروں عمریں ان ساعتوں پر قربان جو یہاں آرام اور کسی بھیڑ بھاڑ کے بغیر گذریں۔ میں محبوب ؐکے روضے کے سامنے صلوٰہ و سلام کا بار بار ورد کرتا رہا ، آنکھیں تھی کہ اشکوں کا سیل رواں زمین حرم نبویؐ پر گرارہی تھیں۔ا حساس یہ تھا کہ آنسوؤں کے ان قطروں کی آواز بھی نہ سنائی دے کہ یہ بھی بے ادبی ہے، اندرہی اند ر امت کی حالتِ زاروزبوں پر ماتم کناں تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ عرب وعجم میں ہم پر قہر و ستم کی یورشیں کیوں؟اسی لئے ناکہ ہم آپ ؐ سے کٹ گئے ہیں، جس امت کو آپ ؐ نے جسد واحدبنایا تھا وہ قومیتوں اور مختلف تقسیمو ںمیں منتشراور بٹی ہو ئی ہے۔ فکری افلاس، ذہنی انتشار اور بے یقینی کا عالم ہے، چراغ مصطفوی ؐاور شرار بولہبی کی پنجہ آزمائی آج بھی جاری ہے ۔عرب، ہاں عرب آج ان کے دست نگربن گئے ہیںجن کو ہم نے ، عربوں نے، عجمیوں نے غرض تمام مسلمانوں نے حرف تکلم سے آشناکیا تھا، جن بتوں کو آپؐ نے پاش پاش کرکے کعبہ کو پاک کیاتھا، آج نت نئے ناموں اور نئے لباسوں میں وہیں صنم خانے ہمارے اعصاب پر سوار ہیں اور ہم غیر شعوری طور ہی نہیں شعوری طور بھی ان کے سامنے باادب غلا موں کی ما نند کھڑے ہیں۔ آج ہمارے بعض حکمران خود اپنی ملت کو اسلام بیزاراورحق دشمن یورپ کے قدموں میں بالجبر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ملت کا نوجوان بے راہ رو ہے، والدین ، استاد، معاشرہ ،مدرسہ معلم ، علماء،فقہاء سب اپنی ذمہ داریوں سے ناآشنا مادہ پرستی کی دوڑ میں دنیا ومافیہا سے بے خبر سر پٹ دوڑ رہے ہیںاور حقیقت حال یہ ہے کہ اپنے کرمو ں کے دنیو ی پھل کی صورت میں ہم پٹ رہے ہیں، کٹ رہے ہیں،مٹ رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم نے حضور اکرم ؐ سے اپنا رشتہ و تعلق میں بہت بڑی خلیج پیداکی ہے اور حرمین کی ضیا پا شیو ں اور اپنی زندگیو ں کے درمیان فاصلے اور مسافتیں وجود میں لا ئی ہیں، دل کی دنیا میں یہ صدائیں جاری تھی کہ میں یہ کہتے ہوئے روبہ کعبہ قبلہ ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا ؎
نہ نالم از کسے مے نالم از خویش
کہ ما شایانِ شان تونہ بود یم
گریہ وزاری کے اسی عالم میں بے محا بہ ہچکیاں بندھ گئیں، رقت طاری ہوئی، آنسو پونچھے اور رخصت ہوا۔ اگلے روز فجر و ظہر کی نماز پھر مسجد محبوبؐ میں ادا کی ،پھر قلب مفطر پھوٹ پھوٹ کر رویا ۔آنسوؤں نے مسجد محبوبؐ کے صحن مقدس کو تر بتر کردیا ۔بہ صد یاس و غم یہ کہہ کر سوئے وطن روانہ ہوا کہ اے مولا !محبوب ؐاور شہر محبوب ؐکے ساتھ محبت وارفتگی میں اضافہ در اضافہ کرکہ یہی دلیل ایمان ہے۔پھر حر مین شریفین بلالے اور با ر بار بلانے کا یہ عمل تا زیست جاری رکھ۔آمین
……ختم شد……
موبائل:-9906485136؛ای میل :-basharat bashir @yahoo.com
No comments:
Post a Comment