انٹرنیٹ کا زمانہ ایک تحفہ ایک خطرہ؟ شہزاداعظم انوری قاسمی
ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور رسائل وجرائد میں بیک وقت اچھا ئیا ں اور تباہ کاریاں دو نو ں اپنی جگہ مو جو دہیں۔ انٹر نیٹ کی انقلا ب آفریںایجاد بھی اپنے دامن میں ذرائع ابلاغ کی مفید اور نتیجہ خیز بلا ئیو ں کے ساتھ ساتھ تباہ کاریوں اور برائیوں کی پکی فصلیںاپنے وسیع وعریض دامن میں سمیٹے لائی ہیں ۔انٹرنیٹ کاا سکرین آ ن کیجئے تو اس کے صفحات جہا ں آ پ کے سامنے اپنی با نہیں کھو ل کر آ پ کو خو ش آمدید کہے گا اورچشم زدن میں آ پ کو علم ، ٹیکنالوجی، ترقی اور ما ضی ، حال اورمستقبل کی پرچھا ئیو ں کی سیر کرا ئے گا، وہیں وہ تمام عریاںوفحش مناظر ، ایمان متز لزل کر نے والے ویڈیواور اخلاق سوز تصاویر تک کی ایک تا ریک دنیا میں دھکیل کر آ پ کی شرافت، تہذ یب، انسا نی اقدار اور ضمیر ، کی روشنی بھی سلب کر سکتا ہے ۔ عام عریاں جرائد ورسائل بھی جس ننگے پن اور ما در پدر آزادکلچر کی نما ئندگی سے قاصر رہتے ہیں ،اسے کھلم کھلا نشر کرنے سے خوف کھا تے ہیں یا لا ج شرم ان کے آ ڑے آ تی ہے وہی چیز بغیر کسی ہچکچاہٹ کے الیکٹرانک میڈ یا کے توسط سے یا گھر بیٹھ بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے دکھا ئی جا تی ہے ۔ اس کے کتنے زہر یلے اثرات نو جو انو ں پر پڑتے ہیں اس کا الفا ظ کی تنگنا ئیو ں میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔بعض اسلامی ممالک نے اس طوفان بد تمیزی کو روکنے کے لئے عریاں، فحش اور جذ با ت کو برا نگیختہ کر نے والی ویب سائٹس بند کر نے کی کوششیں کیں لیکن روز کتنی ایسی websitesوجود میں آتی ہیں ، اس کا شما ر نہیں۔ یہا ں تک کہ ایک غلیظ websiteاگر آ ج ایک نام سے بند ہو تی ہے تو دوسرے عنوانات سے یا دوسرےwebsitesکے ضمن میں اس تک رسائی حاصل کر نا کوئی مشکل نہیں۔
اصولی طورانٹرنیٹ ایک تعلیم اور تعلم کے میدان میںایسی شاہر اہِ عظیم ہے جس پر چلنے کے بعد انسان کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والا فرد چا ہے وہ اسٹو ڈنٹ ہو یا ٹیچر،ڈاکٹر ہو یا انجینئر ،صحافی ہو یاسیاست داں ، بچہ ہو یا والدین ،ان سب کو نہ صرف اپنی اپنی لائن سے متعلق وسیع ترمعلومات دستیاب ہو تی ہیں اور ان کی ذہنی نشوونما اور معلو ما ت کا خزینہ ہر پل بڑ ھ جا تا ہے بلکہ اپنے اپنے دائرہ ٔ کا ر سے متعلق دیگر ایکسپرٹ افراد سے تبادلۂ خیالا ت کا مو قع بھی ملتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک انتہائی مفید ایجاد ہے جس کا مقصد دنیا کی بھلائیوں سے ہی استفادہ کر نا نہیں بلکہ اس کی وساطت سے ہم کو دینی رہنمائی کا ایک سنہرا مو قع بھی حاصل ہو سکتا ہے کیو نکہ آ ج کل ایسی سائٹو ں کی کو ئی کمی نہیں جن سے علمائے کرام کے وعظ وتبلیغ او دیگر مذہبی سر گر میو ں سے بھر پور استفا دے کا بخوبی مو قع ملتا ہے۔ وائے افسوس اسی انٹرنیٹ پر وہ شیطا نی مو اد اور ابلیس کو شرمندہ کر نے والی ایسی ہیجا ن انگیز فلمیں اور بر ہنہ تصویریں بھی دستیا ب ہو تی ہے کہ کو ئی بھی انسان جس کے دل ودما غ مین یہ خیا ل سکہ طور بیٹھا ہو کہ کو ئی اس کی بھی ماں بہن بیٹی اور بیو ی ہے وہ ان سائٹوں سے اللہ کی پناہ ما نگتا ہے۔ با لفا ظ دیگر انٹر نیٹ ایک تلوار ہے جو اگرملک وملت اور قانو ن واخلاق کے کسی محا فظ کے ہا تھ میں ہے تو دشمن پر اس تلوار کی ہر ضرب دوستو ں کے لئے حفاظت اور نگہداشت کی ضما نت ہے اور جب یہی تلوار ایک ڈاکو اور لٹیرے کے ہا تھ میں ہو تو اس کا استعمال کسی بھی صورت میں انسانیت کے لئے ضرر رساں ہونے میں اختلاف کی کو ئی گنجائش نہیں ۔ صحیح تر الفا ظ میں یہ اس اہم سائنسی نعمت کا استعمال ہے جو اس کو برا یا بھلا بنا دیتا ہے۔ بد قسمتی سے انسان جب اللہ کے مقرر کردہ حدود وقیود کو پھلا نگ کر اس کی عطا کردہ نعمتوں کا نا جا یز استعمال کر تا ہے تو چا ہے کو ئی چیز کتنی ہی مفید ہو اس کا وجود ضمیر کی آ نکھ کو اند ھا، اخلاق کے دل کو مردہ، انصاف کے کا ن کو بہرہ اور اصول کی زبان کو گونگا کر دیتا ہے۔ بہ نظر غا ئر دیکھا جا ئے تو انٹر نیٹ کا جا یز استعمال کم اور غلط استعمال پوری دنیا ، تما م ملتو ں اور جملہ قومو ں میں زیا دہ ہو رہا ہے ۔ اس کے ذریعے اخلا قیات کی متاع گراں ما یہ کو لو ٹنے کی غرض سے مغربی تہذیب کی بے ہو دہ روایات ، ننگا پن ، فحش کا ری اورلغو یات کا سیلا ب مشرق کی ’ خشک سالی‘ دور کر نے کے لئے سونا می کی صورت میں امڈا آ رہا ہے ۔خصوصا ًہماری ریاست میں جو اقتصادی اور سما جی طور پسماندہ اور بیک ورڈ سمجھی جا تی ہے لیکن ہمیں فخر ہے کہ یہاں اب بھی شرم وحیا معاشرتی زندگی میں حددرجہ اہمیت کی حامل ہے۔ صوفی سنت اور ریشیوں کی اسی سر زمین پر انٹر نیٹ کی تباہ کا ریاں درآ مد کی جائیں تو اس کا نتیجہ یہ کیو ں نہ نکلے کہ نو جو انو ں میں بے راہ روی اور آورا گی فروغ پا ئے، منشیا ت کا دھندا خوب چمکے، جسم فروشی کا ننگ انسانیت پیشہ تک پھلنے پھو لے لگے، لا لچ کا پیٹ بھر نے کے لئے ارتداد کا زہر فروخت ہو نے لگے ، بے غیرت بھا ئی بہن کو قتل کریں تا کہ ایکس گریشیا ریلیف حاصل کر سکیں اور سنگدل با پ اپنی پھول چہرہ بیٹی کو اس وجہ سے ذبح کر ے تا کہ پنچو ں کو کو ئی گزند پہنچنے کی صورت میںما لی امداد حاصل ہو۔ انہی دلدوزواقعات پر بس نہیںہو گا بلکہ اس بھی آ گے شیطان کا سفر تخریب و بد بختی چلتا رہے گا اگر الیکٹرا نک میڈ یا سماجی اصلا ح کی بجا ئے اپنا مخر ب اخلاق رویہ جا ری رکھے گا۔ دلچسپ بات تویہ ہے کہ ان حالا ت و کو ائف کو نظر انداز کر تے ہو ئے ارباب اقتدار انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ہر شہر ودیہات میںمتعارف کرانے کے نام پہ انٹرنیٹ کنکشن کا حصول کو اتنا آ سا ن بنا رہی ہے جتنا کہ ضروریات زندگی مثلا ً اشیا ئے خوردنی، بجلی ، گیس اور دیگر اجنا س کو سہل الحصول بنا نا چا ہیے تھا ، تما م مو با ئل کمپنیا ں انٹر نیٹ کی سہولت ہر انسان کے جیب میں پہنچا نے کی غرض سے ان سہو لیا ت کو روز بروز سستاکر رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جو نو جو ان اپنی جسما نی اور ورحا نی صحت مندی پر ایک دمڑی تک خر چ کر نے کی بجائے اسی غمزہ ٔکا فر ادا میں گم ہو کر اپنی پاکٹ منی تک خو شی خوشی لٹادے اوربد لے میں انتہائی بیہودہ اور فحش ویب سائٹ کی سولی پر چڑھ کر معاشرے کے لئے بد نمادھبہ بن جائے ،نتیجہ یہ کہ فحاشی اور عریانیت کو فروغ دینے والی websitesطوفان کی طرح ہر جا نب سے امڈ آرہی ہیں۔اس وجہ سے ہماری نوجوان نسل اس قدر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے کہ لگتا ہے قیا مت سر پر آ ن کھڑی ہے۔
آج جب ہما ری ملت کابے راہ ر نوجوان انٹر نیٹ پر شہوانیت کے نت نئے تما شوںسے خدا کے پسندیدہ اصولو ں کی خلا ف ورزی پر اُتر آ تاہے تو وہ یہ دیکھتا ہی نہیں کہ اس نئے شیطا ن کی آ غو ش میں وہ ماں بہن ،بیٹی جیسے پاک رشتو ں کی تکریم سے ہا تھ دھو رہا ہے۔ (اللہم احفظنا منہ ) انٹرنیٹ کی ایک ابلیسی سہولت یہ بھی ہے کہ کہ چیٹنگ یامراسلت کے ذریعہ طویل اوقات تک بیماردل نوجوان غیر عورتوں سے اور عورتیں غیر مردوں سے ہرطرح کی فحش اور غیر اخلاقی گفتگو بڑی بے فکری کے ساتھ کرتے رہتے ہیںبلکہ بارہا کو ئی شرارتی لڑکا اپنا الو سیدھا کر نے کے لئے خود کو لڑکی ظاہر کر کے دوسروں کو دھوکہ میں رکھتا ہے ۔ اس انتہائی درجہ کی اخلا قی پستی پر پہنچ کر شاید مغربی معاشرہ بھی ہنس ہنس کر لوٹ پو ٹ ہو رہا ہو ۔یہی نہیں بلکہ بہت ساری انٹرنیٹ کمپنیاںقابل اعتراض سروس مفت فراہم کرتی ہیں ۔جیسے ہی آپ نے انٹرنیٹ کو آ ن کیاوہ آپ کو آپ کی پسندیدہ ( نا پسند یدہ کہنا مو زو ں ہے) جگہوں پر پہنچادیں گی۔ اس کا چلن اگر چہ ہندوستان میں ابھی کم ہی ہے مگر بیرونی ممالک میں جاکر پتہ چلتا ہے کہ یہ وبا کس قدر تیزی کے ساتھ یہ وبا پھیل رہی ہے ۔ بظا ہر اس میںآپ کا ایک پیسہ بھی صرف نہیں کرنا ہوتا کیوں کہ یہ کمپنیاں اپناسارا منافع اشتہاروں کی شکل میں ایڈوانس وصول کر لیتی ہیں۔ جونہی کو ئی اس شیطا نی کا رگاہ کی طرف قدم بڑ ھا تا ہے تو جا بجا بدقماش و ذلیل طوائفوں کی برہنہ تصاویر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور جس شخص کے زیرا ستعمال انٹرنیٹ ہو اس کے تفنن طبع کے لئے اپنے نیم بر ہنہ اور بسا اوقات الف ننگے بدن سے اس کا استقبال کر تی ہیں کہ ما رے شرم کے سر جھک جائے ۔
راقم الحروف اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ انٹرنیٹ کے جہاں بے شمار مثبت نتائج ہیں ،وہاں یہ انٹرنیٹ جرائم اور غلط کاریوںکے فروغ کا سب سے بڑاہتھیار بن رہا ہے۔امریکہ میں انٹرنیٹ کے ذریعے سے جرائم اس قدر تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں کہ یہ خیال عام ہو چلا ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانا اب ناممکن ہے کیوں کہ یہ بے راہ روی کی جانب لے جانے والاسب سے مہلک شیطا نی حر بہ بن چکا ہے ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ یہ آج طلاق کا سب سے بڑا سبب بنتا جارہا ہے ۔ نہ جانے کیسے کیسے دل دہلادینے والے واقعات صرف اس لئے رونما ہو رہے ہیں کہ انٹر نیٹ نے غلط اور گناہ گا رانہ طرزعمل اپنا نے کا راستہ کھو لا۔اس بنا پر عام آدمی حیران وپریشان ہے کہ اور تو اور دنیا کو ہدایت کی راہ پر گا مز ن کرا نے کے لئے ما مو ر امت یعنی امت ِ مسلمہ انٹر نیٹ کی کرم فر ما ئی سے کس طرح دین سے دور ہو کر مغرب کی بدکارانہ گود میں جارہی ہے ۔
ریاست کے نوجوانوں کی بے راہ روی کے بہت سے اسباب وعلل ہیں ۔ ان میں ہمارے نوجوانوں کے بگاڑ کا ایک سبب انٹرنیٹ کی کا رستا نیا ںاور تبا ہ کا ریا ں ہیں۔ چونکہ دین اسلام جیسی عظیم وراثت کوہم اپنی حقیقی زندگی سے بے دخل کر چکے ہیں اس لئے یہ برائیاں ہمارے تعاقب میں ہیں ۔ اگر ہم خلو ص دل کے ساتھ اس سچویشن کو بدلنے کی آ رزو اور اس سلسلے مٰن ایک واضح نقش ِ راہ رکھتے ہیں تو ہمیں نوجواں پو د کی اخلا قی تعمیر نو کے لئے اسی جذ بہ کے ساتھ آ گے آ نا ہو گا جس جذ بے کو غالباً علامہ اقبال نے واویلا کر تے ہو ئے جو انو ں کو مخا طب کر کے اظہار کی زباں دی تھی ؎
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن ا ٓسانی
امارت کیا شکوہ ِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
جو انو ں کی تن آ سانی اور نفس پر ستی جیسے امراض کا علاج کر نے اور ان میں زور ِ حیدریؓ اور استغنا ئے سلمانیؓ پیدا کر نے کے لئے ہم سب مل کر آ ج کل کے جدید ٹیلی مو اصلا تی ایجا دات کے صحیح استعمال کا چلن عام کر یں اور ان کے مخرب اخلا ق اثرات سے خودکو بچا نے کے علاوہ دوسروں کو بھی ان سے محفو ظ رکھنے مٰن اپنا کلیدی کردار ادا کر یں ۔ اس سلسلے میں والدین، اساتذہ ،بچو ں بچیو ں اور معاشرے کے تما ذی حس لو گو ں بشمول میڈ یا اور ادیب ودانش وروں اور ائمہ مساجد وسماجی اصلا ح کا روں کا ایک اہم کردار بنتا ہے جس کو ہر ح ال مین نبھا نا ہو گا۔تب جا کر انٹر ینٹ کی پھیلا ئی ہو ئی وبا ئی بیماریو ں کا قلع قمع ہو سکتا ہے ۔
|
Search This Blog
Tuesday, 9 October 2012
INTERNET KA ZAMANA
Labels:
SCIENCE
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment