ختم ہے تیری ذات پر کون و مکاں کا ہر شرف
رحمت للعالمین‘ آقائے دوجہاں‘ تاجدارِ ختم نبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عقیدت ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ کلمہ لاالہٰ کی تکمیل ہی اُس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اس میں ’’اسم محمدؐ‘‘ شامل نہ ہو۔ ہر اذان اور اس کے جواب میں ادا کی جانے والی نماز بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ پھر آپؐ کا حسن خلق سراپا قرآن ہے۔ آپؐ کی فضیلت و مرتبت کے کیا کہنے۔ خود خالقِ کائنات اور تمام ملائکہ آپؐ پر سلام بھیجتے ہیں۔ رسول کریمؐ پر درود بھیجنا وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان کمال کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ اللہ جل جلالہٗ، ملائکہ اور روح الامین کا ہم زبان ہونا کمال کی ایک ایسی انتہا ہے کہ جس کا ادراک انسانی عقل سے ماورا ہے۔
آپؐ کی فضیلت و مرتبت تمام انبیاء میں نمایاں ہے۔ کلام الٰہی جبرئیل امین آپؐ کے لیے وہیں لے کر اترتے جہاں آپ ؐ ہوتے، خواہ غارِِ حرا ہو، مکہ ہو یا مدینہ، یا کوئی اور مضافاتی علاقہ… بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام صاحبِ کتاب بھی تھے اور صاحبِ شریعت بھی۔ ان کی شانِ پیغمبری انبیائے بنی اسرائیل میں نمایاں ہے۔ لیکن انہیں بھی الواح آسمانی کے حصول کے لیے کوہِ طور پر بلایا گیا۔
قرآن میں رب العالمین آپؐ کے ایک ایک عمل کی تصدیق فرماتے ہیں۔ ایک ایک لفظ جو آپؐ کے منہ سے نکلتا ہے اس کے بارے میں وحی اترتی ہے کہ ’’وہؐ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو آپؐ پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
آپؐ کے عمل کو اللہ اپنا عمل قرار دیتا ہے۔
’’اور تم نے نہیں (مٹھی بھر ریت) ہاتھ میں لے کر (کفار کی طرف) پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔‘‘
آپؐ کے ذکر کو بلند کرنے کے بارے میں ارشاد ہوا:
’’اور ہم نے آپؐ کی خاطر آپؐ کا آوازۂ ذکر بلند کیا۔‘‘
یہ بلندی وہ تھی کہ ساری رفعتیں راہ گزر کی دھول ہوکر رہ گئیں۔ آپؐ کا مقام عرشِ بریں اور عرشِ معلی تک پہنچایا گیا، آپؐ کو مقامِ محمود پر فائز کیا گیا۔ یہ بلندی کل کائنات میں آپؐ کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ آپؐ کے مقام بلند کے بارے میں حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ جبرئیل امین میرے پاس آئے اور فرمایا کہ ’’میرا اور آپؐ کا رب پوچھتا ہے کہ اس نے کس طرح آپؐ کا ذکر بلند کیا؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
اس پر جبرئیل امین نے کہا کہ ’’باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جب میرا ذکر کیا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ آپؐ کا بھی ذکر ہوگا۔‘‘ سو رحمت للعالمین سرکارِ دوعالم کے ذکر کا آوازہ بلند ہوتا رہے گا۔ آپؐ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا جاتا رہے گا۔ کسی بدبخت کی گستاخی سے آپؐ کے شرف و عزت اور رفعت و بلندی میں کوئی کمی نہ آئے گی اور ہر ایسے بدبخت ناہنجار کی سزا یہی ہے کہ اس کی گردن تن سے جدا کردی جائے۔
آج اس گستاخی کی جرأت کی بنیادی وجہ مسلم امہ کی کمزوری ہے جو موت کے خوف اور مال سے محبت نے پیدا کی ہے۔ حق یہ ہے کہ مسلمانوں سے بڑھ کر کس ملت نے اپنے نبی کو چاہا ہوگا؟ مگر افسوس کہ یہ محبت عمل کی روح کے بغیر ہے۔ حُبِّ رسولؐ کے اظہار کے لیے خوش الحانی کے ساتھ نعت گوئی اور ایسے ہی زبانی کلامی نمائشی اقدامات کو کافی سمجھ لیا گیا ہے، لہٰذا یہ بس خالی خولی ڈھانچہ ہے جو شیطان کے ہلکے سے اشارے سے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ رسولؐ سے محبت اور عقیدت مندی ’’اتباع رسولؐ‘‘ کا تقاضا کرتی ہے اور یہی کامیاب زندگی اور کامیاب موت کے حصول کا آسمانی نسخہ ہے۔
تیرےؐ نظام دیں میں ہے نوعِ بشر کی راہبری
خاتم الانبیاء بھی تُو رحمتِ عالمین بھی تُو
ختم ہے تیری ذات پر کون و مکاں کا ہر شرف
تجھ پر سلامِ فرش و عرش‘ تجھ پر درودِ کائنات
سرورِ کائنات تُو‘ ختم ہے تجھ پہ سروری
ذاتِ خدا کے بعد ہے تیری ہی شانِ برتری
آپؐ کی فضیلت و مرتبت تمام انبیاء میں نمایاں ہے۔ کلام الٰہی جبرئیل امین آپؐ کے لیے وہیں لے کر اترتے جہاں آپ ؐ ہوتے، خواہ غارِِ حرا ہو، مکہ ہو یا مدینہ، یا کوئی اور مضافاتی علاقہ… بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام صاحبِ کتاب بھی تھے اور صاحبِ شریعت بھی۔ ان کی شانِ پیغمبری انبیائے بنی اسرائیل میں نمایاں ہے۔ لیکن انہیں بھی الواح آسمانی کے حصول کے لیے کوہِ طور پر بلایا گیا۔
قرآن میں رب العالمین آپؐ کے ایک ایک عمل کی تصدیق فرماتے ہیں۔ ایک ایک لفظ جو آپؐ کے منہ سے نکلتا ہے اس کے بارے میں وحی اترتی ہے کہ ’’وہؐ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو آپؐ پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
آپؐ کے عمل کو اللہ اپنا عمل قرار دیتا ہے۔
’’اور تم نے نہیں (مٹھی بھر ریت) ہاتھ میں لے کر (کفار کی طرف) پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔‘‘
آپؐ کے ذکر کو بلند کرنے کے بارے میں ارشاد ہوا:
’’اور ہم نے آپؐ کی خاطر آپؐ کا آوازۂ ذکر بلند کیا۔‘‘
یہ بلندی وہ تھی کہ ساری رفعتیں راہ گزر کی دھول ہوکر رہ گئیں۔ آپؐ کا مقام عرشِ بریں اور عرشِ معلی تک پہنچایا گیا، آپؐ کو مقامِ محمود پر فائز کیا گیا۔ یہ بلندی کل کائنات میں آپؐ کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ آپؐ کے مقام بلند کے بارے میں حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ جبرئیل امین میرے پاس آئے اور فرمایا کہ ’’میرا اور آپؐ کا رب پوچھتا ہے کہ اس نے کس طرح آپؐ کا ذکر بلند کیا؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔‘‘
اس پر جبرئیل امین نے کہا کہ ’’باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’جب میرا ذکر کیا جائے تو اس کے ساتھ ساتھ آپؐ کا بھی ذکر ہوگا۔‘‘ سو رحمت للعالمین سرکارِ دوعالم کے ذکر کا آوازہ بلند ہوتا رہے گا۔ آپؐ پر صلوٰۃ و سلام بھیجا جاتا رہے گا۔ کسی بدبخت کی گستاخی سے آپؐ کے شرف و عزت اور رفعت و بلندی میں کوئی کمی نہ آئے گی اور ہر ایسے بدبخت ناہنجار کی سزا یہی ہے کہ اس کی گردن تن سے جدا کردی جائے۔
آج اس گستاخی کی جرأت کی بنیادی وجہ مسلم امہ کی کمزوری ہے جو موت کے خوف اور مال سے محبت نے پیدا کی ہے۔ حق یہ ہے کہ مسلمانوں سے بڑھ کر کس ملت نے اپنے نبی کو چاہا ہوگا؟ مگر افسوس کہ یہ محبت عمل کی روح کے بغیر ہے۔ حُبِّ رسولؐ کے اظہار کے لیے خوش الحانی کے ساتھ نعت گوئی اور ایسے ہی زبانی کلامی نمائشی اقدامات کو کافی سمجھ لیا گیا ہے، لہٰذا یہ بس خالی خولی ڈھانچہ ہے جو شیطان کے ہلکے سے اشارے سے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ رسولؐ سے محبت اور عقیدت مندی ’’اتباع رسولؐ‘‘ کا تقاضا کرتی ہے اور یہی کامیاب زندگی اور کامیاب موت کے حصول کا آسمانی نسخہ ہے۔
تیرےؐ نظام دیں میں ہے نوعِ بشر کی راہبری
خاتم الانبیاء بھی تُو رحمتِ عالمین بھی تُو
ختم ہے تیری ذات پر کون و مکاں کا ہر شرف
تجھ پر سلامِ فرش و عرش‘ تجھ پر درودِ کائنات
سرورِ کائنات تُو‘ ختم ہے تجھ پہ سروری
ذاتِ خدا کے بعد ہے تیری ہی شانِ برتری
No comments:
Post a Comment