Search This Blog

Sunday, 7 October 2012

IS DHUN MEIN BASE HAIN

اس دُھن میں بسے ہیں کیا کیا گُن؟


کو ئی چینل آ ن کرو تو دُھن کا دھوم دھڑاکا، ریڈ یو آن کریں تو دُھن کا تڑاخ پڑاخ دھما کہ… موبائل رنگ ٹیون کے ہو ا ہو ائی سر تال ، بے ُسرے سروں کا سنگم،رو مانی دُھنوں کا سرگم، سارے گا ما پا مینڈکی زکام ، ریپ میو زک کی دھنادھن ،شیطا ن کی دادی اماں کے پسند یدہ بنگڑے،انسان کو سردرد کا تحفہ دینے والے ڈھو ل تاشے، فرمائشی دُھن ، بے تکے باجے گا جے …کل ملا کے دیکھیں تو یہی پٹا خے ماڈرن انسان کی کل متاع ہے۔ سچ میں یہ ہمارے جدید تمدن کا زیور کہلاتا ہے۔ اسی کلچر میںحلوہ پو ری کی مٹھاس، سموسے پکوڑے کی سو گندھ، تعمیروترقی کا سرکس، گیس چولہو ں کی سردی و گرمی، وازوان کی لذتیں اور نہ جانے کیا کیا شرارتیں بھری ہیں۔ ہم ٹھہرے ہر دیگ کے چمچ، ہر سنگیت کے دل پھینک عاشق ، ہر پکوان کے شیدائی اور ہر شہر کے سودائی اورہر جا ئی، ہر قائد کے قافلہ کی نفری اور ہر لیڈر کی دوکانِ سیاست کی سوغات ۔ اس بے ہنگم دھن دار تمدن سے ہماری سانسوں کا اتار چڑھاؤ، ہماری امیدوں کی خر ید وفروخت اور ہمارے خو ابو ں کی منڈیا ں آ با د ہیں۔ ہم بڑے سیا نے لو گ ہیں جو اسی دھن والی دوکا نِ تمدن سے سودا سلف لاتے ہیں۔ پھر اسی سے اپنے پکوان پکا تے ہیں اور انگلیا ں چا ٹتے ہوئے ان کے گن گا ن کر کے مدہو شی میںدن رات صبح و شام یہی جام ِشریں نو ش کر تے ہیں۔حا لا نکہ اس بے ربط دھن والے تمدن کی ایک ایک چیز سے بد بو اور گھن آتی ہے۔جد ھر سے چلو تو بس دُھن اسی کی سوار ہو۔ گاڑی میں بیٹھو تو بس دُھن۔ کلاس روم میں دُھن۔ د فتروں میں دُھن۔ سیا سی ، سما جی ، نجی ، ما تمی اور مسرت آ گیں مجا لس میں دُھن۔ ارے بھا ئی سن پیا ر کے گُن۔رنگ ٹیون کے دُھن ،نیا تمدن،صدا ئے بے ھنگم۔ ہوائے ردی، ناک بند کرو ، ورنہ ہا ضمہ خراب اور ذائقہ کرا کرا ہو جا ئے گا۔ اندر کا سارا کھا یا پیا باہر آ جا ئے گا۔پھر ہسپتال جا نا پڑے گااور اگر ہسپتال میں بھی دُھن جا ری ہوئی تو؟اور دُھن سُن کر اُلٹی آ جا ئے تو!۔کہاں جا ئو  گے؟یا کیجو لٹی میں ڈا کٹر اپنے سا تھیوں کے سا تھ دُھن کے گُن گا رہا ہو تو پھر ما تمی دُھن ہی بجا نا پڑ ے گا۔یہ ما ڈرن تمدن کاد یو قامت جن کی طرح ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ہیڈ فو ن سے اس نے ہمارے کان اور ناک میں دم کر ر کھا ہے اور ہم بھو ت کی طر ح سڑ کوں اور شا ہر اہوںپر گھوم ر ہے ہیں۔کان بند کر کے پا گلوں کی طرح ہا تھ پیر ہلا ر ہے ہیں۔ا د ھر اُدھر ما ر رہے ہیں،سلام اور پیام میں اتنا کھو جا تے ہیں پھر بجلی کے کھمبوں، دیوا روں، پیڑ پو دوں کو سلامی دیتے ہیں۔ہمیں یاد بھی نہیں رہتا ہے کہ ہم شا ہراہ عام پرسے گز ر تے ہیں اور شا ہراہ پر ٹر یفک کا دبا ئو بھی ہے۔کبھی کبھی دُھن سنتے سنتے یہ جن ہمیں گاڑی کے ٹا ئر کے نیچے لے جا تا ہے اور فٹا فٹ دو سری دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔اُد ھر ڈ را ئیور کا ایک ہا تھ سٹیرنگ پر دو سرا ہا تھ کان کے ساتھ دُھن میں مگن،نتیجہ ظا ہر ہے یا تیرا سر یا میرا سر،دُھن کے شُعار اور کا روبا ر نے ہمیں انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔مشکلات سے دو چار کر دیا ہے ،حا لانکہ ہمارے نیچے سے زمین کھسک ر ہی ہے۔ اس تہذیب اور تمدن کی عما رت زمین بوس ہو ر ہی ہے۔حا لت یہ ہے کہ سکول کالج میں سر اور میڈم تک اپنے سٹو ڈنٹس کے ساتھ راز و نیاز کے انداز میں بات کر تے ہیں۔ طلباء نہ سر یا میڈم کا ڈر نہ شرم نہ تعلیم کا کو ئی اثر۔و حشیانہ جذ با ت کی سو غات، حیوانی جذ بات،دو لت ، ثر وت، عشرت، عجیب قسم کی عقلیت پنپ ر ہی ہے۔وہ بھی رو ما نی دُھن گا ر ہی ہے اور یہ بھی سُن بھا ئی سُن پیا ر کے گُن گا رہا ہے۔وہ لیلیٰ کی طرح مجنون پر مر تی ہے اس کا جیب کا ٹ کر اپنا جیب بھر تی ہے اور یہ بھی فر ہاد کی طر ح کدال کندھے پر لے کر جو ئے شیر کی تلاش میں سر گر دا ں رہتا ہے۔بے کار اور بے مصرف مخلو ق، بس بھو ک،اقتدار کی بھوک، جنسی بھوک ،ھل من مزیدآ سمان اب دھمکیاں نازل کررہا ہے۔کبھی کبھی ہما ری حا لت د یکھ کر زا رو قطار رو رہا ہے۔تا ر یکی اور گہری ہوتی جا رہی ہے۔ بے ایمانی اور بد دیا نتی کے بڑ ے بڑے شا پنگ ما ل لوٹ کھسو ٹ کے ہول سیل بازار۔ لگتا ہے اب کو ئی اور مخلوق تشر یف لا کر ہمیں بے دخل کر دے گی۔جس طر ح ہم نے حیوا نات کو بے د خل کر د یا ہے یا پھر آ سماں غضب ناک ہو کر کڑک کے ساتھ گر کر ہمیں فنا کر دے گاکیو نکہ اصلاح کی دور دور تک کو ئی راہ نظر نہیں آتی ہے۔اندھیرا دھند و حشت نا ک تا ریکی ،اصلاح کر نے والے امر با المعر وف کے دا عی خود منکرات کو گلے لگا رہے ہیں۔نہ جا نے ہم نے ہر اچھی چیز کوmisuseکر نے کی قسم کیوں کھا ر کھی ہے۔یہاں محا فظ بھی مس یوز ہو رہا ہے۔احسان مندی اور نیاز مندی کے عوض بھی شر مندگی اٹھا نی پڑ تی ہے۔گھٹا لوں اور گھپلوں کے با زار،نقلی سما چار، باتھ روم سماچار،زرد سما چا ر،نقلی مال کے سما چار۔ یہ انسان بہت زیادہ ہو شیار اور ہو نہار ہو تا جا رہا ہے کہ ذلیل خوار اس کا فیصلہ آپ ہی کر لیجئے کیونکہ اند ھیر نگری میں کچھ بھی د کھائی نہیں دے ر ہا ہے۔یہ تمدن اور تہذ یب بظا ہر دیدہ ز یب ہے مگر پر فر یب،اس کا فر یب بھی سا نپ کی ٹا نگوںکی طرح invisibleہے، کیو نکہ ڈ اکہ ز نی اور قلم ز نی بھی فنی اور تمدنی لباس پہنے ہو ئے ہیں۔اس جدید فن نے مرد و زن کو صرف دو لت ، عیش عشرت اور دھن کا پجاری بنا د یا ہے۔ز ند گی عدم توا زن کے بحربیکراں میں غرق ہو رہی ہے۔ مسلک ومشرب اور سیا ست کی تجارت کر نے وا لے بس انتہا پسندی پسند کر رہے ہیں،فکر میںجمود،ذکر میں مبا لغہ ،لغو یات فسا دات ،استبداد بیداد بس ارشاد ارشاد،غور و فکر کو خیر باد، نہ نقطہ اعتدال، نہ توا زن نہ ترکیب۔ اسی لئے ہم فر یب کھا رہے ہیں۔ اپنے ہی گھر اپنے ہی ہا تھوں ڈ ھا رہے ہیں۔
mjlone10@gmail.com؛  موبائل نمبر:- 9797111614

No comments:

Post a Comment