Search This Blog
Friday, 31 August 2012
Tuesday, 28 August 2012
وسعتِ افلاک کے اسرار تاریک مادہ
وسعتِ افلاک کے اسرار تاریک مادہ محمد وسیم
تاریک مادہ اب تک کے شواہد کے مطابق کائنات میں موجود وہ مادہ ہے کہ جو نظر نہیں آتا، اور اسکے اسی تاریکی میں چھپے ہونے کے پہلو کی وجہ سے اس کو تاریک مادہ کہا جاتا ہے۔ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس چیز کی سطح سے منعکس ہوکر (یا اس سے نکل) کر آنے والی روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے اور اعصاب میں بصارت کا احساس بیدار کرتی ہے۔ اب اگر کوئی مادے کی قسم ایسی ہے کہ جو نا تو روشنی کو خارج کرتی ہے اور نا ہی اس سے کسی قسم کی روشنی منعکس ہوکر پلٹ سکتی ہے تو پھر ایسے مادے کو نا تو ہماری آنکھ دیکھ سکے کی گی اور نا ہی کوئی اور بصری آلہ براہ راست اس مادے کا مشاہدہ کرسکے گا، یعنی دوسرے الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ وہ مادہ تاریک ہوگا اور ناقابل مشاہدہ۔
اگرچہ ہم تشکیل کائنات کے حوالے سے انسانی علم میں بتدریج ترقی اور ٹھیک ٹھیک تجربات کے نتیجے میں نت نئے آئیڈیاز سامنے آرہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم تاریک دور میں بھی جی رہے ہیں اس لیے کہ اس کائنات کا تقریباً 23 فیصد حصہ تاریک اجسام اور مادوں پر مشتمل ہے جن کے بارے میں ہمیں کچھ بھی علم نہیں اور یہ پراسرار، خفیہ اور مخفی مواد ہی کشش ثقل کی وجہ ہے۔ دراصل ہمیں نظر آنے والے مادے صرف 4 فیصد تک ہوتے ہیں جبکہ 37 فیصد ایسی تاریک قوتیں ہوتی ہے جس نے ہماری کائنات میں نفوذ کر رکھا ہے۔
گزشتہ ادوار میں فزکس میں ان چیزوں کو’’تاریک‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔بہت سے لوگ تاریک مادوں کے وجود کو بڑا حیرت انگیز خیال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ خلا میں جو کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہے، اس سے چھ گنا زیادہ مادے وہ ہیں جن کو ہم اپنے روایتی ٹیلی اسکوپس کے ذریعے نہیں دیکھ سکتے ہیں نہ شناخت کر سکتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان تاریک مادوں کی بعض خصوصیات اور اوصاف کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں یہ تاریک، وجود رکھتا ہے اور کائنات میں ان کے کشش ثقل کے اثرات تو سب کے سامنے ہی ہیں۔
ان پر اسرار تاریک وجود کی شہادت ستاروں اور سیاروں کی رفتار سے ملتی ہے جو کہکشاؤں کے بڑے بڑے جھرمٹوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ مزید ٹھوس شواہد ایک ماہر مشاہدات، اجرام فلکی ویرا ربکن فراہم کرتا ہے جس نے 1960ء کے اواخر اور1970ء کے اوائل میں کہکشاؤں میں گردش کرنے والے ستاروں اور سیاروں کی تفصیل، قابل پیمائش مقداروں میں پیش کی ہے۔ مثلاً وہ شرح یا مقدار رفتار جس کے مطابق ستارے اپنے محور پر گردش کرتے ہیں اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس ستارے یا سیارے میں یہ تاریک مادہ کتنی مقدار میں ہے صرف دکھائی دینے والے مادے کے حوالے سے ہر ایک کو یہ توقع ہوتی ہے کہ یہ ستارے کہکشاں سے بہت دور ہیں لیکن ایسے لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں ہوتی کہ کشش ثقل کی جو قوت انہیں دھکیل رہی ہے وہ غیر مرئی ہے یہی وجہ ہے کہ جو ستارے نظر آنے والے مرکزی مادے سے بہت دور ہوتے ہیں وہ بھی اسی رفتار سے مرکز کہکشاں کے گرد رواں دواں رہتے ہیں، جس طرح قریب کے ستارے اور سیارے گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی جسم میں مادے کی مجموعی مقدار فاصلے کی دوری کی، زوال، انحطاط یا پسپائی کا باعث نہیں بنتی لہٰذا ماہرین اجرام فلکی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کہکشائی سلسلہ ہی بنیادی طور پر پراسرار تاریک وجود پر مشتمل ہے۔ کشش ثقل کے برقیوں میں تبدیلی پیدا کر کے یا ان کا رخ بدل کر جائزوں سے بھی، اس بارے میں ضمنی شواہد فراہم ہو جاتے ہیں۔ یوں اب یہ بات ہمارے علم میں آچکی ہے کہ کائنات کے پراسرار تاریک وجود کی کثافت یا ان کا مجموعی حجم جو سرد ہوتا ہے اور روشنی کی رفتار کی نسبت سے بہت تدریج کے ساتھ حرکت پذیر رہتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تاریک مادے اور بلیک ہولز میں فرق ہے، تاریک مادہ کسی چھوٹے بلیک ہول میں نہیں ہو سکتا ہے۔
مادہ سے متعلق طبعیات اور کائنات کی تشکیل میں کئی روابط پائے جاتے ہیں ان میں ایک سب سے اہم اور پیچیدہ ربط یہ ہے کہ تاریک مادہ، درحقیقت دنیا کے سب سے طاقتور مادے کو تیزی سے حرکت دیتا ہے۔ یہی تجربہ فرانس اور سوئزر لینڈ کی سرحد پر ایک زیر زمین سرنگ میں کیا گیا تھا۔اب یہ بات طے ہے کہ ماہرین طبیعات صدیوں سے آسمانوں اور زمین میں ہر جگہ ڈارک مادے کی تلاش میں سرگرداں ہیں جبکہ موجود تحقیقات سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ڈارک مادے کے غیر مرئی ذرات کہکشاؤں میں پائے جاتے ہیں اور اس حوالے سے تحقیق جاری ہے۔
اسی تحقیق کے لئے سرگرم چیف انجینئر لے ان ایونز نے کیلی فورنیا میں جنوری 2010ء میں ہونے والی کانفرنس میں شرکا کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ آپ نظریہ ساز لوگ ڈارک سیکٹر کے اردگرد ہی اسے تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے ہو، لیکن اب میں ایل ایچ سی میں گزشتہ 15سال کی تحقیق سے اس کی حقیقت کو سمجھ گیا ہوں، آپ تاریک مادے کو براہ راست دیکھ ہی نہیں سکتے اس لیے کہ ڈارک میٹر روشنی، حرارت یا بخارات خارج نہیں کرتا بلکہ روشنی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ یہ بیک وقت کئی کئی کہکشاؤں کے جھمگٹوں میں تیرتا رہتا ہے۔ ایک ایسا ہی مخلوط و مرکب امیج گزشتہ موسم گرما میں دیکھا گیا تھا، یہ جھمگٹا روشنی اور ڈارک حصوں پر مشتمل تھا لیکن اس کا60فیصد حصہ غیر مرتکز و منتشر انتہائی گرم گیس (انتہائی سرخ) پر مشتمل تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی اس کا مرئی یا دکھائی دینے والا حصہ صرف ۵فیصد تھا جبکہ ۵۷فیصد حصہ تاریک مواد پر مشتمل تھا۔ اس ڈارک مواد کو ناسا کے شاندار ایکسرے لیبارٹری کے ذریعے دیکھا گیا تھا کیونکہ ڈارک مادہ مکمل طور پر غیر مرئی ہے اور اسے کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا۔ بس اس کی کشش ثقل ہی اسے متحرک رکھتی ہے۔ عام مادہ الیکٹرو میگنیٹک قوتوں کا ردعمل ظاہر کرتا ہے لیکن اس تاریک مادہ پرالیکٹرو میگنیٹک قوتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کائنات کے تاریک مادے کی موجودگی کے شواہد حاصل کرنا سائنس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے تاہم ابھی اس میں کافی پیشرفت کی ضرورت ہے۔ آج کل اس پراسرار تاریک مادے کے حوالے سے جو تحقیق وجستجو کے کام جاری ہیں وہ اس کی غیر مرئی حالت کے باوجود اس لیے ہورہے ہیں کہ صرف تاریک مادہ ہی (اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں) مادے پر غیر واضح انداز میں اثرانداز ہوتا ہے اور وہی مادے میں سے برقی اشارات یا پیغامات پر دسترس رکھتا ہے اور اسے تبدیل کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہماری کائنات میں ہمیں جو چیز بھی نظر آرہی ہے اس پر ایک پراسرار تاریک مادے کا گہرا اثر ہے۔
ڈارک مادے کو شناخت کرنے کا ایک طریقہ بالواسطہ ہے اور یہ آسمان یا زمین میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس تمام پراسیس میں نمیبیا میں واقع ہائی انرجی اسٹریو اسکوپک سسٹم اور ایری زونا میں دہری انرجیٹک ریڈی ایشن امیجنگ ٹیلی اسکوپ آرے سسٹم سے کام لیا جاتا ہے۔ یوں سائنسدان اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ معلوم ہو جائے کہ کائنات میں فی الواقع کیا ہے اور یہ ساری کائنات کس طرح ہم آہنگ ہے کہ اب تک انسان اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ پایا۔
کچھ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کہکشاؤں کے کناروں کے قریب (یعنی مرکز سے دور) ستارے بھی اس رفتار سے تیز گھوم رہے ہیں کہ جس رفتار سے انہیں گھومنا چاہیے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جتنی کشش ثقل کہکشاں میں موجود نظر آنے والے مادے سے پیدا ہورہی ہوتی ہے ، ستارے اس کی نسبت تیز رفتار ہیں اور اسطرح ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اپنے گھومنے کی رفتار (مرکزگریزقوت) کی وجہ سے کشش ثقل کو توڑ کر اپنے دائرے سے نکل جائیں ، مگر ایسا نہیں ہوتا لہٰذا سائنسدانوں نے اندازہ لگایا اور ثابت کیا کہ یقینی طور پر کہیں ایسا مادہ موجود ہے جو کہ نظر نہیں آرہا مگر کشش ثقل پیدا کررہا ہے تا کہ ستاروں کو اپنے مدار سے نکلنے نہ دے اور کائنات کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔ مگر چونکہ یہ مادہ نظر نہیں آتا اس لئے اسکو تاریک مادے کا نام دے دیا گیا۔
علم الکائنات میں، تاریک مادہ ایک قیاسی و گمانی مادہ ہے جسکی ساخت و ہیئت نامعلوم ہے۔ یہ مادہ اتنی برقناطیسی شعاعیں خارج نہیں کرتا کہ اسکو تلاش کیا جاسکے یا اسکے وجود کی شناخت کی جاسکے ، مگر اسکی موجودگی کا احساس اس کشش ثقلی قوت سے کیا جاسکتا ہے جو یہ دوسرے قابل مشاہدہ مادی اجسام ، مثلا کہکشانوں اور ستاروں پر لگاتا ہے۔ تاریک مادہ ، ہیت کے متعدد شذوذی (anomalous) یا خلاف قاعدہ مشاہدات کے سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے مثال کے طور پر کہکشانوں کی گردشی رفتار کے شذوذات (شذوذات جمع ہے شذوذ کی جسکے معنی غیرمعمولی یا خلاف قاعدہ کے ہیں، اسکے طب اور علم الہٰیت میں ذرا مختلف استعمال کیلئے شذوذ (ضد ابہام) صفحہ مخصوص ہے)۔ کہکشانوں میں موجود مادے کی مقدار کے بارے میں کشش ثقل مدد سے لگائے گئے تخمینے اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات میں اس سے کہیں زیادہ مقدار میں مادہ موجود ہے کہ جتنا نظر آتا ہے۔ تاریک مادے کے ذریعے نظریہ انفجار عظیم میں محسوس و مشاہدہ کی جانے والی کئی نااستواریوں یا ناہم آہنگیوں کو سمجھنے میں بھی معاونت ملتی ہے، اسکے علاوہ یہ کہ تاریک مادہ، تشکیل ساخت کیلئے بھی ضروری ہے۔
ہے، کہ نہیں ؟
ایک ایسے مادے کا وجود کے جو تمام کائنات میں موجود ہے پر نظر نہیں آتا اور اسکو دیکھنے کی تمام کوششیں بھی اب تک بے سود رہی ہوں ، اگر اکثر سائنسدانوں کیلئے تحقیق کے نئے دروازے کھولتا ہے تو وہیں کچھ کیلئے اسے ہضم کرنا تو دور کی بات کھانا اور تصور کرنا بھی ممکن نہیں کہ انکے لئے یہ پلیٹ میں سجایا گیا ایک ایسا حلوہ ہے کہ جس میں بادام اور کشمش تو معلق ہوں مگر سوجی غائب ۔ موجودہ تحقیقات کی رو سے کائنات میں صرف چارفیصد جوہر یعنی اصل قابل مشاہدہ مادہ ہے جبکہ باقی 23 فیصد تاریک مادہ جو نظر نہیں آتا اور 73 فیصد تاریک توانائی ہے۔ یہ تاریک مادہ کس طرح کی ساخت رکھتا ہے؟ کا معاملہ ابھی بحث طلب ہی ہے گو کہ اس کے تصور اور اس سے ماخوذ ریاضی کی مساواتوں نے خاصے مسائل کے سلجھانے میں مدد کی ہے جن سے اس کے وجود اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اسکے بارے میں اب تک کی معلومات اشارہ کرتی ہیں کہ یہ ایک ایسا کائناتی انبوہ بناتا ہے کہ جو کہکشاؤں کے لئے ثقلی لنگر مہیا کرتا ہے اور گمان غالب ہے کہ یہ ایسے بنیادی ذرات پر مشتمل ہوسکتا ہے جن کو ابھی تک دریافت تو نہیں کیا جاسکا مگر انکی تلاش جدید ذراتی طبیعیات کے اہم مسائل میں شامل ہے۔
courtesy: Kasmir Uzma Srinagar |
Monday, 27 August 2012
Friday, 24 August 2012
Sunday, 19 August 2012
EID - TAZA DAM HOJA JAHDE MUSALSAL KE LIYE
عیدالفطر ۔ تازہ دم ہو جا جہد مسلسل کے لئے۔۔۔۔
ایاز الشیخ گلبرگہ
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ۖنے:رمضان میں رکھنے والا روزہ اللہ کی بارگاہ میںپیش ہوگا اور رمضان سفارش و شفاعت کرتے ہوئے کہے گا:اے رب!میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت سے دن بھر روکے رکھا تھا،اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اس کی تائید کرتے ہوئے قرآن بارگاہِ ایزدی میں عرض کرے گا:اے رب!میں نے اسے رات کے آرام سے روکے رکھا، تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔ اللہ ان دونوں کی سفارش قبول کرے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں بہتر اجر سے نوازے گا۔
چاند رات فرشتوں میں خوشی کے مارے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتا ہے کہ بتاو، مزدور اپنی مزدوری پور ی کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اس کو پوری پوری اجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے محمد ۖکے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی۔ اسی لیے یہ رات لیل الجائزہ انعام کی رات کے نام سے مشہور ہے۔ ایک لمحہ رک کر سوچیں!ہم میں سے کتنے ہیں جو اس رات میں پوری مزدوری ضائع کردیتے ہیں؟حدیث پاک میں آپ ۖ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں کو شب بیداری کرے گا نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا ، جس دن اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: اے فرشتو!تم گواہ رہو، ان کے رمضان کے روزے اور نمازوں کی وجہ سے میں اپنے بندوں سے خوش ہوگیا ہوں اور ان کو بخش دیا ہے۔ اور فرماتا ہے:اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا وآخرت کی جو کچھ بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمھارا خصوصی خیال رکھوں گا اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے، تمھاری خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی بزرگی اور عزت کی قسم ہے! نہ تمھیں رسوا وذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمھاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میںنے معاف کردیا، تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی، میں تم سے راضی ہوگیا یہ اعلان اور انعام ِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں۔
عیدالفطر کا تہوار اس امر پر خوشی کا اظہار ہے کہ ہم نے رمضان المبارک کے دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت کی فصل اکٹھی کی ہے۔ اس مبارک مہینے کے دوران جو تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا احساس اور اپنے اوپر ضبط حاصل کیا جاتا ہے، اسے سال کے باقی مہینوں میں برقرار رکھا جائے اور اپنی روزمرہ زندگی میں بھی اسے استعمال میں لایا جائے۔ عید درحقیقت ان لوگوں کی ہے جنہوں نیرمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں اور اس ماہ مبارک کی تمام عبادتیں ادا کر کے اپنے دامن مراد کو نیکیوں سے بھر لیا ہے اور امتحان میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ عید ان لوگوں کی نہیں ہے جنہوں نے اس ماہ کو غفلت اور لاپرواہی میں ضائع کر دیا اور امتحان میں ناکام ہو گئے۔ کسی نے سچ کہا ہے : لیس العید لمن لبس الجدید۔۔۔۔نما العید لمن خاف الوعید "عید اس کی نہیں جس نے نئے اور زرق برق لباس پہن لیے،عید اس کی ہے جو اللہ کی وعید سے ڈرگیا۔" یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھ کر متقی اور پرہیزگار بن گیا اور ایفائے عہد وذمہ داری کے امتحان میں کامیاب ہوگیا۔عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی (سورہ عبس)۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہذا اس دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا ان کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالی کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ ان کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالی کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔ اللہ کی کبریائی___ تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر ___اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے ولا اعلان اذان اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے___ اللہ اکبر! اللہ اکبر ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر ___ یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد۔
عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالی کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اسے کبھی فنانہیں! جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے۔اللہ تعالی سورہ محمد ۖ میں فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقوی عطا فرماتا ہے''۔ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہذاللہ اور اسکے حبیب ۖکے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو۔
امت محمدیہ ۖ کا ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ایمان ہے۔ اسے ایمان کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت
کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالی پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین امت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے اس امت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ امت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔
آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریم ۖنے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ ۖفرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے ان میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ ان پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔اس امت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن و سنت رسول ۖ ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ کتاب و سنت ہی اسے بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہم ان کی طرف واپس آئیں اوران کی ہدایت پر چلیں۔
آج ہمارا عقیدہ، ہمارا دین، ہماری تہذیب، ہمارے مساجد ومدارس، ہماری جان ومال اور عزت وآبرو سب خطرے میں ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں ہر سطح پر مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ آج دنیا میں سب سے سستی چیز مسلمان کی جان ہے۔ خون مسلم کی ارازانی کا ہم برما، عراق، شام، فلسطین، افغانستان ، چیچنیا، صومالیہ، مالی ،آسام اور دنیا کے دیگر خطوں میں دیکھ رہے ہیں۔ غور کریں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس واسطے ہے کہ مسلمان دین سے دور ہوگئے ہیں۔ ہم میں اتفاق واتحاد نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے ختم ہو جانے کے بعد مسلمانوں کا کوئی متحدہ پلیٹ فارم نہیں۔ آج ان کی کوئی اجتماعی فوج اور طاقت نہیں۔ ان میں کوئی رابطہ اور تعاون نہیں۔ سب ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں اور ریوڑ سے الگ ہو جانے والی بکری کی طرح باری باری انسان نما بھیڑ یوں کا شکار ہورہے ہیں۔
اللہ کا وعدہ ہے کہ "و لینصرن اللہ من ینصرہ"، ) اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے یقینا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے)۔رب العالمین تاکید کے ساتھ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی مدد کروگے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا؛ اگر معمولی اور مادی نگاہوں سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ یہ غیر ممکن نظر آئے؛ لیکن بہت سی چیزی بعید از قیاس نظر آتی تھی جو واقع ہوئیں۔دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں نے اللہ پر بھروسہ کیا اور جدوجہد کی اللہ نے ان ظلم سے نجات دی۔ مصر، لیبیا، تیونس، مراقش، ترکی اسکی زندہ مثالیں ہیں۔ کیاکچھ عرصہ قبل تک یہ تصور کرسکتے تھے کہ ساری دنیا کی باطل طاقتوں کی پشن پناہی کے باوجود یہ وہا ں کے مسلمانوں کے عزم اور جہد مسلسل کے سامنے نہ ٹک سکے۔ اور راہ فرار اختیار کرلی اور ذلت کا نمونہ بن گئے۔ بقول شاعر : جہاں پناہ ڈھونڈتے ہیں پناہ ۔۔اسی کو گردش لیل و نہار کہتے ہیں۔
عیدالفظر کا پیغام شوکت و عروج کا پیغام ہے۔ یہ عروج ہمیں صرف رجوع الی الاسلام کے ذریعہ حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی ہی ہمیں اندھیروں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ہم نے غیروں کی پیروی کی، تقلید کی ، نقالی کی۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔اللہ تعالی تعالی فرماتے ہیں۔''اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہوگا تو وہ اس سے ہرگز بھی قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔''
ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی ۖ طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبوی ۖ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسول ۖاللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہ جدوجہد عزم و ہمت اور ارادوں کی جدوجہد ہوگی۔ جس فریق یا عزم و ارادہ زیادہ قوی ہوگا غلبہ اسی ہوگا، غالب وہی ہے۔ جس کا دل اللہ تعالی پر بھروسے اور توکل سے مالامال ہے، وہی غالب ہے۔ ارشاد ہے: "ِن ینصرم اللہ فلا غالِب"؛ (اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا)۔
عظیم فیصلے اور عظیم ارادے عظیم دنوں میںہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپ ۖنے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپ ۖنے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان ان لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے۔
اللہ کے رسولۖ کی بشارت ہمارے ساتھ ہیں۔ احساس کمتری سے باہر آئیں۔ اسباب کی دنیا کے سارے وسائل بروئے کار لائیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں علوم اور ٹکنولوجی کو مسخر کریں۔اپنے آپ کو ایمانی اور مادی لحاظ سے طاقتور بنائیں۔ اللہ تعالی ضرور ہماری حالت بدلیں گے، امت مرحوم کودوبارہ عروج نصیب ہوگا۔ساری دنیا دوبارہ امن کا گہوار بنے گی۔ عیدالفطر ہمیں موقعہ فراہم کررہا ہے کہ ہم تجدید عزم کریں اور تازہ دم ہوکر جہد مسلسل کے لئے تیار ہوجائیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم (الرعد)ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ربنا اتنا من لدنک رحمت وھیی لنا من امرنا رشدا (الکہف)ترجمہ :خدایا! ہمیں اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔
Mobile: 9845238812
ayazfreelance@gmail.com
Saturday, 18 August 2012
Friday, 17 August 2012
CHAND RAAT - UJRAT LENEY KI RAAT
چاندرات ۔اجرت لینے کی رات
مرتبہ : سیدہ حفصہ ایاز ، گلبرگہ
عشرۂ صفائی: ہمارے ہاں ایک اور اہم اور غلط روایت ہے کہ آخری عشرہ عبادت کے بجائے گھر کی صفائیوں اور دھلائیوں کا عشرہ بن جاتا ہے۔ خواتین تمام کپڑی، فرش، ٹیبل اور صوفہ کور اور دیگر اشیاء کی دھلائی عید سے قبل (ظاہر ہے آخری عشرے میں) کرتی ہیں اور اس میں خوب محنت کی جاتی ہے۔ گھروں کو سجانے میں بعض اوقات غلو سے کام لیا جاتا ہی، اور یوں عشرۂ عبادت و ریاضت، تھکن کی نذر ہوجاتا ہے۔ یہ بھی جہالت کا فعل ہے۔ خواتین کو بھی اس عشرے میں گھر کی صفائی دھلائی سے زیادہ روحانی صفائی اور طہارت پر توجہ دینی چاہیے (صفائی سے منع نہیں کررہے لیکن غلو سے پرہیز ہونا چاہیی)۔ غیر ضروری کاموں سے توجہ ہٹاکر وقت اعتکاف اور ذکر و دعا میں لگانا چاہیے۔ جن خواتین کے لیے ممکن ہو دس دن کا اعتکاف کریں (اس دوران اٹھ کر کھانا وغیرہ پکا سکتی ہیں اگر کوئی اور انتظام نہ ہو تو)۔ جن کے بچے چھوٹے ہوں اور پورا اعتکاف ممکن نہ ہو تو چند دنوں اور چند گھنٹوں کا اعتکاف بھی ہوسکتا ہے۔ اور گھر کا کام کرنے والی خواتین تو دوہرا اجر سمیٹ سکتی ہیں، اپنے نیک اور نمازی شوہر اور اولاد کی خدمت اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا باعث ِاجر ہی، اور یہ کام کرتے ہوئے وہ مسلسل تلاوت اور ذکر کرتی رہیں اور اپنا نامۂ اعمال دونوں طرح سے بھرتی رہیں، یعنی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دل کو اللہ کی یاد میں اٹکائے رکھنا۔ ہماری ایک بہن نے گھریلو کام کاج کے دوران سورہ بقرہ حفظ کرلی، ایک نے اس کے ساتھ سورہ آل عمران بھی کرلی۔ اور ایک بہن نے اسی طرح گھر کی مصروفیات کے ساتھ چند سال میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ لہٰذا رمضان میں غیر ضروری مصروفیات ترک کرکے اس طرح کا کوئی منصوبہ بنانا مشکل نہیں۔ جہاں چاہ وہاں راہ، ان شاء اللہ۔ عید کی تیاری اور خریداری: رمضان میں بازاروں میں پھرنا انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس لیے دنیا میں اللہ کی سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہ بازار ہے۔ بازار میں جاکر انسان کی نیکیاں ایسے جھڑتی ہیں جیسے درخت کے پتّے۔ کیونکہ ایک تو وہاں ہر طرف سامانِ دنیا ہوتا ہے جو انسان کو غافل کردیتا ہی، اور دوسری جانب عورتیں ہوں یا مرد… کثرت سے نامحرموں کے درمیان ہوتے ہیں اور نظریں بچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بدنصیبی سے رمضان میں بازاروں میں چلت پھرت کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے اور آخری عشرے میں دیر تک بازار کھلے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ جمعہ کے دن بھی اور طاق راتوں میں بھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور چوڑیوں وغیرہ کے بازاروں میں آخری راتوں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ سڑکوں اور بازاروں میں پھرا جائے اور پھر نمازوں میں خشوع برقرار رہے اور انسان عبادت، تلاوت اور اذکار یکسوئی سے کرسکے۔ کتنے بدنصیب ہیں وہ مسلمان معاشری، جہاں رمضان میں بھی بازار آباد ہوں اور مسجدیں ویران۔ اولئک الذین اشتروا الحیوة الدنیا بالاخرة (سورہ البقرہ) ''ان لوگوں نے آخرت کے بدلے حیوة دنیا خرید لی ہے۔'' ''انہیں معلوم نہیںہے کہ یہ سرمایہ آخرت میں بہت ہی تھوڑا نکلے گا…! ''کاش انہیں معلوم ہوجائے یہ کتنی بری تجارت ہے۔'' کوشش یہ ہونی چاہیے کہ تمام اہم خریداری رمضان سے قبل کرلی جائے اور خواتین بازاروں میں جانے سے حتی الامکان گریز کریں اور اپنے مردوں کی خریداری پر قناعت کریں، کہ یہ نیکیوں کی حفاظت کا ذریعہ ہوگا ان شاء اللہ۔
اجرت لینے کی رات: لیجیے مہمان کے رخصت ہونے کا وقت آگیا۔ رحمت، مغفرت اور آتشِ دوزخ سے رہائی حاصل کرنے کی فکر میں مومنین نے مہینہ بھر محنت اور مشقت میں گزارا، دن بھر بھوک پیاس برداشت کی… زبان، آنکھ، کان اور دیگر اعضاء کو ہر طرح کے گناہوں سے روکے رکھا، قرآن و اذکار وردِ زبان رہے اور راتیں اپنے رب ذوالجلال والاکرام کے حضور قیام و سجود میں گزاریں، اس کا پاک کلام سنا، غفلت کی نیند سے بچ بچ کر راتیں گزارنے کی سعی کرتے رہی، سحر و افطار میں رب کے حضور گڑگڑاتے رہے اور الرحمان و الرحیم اور الودود والمجیب اللہ سب کچھ محبت سے دیکھتا رہا۔ سحر کے وقت اور طاق راتوں میں فرشتے اترتے رہی، مومنین کو دیکھتے رہی، ان کی دعاوں پر آمین کہتے رہے اور جبرئیل خوش نصیبوں سے مصافحہ کرتے رہے۔ اللہ فرشتوں سے مومنین کے تنافس پر فخر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ رمضان گزر گیا اور اجر کی رات آگئی۔ وہ رات بھی عجیب رات ہوتی ہے جو آخری رات ہوتی ہی، جب صبح عید ہوتی ہے۔ ایک جانب غافلین ہوتے ہیں اور دوسری جانب محنت کرنے والے مومنین ہوتے ہیں جو کچھ اور ہی کیفیات سے گزرے ہوتے ہیں۔ رمضان کی رحمتوں کے بادل چھٹ جانے کا ایک عجیب افسردہ کرنے والا احساس طاری ہوتا ہے۔ اپنی کم مائیگی کا بہت زیادہ احساس کہ نہ جانے کچھ کرپائے یا نہیں، نہ جانے اللہ کے حضور قبولیت کا کیا عالم ہی! ایسے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ٹھنڈک بن کر ان کے اعصاب میں اترتا ہے کہ ''رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہوجاتی ہے''۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ''کیا یہی وہ لیلة القدر ہی؟'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''نہیں بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہی، جب وہ اپنا کام مکمل کرلیتا ہے۔'' (احمد) اس رات کو آسمان پر لیلة الجائزہ کا نام دیا گیا اور یقینا جس نے جتنا کمایا ہوگا اتنا ہی اجر اور مزدوری پائے گا۔ واتقوا یوماً ترجعون فیہ الی اللہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون ہ (سورة البقرہ281) ''اس دن سے ڈرو، جب کہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگی، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا''۔ اللہ ہرگز ظلم نہیں کرتا لیکن بہت سے بدنصیب ہوتے ہیں جو اس مغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے نہ اللہ کی رحمت کی قدر کی، نہ رمضان کا حق ادا کیا، نہ روزے کی حفاظت کی اور جو کبائر سے بھی نہ باز آئی، ان کے بارے میں بہت سخت وعید ہے۔ لیلة القدر میں فرشتے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ ''اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ کیا؟'' وہ کہتے ہیں ''اللہ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا!'' صحابہ نے پوچھا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ چار شخص کون ہیں؟'' ارشاد ہوا: ''ایک وہ جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، تیسرا وہ جو قطع رحمی کرنے والا اور ناتہ توڑنے والا ہو، چوتھا وہ جو کینہ رکھنے والا اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔'' (ترغیب۔ بیہقی) اسی طرح کی احادیث پڑھتے ہوئے یہ واضح رہنا چاہیے کہ مخاطب کون سے مسلمان ہیں۔ صحابہ کرام جو اس طرح کی نمازوں اور روزوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہوں گے جیسے کہ آج کے مسلمانوں نے ان عبادات کا مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انعام لینے والوں میں سے کرے ''صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم والضالین'' اور یہ رات ہم عید کی خریداری کی نذر کرنے کے بجائے عبادت میں گزاریں تاکہ اللہ سے اپنی پوری پوری مزدوری وصول کرسکیں۔آمین عیدالفطر: جب عیدالفطر کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ وہ زمین پر اترکر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہی، پکارتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اْس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دی جائی، تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔ اور بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گی، اس میں تمہاری مصلحت پر نظر رکھوںگا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں (کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاو۔ تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ پس فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہی، خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (ترغیب۔ بیہقی)۔ اللھم اجعلنا منھم:
ہم نے رمضان سے کیا حاصل کیا؟ اس کا بہت اچھا اندازہ روزِ عید ہی ہوجاتا ہے۔ کیا عید کے دن خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں حدود اللہ کا خیال رہتا ہی…؟ مہینہ بھر ضبطِ نفس کی جو مشق کی تھی وہ برقرار رہتی ہی…؟ یا عید کا مطلب ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ آج ساری پابندی ختم۔ خوب کھل کھیلیں، خوب فلمیں دیکھیں، مخلوط پارٹیاں کریں، گھومیں پھریں، نمازیں قضا کریں، اور نہ جانے کیا کیا غلط اعمال کیے جاتے ہیں۔ نہیں، عید کا دن ہمارے جائزے کا دن ہے۔ ایک ٹیسٹ کا دن ہوتا ہے کہ ہم نے رمضان سے کیا پایا؟ کتنی تربیت حاصل کی؟ کتنی پابندیوں پر قائم رہے اور عید کے بعد… سارا سال ہمارے اس کردار کا آئینہ ہوتا ہے جو ہم نے رمضان میں تعمیر کیا ہوتا ہی…! جس نے دورانِ رمضان ایک نیا اپنا آپ دریافت کیا اور اپنی تعمیرِنو کرلی… اسے ایسا رمضان مبارک ہو۔
Thursday, 16 August 2012
LIPSTICK: DIL KO MUTASSIR KAR SAKTI HAI
لپ سٹک :دل کومتاثر کرسکتی ہے تھائرائڈ اور تولیدی عمل کی کمی کا موجب
Courtesy: Kashmir Uzma Srinagar
|
BE RAH RAWI KA FAROGH
بے راہ روی کا فروغ تدارک ناگزیر جامعہ رشید طیباتی
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیے تو پتہ چلے گا کہ ،اسلام زندگی کے ہر شعبے میں دین کو غالب دیکھنا چاہتا ہے ،یہ وہ بنیادی وصفِ امتیاز ہے جس نے اسلام کو باقی ادیان سے مختلف بنادیا ہے ،زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو ،خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے یا معاشرت سے ،اسلام کو یہ گوارہ نہیں ہے کہ ،اس کا حلقہ بہ گوش کتاب وسنت کے ذریعے متعین کردہ راستے سے ہٹ کر چلیں ،بعض معاملات کا تعلق خالص دنیا داری سے ہے ،جیسے خرید وفروخت لیکن اس میں بھی اسلام نے اپنے متبعین کیلئے حلال وحرام اور دیانت وامانت کے پیش قیمت تصورات کے ساتھ ایک لائحۂ عمل پیش کیا ہے ،یہی حال نکاح کا بھی ہے ،اس کا مقصد گرچہ نسلِ انسانی کی بقاء اور فطری خواہشات کی تکمیل کو قراردیا جاتا ہے ،لیکن اس باب میں بھی اسلام نے اپنے متبعین کے لئے کچھ رہنما خطوط متعین کئے ہیں ،جن پر عمل کرکے زوجین اپنی ازدواجی زندگی کو خوش گوار بھی بنا سکتے ہیں اور پائیدار بھی ،اس کے لئے ضروری ہے کہ زوجین کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پائی جائے ،دین سلامت پسند طبائع کی اولین ضرورت ہے ،اگر اس میں ہم آہنگی کے بجائے اختلاف تو اس ضرورت کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۔
آج کل ماڈرن طبقے میں اس طرح کی شادیوں کا رواج بڑھتا جارہا ہے ،بہت سے مشہور ومعروف سیاسی لیڈران ،چاہے وہ ملکی سطح کے ہوں یا عالمی سطح کے ،ادیب شاعر اور فلمی اداکار مسلمان ہونے کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ ازدواجی زندگی گزاررہے ہیں اور وہ اپنے اس عمل کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی یا جذبۂ خیر سگالی پر محمول کر تے ہیں یہ ان کی بڑی غلط فہمی اور قرآن وحدیث سے نابلد ہونے کی دلیل ہے ،ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ نکاح کر ہی نہیں سکتے ،کیوں کہ ایسا نکاح اسلام کی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے منعقد ہی نہیں ہوگا اور غیر مسلم جیسے ساتھی کے ساتھ ان کی زندگی زنا جیسے بدترین گناہ کے سائے میں بسر ہوگی ۔
موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو کچھ یوں نظر آئے گا کہ ،مخلوط تعلیم ،مخلوط کلچر ،لڑکوں اور لڑکیوں کے آزادانہ میل جول کے اثرات سوسائٹی پر مرتب ہونے لگے ہیں ،بہت نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کلچر میں اس قدر آگے تک جاچکی ہیں کہ انھیں جسمانی تعلقات قائم کرنے میں کوئی کوئی عار محسوس نہیں ہوتا ،ان کیلئے اس طرح کے تعلقات کیلئے محفوظ پناہ گاہیں اور کھلی فضائیں موجود ہیں ،جن میں کسی طرح کی کوئی قانونی یا سماجی رکاوٹ نہیں ہے ،جو نوجوان قانونی یا سماجی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں وہ گھر سے فرار ہو جاتے ہیں ،اگر دونوں بالغ ہوں تو قانون بھی انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے ،یہ صورت حال ہندو اور مسلمان سبھی کے یہاں بکثرت پیش آرہی ہے ،اس رجحان پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں اخلاقی قدروں کو فروغ دیا جائے ،اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارا معاشرہ بھی مغربی معاشرہ کی طر ح تباہ ہوجائے گا ،جہاں بے حیائی عام ہے ،رضا مندی کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرنے میں کو ئی قباحت نہیں ہے ،طلاق کی شرح ناقابلِ یقین حدتک بڑھ چکی ہے ،ناجائز تعلقات کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہورہے ہیں ان کی تعداد روز افزوں ہے ،یومیہ جنسی جرائم کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے،ایڈز جیسے امراض مغربی معاشرے کی شناخت بن چکے ہیں ،مغرب کی یہ بے راہ روی پہلے دبے پاؤں مشرق کی طرف بڑھ رہی تھی اب علی الاعلان مشرق کی سرحدوں پر دستک دے رہی ہے ،مذہبی پیشواؤں ،سماجی کارکنوں ،سیاسی لیڈروں اور تعلیمی امور کے ماہروں کو بلا تفریق مذہب وملت اس سلسلے میں غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
عشق کے چکر میں پڑ کر کچھ نوجوان مذہب بھی تبدیل کر بیٹھے ہیں ،قادیانیت اور عیسائیت کی مشینریاں ،نوکری ،چھوکری اور کھوٹی کا لالچ دے کر یومیہ اپنی ناپاک سازشوں میں کامیاب ہورہی ہیں ،ایسے باطل فرقوں کے خلاف ہماری کانفرسیں ،محض نشستند ،گفتند اور برخاستند کی روایت پر عمل پیرا ہیں ،تعلیمی ادارے ،حکومتی دفاتر ،بازار ،تفریح گاہیں ، پارکیں اور سیاحتی مقامات کوئی بھی اس وباء سے محفوظ نہیں ہے ،فحاشیت اور عریانیت کی اس دلدل میں ہمارا ریاستی مسلمان بھی آرہا ہے ،اپنی سادہ لوحی اور دین سے ناآشنائی کی بناء پر وہ بھی مغربی تہذیب کی لذت سے اپنے آپ کو فرحت دلانے میں مگن ہے ،اصلاحِ معاشرہ کے نام پر ہماری بیٹھکیں لاحاصل ہوتی جارہی ہیں ،کوئی ایسی منظم ،علمائِ کرام ،اسلامی اسکالرز ،خواندہ معززین کی نمائندہ جماعت الاماشاء اللہ نظر نہیں آتی جو ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے میدانِ عمل میں سرگرم ہو ،ہمارا نوجوان طبقہ جو ہمارے مستقبل کا اثاثہ ہے ،اس کی فکر اور تعلیم کی ہم سب کو فکر کرنے کی ضرورت ہے ،حیاء ،پاک دامنی اور پاکیزگی کے بارے ایسا خوشگوار ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمار ا ہر دن ،یومِ حیا ہو ،ہمیں حیا کے اصول وضوابط بتانے کے لیے کسی حیا ڈے منانے کی ضرورت نہ پڑے ۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں کو حضرت عائشہ وفاطمہ ؓ جیسی پاکیزہ خواتین کی طرح دین کا چشمہ ومنبع بنائیں ،اپنی اولاد کو عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کے شناور بنائیں ،دین سے دوری کی بناء پر ہی آج ہم اس قدر قعرِ مذلت میں جاچکے ہیں کہ ہر باپ اپنی اولاد کے کریکٹر کو لے کر پریشان ہے ،عصری علوم کو بھی اس نیت سے سیکھیں کہ اس کے ذریعے سے ہم آگے چل کر دین کی خدمت کریں گے ۔یہ وہ باتیں ہیں جن کیلئے ہمیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ ایسا پاکیزہ معاشرہ بن جائے کہ ہر جگہ سنت رسول پر مر مٹنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کر نے کا شوق پروان چڑھے ۔اسلئے کہ کسی عورت کے پیچھے چلے جانے کے بجائے کسی شیر کے پیچھے چلے جانا بہتر ہے ،اس لیے کہ شیر پلٹ آئے تو جان چلی جائے گی اور عورت پلٹ آئی تو ایمان چلا جائے گا ۔جان وہی مزے میں ہے جس میں ایمان ہے۔جسے مالک اپنی بارگاہ میں قبول کرلے ۔
Courtesy: Kashmir Uzma |
Wednesday, 15 August 2012
QURAN KI AZMAT KE VEERANE KO SANWARA
قرآ ن کی عظمت کہ ویرانے کو سنوارا کلامِ اللہ سے ہدایت طلبی کی شرائط محمد آصف اقبال
وہ دور بھی ایسا ہی تھا:
جس وقت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور آپؐ نے اسلام کی دعوت پیش کی اس وقت بھی کچھایسے ہیحالات تھے۔بدچلنی اور بدکاری کو نکاح کا درجہ دیا جاتا اور معاشرہ اس طرح کے نکاح کو تسلیم بھی کرتا،بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا اور اس میں اپنی بڑائی اور خوبی سمجھی جاتی،قبائیلی عصبیت اپنے عروج پر تھی اورکبھی نہ ختم ہونے والی لڑائیوں کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا،شراب نوشی عام بات تھی جس کے نتیجہ میں بدکاریاں مزید فروغ پاتیں، انسانوں کے انسان ہی غلام تھے،رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی اور حکومتیں اسے لذتوں،شہوتوں،عیش رانی اور ظلم و جور کے لیے استعمال کرتیں،شرک اور بت پرستی اپنے عروج پر تھی، نذرانے اور قربانیاں بتوں کے نام پر پیش کی جاتیں اور حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان سے فریاد اور التجائیں کی جاتیں،سودی لین دین اور معاشی استحصال کا بازار گرم تھا،فال گیری،کاہنوں، نجومیوں کی خبروں پر ایمان اور بدشگونی کا رواج عام تھا،عقیدہ اور فکرکی گمراہیاںاس قدر عام تھیں کہ تصورِ آخرت ایک مذاق بن چکا تھا۔یہ اور قسم کی بے شمار گمراہیاں، ضلالتیں، بدکاریاں اور ظلم وزیادتیں تھیں جن کے نتیجہ میںوہ معاشرتی اور تمدنی سطح پر اخلاقی حدود وقیود سے یکسرعاری تھے۔ساتھ ہی یہودی مذہب محض ریاکاری اور تحکم بن گیا تھا، یہودی پیشوا اللہ کی بجائے خود رب بن بیٹھے تھے۔عیسائیت ایک نا قابل فہم بت پرستی بن گئی تھی،اس نے اللہ اور انسان کو عجیب و غریب طرح سے خلط ملط کر دیا تھا۔باقی ادیان کا حال بھی مشرکین جیسا ہی تھاکیونکہ ان کے دل یکساں تھے،عقائد ایک سے تھے اور رسم ورواج میں ہم آہنگی تھی۔ان ہی حالات میں نزول قرآن کا واقعۂ عظیم رونما ہوا،یہ وہواقعہ تھا جس نے دنیا کی کایا پلٹ دی!
تبدیلیٔ عظیم کا آ غاز:
قرآن وہ فرقانِ عظیم ہے جس نے انسان پر دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو بہت ہی واضح انداز میں کھول کر رکھ دیا ، دنیائے انسانیت کاجم غفیر جن تاریکیوں میں مبتلا تھا اس کے سامنے وہ روشنی منور کی جس کے ذریعہ صراط مستقیم عیاں ہو گئی،کامیابی اور ناکامی کی راہیں متعین کیں اور ذلت ورسوائی سے نکال کر انسان کو عزت وشرف کا مقام بخشا۔اس عظیم تبدیلی کا لازمی تقاضہ تھا کہ انسانوں کے گروہوں پر قرآن کے کچھ حقوق لازم کر دیے جائیں۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک بار خطبے میں) ارشاد فرمایا :’’ یہ کتاب الہٰی( تمہارے ہاتھوں میں ) اللہ تعالی کی رسی ہے ، جس نے اس کی اتباع کی وہ راہ ہدایت پر گامزن رہا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے راہ ضلالت اختیار کی"(صحیح مسلم)۔معلوم ہوا قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا وہ حقیقی کلام ہے جو اس کے بندوں کی طرف نازل کیا گیا ہے،اب جو شخص اور قوم اس کو مضبوطی سے تھامے گی وہ کامیاب ٹھہرے گی اور جواس کو پس پشت ڈالے گا وہ ہلاک ہو جانے والا ہے۔اسی بات کاتذکرہ کرتے ہوئے اللہ کے رسولؐ نے حج الوداع کے موقعہ پر ایک عظیم مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:"میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھامے رہے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے:i) اللہ کی کتاب اورii) اس کے نبیؐ کی سنت‘‘۔ یہ کتابِ عظیم یقینا ہماری ہدایت کی ضامن ہے لیکن ساتھ ہی شرط یہ ہے کہ اس کے حقوق و آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔قرآن کے پانچ اہم حقوق ہیں، جن کا جاننا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
پہلا حق اس پر ایمان لانا ہے:
ایما ن والے شخص پر واجب ہے کہ اپنے ایمان کے اقرار واظہار کے لئے اس کتاب کے کلام الہٰی ہونے اور رہتی دنیا تک تمام لوگوں کیلئے کتاب ہدایت ہونے پر ایمان لائے ۔کہا کہ :" اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روزِ آخرت سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔"( سورۃ النساء :۱۳۶)۔ ایمان لانے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آدمی انکار کے بجائے اقرار کی راہ اختیار کرے ، نہ ماننے والوں سے الگ ہو کر ماننے والوں میں شامل ہو جائے اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو مانے اْسے سچے دل سے مانے۔ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مانے۔ اپنی فکر کو، اپنے مذاق کو ،ا پنی پسند کو ، اپنے رویّے اور چلن کو، اپنی دوستی اور دْشمنی کو ، اپنی سعی و جہد کے مصرف کو بالکل اْس عقیدے کے مطابق بنالے جس پر وہ ایمان لایا ہے۔ آیت میں خطاب اْن تمام مسلمانوں سے ہے جو پہلے معنی کے لحاظ سے ’’ماننے والوں‘‘ میں شمار ہوتے ہیںاور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دْوسرے معنی کے لحاظ سے وہ سچے مومن بن جائیں۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی ایمان کی متقاضی ہے کہ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیئیس سالہ نبوی زندگی پر محیط ہے،یہ کتاب آج بھی بغیر کسی کمی اور زیادتی کے اسی حالت میں ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے جس طرح یہ پہلی دفع نازل ہوئی تھی۔اس میں مذکور ہر چیز کی تصدیق کی جائے ، ہر حکم اور ہر نہی کو حق اور عدل و انصاف پر مبنی برحق مانا جائے نیز ا س میں جو چیز حلال ہے اسے حلال اور جو چیز حرام ہے اسے حرام سمجھا جائے،نیز اس کتاب کوقیامت تک کے لئے کتاب ہدایت سمجھا جائے ۔ یہ کتاب آخری رسول محمدؐ پر نازل ہونے والی آخری کتاب اللہ ہے لہٰذااب اسے کسی نبی کی تعلیم منسوخ نہیں کرسکتی ۔
دوسرا حق اس کی تلاوت ہے:
ایمان کالازمی تقاضہ ہے کہ اس کتاب کو پڑھا جائے۔کس طرح پڑھا جائے؟ کہا کہ : "جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اْسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس پر سچّے دل سے ایمان لاتے ہیںاور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہّ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اْٹھانے والے ہیں" ( سورۃ البقرۃ : ۱۲۱)۔مزید کہا کہ :" اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سْناو"(بنی اسرائیل:۱۰۲)۔اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:"اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو"(المزمّل:۴)۔مولانا مودودیؓ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زیاد سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الہٰی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لئے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے"(تفہیم القرآن)۔ رسولؐ اللہ کی قرأت کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کرپڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ ، رحمان اور رحیم کو مد کے ساتھ پڑھا کرے تھے۔ (بخاری) حضرت ام سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضورؐ ایک ایک آیت کو الگ الگ کر پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً الحمد للہ رب العلمین پڑھ کر رک جاتے، پھر الرحمن الرحیم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رک کر ملک یوم الدینکہتے (مسند احمد۔ ابو داؤد۔ ترمذی۔ نسائی)۔حضرت حذیفہ بن یمان ؓکہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضورؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے ، جہاں اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضورؐ اس مقام پر پہنچے :اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے: تو اسی کو دہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی (مسند احمد، بخاری)۔معاملہ یہ ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے پڑھنے والے میں یکسر تبدیلی آجاتی ہے لیکن ہائے افسوس ! کہ آج ماہ ِقرآن یعنی رمضان المبارک میں قرآن کے ساتھ ہم کس قدر ظلم کر رہے!ضرورت ہے کہ قرآن کو ویسے ہی پڑھا جائے جیسا کہ اس کو پڑھنے کا حق ہے۔
تیسرا حق اس پر عمل ہے:
کتاب پر ایمان لے آئے، اس کا مطالعہ بھی کیا، اب لازم آتا ہے کہ اس پر عمل بھی کیا جائے۔کیونکہ ایمان اورعلم رکھنے کے باوجوداگر عمل نہ کیا تو حامل قرآن کی مثال بھی ان ہی لوگوں جیسی ہوگی جن کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ:"جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔"(الجمعۃ:۵)۔اس آیت کے عام معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں پر توراۃ کے علم وعمل، اور اس کے مطابق دنیا کی ہدایت کا بار رکھا گیا تھا، مگر نہ انہوں نے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھا اور نہ ہی اس کا حق ادا کیا۔ مثال میں گدھے کا تذکرہ کیا ، یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراۃ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لئے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے۔صورت واقعہ یہ ہے کہ آج حامل قرآن بھی اس سے کچھ مختلف نظر نہیں آتے ،قرآن پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ۔اس کے باوجود ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف شعبہ حیات میں اسلامی زندگی کا رنگ نہیںجھلکتا۔یہ پہلو قابل توجہ ہے، خاص کر اِس موقع پر جب کہ رمضان المبارک کے موقع پر قرآن سننے ،پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ بڑے پیمانہ پر عمل میں آتاہے۔
چوتھا حق اس پر تدبر و تفکر ہے:
قرآن کہتا ہے:"ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اْس نے سارے ماحول کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کا نورِبصارت سلب کرلیااور انہیں اس حال میں چھوڑدیاکہ تاریکیوںمیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ بہرے ہیں،گونگے ہیں،اندھے ہیں،یہ اب نہ پلٹیں گے۔یا پھر ان کی مثال یوںسمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیر ی گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سْن کے اپنی جانوں کے خوف سے کانوںمیں اْنگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اْچک لے جائے گی۔جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دْور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں"(البقرہ:۲۰-۱۷)۔اور کہا کہ:" یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں "(سورۃ ص:۲۹)۔مزید فرمایا:"کیا اِن لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا ، یا دلوں پر اْن کے قفل چڑھے ہوئے ہیں؟"(محمد:۲۴)۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ اور اس طرح کی مثالیں کیوں دی گئیں ہیں؟ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کی ہر ہر آیت پر رک رک کرتدبر و تفکر کریں، اپنا اور حالات کا جائزہ لیں اور فکر و عمل کی راہ کو صحیح خطوط پر متعین کر لیں۔
پانچواں حق اس کی تعلیم و تبلیغ ہے:
ان تمام باتوں کے بعد قرآن کا اگلا حق یہ ہے کہ اس کے پیغام کو عام کیا جائے۔اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں:" تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے"(صحیح بخاری)اور اللہ تعالیٰ متنبہ کرتا ہے کہ:" ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کْفّار تمہیں اْن سے باز رکھیں۔ اپنے ربّ کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو اور اللہ کے سوا کسی دْوسرے معبْود کو نہ پکارو۔ اْس کے سوا کوئی معبْود نہیں ہے۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے ،سوائے اْس کی ذات کے۔ فرماں روائی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو" (القصص:۸۸-۸۷)۔ یہ باتیں کافی ہیں ان لوگوں کے لئے جو ماہ رمضان میں رمضان کے حقوق ادا کرنے کا عہد مصمم کرکے میدان ِ عمل میں سعی و جہد کے لیے خود کو تیار کرچکے ہیں۔پس یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی لکھ دی گئی ہے۔
maiqbaldelhi@gmail.com
|
AAJ KI RAAT
آج کی رات پروفیسر بشیر احمد نحوی
کائنات کی منصوبہ بندتخلیق کے ساتھ ہی روز وشب کا سلسلہ جاری ہے اور تاقیامِ قیامت قائم ودائم رہے گا ۔یہ سلسلۂ لیل ونہار حالات وواقعات او راسرار وحقائق کے ایسے انمٹ نقوش ثبت کرتا جارہاہے جن کے دامن میں فکر انسانی کی تطہیر بھی ہوتی ہے اور جن کی بدولت قدرومنزلت کی راہیں بھی نوعِ بشریت کے لئے کشادہ ہوتی ہیں ۔گردشِ روز وشب میں ایک رات ایسی بھی گزری ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دی گئی ہے ۔یہاں ایک سوال ذہن میں ابھرتاہے کہ ہر رات اپنی تاریکی اور کبھی اپنی تابانی کے لئے اگرچہ برابر ہے تو پھر ماہِ رمضان کی ایک مخصوص رات کو اس قدر افضل ، اہم اور ممتاز کیوں گرداناگیا ہے ۔ جواب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی دنیا کی ہمہ گیر رہنمائی کے لئے کتابِ ہدایت کے نزول کا آغاز اسی عظیم الشان رات میں کیا اور عرب کے ایک اُمی صفتؐ کا انتخاب اس بہت بڑے منصب کے لئے فرمایا جن کی زبان عربی تھی ۔اس بات پر پوری اُمت کا اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرمؐ پر قرآن کی عبارت جو اس وقت موجود ہے ، من وعن عربی میں نا زل ہوئی ۔ یہاں عہد حاضر کے بہت بڑے شیدائیٔ قرآن علامہ اقبالؒ کا وہ واقعہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے جب لاہور کے فورمن کرسچن کالج کے سالانہ جلسے پرکالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ اقبال سے کہاکہ ’’جلسہ ختم ہونے کے بعد مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ‘‘۔جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ ڈاکٹر لوکس نے اقبال سے پوچھا کہ ’’کیا آپ کا بھی یہ نظریہ ہے کہ قرآن کا متن عربی زبان میں حضرت محمدؐ پراُترا ہے یا یہ کہ ان پر صرف مفہوم نازل ہوااور انہوں نے مفہوم کو بعد میں عربی میں منتقل کیا ‘‘۔ اقبال نے جواباً فرمایا ’’دیکھئے ڈاکٹر لوکس میرا عقید ہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ پر قرآن کا مفہوم اور متن بیک وقت نازل ہوتارہا ۔ میں تو ایک معمولی انسان ہوں ۔ مجھ پر بھی کبھی کبھار پور اشعر اُترتاہے ‘‘۔
’’شب قدر‘‘ قرآن پاک کے الفاظ میں خیروبرکت اور قدر ومنزلت کی وہ رات ہے جس میں کائنات کے سلسلے میں خدائی فیصلے ہوتے ہیں ۔ اس امر کی طرف قرآن حکیم نے سورۂ دخان میں بھی واضح اشارہ فرمایا ہے اور اسے لیلۃ مبٰرَکۃٍ سے تعبیرکیا گیا اور اس میں حکمت ومصلحت پر مشتمل فیصلہ سازی کا ذکر فرمایا گیا ۔ ہمارے دینوی نظام میں حکومتوں اور سلطنتوں کے سربراہ اپنے سالانہ منصوبے کافی غور وفکر کے بعد ترتیب دیتے ہیں ،لیکن مشاہدے اور تجربے کی بات ہے کہ ان میں سے اکثر منصوبے تشنۂ تکمیل رہتے ہیں ۔ کہیں منصوبوں میں غلط عوامل شامل ہوجاتے ہیں اور کہیں انسانی فکر کی کج روی منصوبوں کی عمل آوری پر پانی پھیر دیتی ہے۔ خالقِ حقیقی کی منصوبہ سازی میں کہیں تضاد نہیں ،کہیں تفاوت نہیں ۔ کیا ہی تواتر اور تسلسل کے ساتھ نظامِ کائنات کے اجزاوعناصر باہم مربوط ہیں ۔ موسم ٹھیک اپنے وقت پر اپنی موسمیاتی ضرورتوں کے ساتھ خیمہ زن ہوتے ہیں ۔شمس وقمر کی گردش میں ذرّہ برابر کہیں رکاوٹ یا تغیر کا شائبہ تک نہیں اور پورا کائناتی نظام بحسن وخوبی چل رہاہے ۔ اسلامی عقائد کی رُو سے یہ سب کچھ اسی رات کے ساتھ منسلک ہے ۔ چنانچہ انسانی دنیا کی رہنمائی اور دستگیری کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی جلیل القدر رات کا انتخاب کیا اور اس عظیم الشان کتاب کے نزول کا آغاز ہوا جوبنیادی طور پر تین جلّی عنوانات پر مبنی ہے او رآگے چل کر ان تین عنوانات کے درجنوں ذیلی عنوانات بنتے ہیں ۔ توحید ، رسالت اور آخرت ۔ قرآن حکیم کے بارے میں یہ بات علمی سطح پر واضح رہنی چاہئے کہ اس کتاب کا اولین مخاطب انسان ہے اور اس کا کام انسان سازی ہے ۔ صالح اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی اس کتاب میں باربار تاکید ملتی ہے ۔یہ کئی علوم کا احاطہ کرتی ہے ،بالخصوص معاشرتی اورتہذیبی زندگی کے خدوخال سنوارنے اور نسل انسانی کے لئے نفع بخش اور امن عالم کے لئے ممد ومعاون ثابت ہونے کی ترغیب فراہم کرتی ہے ۔قرآن پاک کا رشتہ محدود معنو ں میں فزیکس،کیمسٹری ، نباتات اور حیوانات کے علوم سے جوڑنا اس عظیم کتاب کے ساتھ زیادتی ہے ۔قرآن پاک سے بے اندازہ محبت کرنا درست ہے لیکن یہ کہنا کہ اس میں ستر ہزار پانچ سو چھیاسی علوم موجود ہیں اور پھر مبالغہ آرائی سے کام لے کر پیغمبراکرمؐ کے ساتھ نوے ہزار علوم منسوب کرنا صریحاً بے انصافی ہے ۔ بے علم اور جہل مرکب میں مبتلا بعض واعظین اس طرزِ گفتار سے قرآن اور صاحبِ قرآن کی خدمت نہیں بلکہ دانشور انِ عالم کی نگاہوں میں اسلام کی ایک دوسری ہی شبیہ پیدا کرتے ہیں ۔رسولِ عربی ؐ انتہائی انکساری کے ساتھ رب زدنی علماء ، میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما کی دعا فرماتے تھے ۔قرآن کے طالب علموں ، شیدائیوں ،قاریوں اور حافظوں کو اس کتاب کے بارے میں وہی کچھ بیان کرناچاہئے جو قرآن کے اساسی موضوعات کے ساتھ میل کھاتا ہوں۔شب ِ قدر میں نازل شدہ اس بابرکت کتاب کی ایک ایک آیت وحدانیت ِ اِلٰہ کی ترجمانی کرتی ہے اور خالق ومخلوق کے تعلق کو اضح کرتی ہے ۔کائنات کے حقائق پر تدبرکرنے اور زمان ومکان کی حقیقت کا ادراک کرنے کی تحریک وتربیت قرآن فراہم کرتاہے ۔ انبیاء ورسل کی تعلیمات کا خلاصہ انتہائی اختصارکے ساتھ بیان کیا جاتاہے اور بالآخر اس امتحان گاہِ حیات کو عارضی مستقر کہہ کر ایمان والوں سے آخرت، عقبیٰ یا دارالحیوان میں جواب دہی کے لئے تیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے ۔عموماً اہل ایمان نے یہ سمجھ لیا ہے او ریہ ذہن نشین بھی کرایا گیا ہے کہ حب بیت اللہ کے بعد ایک حاجی نوزائدہ معصوم بچے کی مانند ہوجاتاہے ۔یقیناً حرم کعبہ میں نمازوں کی فضیلت ہے ،لیکن اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ ایک شخص ساری عمر گناہوں کا ارتکاب کرتا رہے اور پھر فریضہ ٗحج کی ادائیگی سے بالکل معصوم اور منزّہ ہوجاتاہے الا یہ کہ وہ تو بتہ النصوح کا مقام حا صل کر نے کے لئے اعما ل صالح کا ذخیرہ صدق دلی سے جمع کر نے میں لگ جا ئے۔ تو بہ وانا بت کے بغیر ہی یہ اندازِ فکر ہزاروں اور لاکھوں جھوٹے او ربددیانت قسم کے لوگوں کے لئے سند فراغت او رمعصوم عن الخطا ہونے کا جواز ہے اور اسی طرح سال بھر حق تلفی کرنے والوں ، گراں فروشوں ، سیاہ کاروں اور دین کے احکام سے کھلی بغاوت کرنے والوں کے لئے لیلۃ القدر کی ایک رات رحمت ، مغفرت اور جہنم سے خلاصی کا پروانہ لے کر آتی ہے ۔درحقیقت یہ رات اپنی وسعت ورحمت اور قدر ومنزلت کے نقطہ نگاہ سے ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے ، چنانچہ عربی زبان وادب میں درجنوں مثالیں موجود ہیں جہاں کسی شئے کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے اعداد کو ایسے بڑھادیا جاتاہے کہ مبالغے کی صورت سامنے آتی ہے ۔
واقعی شب قدر ملت اسلامیہ کے لئے نویدِ مسرت لے کر آئی ہے اور اس رات کی سیاہی نے نور کی ایسی ندیاں جاری کردیں ، جن کے دم قدم سے ہدایت وحکمت کے پیاسے ہر دور میں سیراب ہوتے رہیں گے ۔
……………
رابطہ:- اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی
|
شب ِنزولِ قرآن اور یومِ عید میزانِ احتساب میں اپنا وزن کریں
شب ِنزولِ قرآن اور یومِ عید میزانِ احتساب میں اپنا وزن کریں بشارت بشیر
زہے نصیب وہ رات جب حرا کے غار سے مقدس نور کی برسات کا آغاز ہوا۔آمنہ کا لالؐ طلوع صبح کے ساتھ ہی یہ نسنحۂ کیمیا لے کر سُوئے قوم آیا ۔اس روز باد صبا کے جھونکوں میں بسی خوشبوؤںنے ظلمت کدہ دہر کے ہر گوشہ کو مہکا دیا ۔قرآ ن مقدس کا نزول شروع ہوا۔ پیغامِ الٰہی کو حرز جان بنا نے والا ایک صداقت شعار گروہ عرب کے جاہلی معاشرے سے چھٹ چھٹ کر کلام اللہ کاشیدائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ ہو کرایک ایما نی معاشرہ کی تشکیل کر نے لگا۔ اسی نو تشکیل شدہ مسلم معاشرے کی وقتی اور دائمی ضرورتوں کے مطا بق اور حا لا ت وواقعات کی روشنی میں بتدریج کتاب مبین کا نزول ہوتا رہا۔سلیم الفطر ت لوگ قرآن کی آغوش رحمت میں آکر اس کے آ فا قی اور زمان ومکا ن کی قید سے با لا تر پیام نور و نگہت کو عام کرنے کے کام میں مصروف ہوگئے ۔ جا ہلیت کے پر ستاراور اللہ کے خلاف سرکشی کر نے والے مشرک وکا فر اس یکا یک بہ یک تبدیلیٔ عقیدہ سے بھڑ ک اٹھے اور حق پرستو ں کے درپیٔ آ زار ہو گئے ۔ حق کی ندا پر لبیک کہنے والو ں کی جان کے لال پڑنا شروع ہو ئے لیکن سودا ایسی عشق و مستی کا کیا تھاکہ سوئے دار بھی چلے تو نغمۂ توحید سے قلزمِ ہستی میں عجب تلا طم پیدا کیا، مادہ پر ست و عیش و نشاط کے دلدادوں کی جبینوں پر بل پڑگئے ، جن کی صدیوں پر محیط ہم ہستی اور چودھراہٹ قائم تھی ،اُنہیں پیروں تلے زمین کھسکتی نظر آئی۔حسب و نسب کے خول میں رہنے والے متکبروں کی نیندیں اُڑ گئیں،غربت و پسماندگی کا استحصال کرنے والے عناصر قرآن کا پیامِ مساوات دیکھ کر سیخ پاہو گئے۔کعبتہ اللہ کی آمد نی سے پیٹ کی آگ بجھانے اور اعلیٰ منصبوں پر فائز حرام خوروں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ یہ سب کفر وشر ک اور اندھ کا ر کے حامی عنا صریکجاہوئے اور حق کی اس مشعل ِنور کو بجھانے کا ہر وہ سامان کیا اور اوچھا حربہ اختیار کیاجو اُن کے بس میں تھا، تاریخ انسانی میں یکہ وتنہاحق کے عظیم ترین علمبردار اور صاحب ِقرآن ؐ کے خلاف زبان درازیوں، کردار کشیوں اور الزامات کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا لیکن آ پ ؐ پیغمبرانہ عزیمت اور شریفا نہ مزاحمت سے مخالفتوں اور تہمتوںکے تمام تیر وتفنگ برداشت کرتے رہے کہ یہ سب کنداور بے اثر ثابت ہو تے رہے ، فریق مخا لف کے طنز واستہزاء اورپھبتیوں میں جان تھی نہیںاس لئے وہ منہ کی کھا کے رہ گئے لیکن حملوں کی شدت و حدت میں بتدریج ا ضافہ نے جہاں ان مُٹھی بھر اہل حق کی زندگی اجیرن بنادی وہاں قرآن نے ان صحابہ کرامؓ کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اس راہ کی صعوبتوں سے پیشگی آگاہ فرما کر انہیں استقامت کا کو ہ گراںبنا کے رکھ دیا ۔حضرت صاحبؐ قرآن کی مقدس ذات تو نشانے پر تھی ہی،قرآن مقدس کے حوالہ سے بھی اُنہوں نے شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھائی …کبھی اِسے خود گڑھا ہوا قرار دیا تو کبھی کہا کہ کوئی جن یاخفیہ انسان یہ باتیں سُنا کر چلا جاتا ہے لیکن قرآن کی اثر آفرینی اور استد لال میں مخفی مقنا طیسی قوت ہی تھی کہ ایک جانب سوسائٹی کا سنجیدہ، باکردار،خوش اخلاق اور من وتو کی بیما رذہنیت سے پاک افراد روزبروز اس کی دعوت کو جی جان سے قبول کرتے رہے کہ مخالفین کے تراشیدہ الزامات کے کاغذی محل بکھر کر تنکے تنکے ہوکر رہ جاتے۔ دوسری جانب اہل عرب چو نکہ خود اہل زبان تھے ،فصا حت و بلاغت تو شیر مادر کے ساتھ ہی اُن کی غذا بن جاتی تھی ،یہاں تک کہہ ڈالا کہ ہم چاہیں تو ایسا کلام ( یعنی کلام اللہ )ترتیب دے سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی ۸۸ویں آیت میں انہیں یو ں چلینج دیا’’کہ اگر سبھی جن وانس اس قرآن کی مثل لانے کے لئے جمع بھی ہوں ،نہیں لاسکتے ۔اگر چہ یہ ایک دوسرے کے معاون بھی بنیں‘‘۔پھر ایک دم ان سے سورہ ہود کی ۱۲ ویں آیت میں قرآن جیسی دس سورتیں لانے کو کہا گیا،پھر اُن کے جھوٹے دعوے کی قلعی سورہ بقرہ کی ۲۳ ویں آیت میں یہ کہہ کر کھول دی کہ قرآن جیسی ایک ہی سورت یعنی اس جیسا ایک ہی جملہ تو لے آو۔ خدائی چیلنج کے سامنے کفاران قریش کی بے بسی کا اندازہ بھی لگا ئیے کہ وہ انکاراور بغاوت کے تما م لا ؤ لشکرسمیت بے بس ہوگئے،زچ ہوکے رہ گئے ۔ایسا بھی تو نہیں کہ کا دشیں نہیں ہوئیں،ہوئیں لیکن بے سود،بلکہ ایسا کرنے والے خود اپنی قوم میں مذاق بن گئے۔عرب ناکام ہوئے تو عجم کے عربی ادیبوں کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر ُسونا کامی کا سامنا کرتے ہوئے منکر ین اب بس ہٹ اور ضد کو ہی دین و دھرم بنا بیٹھے۔دلیل کے سامنے بے بس تو اب مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ کے مصداق ادھر اُدھر کی ہانکنے لگے ۔ ان کی جہا لت کا مخمصہ شدومدسے جاری تھا کہ اُدھر قرآن کی حقانیت اور اثر آفرینی سے مکہ کے بڑے بڑے جگر گوشے اسلام کے خیمہ میںداخل ہونے لگے اور عجب بات یہ کہ اس لا مثال تا ثیرکلام اللہ نے دشمنو ںکو بھی اس قدرمسحور کر دیا خود کفروطاغوت کا سب سے بڑا سرغنہ ابوجہل اپنے کئی ساتھیوں سمیت حجرہ نبویؐ کے باہر زبان و حی ؐ ترجمان سے تلاوت کلام مجید سُنتا اور سر پکڑ کے رہ جا تا، اسے کفر کے ساتھ یہ ’ غداری‘ کر تے ہو ئے پکڑ لیا گیا لیکن انا اور ہٹ غالب تھی ،دل کی زمین بنجر تھی،دولت و سرمایہ کو معبود بنالیا تھا، اس لئے کوئی حق کا بیج اس سخت دل کی زمین میں پنپ نہیں سکا اور قرآ ن مجید کی غلا می کا قلا دہ اپنی گردن میںڈالنے سے گریزاں رہا۔اس طرح ظلمت شب کا یہ پاسبان حق کے آ فتاب کے ساتھ دو دو ہا تھ کر تے ہو ئے میدان جنگ میں مرا تو عبرت انگیز موت مرا۔بہر حال بات شب نزول قرآن کی ہورہی ہے۔ اصل میں اس کتاب کے ماننے جاننے اور اس کی تعلیمات دل میںاتارنے اور پھر اس روشنی میں اپنی زندگی کے ہر شعبہ زندگی میںاپنا نے والوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے استفادہ کر یں گے تو صرف متقین ہی ۔(البقرہ)۔آخر یہ متقین ہیں کو ن؟۔کتاب ہدایت تو نازل ہو ئی ہے ساری دنیا کو صراط المستقیم دکھا نے کے لئے لیکن عملاًاِس سے مستفید وہی ہوگاجس کے اندر حق کی طلب و تلاش اور ضمیر زندہ اور پا ئندہ ہو۔دِل کا نہاں کا نہ تالہ بند نہ ہوں اور آنکھوں پر عصبیت کی عینک نہ لگی ہو۔مفسرین قرآ ن ، شارحین شریعت اور مفکرین اسلام پر اللہ کی رحمتوں کا بے شمار نزول ہو ،کس انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آفتاب اپنی جگہ عالم تاب سہی لیکن جن کی بصارت ہی ضائع ہوچکی ہو ان کے لئے تیز سے تیز تر شعاعیں بھی بے کار ہیں کیو نکہ وہ ان کی ضو فشانیو ں کے با وجود دنیا دیکھنے سے قاصر ہیں۔زمین اگر مردہ ہے تو اس کے حق میں اچھی سے اچھی بروقت بارش بھی بے اثرثابت ہو تی ہے،غذا بہتر سے بہتر ہے لیکن ہیضہ کے مریض کے لئے بے فا ئدہ بلکہ مضرہے ۔چمن میں بُلبل لاکھ چہکے لیکن بہرہ کیا خاک اس چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہو پائے گا؟اس طرح قرآن کا نور بصیرت سر چشمہ ہدایت ، ذکر شفاء ہونا درست لیکن اگر ایک شخص نے وہ صلاحیت ہی جو اِس نور ہدایت سے فائدہ اُٹھا نے کے لئے درکار ہے کھو دی ہو تو قرآناس کے لئے کیا کرے گا؟ ’’اس میں تو خدا سے ڈرنے والوں کے لئے درس عبرت ہے(النازعات)‘‘قرآن تو ہے ہی ایسی کتاب کہ اوباش اور بے فکر ے لوگ اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔اس کی جانب نیکی اور شرافت کا جو ہر اپنے اندر موجود رکھنے و الے ہی مائل ہوتے ہیں ۔
تاریخ یہی کہتی ہے کہ قرآن نے عربوں میں سے اُن کے قلب وذہن کو اپیل کیا جو سنجیدہ اور معقول قسم کے لوگ تھے اور اہل کتاب میں سے بھی وہیں اس کی آ غوش رحمت میں آ گئے جو متقی اور خدا ترس تھے۔یاد رکھئے کہ خدا کی سب سے بڑی نعمتوں میں عقل بھی شامل ہے اور اس سے بڑی نعمت قرآن اور شارع اسلامؐ ۔ عقل بہر حال اپنی حدو د میں مقید ہے اور قرآن سے ہی اس کو سوچنے سمجھنے کی رہنمائی ملتی ہے،یہ نہ ہو تو عقل سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور بینیں لگا کر بھٹکتی ہی رہے گی۔ افلا ک کی بلندیا ں چھو کر بھی ٹھوکر کھا ئے گی ۔اس کے مقابلے میں قرآ ن کو جس نے اپنے مکلف کے برابر سمجھا اوراسے عملی زندگی میںبرتا تو اس کو وہ نعمت ملی کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کرسکتی ؎
گزر جا عقل سے آ گے کہ یہ نو ر
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
غرض قرآن اللہ کی طرف سے عالم انسانیت کیلئے نعمت غیرمترقبہ ہے اورایک بے بدل و بے مثال کتاب اور لاجواب وزندہ معجزہ ہے ،جس کا اعتراف بر ملا عرب کے عظیم ترین شعراء و ادبأ نے کیا اور اسی منا سبت سے انہیں اسلام کے دامنِ رحمت میں آئے بغیر کوئی چارہ کا ر نظر نہیں آیا۔وہ طفیل دوسیؓ، عربی زبان و علوم اور شاعری و نثر پر جس کا ملکہ اور دبد بہ تسلیم کیا جاتا تھا،قرآن کی فصاحت و بلا غت کے سامنے سرتسلیم خم کئے بغیر نہ رہ سکا۔دنیا کے بے شمار مستشرقین و غیر مسلم مفکرین کے اس حوالہ سے تاثرات جمع کریں تو ایک کتاب بن جائے گی۔شائد ڈاکٹر سیل کا یہ تاثر اُن سب کی ترجمانی کر سکے:’’قرآن انتہائی پاکیزہ و لطیف زبان میں ہے اس کتاب سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسان اس کی مثل نہیں لاسکتا۔یہ لازوال معجزہ ہے جو مردہ کو زندہ کرنے سے بہتر ہے۔‘‘۔یا علامہ اقبال کی زبان میں یوں کہئے ؎
فاش گو یم آنکہ در دِل مضمراست
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
ہاںتو اوپرعرض کرچکا ہو ں کہ اس مقدس کتاب کا نزول رمضان المبارک میں ہوا اور رمضان کی ساری برکات اور حمتیں محض اسی وجہ سے ہیں۔بہر حال یہ مقدس ماہ اب رختِ سفر باندھ رہا ہے ، یہ بس چند ساعتوں کا مہما ن ہے ۔ رخصت ہو گا تو کیا پتہ اگلا رمضان کسے دیکھنا نصیب ہو اور کسے نہیں۔ہم صیام کے دوران بہ حیثیت روزہ دارمخصوص اوقات میں اکل و شرب سے ضروردور رہے اور کیا اصل مقصد نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام دے کر اپنے آ پ کو مکمل طور خدائی احکام کی تعمیل میں دینے کے کام میں ہم کامیاب ہوئے؟ رمضان کی رخصتی کے ساتھ اس بات کو جانچنا ضروری ہے ۔رمضان کے ان ایام پُرانوار میں بالخصوص حضرت خدیجتہ الکبریؓ ،حضرت فاطمتہ الزھراؓ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حوالہ سے خطابات سے ہم محظوظ ہوئے لیکن کیا ان عظیم خواتین کے جذبۂ ایثارو انفاق دین کے حوالہ سے اُن کی قربانیوں،اُن کی زھد و ورع اور اپنے شوہر ان عظیم کی اطاعت کے واقعات سے ہم نے کوئی سبق حاصل کیا ہے ؟یہ دیکھنا باقی ہے۔ہم نے بہ چشم نم معر کۂ بدر اورفتح مکہ کے مواقع پر ہونے والے تاریخی واقعات کا تذ کرہ تو سُنا لیکن کیا اظہار حق،ثا بت قدمی اور آزمائشی مواقع پر اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے بعد بھی انہیںمعاف کرنے کے عمل نے ہمارے اندرون میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما کی؟ یہ بھی ایک چبھتا ہوا سوال ہے۔ہم اس ماہ مقدس میں روئے بھی گڑ گڑائے بھی اورآج ۲۷ویں شب ہم پھر نالہ و فریاد لے کر خدائے قدوس کی بارگا ہ میں آکر خوب روئیں گے،کیا دِل کی آنکھ بھی روئی یا روئے گی؟ جذ بو ںکی سوکھی دنیا میں ہریالی پھیل گئی ؟ نیتوں کا فتور وجود کے دفینے میں دب گیا؟ اگر یہ ہو اتو آ پ واقعی شبِ قدر پا گئے کہ آ پ کو انپی اصلا ح کا قرینہ آ گیا۔ بہر حال ماہِ رحمت رخصت ہورہا ہے اور کئی دنوں کے بعد ہی ہلال عید ہمارے اکل و شرب پر لگائی گی قدغنوں کے خاتمہ کا اعلان کرنے اُفق پر جلوہ گر ہونے والا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ رمضان کاپیغامِ حیا ت ِنو کی کتنی چھاپ سارے سال ہماری زندگیوں پر نظر آئے گی؟۔
اب عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔اس روز گھروں میںکھا نے پینے کا مناسب اہتمام دُرست لیکن خوشی کے ان اوقات میں حد و دالہٰی کو خدا نخواستہ جا نے انجانے پھلاند گئے تو کونسا روزہ اور کہاں کی تسبیح ومنا جا ت؟ ۔اسی لئے اِن مواقع پر خدا کی کبر یائی بیان کرنے کا حکم ہے۔اب ہم عید گاہوں کا رُخ کریں گے تو ہماری اجتماعیت کا اظہار ہوگا لیکن کیا ہم گلیوں،محلوں میں ایک ہیں؟کیا ہم مدارس و مساجد میں ایک ہیں؟نہیں قطعاً نہیں۔افطار و سحری کے اوقات ہم قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ساتھ مقرر نہیں کر پاتے ،اپنے مسالک پر عمل پیرا ہو نادُرست لیکن یہ ایک دوسرے کوطرز نماز کا مذاق اڑانے اور زبا ن کے چٹخاروں میں ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ جھاڑنے کا عمل کیا ہمارے دِلوں میںکد ورت اور نفرت کی آگ پیدا نہیں کرتا ؟۔آخر ہمارے روّیوں میں لچک اور فکر و سوچ میں وسعت کب پیدا ہوگی؟اسلاف میں کیا اختلاف نہیں ہوا کرتے تھے لیکن اُن کی عالی ظرفی ،وسعت قلبی اور بالغ نظری پرقربان جایئے، پھر بھی ایک دوسر ے کا احترام کرتے تھے کیو نکہ انہیں سلیقۃ الاختلاف کے اسلا می آ داب ہمیشہ ملحوظ نظر رہتے۔اس مو ضوع پر لکھیں تو ایک دفتر بن جائے۔ہاں !روزہ تو ہم نے رکھنے کو رکھ لیا،کیا ذخیر ہ اندوزی،ملاوٹ،گراں بازاری،ایک دوسرے کو لتاڑنے پچھاڑنے،بے زاہ روی کے اشغال میں شامل ہونے یا اس کا اہتمام کرنے ،جھوٹ ،مکر،فریب اور ماپ تول میںڈنڈی کر نے سے ہم تائب ہوئے؟اگر ایسا نہیں ہے تو عید کی یہ خوشی محض سطحی اور رسمی ہے اور یہ عید بس اس حد تک ع دِل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ہاں! مجموعی اعتبار سے ہم کولگے یہ روگ حساس دل انسانو ں کو رُلاتے اورلرزہ براندام کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہم نے دین کو مسجدوں تک محدود کر کے رکھ دیاہے ،اس کی چھاپ اب ہمارے گھروں ،تہذیب و ثقافت آرٹ،کلچر،معیشت،سیاسیات اور سب سے بڑھ کر ہمارے نظم تعلیم پر بھی ہو ،اس کے لئے ہمیں اپنی کاوشوں کا جائزہ لینا ہوگا۔یہ با ت بھی واضح ہے کہ عید کے موقعے پر ہم اپنے لاڈلوں کی دِل جوئی کا ہر سامان کریں گے، یہاں تک کہ حدود شریعت کو پھلانگنے سے بھی کچھ دوست اجتناب نہیں کریں گے،خریداری میں اپنی پونجی لُٹائیں گے لیکن یہ جو ہمارے گرد نواح میں،شہرو دیہات میں،گلی کوچوں میںستم رسیدوں،پریشان حالوں،مصائب کی چکی میں پسنے والوں، کشت و خون کے شکار لوگوں،غربت و پسماندگی سے سوکھ کر کانٹا ہونے والوں،حالات کے ماروں،یتیموں ،بیواؤں اور معذوروں کے رونے چیخنے بلکنے کی درد ناک صدائیں اور دِل کو خون رُلانے والی آوازیں آرہی ہیں ،کیا ہم انہیں سُن رہے ہیں؟۔اگر جواب اثبات ہیں ہے تو کیا ان کی اعانت اور عید کی خوشیوں میں ان کی شمولیت کا کوئی سامان ہم نے کیا بھی ؟یہ بھی ایک اہم سوال ہے جس کی ا َن سنی نہیں ہو نی چا ہیے۔یہ جوہم نے رمضان میں اسلاف کی سخاوت کے با رے میں ایمان افروز واقعات سُن کر مساجد کے بام و در کو رو رو کر ہلادیا،کیا یہ اللہ نہ کر ے سب دھو کہ تھا،فریب تھا یا ریا کار ی تھی؟۔بس یہ بھی ایک دو دن میں پتہ چل جائے گا۔
کیا سورہ محمد کا یہ پیغام ہمارے دِلوں میں اُتر کر گھر کر گیا کہ :’’دیکھو تم لوگوں کو دعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو،اس پر تم میں سے کچھ لوگوں جو بخل کر رہے ہیں،حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ اصل میں اپنے آپ سے بخل کر رہا ہے۔اللہ توغنی ہے تم ہی اُس کے محتاج ہو ،اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔آیت میں انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کا کس درجہ حکم ہے اور بخل سے اللہ تعالیٰ کی کس قدر نفرت عیاں ہو رہی ہے۔اس حوالہ سے بھی عید کے موقع پر اپنا محاسبہ کریں۔
ہاں!ان مصائب کے ماروں کی غم انگیز اور کربناک صدائیں اگر ہمارے وجود میں لرزہ پیدا نہیں کرتیں تو عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا سید ابو الحسن ندوی نے اس حوالہ سے کیا خوب اور برمحل تصویر کھینچی ہے کہ نوک قلم ان الفاظ کا بوسہ کرنے پر آمادہ ہے اور اس کی روشنی میںہم اپنے اعمال اور احوال کا جائزہ لیں۔لکھتے ہیں’’وہ آنکھ انسان کی آنکھ نہیں نر گِس کی آنکھ ہے جس میں نمی نہ ہو۔وہ دِل انسان کا دل نہیں،چیتے کا دِل ہے جس پر کسی درد کی چوٹ نہ لگے ،جو کبھی انسانیت کے غم میں رونا تڑپنا نہ جانے۔وہ پیشانی جس پر کبھی ندامت کا پسینہ نہ آنے وہ پیشانی نہیں بلکہ کوئی چٹان ہے ،جو ہاتھ انسانیت کی خدمت کے لئے نہیں بڑھتا ہے اس سے شیر کا ہاتھ بہتر تھا۔اگر انسان کا کام کاٹنا تھا تو قدرت دو ہاتھوں کے بجائے تلوار دے دیتا۔اگر انسان کا مقصد زندگی صرف مال جمع کرنا تھاتو اس کے سینے میں دھڑ کتے دل کے بجائے ایک تجوری رکھ دی جاتی۔اگر انسان کا کام صرف تخریب کے منصوبے بنانا تھا تو اس کے اندر انسان کا نہیں کسی شیطان، کسی راکھشش کا دماغ رکھ دیا جاتا‘‘۔
پڑھی آپ نے دلوں کو دہلانے والی یہ تحریر؟کتنی بصیرت افروز ہے یہ ؟ آیئے عید سعید کے موقعے پر زند دِلی اور رحمیت وغیرت کا مظاہرہ کر کے سِتم رسیدوں کی انفرادی اور اجتماعی طور امداد کا عہد کریں ۔کہاں وہ دن کہ اسلاف کی نیند یں ان مواقع پر پریشان حالوں کو ڈھونڈ تے ڈھونڈتے اُڑ جاتیں اور کہاں یہ دن کہ نفسا نفسی کا یہ عالم کہ بغل میں رہ رہے ہمسایہ کی حالت زاروزبوں سے یکسر غفلت کا مُجر مانہ مظاہرہ ؎
خزاں میں مجھ کو رُلاتی ہے یادِ فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیوں کر کہ سوگوار ہوں میں
|
Subscribe to:
Posts (Atom)