Search This Blog

Monday 13 August 2012

JISM KI GHULAMI YA ROOH KI SHAHENSHAHIAT

صیام :خو دفیصلہ کریں
جسد کی غلا می یا روح کی شہنشاہیت؟

 وقت کی ریت ہماری مٹھی میںسے بڑی تیزی کے ساتھ پھسل رہی ہے ، کچھ ہی ثا نیوںمیں حال ما ضی میںبد ل جا ئے گا، زما نے کا پہیہ موسم کے مزاج کو متغیر کر دے گا اور ایسے میںاگر ہمیں معلوم ہی نہ ہوکہ ہم کس با بر کت ومبا رک مہینے کی صبحوں اورشاموں سے جدا ہو رہے ہیں ، کن پا ک فضا ؤں کو وداع کر ہے ہیں، کس نعمت اعظمیٰ کی بہاروں سیدامن جھا ڑ رہے ہیں تو الاماں والحفیظ ۔ جا گ اٹھئے کہ اب چو بیس دن سے مسلم دُنیا پر سایہ فگن ما ہِ صیام چند گھنٹوں کا مہما ن ہے ، آخری عشرے کی پُر کیف رو حا نی گھڑیاں تیز رفتاری کے ساتھ اپنے آ خر ی قدم گن رہی ہیں۔ اب یہ مبارک مہینہ قریب الا ختتام ہے ، اس لئے ان بچی کھچی قیمتی گھڑیو ں اور سا عتوں کا تقا ضا ہے کہ ہم سنجید گی سے اپنا احتساب کر یں اور اس امر کو یقینی بنا نے کی سعی و جہد کریں کہ دنیا پر ستی کی جس حرص وہو س نے ہما ری رحا نی دنیا کو اُجا ڑ کے رکھ دیا ہے…روحا نی اقدار کو تلپٹ کر کے ر کھ دیاہے…ہما ری دینی حمیّت و غیرت کو فنا کے گھا ٹ اُتا ر کے ر کھ دیا ہے …ہمارے ملّی تشخص پر سو الیہ نشان لگا دیا ہے…ہما ری غایتِ تخلیق …ربّا نی عبادت… کا جنا زہ بڑی دھوم سے نکال کے رکھ دیا ہے…ہما رے منصبی فریضہ… حق کی علمبرداری اور جھوٹ کی بیخ کنی…کو ہما رے قلب و ذہن سے بڑ ے چاؤ سے نکا ل کے رکھ دیا ہے ،ہما رے منصبی مقام… اما متِ عا لم…سے ہمیں کلی طور غافل و بے پرواہ کر کے رکھ دیاہے…اور سب سے بڑھ کر یہ کہ احساسِ زیا ں،جس پر قوموں کی بلنداقبالی اور زبوںحا لی کا مَدارہے…کب سے ہمارے دل سے ن کھرچ کے رکھ دیاہے   ؎                                      
وائے نا دانی متاعِ کا رواںجا تا رہا
کاروان کے دل سے احساسِ زیا ں جا تا رہا
 نری دنیا پر ستی کی قبا حت کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یوں راہ نما ئی فر ما ئی ہے ’’ہر امّت کا ایک فتنہ تھا اور میری امّت کے لئے جو چیز فتنہ بنے گی وہ مال ہے‘‘…اس حدیث شریف میں ’’مال ‘‘  دراصل ’’دنیا ‘‘ کا قائم مقام ہے کیو نکہ دنیا کی وہ تما م چیزیں جن کو جلدباز انسا ن للچا ئی ہو ئی نظر وں سے دیکھتا ہے وہ ما ل ہی کے ذریعہ حاصل ہو تی ہیں۔ ما ل دنیا کے سا زو سا مان کی قیمت ہے‘‘۔ قر آنی تعلیما ت سے بھی یہ حقیقت مبر ہن ہو ئی ہے کہ یہی دنیا ہر زما نے میں انسا ن کی گمراہی کا سبب رہی ہے لیکن آپ صلعم پر رسا لت کی بصیرت نے یہ چیز با لکل عیا ں کر کے رکھ دی تھی کہ بعد کے دَور میں یہی دُنیا اُمت کیلئے فتنۂ عظیم بن جا ئے گی… زما نۂ حا ل آپ صلعم کے فر ما ن کی منہ بو لتی تصویر ہے…اگر حُبّ دنیاا س قدر قبیح اور غیر مطلوب ہے تو پھر خا لقِ کا ئنا ت نے اس دنیا کو وجو د ہی کیو ں بخشا…؟ قرآنی فر ما ن ہے ’’اللہ نے قو ت و حیا ت کو اس واسطے پیدا کیا تا کہ وہ دیکھے کہ کو ن حُسنِ عمل کا مظا ہر ہ کر تا ہے‘‘(۶۷:۲)حُسنِ عمل کا مظا ہرہ اسی دنیا ہی میں تو کر نا ہے۔دنیا ہی وہ سٹیج ہے جہا ں انسا ن کو اپنے عمل کا مظا ہر ہ کر نا ہے ’’دُنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘ کے فر ما نِ مصطفوی صلعم نے اس آیت کی شر ح ہما رے سا منے رکھ دی …لہٰذادنیا ’’ضرو رت‘‘ کی چیز ہے نہ کہ ’’مقصو د با لذات ‘‘ … دنیا کا دستو رِ عا م ہے کہ ’’ضرو رت‘‘ کو ہمیشہ ’’مقصد‘‘ پر قر با ن کیا جا تا ہے ۔ ہو نہا ر طا لبِ علم راتوں کی میٹھی میٹھی نیندکو جو اس کی شد یدترین ’’ضرو رت‘‘ ہے امتحا ن میں اعلیٰ پو زیشن جو اس کا ’’مقصد ‘‘ ہو تا ہے، خو شی خو شی قر با ن کر کے رکھ دیتا ہے۔ بغیر آخرت کا متوالا ہو ئے رات کی آخری گھڑیوں کی سکو ن بخش نیند کو بخوشی اپنی آ ہ سحر گا ہی کی قر با ن گاہ کی بھینٹ چڑ ھا تا ہے ۔کیو ں؟ صرف اس لئے کہ آخرت کے ابدی مقا م میں اپنے کوکا میا ب لو گو ں کے صف میں مو جو د پا ئے ، جو مو من تہجد گزارکا ’’ مقصد‘‘ہو تا ہے ۔ بس یہی مثا لیں حُبّ دنیا کی اصل حقیقت کو واضح کر تی ہیں ۔ ’’ضرورت‘‘کی حد تک دنیا سے محبت تو بد یہی حقیقت ہے لیکن اس دنیاوی محبت ہی کو ہم نے عین ’’مقصد زیست‘‘ بنا دیا ہے جو ربّا نی ارشادات اور مصطفوی ؐ فرمودات کی عین ضد ہے۔ دنیا کی محبت (حُبّ دنیا) ہی کو مقصدِزیست بنا نے سے متعلق ایک مفّکر نے کیاخوب فر ما یا ہے’’دنیا ہی وہ سب سے بڑ ا روک ہے جو حق کی آوز کو آدمی کے لیے قابل ِفہم اور قابلِ قبول بننے نہیں دیتا۔اسلام کی بلند تر حقیقتوں کو وہی شخص پا سکتا ہے جو دنیا اور دنیا کی چیزوں سے اپنے آپ کو اوپر اٹھا چکا ہو ۔ جو اس سے اوپر نہ اُٹھ سکے اس کے عین سر کے اوپر حقیقت کی آو ز گو نج رہی ہو گی مگر اس کو گر فت کر نے کی طا قت سے وہ محر وم ہو گا۔اس کے پا س وہ کا ن نہیں ہو ں گے جن سے وہ سُنے اور وہ دل نہیں ہو گا جن سے وہ اسے سمجھے۔ آپ کی سعا دت و تر قی کے تما م امکا نات  اس وقت تک آپ سے دو ر رہیں جب تک آپ کی تو جہا ت دنیا کے اندر بکھری ہو ئی ہو ں۔
  آپ کا مو من بننا، آپ کا دا عی بننا،آپ کا مجا ہد فی سبیل اللہ بننا، سب کچھ منحصر ہے اس بات پر کہ اس سے پہلے آپ ’’زھد فی الدّنیا‘‘ کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر چکے ہو ں جو ر سول اللہؐ کے عظیم الشان فرمودہ میں… ’’اولُ صلاحِ ھٰذہِ ا  لاُمّۃ‘‘ ہے ۔ دنیا پسندی دوسرے لفظوں میں ظا ہر پسندی کا نام ہے اور زہد یہ روحا نی سطح پیدا کر تی ہے بلکہ زہد سے ہی وہ گہری نظر حا صل ہو تی ہے جو چھپے ہو ئے واقعات کو با لکل بے نقا ب دیکھ لے اور حقیقت سے یہ انتہا ئی حدتک آشنا ہو کر بو ل سکے …گو یا اللہ تعا لیٰ نے ہم کو جو دنیا میں بھیجا ہے اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم یہا ںکی نعمتوں اور لذات میں غرق ہو ں اور یہاں رہ کر اپنے صرف دل کی تمنا ئیں پو ری کر یں بلکہ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم میں سے کو ن ہے جو دنیا کو ہی اپنے حو صلوں او ر تمناؤںکا مصرف بنا تا ہے اور کو ن دنیا کو آ خر ت کی پو نجی۔آیئے اب ذرا اِس با ت کا تھو ڑا سا جا ئز ہ لیں کہ ما ہِ صیا م کے رو زے کس طرح حُبّ دنیا کے اس ایما ن لیوا عا رضہ سے ہمارے ایمان و احتساب کی کمیّت و کیفیت کی مقدار کے مطا بق ہمیں نظر فریب دنیاسے چھٹکا را دلانے کا با عث بن جا تے ہیں۔ صوم یا صیا م کے معنٰی ہیں رک جا نا۔ صیا م کی قرآنی اصطلاح صبحِ صا دق سے سورج غروب ہو تے تک کھانے پینے اور جنسی خوا ہش پوری کر لینے سے رُک جا نا ہی مقصود ہو تا ہے ۔یادرہے اکل و شرب اور مبا شرت زندگی کی بنیادی ضروریات ہی نہیں بلکہ اکل و شرب پر حیا تِ انسا نی کا مدار ہے اور جنسی مبا شرت پر نسلِ انسانی کے وجود و بقاء کا مدار ہے۔اکل و شرب اور مبا شرت تر ک کر نے سے جن پر انسانی جسم کے فربہَ توا نا اور زور آور ہو نے کا مدار ہے، صیّام کی بدو لت کمزور، ناتوان اور بے زور ہو جا تا ہے اور نتیجتاً روح فربہَ تو انا اور زور آور ہو نے لگتا ہے۔ سیّد سلیمان ندوی کے ذیل کے ارشا دات روزہ کے بدو لت انسا نی جسم کے ناتواں اور انسانی روح کے توانا اور تنو مند ہو نے پر یو ں عالما نہ روشنی ڈالتے ہیں : ’’روح اور جان کا جسم میں با قی رہنا صرف سدِّرمق پر مؤقف ہے اور سچ یہ ہے کہ سدِّرمق صرف کھا نے کے چند لقموں اور پا نی کے چند گھو نٹوں پر مو قف ہے اور سچ یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کی تما م انسا نی ضرو رتوں کا مو لدو فشا ن انہیں چند لقموں اور چند گھو نٹوں میں افراط و وسعت کا …اور تعیش کا نتیجہ ہے ۔ اس بنا ء پر ایک انسا ن اور ایک فرشتہ یعنی عا لم نا سو ت اور عا لم ِملکو ت کے دو با شندوں میں اگر فر ق و امتیا ز کی دیوار قا ئم کی جا ئے تو صرف یہی ایک چیز تما م فر ق و امتیازات  کا محیط ہو گی ۔ انسا ن کے تما م جر ا ئم اور گنا ہو ں کی فہرست اگر تیا ر کی جائے اور اس کی حرص و ہو س اور قتل و خو ن ریزی کے آخری اسبا ب ڈھونڈ ے جائیں تو انہیں دو چیزوں کے افراط اور تعیش کی فر ید طلب اس سلسلہ کی آخری کڑی ہو گی۔اس بنا ء پر دُنیا کے تما م مذا ہب میںمادیات کی کثافتوں سے بر ی اور پا ک ہو نے کیلئے اکل و شر ب سے ایک حد تک امتنا ع اور پر ہیز سب سے پہلی شرط رکھی گئی ہے، جس سے اصل مقصود یہ ہے کہ انسا ن رفتہ رفتہ اپنی ضرورت کا دائرہ اور آخر پہ کہ قو ت و غذا کی طلب وحرص سے بھی بے نیازی کیلئے متوا تر کو شش جا ری رکھے کہ انسانوں کے تما م گنا ہ اور جرائم اسی ایک قو ت کے نتا ئج ما بعد ہیں۔ اگر یہ طلب و ضرو رت فنا ہو جا ئے تو ہم کو دفعتا ً عالمِ نا سو ت میں عا لم ِ ملکو ت کی جھلک نظر آنے لگے لیکن جب تک انسا ن انسا ن ہے اس کو غذا سے قطعی بے نیا زی ہونی نا ممکن ہے ۔ اسی بنا ء پر تما م مذاہب نے اس سے احتسا ب اور بے نیا زی کی ایک مدت محدود کر دی ہے۔ یہ قرآنی ارشا د اے ایما ن وا لو ! تم پر رو زے فر ض کئے گئے جیسے پچھلی امّتو ںپر تا کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو ‘‘ (البقرہ۱۸۳)کی رُو سے روزہ کا اصل مقصو د تقویٰ کا حصو ل ہے۔تقویٰ کے حصول کے ضمِن میں پیغمبر انقلا ب صلعم نے کیا خو ب فر ما یا ہے : ’’ کو ئی شخص متقیوں میں شما ر کئے جا نے کے قا بل نہیں ہو سکتا جب تک اس کایہ حا ل نہ ہو جائے کہ وہ ان چیزو ں کو چھو ڑ دے جس میں کو ئی حرج نہیں ، ایسی چیز وں سے بچنے کی خا طر جس میں واقعتہً حر ج ہے ‘‘ (ترمذی۔ابن ماجہ)۔ ایک مفّکر کے بقول ’’دنیا کا عیش و آرام فی نفسہٖ با لکل جا ئز ہے مگر ایک حسا س مو من ان سے صرف اس لئے بچتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ اس میں پڑ کر اس کا نفس مو ٹا ہو جا ئے گا ‘‘نفس کا مو ٹا ہو نا’’ زھد فی الدّنیا‘‘ کی ضِد ہے۔زھد فی الدّنیا سے لطا فتِ روح حا صل ہو تی ہے جب کہ عیش وعشرت کثا فتِ رو ح کا با عث بن جا تی ہے۔
  یاد رکھئے حقیقت ایک غیر ما دی چیز ہے ۔ اس لئے وہ روح جو ما دی آلا ئشوں میں پھنسی ہو ئی ہو وہ حقیقت کو با لکل بے نقا ب حا لت میں دیکھ نہیں سکتی ۔ اس کا مشا ہدہ ہمیشہ دھند لاسا مشا ہدہ ہو گا جس میں حقیقت کے بعض رُخ دکھا ئی دیں گے اور بعض رُ خ نظر وں سے او جھل ہو جا ئیں گے۔ لہٰذا حصولِ تقویٰ کے لئے جو ربّا نی ارشا د کے مطا بق روزہ کی غا یت اولیٰ ہے ،متذکرہ حدیث نبوی ؐ کی رو شنی میں مومن کو ما ہ صیام میں دنیا کی ما دّی آلا ئشوں سے اپنے آپ کو بچا نے کی کما حقہ ٗسعی و جہد کر نی چا ہئے تا کہ صیا م کے اختتام کے بعد بھی وہ دُنیا سے مقدور بھر بے رغبت ہو چکا ہو۔ تقویٰ تعیشِ دنیا کو مقدور بھر تر ک کر نے کا متقاضی ہے۔ تعیشِ دنیا اور دنیا طلبی میں صیّام سے پہلے اور پھر صیّام کے بعد بھی متفرق رہا جا ئے تو محو لہ با لا حدیث نبویؐ کی رو شنی میں صیّام کے اہم تر ین تر بیتی کو رس سے ہم نے پھر کیا حا صل کیا…؟ ہر سال ما ہِ صیا م  کی با بر کت سا عتیں اور گھڑیا ں یہ سوا ل نو شتہ ٔدیوار بن کر ہما رے سامنے لا کھڑا کر تی ہیں۔ ما ہ صیّا م کی با بر کت سا عتیں اگر ایما نی شعور اور احتسابِ نفس کے سا تھ گزاری جا ئیں تو لا زم ہے کہ دنیا وی آلائشوں کی جن گرانبار زنجیر وں نے ہمیں جکڑ کے رکھ دیا ہے وہ لا زماً ڈھیلی پڑ جائیں گی کیو نکہ بقو ل مو لا نا عبدا لما جددریا با دی: ؒ ’’نماز میں جس طرح عبد یت کی تکمیل ہو تی ہے ٹھیک اسی طرح روزہ دار کو اخلا قِ الٰہی کے ساتھ کس درجہ مناسبت و مشا بہت پیدا ہو جا تی ہے۔بھوک اور پیاس سے بے نیازی ،صبروضبط، قوت واحتیاط،حلم و تحمل، عفوو در گزر، یہ سب شانیں بند ے کی ہیں یا مو لیٰ کی ؟ عبد کی ہیں یا معبود کی؟ خا ک کے پتلے کی ہیں یا آسما ن کے فر ما نروا کی؟ پھر یہ کیو نکر ہے جو شیٔ کچھ ہی دیر کے لئے ہی سہی اس کیفیت سے منا سبت پیدا کر رہی ہو ،جو شیٔ ذرہ میں آفتا ب کا پر تو ڈال رہی ہو ،جوشیٔ آیئنہ میں جلاّ پیدا کر کے اسے نورانیت ِکا ملہ کا عکس قبو ل کر نے کے قا بل بنا رہی ہو ، آپ اس نعمتِ عظمی کی جا نب لپکنے سے تا مّل کر رہے ہیں ‘‘ا فسوس ہما ری معرو ضی حالت اتنے سالوں صیام کی آ مد ورفت کے با وجود سطورِبالامیں پنہاں حقائق کا اثبات کر رہی ہے یا نفی ؟۔ما ہ صیّا م کی اہمیت کا اندا زہ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کے درجِ ذیل سطو ر سے بخو بی لگا یا جا سکتا ہے : ’’رمضا ن المبارک کا مہینہ مومن کے لئے سا لا نہ ور کشا پ کی ما نند ہے۔آج کے سا ئنٹفک دو ر میں پرو فیشنل لو گ اپنے آپ کو اَپ ڈیٹ کر نے کے لئے، اپنے پرو فیشنل نا لیج میں تر قی کے لئے اور اپنے لو گوں کی تر قی کے لئے سالانہ کچھ نہ کچھ کر تے رہتے ہیں ۔ قرآن مجید نے چو دہ سو سا ل پہلے یہ تصور پیش کر دیا تھا کہ اے ایما ن وا لو !تمہیں بھی اپنی جذبا ت اور کیفیا ت کو بر قرار رکھنے کے لئے اور اپنے آپ کو’’روحا نی‘‘ طور پر اَپ گر یڑکر نے کے لئے سا ل میں ایک مہینہ ایسا دیا جا رہا ہے جس میں تم قرآن مجید کی تعلیما ت شروع سے آخر تک نئے سر ے سے سنو گے اور جذبوں کی سچا ئی کے ساتھ پھر عمل کا ارادہ کر لو گے‘‘۔

No comments:

Post a Comment