Search This Blog

Saturday 11 August 2012

RANGEEN INQALABAT


رنگین انقلابات (2)

مسعود انور
-یہ 1985ء کی بات ہے کہ ناٹو کے زیراہتمام ایک سماجی سائنسداں جین شارپ Gene Sharpکا ایک مقالہ چھاپا گیا جس کا عنوان تھا یورپ کو ناقابل تسخیر بنانا Making Europe Unconquerable۔اس مقالے میں شارپ نے دنیا میں ایک عالمگیر حکومت کے قیام کے لیے موجود حکومتوں کی تبدیلی کی بابت اپنا طریقہ کار پیش کیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہی 1989 میں سی آئی اے نے شارپ کو ٹاسک دیا کہ اس نے جو تھیوری پیش کی ہے اس کو چین میں عملی جامہ پہنائے۔ وہ چین میں ڈینگ زیاؤپنگ کی جگہ ژو ژیانگ کی حکومت چاہتی تھی۔سی آئی اے اس سے قبل ایران میں وزیراعظم مصدق کا تخت اسی طریقہ کار کے مطابق الٹ چکی تھی۔ اس وقت کی تحریک اور شارپ کی مجوزہ تحریک میں بس اتنا فرق تھا کہ شارپ کے طریقہ کار کے تحت منظم کیے گئے نوجوان ژو ژیانگ کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے بھی زیر اثر ہوتے۔ تاہم ڈینگ زیاؤپنگ حکومت نے اس معاملے پر سختی سے کام لیا اور شارپ کو گرفتار کرکے جلاوطن کردیا جبکہ دیگر گرفتار شدگان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا۔ اس طرح یہ مشن ناکامی سے دوچار ہوگیا۔
جلاوطنی کے بعد شارپ اسرائیلی فوج کے چیف سائیکولوجسٹ کرنل ریوون گال کے قریب ہوگیا۔ بعد میں گال ایریل شیرون کی حکومت میں ڈپٹی نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر ہوگیا۔شارپ کے سامنے فرانسیسی سماجی سائنسداں گستاف لے بون Gustave Le Bon کا بھی کام تھا جس کا کہنا تھا کہ ہجوم میں تبدیل ہونے کے بعد بالغ افراد کا رویہ بھی بچوں جیسا ہوجاتا ہے ۔ اس نے سگمنڈ فرائیڈ اور لے بون کے نظریات پر مشتمل اپنی تھیوری پر نظر ثانی کی اور نوجوانوں کے ہجوم کو حکومت الٹنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے پر تیار ہوگیا۔اس کے بعد شارپ اور گال نے نوجوانوں کو انقلاب لانے کے لیے تربیتی کیمپوں کا انعقاد شروع کردیا۔ روس اور بلقان کی ریاستوں میں کامیابی کے بعد یہ دونوں اپنے طریقہ کار میں موجود خامیوں پر قابو پاچکے تھے اور اس ماڈل کا پہلا کامیاب ترین تجربہ1998ء میں سرب صدر سلوبودان میلا سووک کا تخت الٹ کر کیا گیا۔
اس طریقہ کار کو جمہوریت کو پروان چڑھانے کا نام دیا گیا۔میں بار بار اس امر پر بحث کرچکا ہوں اور اس پر تفصیل سے اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں بتاچکا ہوں کہ کسی بھی پروجیکٹ کو کامیاب بنانے کے لیے اہم ترین چیز پیسہ ہے۔ مالی معاونت اس پورے کھیل میں اسی حیثیت کی حامل ہے جو ایک زندہ جسم میں خون کی ہے۔نوجوانوں کو منظم کرنے اور اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کے لیے این جی اوز کا سہارا لیا گیا۔ اس مقصد کے لیے خاص طور سے کئی نجی فاؤنڈیشنوں اور اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں سرفہرست البرٹ آئنسٹائن انسٹیٹیوٹ Albert Einstein Institute (AEI)، نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیموکریسیNational Endowment for Democracy (NED)، انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹیٹیوٹ International Republican Institute (IRI)، نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ National Democratic Institute (NDI)، فریڈم ہاؤس Freedom House اور انٹرنیشنل سنٹر فارنان وائیولینٹ کانفلکٹ the International Center for Non-Violent Conflict (ICNC) ہیں۔ ان تمام این جی اوزکو جو دیکھنے میں علمی تحقیق کے لیے کام کررہی تھیں، واشنگٹن نے فنڈز کی بلاروک ٹوک فراہمی شروع کردی۔ یہ فنڈز نوجوانوں کو منظم کرنے اور ان سیاسی گروہوں میں تقسیم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو ہدف کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں۔ فنڈنگ کی ذمہ داری امریکی حکومت کے مالی ونگ یوایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ USAID کو سونپی گئی۔یو ایس ایڈ کا کام صرف اتنا نہیں ہے کہ وہ مالی معاونت فراہم کرے۔ آج کے دور میں یو ایس ایڈ امریکی خارجہ پالیسی میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔
اس وقت یہ ایجنسی امریکہ کی سیکوریٹی، انٹیلی جنس اور دفاع ، ہر شعبہ میں اہم ترین کردار ادا کررہی ہے۔تعمیر نو، اقتصادی ترقی، گورننس، جمہوریت اور اسی طرح کے دیگر عنوانات کے تحت یو ایس ایڈ کروڑوں ڈالر ہر سال اس ملک میں منتقل کرتی ہے جو اس کا ہدف ہوتا ہے۔یہ ڈالراین جی اوز، طلبہ تنظیموں، لیبر یونینوں اور سیاسی تنظیموںمیں تقسیم کیے جاتے ہیں اور ان تمام جگہوں پر استعمال کیے جاتے ہیں جو ہدف کو ہٹانے میں معاون ثابت ہوسکیں۔ 

No comments:

Post a Comment