پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم حقوق نسواں کے نقیب ڈاکٹر حمیدہ نعیم
اس بات کا اندازہ لگانا از بس ضروری ہے کہ خواتین کو تعلیم ،اقتصادیات ، سماجی و سیاسی اور سب سے بڑھ کر انسانی معنوں میں اختیارات تفویض کرنے کے سلسلے میں کتنی ترقی ہوئی ہے ۔کیونکہ خواتین کو اختیارات تفویض کرنے کا معاملہ کثیر الجہتی ، کثیر العباد اور کئی تہہ والا تصور ہے ۔ یہ محض اقتصادی اختیارات کا معاملہ نہیں جیسے کہ ہمارے ہاں عام طور سمجھاجاتا ہے ۔ یہ درحقیقت کئی عوامل کاعمل اور جسمانی ،ذہنی،معاشرتی ، سیاسی ،اقتصادی ،نفسیاتی ،انداز فکر ،ردعمل ۔اس کو ایک آسان طریقے پر ایک ایسا عمل قرار دیا جاسکتاہے جس میں خواتین مادی ، انسانی اور دانشورانہ جیسے کہ علم ، معلومات ، خیالات ،مالی وسائل جیسے کہ دولت ، جائیداداور گھر،معاشرے اور قوم میں فیصلہ سازی کے مساوی حصے پر کنٹرول حاصل کرسکتی ہے ۔اس طرح وہ اختیارات حاصل کرسکتی ہے۔اس کا عام فہم معنی یہ ہے کہ بے آوازوں کو آواز عطا کی جائے ۔ یہ اصطلاح خواتین کی سماجی انصاف اور مساوات کی جدوجہد سے وابستہ ہوئی ۔یہ سرگرمیوں کے ایک وسیع تناظر کا احاطہ کرتی ہے جس کا دائرہ خود ادعائی سے اجتماعی مزاحمت احتجاج اور تحریک تک پھیلا ہواہے جو اختیارات کی بنیاد کو چیلنج کرتے ہیں ۔ اختیارات کی سپردگی کی شنوائی ہوتی ہے ،اس کو ایک مساوی انسان کے طو رپر تعظیم کی جاتی ہے ۔جس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ معاشرے میں اچھا خاصا حصہ اداکرسکتی ہے ۔ ہم خواتین میں تعلیم کی ترقی کے سلسلے میں قدرے اطمینان کا اظہار کرسکتے ہیں اور خواتین کو معاشی امپاورمنٹ کے سلسلے میں مساوی مواقع دستیاب ہونے پر بھی طمانیت کا اظہار کرسکتے ہیں ۔ جہاں تک انسانی امپاورمنٹ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ شعبہ کو را ہی ہے ۔
ساختیاتی عدم مساوات ایک ایسا طریقہ ہے جس سے خواتین کو ایک منظم طریقے پر ناانصافی اور تشدد کا شکار بنایا جاتاہے جس کو ختم کرنے پر اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ ان غیر مرئی مفروضات کو واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے جن کے ذریعہ معاشرہ کام کرتارہاہے اور ان کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے ۔ ان غیر مرئی مفروضات کو مردوں کی بالادستی والے معاشرے کی ساخت ہی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں ۔ ہم نے ان تک جس کی ثقافتی تاویل کو بدل نہیں ڈالا ہے جس کے ذریعہ خواتین کو تجسیم کی صورت دے کر انہیں بے قدر وقیمت ، بے اختیار اورتشدد کا غیر مرئی شکار بنایا جاتاہے ۔
خواتین کی جدیدیت اور اب عالمگیریت کے ساتھ ہی جب ان کی امپاورمنٹ تفویض کرنے کا عمل شروع ہوا تب سے متناقض طور پر خواتین پر تشدد بڑھتا ہی جارہاہے۔ تصادم آرائی کی صورتحال ، فرقہ وارانہ تنائو ، نسلی حرمان نصیبی اور نوآبادیاتی صورتحال نے خواتین کو مکمل تجسیمی صورت دے دی ہے اور ان پر ناقابل بیان ظلم توڑے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور منہ گریباں میں ڈال کر جھانکیں اور اس بات کا اعتراف کریں کہ ہم سب کسی نہ کسی طرح معاشرے میں اس ناسور کے ذمہ دار ہیں اور اس مخصوص طرز کو بدل ڈالیں جو سدراہ بنا ہواہے ۔ اس کے علاوہ اس نہج کو تبدیل کیا جائے جو اپنے تمام تر وجود کے ساتھ خواتین پرظلم وتشدد کو دوام بخشتا ہے حتیٰ کہ اس سے آنکھیں چراتاہے ۔
اقوام متحد ہ جنرل اسمبلی نے خواتین پر تشدد ختم کرنے کے اپنے اعلانیہ (1993) میں خواتین پرتشدد کی وضاحت اس طرح کی ہے : جنس کی بنیاد پر تشدد کا کوئی بھی عمل جس سے جسمانی ، جنسی یا ذہنی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو یا خواتین کو مصائب میں مبتلا کرے یا بشمول اُن حرکات جن میں جور وجبر ، آزادی سے ظالمانہ طریقے پر محرومی شامل ہیں ۔ خواہ یہ لوگوں کے سامنے یا نجی طور پر کی جائیں ۔
اس توضیح کا اطلاق جسمانی ،جنسی اورنفسیاتی تشدد خواہ یہ گھر یا محلے پر ہوتاہے ۔اس تشدد میں خواتین کی صورت بگاڑ دینے ، لڑکیوں اور بچیوں کا جنسی استحصال ، جہیز سے تعلق رکھنے والا تشدد ،عصمت دری، عورتوں کے جنسی عضو کو تباہ کرنا اور دیگر وحشی روایتی طریقوں سے خواتین کو اذیت پہچانا ، خاوند کے علاوہ کسی دیگر شخص کی جانب سے ایذا رسانی اور استحصال ، بے تعلق رکھنے والا تشدد ، جنسی ہراسانی اور کام کرنے کی جگہ یا تعلیمی اداروں میں خوف دہی ، بردہ فروشی یا تشدد روا رکھنا یا حکومت کی جانب سے آنکھیں پھیر لینا شامل ہیں ۔
جب میں دنیا کے اپنے اس حصے پر غیر جانبدارانہ نگاہ ڈالتی ہوں تو مجھے یہ کہتے ہوئے بہت دُکھ اور تشویش ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے جنسی عضو کو تباہ کرنے کے بغیر متذکرہ بالا تمام بدعات موجود ہیں ۔یہ طریقۂ کار افریقہ اور عرب میں رائج ہے ۔گھریلو تشدد میں ، بیوی کی مارپیٹ ، جہیز سے متعلق تشدد ، جنسی ہراسانی ، بچوں کا جنسی استحصال ، زبانی طعنہ زنی ، گالی گلوچ والی زبان ، جذباتی اور نفسیاتی اذیت اور خوف وہراس شامل ہیں ۔ یہی بات کام کرنے کی جگہ پر صادق آتی ہے جس میں بلیک میلنگ اورتفریق تمیز شامل ہیں ۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق شہر سرینگر میں ہی شادی کے قابل چالیس ہزار لڑکیاں بَر نہیں پاسکیں کیونکہ وہ معاشی طور پر مستحکم نہیں تھیں ۔خواتین کے لئے عدم معاشی امپاورمنٹ کا تاریک پہلو نہایت ہی تباہ کن ہے کیونکہ اس سے وہ قابل فروخت شئے بن گئی ہیں ۔
ایک لمحے کے لئے یورپ اور امریکی خواتین کے امپاورمنٹ کے تصورات کو ایک طرف چھوڑ دیجئے کیونکہ مغربی خواتین کی تحریک اور خواتین کے حقوق کے تئیں عہد صرف ایک سوسالہ پرانا ہے ۔ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے پر فخر ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ 1400برس قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مشن کا اہم ترین محرک خواتین کو مردوں کے ظالمانہ طوقِ غلامی سے نجات دلانا تھا اور ان کو انسانوں کا درجہ دلانا تھا ۔ آپؐ کا یہ دانشورانہ عہد وپیماں تھا ، ایک عظیم روحانی تمنّا تھی جس کو معنوی صورت عطا کرنے کے لئے ایک سیاسی تحریک چلائی گئی تاکہ خواتین کے انصاف حاصل کیا جائے او رانہیں مردوں کے تسلط والے معاشرے کے جوروتعدی کے اثرات سے نجات دلائی جائے ۔
آپؐ نے ایک عادلانہ ، پُرامن اور محاسن انسانی سے متصف سماجی نظام قائم کرنے کے لئے سعی بار آور کیں جن کی بدولت خواتین کو مردوں کی مساوی سطح پر لایا گیا ۔ اس حد تک کہ آپؐ نے اس تحریک کو اپنے الواداعی خطبے پر منتج کیا۔ مردوں سے خطاب کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا : ’’آپ کو اپنی خواتین پر حقوق حاصل ہیں اور خواتین کو آپ پر حقوق حاصل ہیں ‘‘۔ اب ہمیں صرف اس عہدوپیمان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمودہ کا اعادہ کرناہے اور آپؐ کی وساطت سے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرناہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر سختی سے کاربند رہیں گے اور خواتین پر کئے جانے والے تشدد کے مختلف طریقوں کو بیح و بن سے اکھاڑڈالیں گے اور ان کے حقوق بشری کو تسلیم کریں گے تاکہ محاسن انصافی سے متصف اور پُرامن معاشرہ تعمیر ہو ۔ اس طرح ہم اس تشدد آمیز دور میں دنیا کی رہنمائی کرسکتے ہیں ۔
……………………………
کالم نویس کشمیریونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں پروفیسراور معروف انسانی حقوق کارکن ہیں۔
|
Search This Blog
Thursday 2 August 2012
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم حقوق نسواں کے نقیب
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment