Search This Blog

Sunday 12 August 2012

آپ بھی کھجور کھا سکتے ہیں

آپ بھی کھجور کھا سکتے ہیں


کشمیر عظمیٰ کے گذشتہ سنڈے سپیشل میں فکر صحت کالم میں کھجوروں کے طبی فوائد سے متعلق جو مضمون چھپا تھا ،اُسے پڑھ کر بہت سارے قارئین نے یہ سوال کیا کہ کیا شوگر بیماری میںمبتلا مریض کھجور کھا سکتے ہیں؟ جواب عرض ہے۔
شوگر بیماری میںمبتلا افراد کے لئے کسی خاص قسم کی غذائی تجویز نہیں کی گئی ہے۔ اگرشوگر کی سطح نارمل حدود میں ہے تو وہ عام صحت مندافراد کی طرح ہر قسم کی غذا سے لطف اندوز ہوسکتاہے۔ جہاں تک شوگربیماری میں میں تغذیہ کا سوال ہے، اہم بات یہ ہے کہ شوگر بیمار ’’کتنا‘‘ کھاتا ہے نہ کہ ’’کیا‘‘ کھاتا ہے۔ اکثر بیماروں کو پرہیز کے نام پر گمراہ اور پریشان کیا جاتا ہے اور وہ بے چارے تنگ آکر اپنی قسمت کو کوسنے لگتے ہیں۔ اکثر مریض کسی بھی ’’شیرین‘ چیز کو چھونا بھی حرام سمجھتے ہیں ، وہ کھانا پینا ترک کرتے ہیں اور یوں دن بدن جسمانی طور کمزور ہوکر زیابیطس کی مختلف پیچیدگیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جن غذائوں میں کابوہائیڈریٹ (نشاستہ) اور ریشہ ہو، اُن کا استعمال شوگر بیماری میں نہ صرف مفیدہے بلکہ لازمی بھی ہے۔ اگر شوگر بیماری میں مبتلا مریض اپنی غذا میں کوئی میٹھی چیز شامل کرنا چاہتا ہے تو کھجور ایک بہترین میوہ ہے۔ یہ شوگر بیماری میںمبتلا مریضوں کے لئے ایک بے ضرر اور مفید غذا ہے۔ کھجور کھانے کے بعد خون میں شکر کی سطح ایکدم حدسے زیادہ نہیں بڑھتی ہے، ہر قسم کی غذا کا ایک گلیسمیک انڈکس (Glycemic Index)ہوتا ہے،یعنی کوئی چیز کھانے کے بعد خون میں کتنی دیر میں شوگر کی سطح بڑھتی ہے۔ بعض غذائوں کا جی آئی زیادہ اور بعض غذائوں کا کم ہوتا ہے۔اسی لئے شوگر بیماری میں مبتلا افراد کو زیادہ جی آئی (Glycemic Index)والی غذائیں کھانے سے منع کیا جاتا ہے تاکہ اُن کے خون میں شوگر کی سطح کم وقت میں بہت زیادہ نہ ہوجائے۔ کھجور کا جی آئی کم ہے ،اس لئے عالمی سطح پر اکثر ڈاکٹر شوگر بیماری میں مبتلامریضوں کو کھجور کھانے کی ہدایت دیتے ہیں۔ کھجور کا جی آئی اس بات پر منحصر ہے کہ یہ میوہ کس درجے اور قسم کا ہے، اوسطاً کھجور کا جی آئی 3.5-5ہے۔
٭ کاربوہائیڈریٹ شوگر بیماروں کے لئے بے حد ضروری اور مفید ہیں، سوگرام کھجور میں 75گرام کاربوہائیڈریٹ موجود ہوتا ہے۔ اس کاروبوہائیڈریٹ میں گلوکوز، فرکٹوس، سکروس جیسے شکر موجود ہوتے ہیں۔ یہ تینوں قسم کے شکر فوری طور توانائی پہنچاتے ہیں۔ اگر دن بھر کام کرنے کے بعد شوگر بیمار غنودگی اور کمزوری محسوس کرے اور اس کے خون میں شوگر کی سطح گر گئی ہو تو تین کھجور کھاتے ہی اُسے پھر سے توانائی محسوس ہوگی۔
٭ کھجور میں غذائی ریشہ پایا جاتا ہے۔ ریشہ انسانی صحت بالخصوص نظام ہاضمہ کی فعالیت اور کارکردگی کے لئے ضروری ہے۔ یہ غذا ہضم کرنے اور آنتوں کی صحت برقرار رکھنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ سوگرام کھجور میں 8گرام غذائی ریشہ پایا جاتاہے۔ کھجوروں میں ایک خاص قسم کا ریشہ، بیٹاڈی گلوکان(Beta D Glucon)پایا جاتا ہے۔ جو کولسٹرول کو جذب کرنے میں انتہائی اہم رول ادا کرنے کے علاوہ چھوٹی آنتوں سے شکر جذب کرنے کے عمل کو ٹالتا ہے۔ اس طرح خون میں شکر کی سطح اعتدال میں رہتی ہے۔
٭ کھجور میں چربی نہیں ہوتی ہے اور یہ معجزاتی میوہ انواع و اقسام کے مقوی اور مانع تکسیری اجزاء سے مالامال ہے۔ چوں کہ کھجور میں چربی نہیںہوتی ہے اس لئے یہ موٹاپا اور شوگر بیماری میں مفید غذا ہے، بالخصوص اُن مریضوں کے لئے ،جن کا وزن زیادہ ہو اور جن کے جسم کے مختلف حصوں میں اضافی چربی کی تہیں جم گئی ہوں۔ اس بہشتی میوہ میں آھن، کیلشیم، فاسفورس، میگنیشم، مینگینز، جست، تانبہ اور وٹامن بی کمپلیکس کی موجودگی اسے شوگر بیماروں کے لئے اہم غذا بناتے ہیں۔ جس (ZINC)انسولین کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے جبکہ میگنیشیم خون میں شکر کی سطح کو قابو میں رکھنے کے لئے لازمی ہے۔اکثر شوگر بیمار زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر جنسی کمزوری کا شکار ہوتے ہیں، تحقیقات سے ثابت ہوا کہ کھجور جنسی صحت کے لئے بے حد فائدہ مند ہے۔
آپ اپنی مرضی کے مطابق کھجور کو غذا میں شامل کرسکتے ہیں۔ خشک کھائیے یا دودھ کے ساتھ ملا کے، یا ڈرائی فروٹ کے ساتھ یا سلاد کے ساتھ کھائیے مگر یاد رہے کہ کھجور آپ کے روز مرہ کے حراروں کا ایک حصہ ہو اور اسے اضافی حراروں کے طوراستعمال نہ کیاجائے۔ عام انسان کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ جب وہ کھجور کھائے تو چاول کی مقدارکم کرے اور جو مریض کیلوریز(حرارے) کے حساب سے غذا لیتے ہیںوہ اپنے حساب سے مقررہ مقدار اپنی غذامیں شامل کرے۔ …… یہ کہ اگر آپ شوگر بیماری میں مبتلا ہیں تو آپ کھجور کھاسکتے ہیں مگر ’’ناپ تول کے‘‘!۔
٭ سُنا ہے روزہ رکھنے سے انسان کے دماغ پر مثبت اثرات پڑتے ہیں؟
جی ہاں… روزہ رکھنے سے نفسیاتی مسائل (ذہنی دبائو ،افسردگی، مسلسل پریشانی)کی شدت میںنمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی لئے اس مبارک ماہ میںجرائم اور خودکشی کے شرح میں بہت کمی ہوتی ہے۔ اگر صحیح معنوں میں روزے رکھے جائیں یعنی اپنے ’’نفس‘‘ پر سو فیصد قابو پایا جائے اور حرارے کم استعمال کئے جائیں تو دماغی صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ ہارواڈ میں تعینات مشہور و معروف ماہر امراض نفصیات جون راٹی کے مطابق غذا میں حرارے کم کرنے سے دماغ کے سبھی خلیات کی فعالیت اور کارکردگی پرانتہائی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے مسلمانوں پرایک تحقیق انجام دی گئی جس میں ایم آر آئی کے ذریعہ دماغ کی کارکردگی کا پتہ لگایا گیا اور یہ دیکھا گیا کہ تمام روزہ داروں کی دماغی فعالیت اور کارکردگی میں نمایاں اور یکساں تبدیلی دیکھی گئی۔ یہ بھی ثابت کیا گیا کہ اگر ماہ صیام کے دنوں کی طرح افراد بہت کم حرارے (کیلوریز) استعمال کریں تو اُن کے دماغی امراض (الزائمیر اور پارکنسن بیماری) میں مبتلا ہونے کے امکانات میں واضح کمی دیکھی جاتی ہے۔ سائنس دانوں نے روزہ رکھنے کو بے حد فائیدہ مند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذہبی عبادت جسمانی، روحانی، نفسیاتی فوائید کی حامل ہونے کے علاوہ انسان کے دماغ کی فعالیت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسطرح روزہ دماغی صحت کیلئے بھی فائیدہ مند ہے۔


درج ذیل ادویات استعمال کرنے سے یا ٹیسٹ کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے
(جوشرعی تحقیق اسلامی فقہ کونسل کو پیش کی جاچکی ہے، اُس کا خلاصہ درج ذیل ہے)
٭ کانوں، آنکھوں اور ناک میں قطرے ڈالنے سے، کانوں کی صفائی یا نتھنوں میں اسپرے استعمال کرنے سے، مختلف ٹیسٹ کروانے کیلئے خون نکالنے سے۔
٭ دل کا درد (اچانک) دور کرنے کیلئے زبان کے نیچے دوا رکھنے سے۔
٭ معائنہ زنانہ …رحم ، دھانِ رحم ، بچہ دانی میں کوئی دوائی، آلہ یا مانع حمل چیز رکھنے سے۔
٭ کسی بیماری کی تشخیص کیلئے بویا پسی لینے سے۔
٭ پیشاب کی نالی (مردوں یا عورتوں)  میں کسی بیماری یا تشخیص کیلئے پائیپ (Cathater)ڈالنے سے۔
٭ مثانہ میں کوئی دوائی یا ’’رنگ‘‘ بھرنے سے یا پتھری نکالنے سے یا بایوپسی (Biopsy)لینے سے۔
٭ دانت نکالنے، دانتوں کی صفائی یا کوئی اور آپریشن کرنے سے۔
٭ نمکین پانی یا کسی مائوتھ واش سے غرارے کرنے سے (پانی حلق سے نیچے نہ جانا چاہئے)۔
٭ کوئی بھی انجکشن (زیر جلدی، عضلائی، وریدی) لگانے سے۔
٭ آکسیجن لگانے سے۔
٭ بے حسی کی کوئی دوائی، بے ہوشی کی دوائی ،جو آپریشن کرنے کے لئے ضروری ہو۔
٭ جلد پر کوئی کریم، لوشن، اسپرے، پاوڈر لگانے سے۔
٭ دل اور خون کی نالیوں کا معائینہ کرنے کیلئے کیتھٹر کا استعمال کرنے سے۔
٭ اندرونی اعضاء کی بیماریوں کی تشخیص کیلئے لیپراسکوپی سے۔
٭ جگر یا کسی اور عضو پستان، منہ، شکم سے بایوسپی لینے سے۔
٭ FNBC کرنے سے، دماغ اور مرکزی نظام اعصاب کے کسی حصے کی تشخیص کیلئے ادویات کا استعمال کرنے سے
٭  خودبخود اُلٹی آنے سے۔

No comments:

Post a Comment