کاغذی صنعت کی تاریخ
رانامحمد شاہد
مں اپنے ادبی دوست و معروف شاعر و کالم نگار افضل پارس سے محو گفتگو تھا باتوں باتوں میں میں نے کہا کہ آپ لکھنے کیلئے عموماً کونسا کاغذ استعمال کرتے ہیں؟ انہوں نے شاپر میں سے اپنی ایک فائل نکالی اور اس میں سے پچھلے آرٹیکلز کا دیدار کروایا ۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دکھایا کہ وہ اکثر آرٹیکل کیلئے اخبار سے ملنے والے علاقائی اشتہاروں کا بیک صفحہ استعمال کرتے ہیں ۔میں خود بھی لکھنے کیلئے عموماً انہی اشتہارات کا استعمال کرتا ہوں ۔اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لکھنے والے کوئی اچھا دستہ وغیرہ افورڈ نہیں کر سکتے بلکہ اصل وجہ حکیم محمد سعید سے منسوب وہ بات ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ قوم ابھی اتنی امیر نہیں ہوئی کہ بہترین کاغذا ستعمال کر سکے ۔
حکیم صاحب خود بھی رف لکھنے کیلئے اسی قسم کا اشتہارات کا بیک حصہ استعمال کرتے تھے حالانکہ حکیم محمد سعید جیسے شخص کے پاس کس چیز کی کمی تھی ۔آج کل تو ویسے بھی مہنگائی کی وجہ سے اخبارات کے صفحے کم ہوتے جا رہے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاغذ کی قیمتیں اور اہمیت بڑھتی جا رہی ہے ۔کاغذ کب کیسے اور کہا ں بنا ،اس کے لئے ہمیں اس کی تاریخ میں جانا پڑے گا ۔دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت بے شمار صنعتیں وجود میں آئیں لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ان صنعتوں میں کاغذ سازی دنیا کی اہم ترین صنعت ہے ۔آج ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ہم پہ یہ راز آشکار ہو گا کہ کاغذ دنیا کی ساری ترقییوں کی بنیاد بنا ہے ۔رکیے....چند لمحوں کے لئے تصور کیجئے اگر کاغذ نہ ہوتا تو انسان کتنا بے بس اور مجبور ہوتا ۔یہ آرٹیکل میں نے ایک کاغذ پر لکھا ہے اور جہاں سے آپ پڑھ رہے ہیں وہ بھی ایک کاغذ ہے ۔گویا کاغذ انسانی زندگی کے ہر پہلو پہ محیط ہے ۔اس کے بغیر انسانی ترقی ممکن نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلیٰ دماغ سے نوازا ہے اس لئے انسان کو باقی مخلوقات سے افضل قرار دیا گیا ۔کاغذ کی ایجاد سے پہلے انسان کے خیالات محدود تھے، اس کا علم بہت کم تھا ،کاغذ کی ایجاد نے صحیح معنوں میں علم کے دروازے تمام عالم کیلئے کھول دئیے یعنی آج علم کسی خاص طبقے یا علاقے تک محدود نہیں رہا بلکہ اب کاغذ کی ایجاد سے ہر شخص فیضیاب ہو سکتا ہے ۔ویسے تو کاغذ کی بنیادی اہمیت خیالات کی نشرو اشاعت ہے لیکن اس کے علاوہ یہ کہیں چمڑے اور کپڑے کا کام دیتا ہے تو کہیں دھات جیسے مضبوط آلات کا ۔کاغذ کے بے شمار فوائد ہماری روز مرہ زندگی پر محیط ہیں۔جب کاغذ ایجاد نہیں ہوا تھا تو لوگوں کو خیالات کی منتقلی وغیرہ کیلئے طرح طرح کی ترکیبوں پر عمل کرنا پڑتا تھا بعض لوگ حافظے پر اعتماد کرتے تھے اور پھر اس حافظے میں موجود خیالات کونسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل کرتے چلے جاتے تھے ۔کہیں مٹی کی تختیوں پر لکھا جاتا تھا تو کہیں پتھر کی سلیں لکھنے کے کام آتی تھیں ،کہیں درختوں کے پتوں پر الفاظ کندہ کئے جاتے تھے اور کہیں اس مقصد کے لئے جانوروںکی کھال اور جھلی استعمال ہوتی تھی ۔زمانہ قدیم میں ہندوستان میں بھی لکھنے کیلئے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے تھے ،کہیں چٹانوں پر تحریریں کندہ کی جا رہی تھیں اور کہیں متبرک اور مقدس کتابوں کیلئے تاڑ کے پتوں کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ان پتوں پر لوہے کے قلم سے لکھا جاتا تھا ۔تاڑ کے ان پتوں پر لکھی جانے والی متبرک کتابیں آج بھی ہندوستان کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ کاغذ کیلئے سب سے پہلی پیشرفت مصریوں نے کی ۔مصری کاغذ تو ایجاد نہ کر سکے البتہ پیپرس نامی درخت کے گودے سے کاغذ جیسی ایک شے بنا لیتے تھے ۔پیپرس نامی درخت دریائے نیل کے کنارے اُگا کرتا تھا آج سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل مصریوں نے پیپری درخت کو کاغذ بنانے کیلئے استعمال کرنا شروع کیا ۔مصری بڑی محنت کے بعد جو کاغذ تیار کرتے تھے شروع میں یہ کاغذ سفید ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رنگ بھورا ہوتا جاتا ۔مصریوں کے بنائے گئے اس کاغذ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کاغذ روم اور انگلستان بھی روانہ کیا جاتا تھا ۔ان ممالک کی لکھائی پڑھائی کا کام اسی کاغذ پر ہوتا تھا ۔یہ کاغذ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کھال اور جھلیوں پر لکھا جاتا تھا ۔بعد میں چمڑا بھی استعمال کیا جانے لگا چونکہ یہ اشیاءپیپری کاغذ سے زیادہ مضبوط اور چکنی ہوتی تھیں اس لئے رفتہ رفتہ پیری کاغذ کا استعمال کم ہوتا گیا اور بالآخر پیپری کاغذ کا استعمال ختم ہوگیا۔ تیسری اور ساتویں عیسوی کے درمیان صرف چمڑا ہی لکھنے کیلئے استعمال ہوتا تھا ۔جب مسلمان یورپ میں آئے اس وقت تک صرف یہی ایک چیز لکھنے کے کام آتی تھی ۔مسلمانوں کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ انہوں نے کاغذ سازی کے فن کو تمام عالم میں پھیلا دیا گو کہ کاغذ سازی کے موجد چینی ہیں لیکن جو عروج اس صنعت کو مسلمانوں نے دیا وہ کسی اور قوم یا مذہب کے حصے میں نہیں آیا ۔اس لئے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ کاغذ سے دنیا کو آشنا کروانے والے مسلمان تھے ۔751ءمیں سمر قند پر چینیوں نے حملہ کر دیا اس وقت اس شہر پر مسلمانوں کی حکومت تھی ۔اس جنگ میں چینیوں کو زبردست شکست ہوئی اور بہت سے لوگ گرفتار ہوئے ۔گرفتار ہونے والے ان قیدیوں میں چند ذہین و ہوشیار کاغذ ساز بھی تھے انہوں نے اس کی تیاری کی ترکیب مسلمانوں کو بتا دی ۔مسلمان علم و فن کے پیاسے تھے وہ کاغذ سازی میں دل و جان سے مشغول ہو گئے ۔چینی کاغذ ساز جس منزل پر صدیوں میں پہنچ سکتے تھے مسلمان چند برسوں میں وہ منزل طے کر گئے اپنی بے شمار تحقیقات کی روشنی میں انہوں نے کاغذ میں نفاست پیدا کی کاغذ کے اندر ریشوں کی درمیان والی جگہ کو پر کرنے اور کرارہ کرنے کیلئے تحقیقات کیں ۔کاغذ سازی پر ضخیم کتابیں لکھیں ایشیا اور شمالی افریقہ کے بعد یورپ میں بھی مسلمانوں نے کاغذ سازی کی صنعت کو بام عروج تک پہنچا دیا ۔باہویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے ہسپانیہ کے مسلمانوں نے کاغذ سازی کی ابتداءکی ۔ہسپانیہ کے بعد بہت جلد یہ فن فرانس اور ہالینڈ میں بھی پھیل گیا ۔اس کے بعد اطالیہ کاغذ سازی کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ ہسپانیہ کے بعد اطالیہ یورپ کاغذ سازی کا سب سے بڑا مرکز تھا ۔شروع میں جنوبی جرمن کے علاقوں کی ضرورت اطالیہ پوری کرتا تھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود جرمنی کاغذ سازی کی بڑی صنعت بن گیا ۔جگہ جگہ کارخانے قائم کئے گئے انگلستان کا نمبر سب سے آخر میں آیا ۔پندرہویں صدی میں یہاں کاغذ سازی کی ابتداءہوئی ۔جب تک کاغذ پہ ہاتھ سے لکھا جاتا رہا اس کے ناپ یعنی لمبائی چوڑائی وغیرہ کا کوئی خاص تعین نہیں تھا لیکن اٹھارہویں صدی میں چھپائی کی مشین ایجاد ہونے کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کاغذ ایک خاص ناپ کے ہوں اور زیادہ مقدار میں بنائے جائیں ۔دستی کارخانوں سے زیادہ کاغذ بنانا مشکل تھا اسلئے ایسی مشین ایجاد ہوئی جو ہاتھ کے کام میں آسانی پیدا کرے اور زیادہ تعداد میں کاغذ تیار کر سکے ۔کاغذ سازی کی پہلی مشین فرانس کے موجد لوئی رابرٹ نے بنائی ۔اس مشین کی ایجاد نے کاغذ سازی کے فن کو مزید ترقی دی اور وہ مشکلات دور ہو گئیں جو اس ایجاد سے پہلے محققین کے ذہنوں میں تھے ۔انگلینڈ میں اس مشین کو ہنری فورڈریزز نے رائج کیا گوکہ بعد میں اس کی کمپنی دیوالیہ ہو گئی لیکن اس کا نام آج بھی زندہ ہے کیونکہ کاغذ سازی کی مشین آج بھی اسی نام سے پکاری جاتی ہے ۔بعد میں اس مشین میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں ۔اس مشین کو موجودہ حالات میں لانے کیلئے ڈی کن سن ،کاوئسن اور کرومپٹن نامی ماہرین نے اہم کردار ادا کیا ۔یہ مشین چند منٹوں میں منوں کے حساب سے کاغذ تیار کر سکتی ہے ۔پہلے کاغذ محدود تعداد اور محدود اقسام میں تیار ہوتا تھا لیکن مشین کی ایجاد کے بعد موٹا،باریک ،کھردرا اور چکنا یعنی ہر قسم کا کاغذ بہت کم قیمت پر مشین میں تیار کیا جا سکتا ہے ۔آپ کو یہ پڑھ کر یقینا حیرت ہو گی کہ دستی کارخانے میں جتنا کاغذ ایک سال میں تیار کیا جاتا ہے یہ مشین ایک دن میںتیار کر لیتی ہے گوکہ دستی کاغذ آج بھی تیار ہوتا ہے لیکن بہت محدود پیمانے پر ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے ۔یورپ اور امریکہ میں دستی کاغذ مصوری وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ہندوستان میں بھی اکثر و بیشتر مقامات پر دستی کاغذ بنایا جاتا ہے لیکن اس کا معیار اتنا اچھا نہیں ہے ۔ویسے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے کسی نہ کسی طرح کاغذ تیار ہوتا آیا ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ کاغذی صنعت کی ابتداءکلکتہ کے قریب دریا ہیگل کے کنارے سیرام پور سے ہوئی ۔ڈاکٹر ولیم کیری نے یہ مشین قائم کی البتہ کاغذ سازی کی جدید صنعت 1876ءمیں بالی کے مقام پر رائل پیپرز مل قائم ہوئی ۔اس کارخانے میں ابتدائی طور پر ڈاکٹر کپری کی مشین کو ہی استعمال کیا گیا ۔اس کے بعد ہندوستان میں مختلف کمپنیوں نے کاغذ سازی کیلئے اپنے کارخانے قائم کئے ۔1918ءمیں انڈین پیپر نامی کمپنی نے بانس کے گودے سے کاغذ بنایا تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر اس طریقے پر پہلے توجہ دیجاتی تو آج ہندوستان کاغذ سازی میں تمام دنیا سے آگے ہوتا ۔آج بانس کا گودا سارے ہندوستان میں کاغذ تیار کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے تیار ہونے والا بہترین کاغذ ہوتا ہے ۔بانس کے علاوہ دوسری ریشہ دار اشیاءسے بھی کاغذ تیار کیا جاتا ہے مثلاً گھاس سے بھی کاغذ تیار ہوتا ہے ۔اکثر کارخانوں میں دھان کے پیال سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے ۔کچھ کارخانوں میں گنے کے کھوجڑ کو بھی کاغذ بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔آج ہندوستان میں ہر قسم کا کاغذ اچھے انداز اور بڑے پیمانے پر تیار ہو رہا ہے لیکن اخباری کاغذ میں آج بھی ہندستان یورپ اور امریکہ سے بہت پیچھے ہے ۔اخباری کاغذ میں عمدگی اور نفاست نہیں ہوتی ۔یہ میکانی گودے سے بنا یا جاتا ہے اور اس قسم کا کاغذ پہاڑی لکڑیوں سے تیارکیا جاتا ہے ۔اس قسم کے کاغذ کی تیاری میں بہت سی مشکلات حائل ہیں مثلاً یہ کہ پہاڑوں میں جا کر یہ لکڑی لانا پڑتی ہے یوں پہاڑوں سے لکڑی کاٹ کر لانے میں بھی بہت خرچہ ہو جاتا ہے ۔ان مشکلات کی وجہ سے ہندوستان نے اس قسم کے کاغذ کی طرف توجہ نہیں دی لیکن بہرحال اب اس طرف توجہ دی جا رہی ہے اور اُمید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی تحقیقات و تجربات کے ذریعے پاکستان و ہندوستان میں بھی اخباری کاغذ بڑے پیمانے پر تیار کیا جانے لگے گا ۔
٭٭٭
حکیم صاحب خود بھی رف لکھنے کیلئے اسی قسم کا اشتہارات کا بیک حصہ استعمال کرتے تھے حالانکہ حکیم محمد سعید جیسے شخص کے پاس کس چیز کی کمی تھی ۔آج کل تو ویسے بھی مہنگائی کی وجہ سے اخبارات کے صفحے کم ہوتے جا رہے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاغذ کی قیمتیں اور اہمیت بڑھتی جا رہی ہے ۔کاغذ کب کیسے اور کہا ں بنا ،اس کے لئے ہمیں اس کی تاریخ میں جانا پڑے گا ۔دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت بے شمار صنعتیں وجود میں آئیں لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ان صنعتوں میں کاغذ سازی دنیا کی اہم ترین صنعت ہے ۔آج ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو ہم پہ یہ راز آشکار ہو گا کہ کاغذ دنیا کی ساری ترقییوں کی بنیاد بنا ہے ۔رکیے....چند لمحوں کے لئے تصور کیجئے اگر کاغذ نہ ہوتا تو انسان کتنا بے بس اور مجبور ہوتا ۔یہ آرٹیکل میں نے ایک کاغذ پر لکھا ہے اور جہاں سے آپ پڑھ رہے ہیں وہ بھی ایک کاغذ ہے ۔گویا کاغذ انسانی زندگی کے ہر پہلو پہ محیط ہے ۔اس کے بغیر انسانی ترقی ممکن نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اعلیٰ دماغ سے نوازا ہے اس لئے انسان کو باقی مخلوقات سے افضل قرار دیا گیا ۔کاغذ کی ایجاد سے پہلے انسان کے خیالات محدود تھے، اس کا علم بہت کم تھا ،کاغذ کی ایجاد نے صحیح معنوں میں علم کے دروازے تمام عالم کیلئے کھول دئیے یعنی آج علم کسی خاص طبقے یا علاقے تک محدود نہیں رہا بلکہ اب کاغذ کی ایجاد سے ہر شخص فیضیاب ہو سکتا ہے ۔ویسے تو کاغذ کی بنیادی اہمیت خیالات کی نشرو اشاعت ہے لیکن اس کے علاوہ یہ کہیں چمڑے اور کپڑے کا کام دیتا ہے تو کہیں دھات جیسے مضبوط آلات کا ۔کاغذ کے بے شمار فوائد ہماری روز مرہ زندگی پر محیط ہیں۔جب کاغذ ایجاد نہیں ہوا تھا تو لوگوں کو خیالات کی منتقلی وغیرہ کیلئے طرح طرح کی ترکیبوں پر عمل کرنا پڑتا تھا بعض لوگ حافظے پر اعتماد کرتے تھے اور پھر اس حافظے میں موجود خیالات کونسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل کرتے چلے جاتے تھے ۔کہیں مٹی کی تختیوں پر لکھا جاتا تھا تو کہیں پتھر کی سلیں لکھنے کے کام آتی تھیں ،کہیں درختوں کے پتوں پر الفاظ کندہ کئے جاتے تھے اور کہیں اس مقصد کے لئے جانوروںکی کھال اور جھلی استعمال ہوتی تھی ۔زمانہ قدیم میں ہندوستان میں بھی لکھنے کیلئے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے تھے ،کہیں چٹانوں پر تحریریں کندہ کی جا رہی تھیں اور کہیں متبرک اور مقدس کتابوں کیلئے تاڑ کے پتوں کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ان پتوں پر لوہے کے قلم سے لکھا جاتا تھا ۔تاڑ کے ان پتوں پر لکھی جانے والی متبرک کتابیں آج بھی ہندوستان کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ کاغذ کیلئے سب سے پہلی پیشرفت مصریوں نے کی ۔مصری کاغذ تو ایجاد نہ کر سکے البتہ پیپرس نامی درخت کے گودے سے کاغذ جیسی ایک شے بنا لیتے تھے ۔پیپرس نامی درخت دریائے نیل کے کنارے اُگا کرتا تھا آج سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل مصریوں نے پیپری درخت کو کاغذ بنانے کیلئے استعمال کرنا شروع کیا ۔مصری بڑی محنت کے بعد جو کاغذ تیار کرتے تھے شروع میں یہ کاغذ سفید ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رنگ بھورا ہوتا جاتا ۔مصریوں کے بنائے گئے اس کاغذ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کاغذ روم اور انگلستان بھی روانہ کیا جاتا تھا ۔ان ممالک کی لکھائی پڑھائی کا کام اسی کاغذ پر ہوتا تھا ۔یہ کاغذ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کھال اور جھلیوں پر لکھا جاتا تھا ۔بعد میں چمڑا بھی استعمال کیا جانے لگا چونکہ یہ اشیاءپیپری کاغذ سے زیادہ مضبوط اور چکنی ہوتی تھیں اس لئے رفتہ رفتہ پیری کاغذ کا استعمال کم ہوتا گیا اور بالآخر پیپری کاغذ کا استعمال ختم ہوگیا۔ تیسری اور ساتویں عیسوی کے درمیان صرف چمڑا ہی لکھنے کیلئے استعمال ہوتا تھا ۔جب مسلمان یورپ میں آئے اس وقت تک صرف یہی ایک چیز لکھنے کے کام آتی تھی ۔مسلمانوں کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ انہوں نے کاغذ سازی کے فن کو تمام عالم میں پھیلا دیا گو کہ کاغذ سازی کے موجد چینی ہیں لیکن جو عروج اس صنعت کو مسلمانوں نے دیا وہ کسی اور قوم یا مذہب کے حصے میں نہیں آیا ۔اس لئے ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ کاغذ سے دنیا کو آشنا کروانے والے مسلمان تھے ۔751ءمیں سمر قند پر چینیوں نے حملہ کر دیا اس وقت اس شہر پر مسلمانوں کی حکومت تھی ۔اس جنگ میں چینیوں کو زبردست شکست ہوئی اور بہت سے لوگ گرفتار ہوئے ۔گرفتار ہونے والے ان قیدیوں میں چند ذہین و ہوشیار کاغذ ساز بھی تھے انہوں نے اس کی تیاری کی ترکیب مسلمانوں کو بتا دی ۔مسلمان علم و فن کے پیاسے تھے وہ کاغذ سازی میں دل و جان سے مشغول ہو گئے ۔چینی کاغذ ساز جس منزل پر صدیوں میں پہنچ سکتے تھے مسلمان چند برسوں میں وہ منزل طے کر گئے اپنی بے شمار تحقیقات کی روشنی میں انہوں نے کاغذ میں نفاست پیدا کی کاغذ کے اندر ریشوں کی درمیان والی جگہ کو پر کرنے اور کرارہ کرنے کیلئے تحقیقات کیں ۔کاغذ سازی پر ضخیم کتابیں لکھیں ایشیا اور شمالی افریقہ کے بعد یورپ میں بھی مسلمانوں نے کاغذ سازی کی صنعت کو بام عروج تک پہنچا دیا ۔باہویں صدی عیسوی میں سب سے پہلے ہسپانیہ کے مسلمانوں نے کاغذ سازی کی ابتداءکی ۔ہسپانیہ کے بعد بہت جلد یہ فن فرانس اور ہالینڈ میں بھی پھیل گیا ۔اس کے بعد اطالیہ کاغذ سازی کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ ہسپانیہ کے بعد اطالیہ یورپ کاغذ سازی کا سب سے بڑا مرکز تھا ۔شروع میں جنوبی جرمن کے علاقوں کی ضرورت اطالیہ پوری کرتا تھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود جرمنی کاغذ سازی کی بڑی صنعت بن گیا ۔جگہ جگہ کارخانے قائم کئے گئے انگلستان کا نمبر سب سے آخر میں آیا ۔پندرہویں صدی میں یہاں کاغذ سازی کی ابتداءہوئی ۔جب تک کاغذ پہ ہاتھ سے لکھا جاتا رہا اس کے ناپ یعنی لمبائی چوڑائی وغیرہ کا کوئی خاص تعین نہیں تھا لیکن اٹھارہویں صدی میں چھپائی کی مشین ایجاد ہونے کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کاغذ ایک خاص ناپ کے ہوں اور زیادہ مقدار میں بنائے جائیں ۔دستی کارخانوں سے زیادہ کاغذ بنانا مشکل تھا اسلئے ایسی مشین ایجاد ہوئی جو ہاتھ کے کام میں آسانی پیدا کرے اور زیادہ تعداد میں کاغذ تیار کر سکے ۔کاغذ سازی کی پہلی مشین فرانس کے موجد لوئی رابرٹ نے بنائی ۔اس مشین کی ایجاد نے کاغذ سازی کے فن کو مزید ترقی دی اور وہ مشکلات دور ہو گئیں جو اس ایجاد سے پہلے محققین کے ذہنوں میں تھے ۔انگلینڈ میں اس مشین کو ہنری فورڈریزز نے رائج کیا گوکہ بعد میں اس کی کمپنی دیوالیہ ہو گئی لیکن اس کا نام آج بھی زندہ ہے کیونکہ کاغذ سازی کی مشین آج بھی اسی نام سے پکاری جاتی ہے ۔بعد میں اس مشین میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئیں ۔اس مشین کو موجودہ حالات میں لانے کیلئے ڈی کن سن ،کاوئسن اور کرومپٹن نامی ماہرین نے اہم کردار ادا کیا ۔یہ مشین چند منٹوں میں منوں کے حساب سے کاغذ تیار کر سکتی ہے ۔پہلے کاغذ محدود تعداد اور محدود اقسام میں تیار ہوتا تھا لیکن مشین کی ایجاد کے بعد موٹا،باریک ،کھردرا اور چکنا یعنی ہر قسم کا کاغذ بہت کم قیمت پر مشین میں تیار کیا جا سکتا ہے ۔آپ کو یہ پڑھ کر یقینا حیرت ہو گی کہ دستی کارخانے میں جتنا کاغذ ایک سال میں تیار کیا جاتا ہے یہ مشین ایک دن میںتیار کر لیتی ہے گوکہ دستی کاغذ آج بھی تیار ہوتا ہے لیکن بہت محدود پیمانے پر ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے ۔یورپ اور امریکہ میں دستی کاغذ مصوری وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ہندوستان میں بھی اکثر و بیشتر مقامات پر دستی کاغذ بنایا جاتا ہے لیکن اس کا معیار اتنا اچھا نہیں ہے ۔ویسے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے کسی نہ کسی طرح کاغذ تیار ہوتا آیا ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ کاغذی صنعت کی ابتداءکلکتہ کے قریب دریا ہیگل کے کنارے سیرام پور سے ہوئی ۔ڈاکٹر ولیم کیری نے یہ مشین قائم کی البتہ کاغذ سازی کی جدید صنعت 1876ءمیں بالی کے مقام پر رائل پیپرز مل قائم ہوئی ۔اس کارخانے میں ابتدائی طور پر ڈاکٹر کپری کی مشین کو ہی استعمال کیا گیا ۔اس کے بعد ہندوستان میں مختلف کمپنیوں نے کاغذ سازی کیلئے اپنے کارخانے قائم کئے ۔1918ءمیں انڈین پیپر نامی کمپنی نے بانس کے گودے سے کاغذ بنایا تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر اس طریقے پر پہلے توجہ دیجاتی تو آج ہندوستان کاغذ سازی میں تمام دنیا سے آگے ہوتا ۔آج بانس کا گودا سارے ہندوستان میں کاغذ تیار کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے تیار ہونے والا بہترین کاغذ ہوتا ہے ۔بانس کے علاوہ دوسری ریشہ دار اشیاءسے بھی کاغذ تیار کیا جاتا ہے مثلاً گھاس سے بھی کاغذ تیار ہوتا ہے ۔اکثر کارخانوں میں دھان کے پیال سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے ۔کچھ کارخانوں میں گنے کے کھوجڑ کو بھی کاغذ بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔آج ہندوستان میں ہر قسم کا کاغذ اچھے انداز اور بڑے پیمانے پر تیار ہو رہا ہے لیکن اخباری کاغذ میں آج بھی ہندستان یورپ اور امریکہ سے بہت پیچھے ہے ۔اخباری کاغذ میں عمدگی اور نفاست نہیں ہوتی ۔یہ میکانی گودے سے بنا یا جاتا ہے اور اس قسم کا کاغذ پہاڑی لکڑیوں سے تیارکیا جاتا ہے ۔اس قسم کے کاغذ کی تیاری میں بہت سی مشکلات حائل ہیں مثلاً یہ کہ پہاڑوں میں جا کر یہ لکڑی لانا پڑتی ہے یوں پہاڑوں سے لکڑی کاٹ کر لانے میں بھی بہت خرچہ ہو جاتا ہے ۔ان مشکلات کی وجہ سے ہندوستان نے اس قسم کے کاغذ کی طرف توجہ نہیں دی لیکن بہرحال اب اس طرف توجہ دی جا رہی ہے اور اُمید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی تحقیقات و تجربات کے ذریعے پاکستان و ہندوستان میں بھی اخباری کاغذ بڑے پیمانے پر تیار کیا جانے لگے گا ۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment