عروج وزوالِ اقوام۔۔۔ایک تاریخی تجزیہ ڈاکٹر جاوید اقبال
قدیم یونان میںمنطق (لاجک) نے تعلیم و تربیت کی بنیا د فراہم کی اور تعلیماتی محاذپر عمرانیات ( سماجیات ۔سوشیولوجی)یعنی سماج کی ترتیب و تشکیل کا پہلے مضمون کے طور پرظہور ہوا۔سماج کی ترتیب و تشکیل کے لئے قدیم یونان میں ریاست کا قیام ضروری قرار پایا اور ریاستی تشکیل میں سیاسیات کا مضمون معرض وجود میں آیا۔یہ افلاطون (پلاٹو۔428-348 قبل مسیح) کا تیار کردہ فلسفہ تھا۔فلسفے کی تعریف منطق سے محبت کے طور پرہوئی ہے جو بجائے خود ایک وسیع مضمون ہے بلکہ منطق سے محبت کو اگر مادرِ مضامین کا نام دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔تعلیماتی پیش رفت میں فلسفے عمرانیات و سیاسیات کے ساتھ ساتھ سائنسی پیش رفت بھی ہوئی تاکہ قدرتی وسائل کو بروئے کار لا کے جسمانی راحت کا سامان میسر ہو سکے ۔بقراط (ھیپو کریٹس۔466-377 قبل مسیح) نے حیا تیاتی (بیولوجیک) سائنس کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے پہلے حکیم کہلائے ۔اُس کے بعد ستارہ شناسی فزیکس و شیمیائی کے شعبے میں بھی خاصی پیش رفت ہوئی اور سائنسی میدان میں ارشمید و جالینوس جیسے عظیم سائنسدانوں نے خاصا کام کیا جبکہ دوسرسے مضامین جو ادب (آرٹ) یا آداب زندگی (آرٹ آف لیونگ) سے وابستہ ہیں ،روحانی راحت کاسبب بن سکتے ہیں بشرطیکہ اِن مضامین سے صحیح سبق حاصل کیاجائے جبکہ غلط تشریح انفرادی و قومی بے راہ روی کا سبب بن سکتی ہے جیسا کہ مختلف تاریخی ادوار میں بار بار دیکھا گیا ہے ۔
سیاسیات و ریاستی تصور (پلا ٹوز ریپبلک) میں افلاطون کا کام بحیثیت بنیاد گذار قابل قدر ہے اور تعلیم کو ادارتی شکل دینے میں پہلے مدرسے کے طور پر اُنہوں نے ہی اکیڈمیا کی بنیاد ڈالی جہاں سے اکیڈمکس (تعلیمات) کا قابل تحسین تصور اُبھرا جو اِس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ بھلے ہی دوسرے تصورات بالفرض سیاسیات و عمرانیات چرخِ زندگی کو چرخانے کیلئے اہم ہو ں، تعلیم کے دوسرے شعبہ جات کو کسی بھی صورت میں پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا ۔ عملی سیاست میں جب افلاطون کود پڑے تو جلد ہی وہ اکتا گئے اور اُن کے یہ الفاظ تاریخی ہیں کہ ’’یہ جگہ باضمیر آدمی کیلئے نہیں ہے‘‘ پس وہ اپنے قائم کردہ مدرسے میں واپس لوٹے اور حصول تعلیم کو ہر شعبہ ثانوی سے زیادہ اہمیت دے بیٹھے۔ سیاسات کے بارے میں افلاطونی نظریہ سے اختلاف کی گنجائش ہے کیونکہ افلاطونی دور کے تقریباََ ایک ہزار سال بعد رسول اکرم آنحضورؐ نے ثابت کیا کہ ایماندرانہ سیاست کوبروئے کار لے ریاست کو بہ نحو احسن ترتیب دیا جا سکتا ہے اور عملاً اُنہوں نے مدینہ منورہ میں آئیڈیل اسلامی ریاست کے قیام سے دنیا کو ایک بیش قیمت تجربے سے روشناس کرایا۔ بہت سے مغربی علما کو ذات مقدس آنحضور ؐ میںوہ تخیلی ریاستی سر براہ نظر آیا جس کا خواب افلاطون اور اُس کے شاگرد ارسطو (ارسٹا ٹل۔384-322 قبل مسیح) نے دیکھا تھااور جسے افلاطون نے فلاسفر سٹیٹس مین کا عنواں دیا۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی دیش کسی ملک میں ایماندارانہ سیاست بروئے کار آئی، جب بھی مخلص سیاست دان ناؤ ریاست کے کھیون ہار بنے، لوگوں کابول بالا ہوا ا،لبتہ یہ انسانیت کا المیہ ہے کہ ایسے ادوار تاریخ عالم نے کم ہی دیکھے۔قدیم یونان و مدینہ منورہ کی آئیڈیل اسلامی ریاست میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے، وہ ہر حال و ہر مقام پرتعلیم پر اصرار ! ۔اپنے استاد افلاطون کی مانند ارسطو نے ایک اور عظیم مدرسے کی بنیاد ڈالی جسے تاریخ لا ئسیم کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ مدینہ منورہ کی عظیم اسلامی ریاست میں پس از غزوہ بدر قیدیوں میں سے آنحضورؐ نے اُن اشخاص کو بالکل معاف کیا جو تعلیم سے آراستہ تھے اور اُن کی سزا یہی قرار پائی کہ وہ مدینہ منورہ کے نو نہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔یہ تعلیمی لحاظ سے تاریخ عالم کا وہ دور تھا جب کہ آفتاب عالم آنحضور ؐ کے بعث مبارک پر پورے عرب میں صرف و صرف 17افراد تعلیم یافتہ تھے۔
قدیم یونان میں جہاں تاریخ ِانسانی بلندی کی شاہد رہی وہیں قومیں کیسے زوال پذیر ہوتی ہیں، وہ شہادت بھی تاریخ میں پائی جاتی ہے ۔روایت ہے کہ یونان میں صوفسطائی (صوفیسٹ) گروہ اُبھراجنہوں نے مناظرے(ڈبیٹ) کی روش قائم کی۔ یہ بات ذہن نشین کرنی پڑے گی کہ صوفسطائیوں کا صوفی ازم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ پہلے پہل توبحث مباحثہ صحت مند روایتیں قائم کرتے ہوئے سماجی نشو نما کا سبب بنا البتہ بگذ شت زمانہ یونانی فلسفے میں اِس حد تک غوطہ زن ہو گئے کہ صوفسطائی راہ چلتے لوگوں کولا حاصل فلسفیانہ بحث میں اُلجھانے لگے جس سے قوت عمل کا فقدان و بتدریج قومی جمود طاری ہو گیااور ایک انتہائی ذہین قوم رومیوں کی دست نگر بن گئی البتہ اِس حالت میں بھی رومی آقاؤں کو ہر آڑے وقت میںیونانی غلاموں کے مشوروں کی ضرورت رہتی تھی جو بہر حال تحکمانہ لہجے میں مانگا جاتاتھا۔ آقا ؤں و غلاموں کا یہ انوکھا سنگم انجام کار تاریخ عالم میں گریکو رومن تہذیب کا عنواں لئے رقم ہوااور تاریخ ایک اور سبق ثبت کر گئی کہ ذہین قومیں کیسے نسبتاً عقل کی نمو میں کمتر قوموں کی اسیر ہوتی ہیں۔ بد بختی روزگار!یونان فلسفے میںاِس حد تک ڈوب گیاکہ قومی سلامتی نظر سے اوجھل ہو گئی۔ایک ایسا گناہ جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی اور جس کی افادیت وہمہ گیری علامہ اقبالؒ نے یوںبیاں فرمائی ہے:
میں تم کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاوس و رباب آخر!!
سقوطِ یونان سے طلوع اسلام تک کا دور فلسفیانہ طرز حیات و سائنسی نظریے سے عاری رہا۔ دبدبہ شہنشاہی و مذہبی اجارہ داری نے عوام الناس کی سوچنے و سمجھنے کی قوتوں کے راہوں کو مسدود کر کے رکھا ہوا تھا۔ ٹھیک وہی تھا جو حکمران کہے اور صحیح وہ جس کی نشاندہی مذہبی پیشواکرے، چنانچہ قبل از طلوع اسلام ایران و روم میںجہاں ساتویں صدی کی دو عظیم قوتیں قائم تھیں، دبدبہ شہنشاہی و مذہبی پیشواؤں نے عام لوگوں کی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنا لیا تھا۔مغربی رومی سلطنت کے زوال کے بعد رومیوں کادارالخلافہ مغرب یعنی روم سے مشرق یعنی قسطنطنیہ (استنبول۔ترکی) میں منتقل ہو گیا۔یہ پس از دور مسیح ؑ کا ذکر ہے۔مسیحت کو پہلے پہلے قبول کرنے والوں میں رومیوں کے یونانی غلام تھے جنہوں نے شہر روم کے گرد و نواح میںپہاڑی ٹیلوں کی غاروں میں پطرس (سینٹ پیٹر) کی خفیہ تبلیغ سے متاثر ہو کرمسیحت کو قبول کیا لیکن قریباً 400 سو سال بعد مسیح ؑ کے عیسائیت کو شاہ کانس ٹن ٹائن کے دور حکومت میں قومی مذہب کا درجہ ملا اور اُسی دور کا ذکر ہے کہ سینٹ پال نے تثلیث اور کفارہ کا اضافہ کر کے مسیحت کو ایک نئی شکل دی ۔سینٹ پال مسیح بننے سے پہلے ایک متعصب یہودی تھا اور پھر ایک متعصب عیسائی بن کے اُس نے یہودیوں کا جینا حرام کر دیا اور جب مشرقی رومی (بازنطینی)سلطنت کے حاکم قیصر روم کی فوجوں نے شام میں پسپائی اختیار کر لی تو مسلمین کی مذہبی رواداری سے یہودی کافی متاثر ہوئے۔اُس کے بعد مسلمین کو جب فوجی وجوہات کی بنا پرکچھ عرصے کیلئے دمشق کو خالی کرنا پڑا تو تاریخ گواہ رہی کہ یہودی رو پڑے۔
اسلام نے مسدود راہوں کو کھولنے کا کام کیا۔قران کریم کو قران الحکیم بھی کہا جاتا ہے۔ حکیم اخذ ہے حکمت سے اور حکمت عین منطق و سائنسی طرز فکر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ روحانی تقویت کے ساتھ ساتھ اسلام نے عقل کے بند دریچوں کو کھول دیااور اندھی تقلید کو ممنوع قرار دیتے ہوئے توہمات کو منطق سے عاری فعل سمجھا جانے لگا۔ قران کریم میں انفس (فلسفہ) و آفاق (سائنس) کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے، جو ایک دوسرے کی آبیاری کرتے ہیں۔فلسفہ راہرو وندگی سے وابستہ ہے یعنی فلسفے کو اگرمنطق کی راہ سمجھا جائے تو فلسفہ ہمیں منطقی زندگی جینے کی راہ بتاتا ہے اور اسلام عین منطق ہے جو قانون قدرت سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے چنانچہ ایک مسلم مفکر کا قول ہے کہ غیر قدرتی بالحقیقت غیر اسلامی ہے۔انفس و آفاق دونوںہی قران کریم کی آیات کے مطابق انسانی ترقی سے وابستہ ہیں، چنانچہ آیت شریف53:41 میں ذکر ہوا ہے عنقریب دکھائیں گے ہم اُن کواپنی نشانیاں کائنات (الافاق) میں اور خود اُن کے نفوس میں(فی نفسہم)پس یہ حصول علم اور سائنسی طرز فکر کی دعوت ہے تاکہ کائنات کی نشانیاں ہم پرظاہر ہو سکیں۔
اسلام کے سنہری دور میں فرمود ہ آنحضورؐ ’’ربِ زدنی علمیٰ‘‘شعار مسلمین بن چکا تھا، چنانچہ بقول بوعلی سینا ’’ کامیاب تجربہ عبادت کی تکمیل ہے‘‘ کے مصداق بغداد کی تجربہ گاہوں میں یونانی علوم کے اثبات میں تجربات ہوئے۔کہتے ہیں کہ یونان کی علمی اساس کو بغداد کی تجربہ گاہوں میں پروان چڑھایا گیاچنانچہ پنڈت جواہر لال نہرو رقمطراز ہیں کہ’ ’بغداد نے یونانی علمی خزانوں کو ہم تک پہنچایا ‘‘۔ علمی حلقوں میں یہ مانی ہوئی بات ہے کہ علوم یونانی کو بغداد نے نہ صرف تحفظ فراہم کیا بلکہ اُس میں قابل قدر اضافہ کر کے رستا خیز (جدید سماجی و سیاسی ترتیب) یورپی کے بعداُسے علم و دانش کے نئے وارثوں تک پہنچایا ۔ قدیم یونان ہی کی طرح اسلامی فرقوں میں بے منطق بحث و مباحثے کی جو روش مناظر وںکی صورت میں بغداد کے چوراہوں پر قائم ہوئی، وہ مسلمین کی عملی صلاحیتوں کو کھا گیا اور انحطاط (تنزل ) کا سبب بنا۔بغداد کے چوکوں میں مختلف فرقوں کے علمائے کرام اپنے اپنے فرقے کی کتابوں کو لے کر کئی لیل و نہار (دن و رات) کے مناظروں کے بعد انجام کار جذباتی ہیجان میں ایک دوسرے کی عبائیں پھاڑتے تھے اور ایک دوسرے کی داڑھیاں نوچتے تھے۔تاریخ اسلام کا سنہری دور بغداد میں 1258ء میں اختتام پذیر ہوا جبکہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو نے بر بریت کی انتہا میں پہلے تو دجلہ کے پانی کو بغداد کے کتب خانوں میںموجود ہزاروں کتابوں کی سیاہی سے سیاہ کیا اور پھر لا تعداد مسلمانوں کے خون سے دجلہ کا پانی سرخ ہوا۔بغداد کا ذکرہسپانیہ (اسپین) کے بغیر نا مکمل ہو گا جہاں750ء میں عباسیوں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعدامویوں کی ایک شاخ پہنچ گئی اور اگلے سات سو سال سے زائد عرصے بلکہ درست 1492ء تک ہسپانیہ ’مسلم اسپین‘ بنا رہا۔ بغداد ہی کی طرح یہاں کی دانشگاہوں خصوصاً قرطبہ میں علوم کو بے حساب سر پرستی حاصل ہوئی اور جب علم و دانش میں کی افزائش میں مسلمین کے رول کا ذکر ہوتا ہے تو بغداد و قرطبہ ہم پیالہ و ہم نوالہ نظر آتے ہیں اور یہی سے علوم نے آج کی دور کی جدید کروٹ لی جب یورپی اقوام نے عربی علمی خزانوں کا لاطینی ترجمہ کر کے یورپ کو علم و ادب کا نیا گہوارہ بنایا۔اتفاقاً 1492ء میں ہی جبکہ آخرین ریاست غرناطہ سے مسلمین کا خروج بعمل آیا،امریکہ دریافت ہوا۔
تاریخی جائزے میں قدیم یونان و اسلامی دور اورآج کی یورپین تہذیب میں تعلیم و تربیت کی نشو و نما کے علاوہ چین میںکنفیوشین سوچ کو بھی علمی ذخائر میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں ویدک فلسفہ زندگی کے ہر گوشے کو سموئے ہوئے ایک عمیق و جاندار نظریہ حیا ت رہا ہے ہے اور ویدک فلسفے نے علم و دانش حتّی کہ سائنسی تجسس کے لئے بھی راہ بنائی چنانچہ ستارہ شناسی طب و ریاضی کے شعبہ جات میں قدیم ہند میں کافی پیشرفت دیکھنے کو ملتی ہے البتہ ہندوستان میں بھی برہمن اجارہ داری اور منو وادیت نے سماجی طبقہ بندی کو راہ دے کر قومی صلاحیتوں کو عرصہ دراز تک مفلوج کر کے رکھ دیا جسے زمانہ جدید میں سماجی وسیاسی جاگرتی سے دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔منجملہ مسائل زندگی کی دیکھ ریکھ کے ساتھ ساتھ مروجہ تعلیم سے بہرہ مند ہونا اور بھر پور فائدہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تفرقے سے دوری قوموں کی نشو و نما کیلئے بے حد ضروری ہے ۔ تاریخ سے ہمیں یہی سیکھ ملتی ہے کہ منطق سے عاری غیر ضروری لا حاصل بحث و مباحثہ قوموں کے لئے انجام کار گراں ثابت ہوتا ہے اور اُس سے گریز یا بچنے کی کوشش بے حد ضروری ہے ۔ یار زندہ صحبت باقی!
Feedback on: iqbal.javid46@gmail.com
|
Search This Blog
Sunday 12 August 2012
عروج وزوالِ اقوام۔۔۔ایک تاریخی تجزیہ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment