مشورہ
شاہ نواز فاروقی
-زندگی ایک سیلِ رواں ہے۔ اس سیلِ رواں میں تیرنا آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیلِ رواں میں تیرنے کے لیے جس اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے اسے عرفِ عام میں ’’فیصلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ انسانی زندگی میں فیصلے کی اہمیت یہ ہے کہ انسان اپنے فیصلوں کا حاصل اور ان کا نتیجہ ہوتا ہے۔ انسان جیسا فیصلہ کرتا ہے زندگی ویسی ہی بن جاتی ہے۔ لیکن انسان فیصلہ خلا میں نہیں کرتا۔ اسے فیصلے کے لیے نیت، مشاہدے، تجربے اور علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسی جس کی نیت، جیسا جس کا مشاہدہ، تجربہ اور علم ہوتا ہے وہ ویسا ہی فیصلہ کرتا ہے۔ لیکن ایک عام آدمی کا مشاہدہ، تجربہ اور علم کتنا ہوسکتا ہے؟ انسان کے مشاہدے، تجربے اور علم کے محدود ہونے سے ’’مشورہ‘‘ اہم بن کر سامنے آتا ہے۔ ہمارے دین میں مشورے کی اہمیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ اپنے معاملات باہمی مشورے سے طے کیا کرو۔ اس کو اسلام میں شوریٰ کا اصول کہا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو باہمی مشورے کی ہدایت کیوں کی گئی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مشورے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے رہنمائی کی صورت، سعادت اور برکت پوشیدہ ہوتی ہے۔ جو شخص اللہ کے ساتھ تعلق کے شعور اور نیک نیتی کے ساتھ صحیح لوگوں سے مشورہ کرتا ہے اسے یہ تمام نعمتیں میسر آتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء ہیں، خاتم النبیین ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو جو علم عطا کیا کسی کو عطا نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور مسلمانوں کو مشورے کا عادی بنانے کے لیے آپؐ خود صحابۂ کرامؓ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب کسی مسئلے پر ان دونوں کی رائے یا مشورہ ایک ہوجاتا ہے تو میں ان کے مشورے کے خلاف عمل نہیں کرتا۔ تاہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابہ سے مشورہ نہیں کرتے تھے۔ آپؐ کے زمانے میں صحابہ کی تعداد قریباً ایک لاکھ تھی مگر آپؐ چند صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرتے تھے۔ اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مشورہ ہر کس و ناکس سے نہیں کیا جاسکتا۔ غور کیا جائے تو دنیا میں انسانوں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کی کل متاع زندگی کا محدود سا تجربہ یا مشاہدہ ہے۔ ایسے لوگوں کو ’’اہل الرائے‘‘ کہنا چاہیے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ بھی کافی ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ علم بھی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ’’صاحب الرائے‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ انسانوں کی ایک قسم وہ ہے جس کے پاس تجربے اور مشاہدے کی وسعت اور گہرائی بھی ہوتی ہے، علم بھی ہوتا ہے اور تقویٰ بھی ۔ ہماری تہذیبی روایت میں ایسے لوگوں کو ’’صائب الرائے‘‘ کہا گیا ہے۔ مشورہ دراصل ’’صائب الرائے‘‘ لوگوں سے ہی کیا جانا چاہیے۔ وہ ہمارے آس پاس موجود نہ ہوں تو انہیں تلاش کرنا چاہیے، اور تلاش کے بعد بھی وہ دستیاب نہ ہوں تو ’’صاحب الرائے‘‘ افراد سے رجوع کرنا چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرماتے تھے وہ ’’گروہِ صحابہ‘‘ کے صائب الرائے‘‘ لوگ تھے۔ یعنی وہ صحابۂ کرامؓ جو مشاہدے‘ تجربے‘ علم اور تقوے میں سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ صحابۂ کرامؓ میں مشورہ دینے کی سب سے زیادہ اہلیت حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کئی مواقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کے بجائے دوسرے صحابۂ کرامؓ کے مشورے پر عمل کیا لیکن بعد میں حضرت عمر فاروقؓ کے مشورے کے مطابق اور اس کی حمایت میں وحی نازل ہوگئی۔ مثلاً غزوۂ بدر کے اسیروں کے بارے میں حضرت عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے، لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت نرم خو تھے۔ انہوں نے مشورہ دیاکہ اگر اسیرانِ بدر میں سے جو شخص دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اسے رہا کردیا جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبرؓ کے مشورے کو اختیار کیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد حضرت عمرؓ کے مشورے کے حق میں وحی نازل ہوگئی۔ اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تو تبدیل نہیں ہوا مگر حضرت عمرؓ کے مشورے کی اصابت ثابت ہوگئی۔ لیکن صحابۂ کرامؓ میں مشورے کی سب سے زیادہ اہلیت رکھنے والے حضرت عمرؓ خود مشورے کے محتاج تھے۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے پر انہیں ایک عام عورت کا مشورہ تسلیم کرنا پڑا، اس لیے کہ وہ حضرت عمرؓ کی رائے سے زیادہ درست اور قرآن مجید کے حکم کے عین مطابق تھا۔ حضرت عمرؓکے زمانۂ خلافت میں مہر کی رقم بہت بڑھ گئی تھی جس سے کم آمدنی والے لوگوں کے لیے مالی مشکلات پیدا ہوگئیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے حضرت عمرؓ نے چاہا کہ وہ مہر کی حد مقرر کردیں۔ انہوں نے اپنے اس خیال کو مسلمانوں کی ایک مجلس میں بیان کیا جس سے ’’مشاورت‘‘ کی فضا پیدا ہوگئی۔ اس فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عورت نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ جب قرآن مجید کی فلاں آیت میں مہر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی تو آپ مہر کی حد مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ حضرت عمرؓ کو ایک لمحے میں احساس ہوگیا کہ ان کی رائے غلط اور عورت کا مشورہ بالکل درست ہے، چنانچہ انہوں نے بھری محفل میں اپنی رائے سے رجوع کیا اور جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ایک عورت کا علم عمر کے علم سے بڑھا ہوا ہے۔ ہمارے دین اور ہماری تہذیب میں مشورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ تم اپنے کاموںکے سلسلے میں استخارہ کرلیا کرو۔ استخارہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشورہ کرنا ہے۔ کہنے والوں نے تو اس سلسلے میں یہ تک کہا ہے کہ اگر کوئی شخص میسر نہ ہو تو انسانوں کو دیوار سے مشورہ کرلینا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشورہ کرنے کے نتیجے میں دیوار انسانوںکی طرح کلام کرنے لگے گی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشورے کی نیت کی وجہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ کسی بہتر بات تک پہنچادیں گے۔ اس کے دل میں کوئی بہتر خیال ڈال دیں گے۔ مشورے کے نفسیاتی‘ سماجی اور علمی فائدے بھی بے شمار ہیں۔ انسان بہت آسانی کے ساتھ خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے کم علم کو بہت سمجھنے لگتا ہے۔ اپنی عقل اور فہم کی صلاحیت پر اسے بہت جلد ناز ہوجاتا ہے اور وہ دوسروں اور ان کی ضرورت سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ لیکن مشورہ اسے یاد دلاتا ہے کہ اس کا مشاہدہ، تجربہ، علم اور فہم محدود ہے اور اسے بہتر رائے تک پہنچنے کے لیے دوسرے لوگوں کے مشاہدے‘ تجربے‘ علم اور فہم کی ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مشورہ کرنے والا آسانی کے ساتھ خودپسندی میں مبتلا نہیں ہوتا اور وہ بڑی حد تک تکبر سے بچا رہتا ہے۔ اسلام مشورے کو صرف ایک انفرادی معاملہ نہیں رہنے دیتا بلکہ وہ اسے ایک اجتماعی رجحان یہاں تک کہ اجتماعی ذوق بنادینا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جس میں لوگ گہرے طور پر ایک دوسرے سے متعلق اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والے ہوں۔ مشورے کا عمل انسانوں کو ایک سطح پر ایک دوسرے سے متعلق بھی کرتا ہے اور وہ انسانوں کو ایک دوسرے پر انحصار کرنا بھی سکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں ’’مشورہ‘‘ کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں جب انتشار بڑھتا ہی چلا گیا تو ایک صاحب نے حضرت علیؓ سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ سے پہلے کے خلفاء کے زمانوں میں معاملات ٹھیک تھے مگر اب ٹھیک نہیں ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر تم ہو۔ مشیروں کی یہ اہمیت رسالت اور خلافت کی تاریخ ہی میں نہیں بادشاہوں کی تاریخ میں بھی اہم رہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مغل بادشاہ اکبر کا دور اس کے نورتنوں‘ یعنی نومشیروں سے پہچانا جاتا ہے۔ ہماری تہذیب میں چونکہ مشورہ ’’صائب الرائے‘‘ لوگوں سے کیا جاتا ہے، یا ’’صاحب الرائے‘‘ لوگوں سے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں مشاہدے، تجربے، اور ان سے بڑھ کر علم اور تقوے کی فضیلت نمایاں ہوتی ہے، اور معاشرے میں علم و تقوے کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے، اور معاشرہ دولت اور طاقت کے غلبے سے محفوظ رہتا ہے۔ ہماری تہذیب میں مشورہ ایک امانت ہے۔ چنانچہ کوئی مشورہ طلب کرے تو پورے اخلاص اور پوری اہلیت سے مشورہ دینا چاہیے۔ nn
|
No comments:
Post a Comment