پیغمبر اول سےپیغمبر آخر تک
غلام اکبر
اسلام کے عالمی فروغ اور مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان کو سمجھنے کے لئے ہزار ہا برس سے رائج اس ” نکتہ ءدانش “ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ زمین کے کسی بھی ٹکڑے پر کاشت کرنے یعنی بیج بو کر فصل اگانے کےلئے زمین کے اس ٹکڑے پر کاشت کار کا قابض ہونا ایک لازمی شرط ہے۔
اس موضوع کا انتخاب میں نے خصوصی طور پر اس لئے کیا ہے کہ یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے اور اس آخری عشرے کی اہمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں کےلئے یہ ہے کہ اس میں نزول ِقرآن ہوا تھا۔ جناب عبدالمطلب کے پوتے اور جناب عبداللہ کے فرزند حضرت محمد ﷺ پر جبل النور کی ایک غار یعنی غار ِحرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور یوں خدا وند کریم نے دین ِابراہیم ؑکی تکمیل اور فتح مندی کےلئے آپ کی ذات ِمبارکہ کو اپنا آخری اور حتمی نبی قرار دیا تھا۔ اور میں اسے صرف ایک اتفاق کی بات نہیں سمجھتا کہ اسی مبارک عشرے میں 27رمضان المبارک کی عظیم رات کو دُنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک ظہور پذیر ہوا تھا جس کی وجہءقیام یہ طے پا چکی تھی کہ یہاں آنحضرت کے نام لیوا اُس نظامِ حیات کو رائج کرینگے جس نظام ِ حیات کو رائج کرنے کےلئے آپ نے 13برس تک کفارِ مکہ کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرنے اور انہیں راہ ِ حق اور راہ ِ نجات پر لانے میں ناکام ہونے کے بعد اپنا گھر بار چھوڑا تھا اور ایک تاریخی رات کے اندھیرے میں اس تاریخ ساز سفر پر نکلے تھے جسے ہم ہجرت کہتے ہیں اور جس نے کرہءارض پر آباد نسل ِ انسانی کی تقدیر تبدیل کرڈالی۔
میں نے اِس مضمون کا آغاز اِس تاریخی دانش کے ذکر سے کیا ہے کہ زمین پر کاشت کاری کےلئے لازمی ہے کہ زمین پر کاشت کار کا کنٹرول ہو۔ تہذیب ِانسانی میں اسلام کا بیج بو کر اسلام کے فلاحی نظام کی فصل اگانے کےلئے بھی آپ کو ایک ” خطہ ءزمین “ کی ضرورت تھی جو خداوند کریم نے آپ کو مدینہ کی صورت میں مہیا کردیا۔ اپنے موضوع کو زیادہ واضح کرنے کےلئے اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ جس طرح کاشت کےلئے زمین کا کنٹرول ضروری ہے‘ اسی طرح نفاذ ِاسلام کےلئے ایک ملک کا وجود بھی ناگزیر سمجھا جائے۔ ریاست ِ مدینہ کا وجود میں آنا اسی سچائی کا اثبات تھا اور بات اگر میں دور ِ حاضر کی کروں تو مملکت ِ خداداد پاکستان کے قیام کے پیچھے بھی یہی تاریخی سچائی متحرک ہے۔ یہی وہ تاریخی سچائی ہے جس نے ہجرت کے بعد سیاست اور دین کو لازم و ملزم بنایا اور یہی وہ تاریخی سچائی ہے جس کی رو سے اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔
پیغمبرِ اول سے پیغمبرِ آخر تک ہزاروں نبیوں کا ایک عظیم سلسلہ ہے۔ اور ہر پیغمبر یا نبی کے سامنے ایک ہی مقصد رہا کہ اولادِ آدمؑ کو ابلیسی حملوں سے محفوظ رکھنے کےلئے اسے معبودِ واحد اور معبود ِحقیقی کی بار گاہ میں سجدہ ریز رکھے۔اس عظیم مقصد کی تکمیل بالآخر تب ہوئی جب آپ نے پیغمبر ی کے مقدس بوجھ کےساتھ ساتھ اپنی امت کی سیاسی قیادت کرنے کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر اٹھایا اور ایک تاریخ ساز رات کو اُس عظیم سفر پر نکلے جو کبھی ختم نہ ہوا اور جوآج بھی جاری ہے۔ وہ سفر صرف آپ کا ذاتی سفر نہیں تھا ¾ آپ کی امت کا سفر بھی تھا۔
اُس سفر سے پہلے آپ کی زندگی آپ سے پہلے آنے والے نبیوں کی زندگی سے مختلف نہیں تھی۔ وہ تیرہ ” نبوی سال “ جو آپ نے ہجرت سے پہلے مکہ میں گزارے صرف چند درجن خاندانوں کو ” راہ ِ فلاح ونجات “ پر لاسکے۔ ان تیرہ برسوں کے دوران آپ کو کیسے کیسے امتحانوں مصائب اور آلام سے گزرنا پڑا وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ مگر خدا نے لوح ِ محفوظ پر یہ لکھ دیا تھا کہ دُنیا میں اسلام تب پھیلے گا جب آپ اسلام کا بیج بونے اور اسلام کی فصل اگانے کےلئے زمین پر کنٹرول حاصل کرنے کو اپنا اور اپنی امت کا ناگزیر مشن بنائینگے۔آپ سے پہلے یہ مشن حضرت موسیٰ ؑ نے اختیار کیا مگر اُن کی امت اُن کا ساتھ چھوڑ گئی۔
ایک مختصر عہد کےلئے حضرت داﺅد ؑاور حضر ت سلیمان ؑنے فلسطین میں خدائے بزرگ و برتر کی بادشاہت قائم کی مگر دُنیا کو ” اللہ اکبر “ کے نعروں کی گونج سے آشنا کرنے کی ذمہ داری قادر ِ مطلق نے اپنے آخری نبی اور اسکی امت کےلئے مخصوص کررکھی تھی۔
اس ذمہ داری کی تکمیل کی طرف پہلا عظیم قدم ہجرت کی رات کو اٹھا۔ اس رات ترکِ وطن اور تسخیرِ عالم کو ایک ساتھ سنتِ نبوی کا درجہ حاصل ہوا۔ اس ذمہ داری کی تکمیل کی طرف دوسرا عظیم قدم بدر کے کنووں کے دامن میں اٹھا جب اسلام کی پہلی تلوار کفار کی تلواروں کے ساتھ ٹکرائی اور تصورِ جہاد آپ کی امت کی تقدیر بن گیا۔اس سمت میں تیسرا عظیم قدم دعوت ِ اسلام کے ان مراسلوں کے ذریعے اٹھایا گیا جو آپ نے صلح حدیبیہ کے بعد قیصر و کسریٰ اور دیگر درباروں میں بھیجے۔ان مراسلوں میں ” زمینی خداﺅں“ کے سامنے تین آپشن رکھے گئے تھے۔ نمبر ایک یہ کہ اسلام قبول کرو اور اُمت ِواحدہ کا حصہ بن جاﺅ۔ نمبر دو یہ کہ جزیہ یا خراج دے کر اس امت کی اطاعت قبول کرو۔ اور نمبر تین یہ کہ اگر دونوں صورتیں قبول نہیںتو جنگ کےلئے تیار ہوجاﺅ۔میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کے توسط سے بھیجے جانےوالے اس پیغام کے ذریعے واضح کردیا تھاکہ آنےوالے برسوں میں کیا ہونےوالا ہے اور اس سمت میں آپ کا حتمی قدم اس لشکر کی تشکیل تھا جس کی سالاری حضرت زید بن حارث ؓ کے فرزند حضرت اسامہ بن زید ؓ کے سپرد کی گئی اور جسے حکم رسول یہ تھا کہ حجاز کی سرحدیں عبور کرکے تکبیر کی صدائیں ان فضاﺅں تک پہنچا دو جو ”حاکمیتِ خداوندی “ کے تصور سے نا آشنا تھیں۔ یہ وعدہ بھی آپ کی ذات ِمبارکہ سے منسوب ہے کہ ” میرا جو امتی بھی قسطنطنیہ کو ”غیر اسلام “ کے قبضے سے آزاد کرانے کی جنگ میں شہید ہوگا اُسے جنت میں فضیلت ملے گی“۔
یہاں میں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اُس دور میں قسطنطنیہ اسی انداز میں اور ن ہی معنوں میں دُنیا کا ” پاور سنٹر “ تھا جن معنوں میں آج واشنگٹن دُنیا کا پاور سنٹر ہے۔اس حدیث مبارکہ کے پیچھے ایک مقصد تھا )اور ہے (کہ آپ نے تسخیرِعالم کو اپنی امت کا تاحیات اور تاقیامت حتمی نصب العین بنا دیا اور یہاں میں پھر اس نکتہءدانش کو دہراﺅں گا جس سے میں نے اس مضمون کا آغاز کیا ہے۔ زمین سے فصل اسی صورت میں اگائی جاسکتی ہے کہ اس پر آپ کو کنٹرول حاصل ہو۔آپ نے اپنی زندگی میں ہی حجاز کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جس تیزی کے ساتھ حجاز اور اسکے ملحقہ علاقے آپ کے کنٹرول میں آئے وہ معجزے سے کم نہیں ۔
آپ کے وصال کے بعد آپ کی امت جس طوفان کا روپ دھار کر حجاز کی سرحدوں سے نکلی اور جس آہنی ارادے اور قوت کےساتھ قیصر و کسریٰ کی عظیم الشان سلطنتوں کو خس و خساشاک کی طرح بہالے گئی اس پر بھی ایک معجزے کا گماں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے دُنیانے صرف سکندر اعظم کی طوفانی یلغار اور فتوحات کو دیکھا تھا ۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھی جانی چاہئے کہ سکندر اعظم تہذیب و ترقی کے گہوارے یونان سے نکلا تھا۔اسکے پیچھے افلاطون ارسطو اور سقراط کی دانش اور یونانیوں کی دیو مالائی داستانیں تھیں۔ آپ کی امت جس صحرا سے تسخیرِعالم کےلئے نکلی تھی وہ ہزار ہا برس سے تنہائی جہالت اور گمنامی کا شکار رہا تھا ۔ کوئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا کہ جو طوفان پوری دُنیا پر چھا جانے والا ہے وہ مدینہ کی فضاﺅں سے اٹھے گا۔
آپ کا انتقال 632عیسوی میں ہوا۔ 634میں مسلمانوں نے نصاریٰ کو اجنادین کے میدان میں پہلی بڑی شکست دی۔ 635میں مسلمان دمشق پر قابض ہوگئے۔636میں بصرہ مسلمانوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 637میں قادسیہ کسریٰ کے غرور کا قبرستان بنا۔639میں یروشلم فتح ہوا۔ 642میں باری سکندریہ کی آئی۔688میں مسلم افواج قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ چکی تھیں ۔ یہاں انہیں پہلی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قسطنطنیہ پر مسلمانوں نے متعدد مرتبہ یلغار کی مگر اسکی فتح کےلئے انہیں 1453کا انتظارکرنا پڑا جب سلطنت ِعثمانیہ کے عظیم فاتح محمد نے بالآخرقسطنطنیہ کی دفاعی فصیلیں توڑ کر رکھ دیں ۔
711میں طارق بن زیاد جبل الطارق کے راستے ہسپانیہ جاپہنچے۔ 730تک مسلم افواج فرانس کے وسط تک پہنچ چکی تھیں۔ 732میں آپ کے وصال کے ٹھیک ایک سو سال بعد پیرس سے صرف ایک سو میل دور ٹورز کے میدان میں وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جس میں اگر مسلمانوں کے سالار عبدالرحمان حادثاتی طور پر گھوڑے سے گر کر شہید نہ ہوتے تو یورپ کی سرزمین مسلمانوں کے گھوڑوں کے سامنے بڑی تیزی سے سمٹتی چلی جاتی۔ اس مضمون میں مسلمانوں کی پوری تاریخ بیان کرنا ممکن نہیں ۔ زور میرا صرف ا س بات پر ہے کہ کشور کشائی اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے علاوہ امت ِمحمدی کا اور کوئی مقصد ِحیات نہیں ہونا چاہئے۔
خدا ہمارا حامی و ناصر رہے !
No comments:
Post a Comment