چاندرات ۔اجرت لینے کی رات
مرتبہ : سیدہ حفصہ ایاز ، گلبرگہ
عشرۂ صفائی: ہمارے ہاں ایک اور اہم اور غلط روایت ہے کہ آخری عشرہ عبادت کے بجائے گھر کی صفائیوں اور دھلائیوں کا عشرہ بن جاتا ہے۔ خواتین تمام کپڑی، فرش، ٹیبل اور صوفہ کور اور دیگر اشیاء کی دھلائی عید سے قبل (ظاہر ہے آخری عشرے میں) کرتی ہیں اور اس میں خوب محنت کی جاتی ہے۔ گھروں کو سجانے میں بعض اوقات غلو سے کام لیا جاتا ہی، اور یوں عشرۂ عبادت و ریاضت، تھکن کی نذر ہوجاتا ہے۔ یہ بھی جہالت کا فعل ہے۔ خواتین کو بھی اس عشرے میں گھر کی صفائی دھلائی سے زیادہ روحانی صفائی اور طہارت پر توجہ دینی چاہیے (صفائی سے منع نہیں کررہے لیکن غلو سے پرہیز ہونا چاہیی)۔ غیر ضروری کاموں سے توجہ ہٹاکر وقت اعتکاف اور ذکر و دعا میں لگانا چاہیے۔ جن خواتین کے لیے ممکن ہو دس دن کا اعتکاف کریں (اس دوران اٹھ کر کھانا وغیرہ پکا سکتی ہیں اگر کوئی اور انتظام نہ ہو تو)۔ جن کے بچے چھوٹے ہوں اور پورا اعتکاف ممکن نہ ہو تو چند دنوں اور چند گھنٹوں کا اعتکاف بھی ہوسکتا ہے۔ اور گھر کا کام کرنے والی خواتین تو دوہرا اجر سمیٹ سکتی ہیں، اپنے نیک اور نمازی شوہر اور اولاد کی خدمت اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا باعث ِاجر ہی، اور یہ کام کرتے ہوئے وہ مسلسل تلاوت اور ذکر کرتی رہیں اور اپنا نامۂ اعمال دونوں طرح سے بھرتی رہیں، یعنی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دل کو اللہ کی یاد میں اٹکائے رکھنا۔ ہماری ایک بہن نے گھریلو کام کاج کے دوران سورہ بقرہ حفظ کرلی، ایک نے اس کے ساتھ سورہ آل عمران بھی کرلی۔ اور ایک بہن نے اسی طرح گھر کی مصروفیات کے ساتھ چند سال میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ لہٰذا رمضان میں غیر ضروری مصروفیات ترک کرکے اس طرح کا کوئی منصوبہ بنانا مشکل نہیں۔ جہاں چاہ وہاں راہ، ان شاء اللہ۔ عید کی تیاری اور خریداری: رمضان میں بازاروں میں پھرنا انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس لیے دنیا میں اللہ کی سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہ بازار ہے۔ بازار میں جاکر انسان کی نیکیاں ایسے جھڑتی ہیں جیسے درخت کے پتّے۔ کیونکہ ایک تو وہاں ہر طرف سامانِ دنیا ہوتا ہے جو انسان کو غافل کردیتا ہی، اور دوسری جانب عورتیں ہوں یا مرد… کثرت سے نامحرموں کے درمیان ہوتے ہیں اور نظریں بچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بدنصیبی سے رمضان میں بازاروں میں چلت پھرت کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے اور آخری عشرے میں دیر تک بازار کھلے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ جمعہ کے دن بھی اور طاق راتوں میں بھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اور چوڑیوں وغیرہ کے بازاروں میں آخری راتوں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ سڑکوں اور بازاروں میں پھرا جائے اور پھر نمازوں میں خشوع برقرار رہے اور انسان عبادت، تلاوت اور اذکار یکسوئی سے کرسکے۔ کتنے بدنصیب ہیں وہ مسلمان معاشری، جہاں رمضان میں بھی بازار آباد ہوں اور مسجدیں ویران۔ اولئک الذین اشتروا الحیوة الدنیا بالاخرة (سورہ البقرہ) ''ان لوگوں نے آخرت کے بدلے حیوة دنیا خرید لی ہے۔'' ''انہیں معلوم نہیںہے کہ یہ سرمایہ آخرت میں بہت ہی تھوڑا نکلے گا…! ''کاش انہیں معلوم ہوجائے یہ کتنی بری تجارت ہے۔'' کوشش یہ ہونی چاہیے کہ تمام اہم خریداری رمضان سے قبل کرلی جائے اور خواتین بازاروں میں جانے سے حتی الامکان گریز کریں اور اپنے مردوں کی خریداری پر قناعت کریں، کہ یہ نیکیوں کی حفاظت کا ذریعہ ہوگا ان شاء اللہ۔
اجرت لینے کی رات: لیجیے مہمان کے رخصت ہونے کا وقت آگیا۔ رحمت، مغفرت اور آتشِ دوزخ سے رہائی حاصل کرنے کی فکر میں مومنین نے مہینہ بھر محنت اور مشقت میں گزارا، دن بھر بھوک پیاس برداشت کی… زبان، آنکھ، کان اور دیگر اعضاء کو ہر طرح کے گناہوں سے روکے رکھا، قرآن و اذکار وردِ زبان رہے اور راتیں اپنے رب ذوالجلال والاکرام کے حضور قیام و سجود میں گزاریں، اس کا پاک کلام سنا، غفلت کی نیند سے بچ بچ کر راتیں گزارنے کی سعی کرتے رہی، سحر و افطار میں رب کے حضور گڑگڑاتے رہے اور الرحمان و الرحیم اور الودود والمجیب اللہ سب کچھ محبت سے دیکھتا رہا۔ سحر کے وقت اور طاق راتوں میں فرشتے اترتے رہی، مومنین کو دیکھتے رہی، ان کی دعاوں پر آمین کہتے رہے اور جبرئیل خوش نصیبوں سے مصافحہ کرتے رہے۔ اللہ فرشتوں سے مومنین کے تنافس پر فخر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ رمضان گزر گیا اور اجر کی رات آگئی۔ وہ رات بھی عجیب رات ہوتی ہے جو آخری رات ہوتی ہی، جب صبح عید ہوتی ہے۔ ایک جانب غافلین ہوتے ہیں اور دوسری جانب محنت کرنے والے مومنین ہوتے ہیں جو کچھ اور ہی کیفیات سے گزرے ہوتے ہیں۔ رمضان کی رحمتوں کے بادل چھٹ جانے کا ایک عجیب افسردہ کرنے والا احساس طاری ہوتا ہے۔ اپنی کم مائیگی کا بہت زیادہ احساس کہ نہ جانے کچھ کرپائے یا نہیں، نہ جانے اللہ کے حضور قبولیت کا کیا عالم ہی! ایسے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ٹھنڈک بن کر ان کے اعصاب میں اترتا ہے کہ ''رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہوجاتی ہے''۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ''کیا یہی وہ لیلة القدر ہی؟'' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''نہیں بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہی، جب وہ اپنا کام مکمل کرلیتا ہے۔'' (احمد) اس رات کو آسمان پر لیلة الجائزہ کا نام دیا گیا اور یقینا جس نے جتنا کمایا ہوگا اتنا ہی اجر اور مزدوری پائے گا۔ واتقوا یوماً ترجعون فیہ الی اللہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون ہ (سورة البقرہ281) ''اس دن سے ڈرو، جب کہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگی، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا''۔ اللہ ہرگز ظلم نہیں کرتا لیکن بہت سے بدنصیب ہوتے ہیں جو اس مغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے نہ اللہ کی رحمت کی قدر کی، نہ رمضان کا حق ادا کیا، نہ روزے کی حفاظت کی اور جو کبائر سے بھی نہ باز آئی، ان کے بارے میں بہت سخت وعید ہے۔ لیلة القدر میں فرشتے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ ''اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ کیا؟'' وہ کہتے ہیں ''اللہ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا!'' صحابہ نے پوچھا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ چار شخص کون ہیں؟'' ارشاد ہوا: ''ایک وہ جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، تیسرا وہ جو قطع رحمی کرنے والا اور ناتہ توڑنے والا ہو، چوتھا وہ جو کینہ رکھنے والا اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔'' (ترغیب۔ بیہقی) اسی طرح کی احادیث پڑھتے ہوئے یہ واضح رہنا چاہیے کہ مخاطب کون سے مسلمان ہیں۔ صحابہ کرام جو اس طرح کی نمازوں اور روزوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہوں گے جیسے کہ آج کے مسلمانوں نے ان عبادات کا مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انعام لینے والوں میں سے کرے ''صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم والضالین'' اور یہ رات ہم عید کی خریداری کی نذر کرنے کے بجائے عبادت میں گزاریں تاکہ اللہ سے اپنی پوری پوری مزدوری وصول کرسکیں۔آمین عیدالفطر: جب عیدالفطر کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ وہ زمین پر اترکر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہی، پکارتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اْس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دی جائی، تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔ اور بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا، اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گی، اس میں تمہاری مصلحت پر نظر رکھوںگا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں (کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاو۔ تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ پس فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہی، خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (ترغیب۔ بیہقی)۔ اللھم اجعلنا منھم:
ہم نے رمضان سے کیا حاصل کیا؟ اس کا بہت اچھا اندازہ روزِ عید ہی ہوجاتا ہے۔ کیا عید کے دن خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں حدود اللہ کا خیال رہتا ہی…؟ مہینہ بھر ضبطِ نفس کی جو مشق کی تھی وہ برقرار رہتی ہی…؟ یا عید کا مطلب ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ آج ساری پابندی ختم۔ خوب کھل کھیلیں، خوب فلمیں دیکھیں، مخلوط پارٹیاں کریں، گھومیں پھریں، نمازیں قضا کریں، اور نہ جانے کیا کیا غلط اعمال کیے جاتے ہیں۔ نہیں، عید کا دن ہمارے جائزے کا دن ہے۔ ایک ٹیسٹ کا دن ہوتا ہے کہ ہم نے رمضان سے کیا پایا؟ کتنی تربیت حاصل کی؟ کتنی پابندیوں پر قائم رہے اور عید کے بعد… سارا سال ہمارے اس کردار کا آئینہ ہوتا ہے جو ہم نے رمضان میں تعمیر کیا ہوتا ہی…! جس نے دورانِ رمضان ایک نیا اپنا آپ دریافت کیا اور اپنی تعمیرِنو کرلی… اسے ایسا رمضان مبارک ہو۔
No comments:
Post a Comment