Search This Blog

Wednesday 15 August 2012

AAJ KI RAAT

آج کی رات


کائنات کی منصوبہ بندتخلیق کے ساتھ ہی روز وشب کا سلسلہ جاری ہے اور تاقیامِ قیامت قائم ودائم رہے گا ۔یہ سلسلۂ لیل ونہار حالات وواقعات او راسرار وحقائق کے ایسے انمٹ نقوش ثبت کرتا جارہاہے جن کے دامن میں فکر انسانی کی تطہیر بھی ہوتی ہے اور جن کی بدولت قدرومنزلت کی راہیں بھی نوعِ بشریت کے لئے کشادہ ہوتی ہیں ۔گردشِ روز وشب میں ایک رات ایسی بھی گزری ہے جو  اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دی گئی ہے ۔یہاں ایک سوال ذہن میں ابھرتاہے کہ ہر رات اپنی تاریکی اور کبھی اپنی تابانی کے لئے اگرچہ برابر ہے تو پھر ماہِ رمضان کی ایک مخصوص رات کو اس قدر افضل ، اہم اور ممتاز کیوں گرداناگیا ہے ۔ جواب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی دنیا کی ہمہ گیر رہنمائی کے لئے کتابِ ہدایت کے نزول کا آغاز اسی عظیم الشان رات میں کیا اور عرب کے ایک اُمی صفتؐ کا انتخاب اس بہت بڑے منصب کے لئے فرمایا جن کی زبان عربی تھی ۔اس بات پر پوری اُمت کا اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرمؐ پر قرآن کی عبارت جو اس وقت موجود ہے ، من وعن عربی میں نا زل ہوئی ۔ یہاں عہد حاضر کے بہت بڑے شیدائیٔ قرآن علامہ اقبالؒ کا وہ واقعہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے جب لاہور کے فورمن کرسچن کالج کے سالانہ جلسے پرکالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ اقبال سے کہاکہ ’’جلسہ ختم ہونے کے بعد مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ‘‘۔جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ ڈاکٹر لوکس نے اقبال سے پوچھا کہ ’’کیا آپ کا بھی یہ نظریہ ہے کہ قرآن کا متن عربی زبان میں حضرت محمدؐ پراُترا ہے یا یہ کہ ان پر صرف مفہوم نازل ہوااور انہوں نے مفہوم کو بعد میں عربی میں منتقل کیا ‘‘۔ اقبال نے جواباً فرمایا ’’دیکھئے ڈاکٹر لوکس میرا عقید ہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ پر قرآن کا مفہوم اور متن بیک وقت نازل ہوتارہا ۔ میں تو ایک معمولی انسان ہوں ۔ مجھ پر بھی کبھی کبھار پور اشعر اُترتاہے ‘‘۔
’’شب قدر‘‘ قرآن پاک کے الفاظ میں خیروبرکت اور قدر ومنزلت کی وہ رات ہے جس میں کائنات کے سلسلے میں خدائی فیصلے ہوتے ہیں ۔ اس امر کی طرف قرآن حکیم نے سورۂ دخان میں بھی واضح اشارہ فرمایا ہے اور اسے  لیلۃ مبٰرَکۃٍ سے تعبیرکیا گیا اور اس میں حکمت ومصلحت پر مشتمل فیصلہ سازی کا ذکر فرمایا گیا ۔ ہمارے دینوی نظام میں حکومتوں اور سلطنتوں کے سربراہ اپنے سالانہ منصوبے کافی غور وفکر کے بعد ترتیب دیتے ہیں ،لیکن مشاہدے اور تجربے کی بات ہے کہ ان میں سے اکثر منصوبے تشنۂ تکمیل رہتے ہیں ۔ کہیں منصوبوں میں غلط عوامل شامل ہوجاتے ہیں اور کہیں انسانی فکر کی کج روی منصوبوں کی عمل آوری پر پانی پھیر دیتی ہے۔ خالقِ حقیقی کی منصوبہ سازی میں کہیں تضاد نہیں ،کہیں تفاوت نہیں ۔ کیا ہی تواتر اور تسلسل کے ساتھ نظامِ کائنات کے اجزاوعناصر باہم مربوط ہیں ۔ موسم ٹھیک اپنے وقت پر اپنی موسمیاتی ضرورتوں کے ساتھ خیمہ زن ہوتے ہیں ۔شمس وقمر کی گردش میں ذرّہ برابر کہیں رکاوٹ یا تغیر کا شائبہ تک نہیں اور پورا کائناتی نظام بحسن وخوبی چل رہاہے ۔ اسلامی عقائد کی رُو سے یہ سب کچھ اسی رات کے ساتھ منسلک ہے ۔ چنانچہ انسانی دنیا کی رہنمائی اور دستگیری کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسی جلیل القدر رات کا انتخاب کیا اور اس عظیم الشان کتاب کے نزول کا آغاز ہوا جوبنیادی طور پر تین جلّی عنوانات پر مبنی ہے او رآگے چل کر ان تین عنوانات کے درجنوں ذیلی عنوانات بنتے ہیں ۔ توحید ، رسالت اور آخرت ۔ قرآن حکیم کے بارے میں یہ بات علمی سطح پر واضح رہنی چاہئے کہ اس کتاب کا اولین مخاطب انسان ہے اور اس کا کام انسان سازی ہے ۔ صالح اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی اس کتاب میں باربار تاکید ملتی ہے ۔یہ کئی علوم کا احاطہ کرتی ہے ،بالخصوص معاشرتی اورتہذیبی زندگی کے خدوخال سنوارنے اور نسل انسانی کے لئے نفع بخش اور امن عالم کے لئے ممد ومعاون ثابت ہونے کی ترغیب فراہم کرتی ہے ۔قرآن پاک کا رشتہ محدود معنو ں میں فزیکس،کیمسٹری ، نباتات اور حیوانات کے علوم سے جوڑنا اس عظیم کتاب کے ساتھ زیادتی ہے ۔قرآن پاک سے بے اندازہ محبت کرنا درست ہے لیکن یہ کہنا کہ اس میں ستر ہزار پانچ سو چھیاسی علوم موجود ہیں اور پھر مبالغہ آرائی سے کام لے کر پیغمبراکرمؐ کے ساتھ نوے ہزار علوم منسوب کرنا صریحاً بے انصافی ہے ۔ بے علم اور جہل مرکب میں مبتلا بعض واعظین اس طرزِ گفتار سے قرآن اور صاحبِ قرآن کی خدمت نہیں بلکہ دانشور انِ عالم کی نگاہوں میں اسلام کی ایک دوسری ہی شبیہ پیدا کرتے ہیں ۔رسولِ عربی ؐ انتہائی انکساری کے ساتھ رب زدنی علماء ، میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما کی دعا فرماتے تھے ۔قرآن کے طالب علموں ، شیدائیوں ،قاریوں اور حافظوں کو اس کتاب کے بارے میں وہی کچھ بیان کرناچاہئے جو قرآن کے اساسی موضوعات کے ساتھ میل کھاتا ہوں۔شب ِ قدر میں نازل شدہ اس بابرکت کتاب کی ایک ایک آیت وحدانیت ِ اِلٰہ کی ترجمانی کرتی ہے اور خالق ومخلوق کے تعلق کو اضح کرتی ہے ۔کائنات کے حقائق پر تدبرکرنے اور زمان ومکان کی حقیقت کا ادراک کرنے کی تحریک وتربیت قرآن فراہم کرتاہے ۔ انبیاء ورسل کی تعلیمات کا خلاصہ انتہائی اختصارکے ساتھ بیان کیا جاتاہے اور بالآخر اس امتحان گاہِ حیات کو عارضی مستقر کہہ کر ایمان والوں سے آخرت، عقبیٰ یا دارالحیوان میں جواب دہی کے لئے تیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے ۔عموماً اہل ایمان نے یہ سمجھ لیا ہے او ریہ ذہن نشین بھی کرایا گیا ہے کہ حب بیت اللہ کے بعد ایک حاجی نوزائدہ معصوم بچے کی مانند ہوجاتاہے ۔یقیناً حرم کعبہ میں نمازوں کی فضیلت ہے ،لیکن اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ ایک شخص ساری عمر گناہوں کا ارتکاب کرتا رہے اور پھر فریضہ ٗحج کی ادائیگی سے بالکل معصوم اور منزّہ ہوجاتاہے الا یہ کہ وہ تو بتہ النصوح کا مقام حا صل کر نے کے لئے اعما ل صالح کا ذخیرہ صدق دلی سے جمع کر نے میں لگ جا ئے۔ تو بہ وانا بت کے بغیر ہی یہ اندازِ فکر ہزاروں اور لاکھوں جھوٹے او ربددیانت قسم کے لوگوں کے لئے سند فراغت او رمعصوم عن الخطا ہونے کا جواز  ہے اور اسی طرح سال بھر حق تلفی کرنے والوں ، گراں فروشوں ، سیاہ کاروں اور دین کے احکام سے کھلی بغاوت کرنے والوں کے لئے لیلۃ القدر کی ایک رات رحمت ، مغفرت اور جہنم سے خلاصی کا پروانہ لے کر آتی ہے ۔درحقیقت یہ رات اپنی وسعت ورحمت اور قدر ومنزلت کے نقطہ نگاہ سے ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے ، چنانچہ عربی زبان وادب میں درجنوں مثالیں موجود ہیں جہاں کسی شئے کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے اعداد کو ایسے بڑھادیا جاتاہے کہ مبالغے کی صورت سامنے آتی ہے ۔
واقعی شب قدر ملت اسلامیہ کے لئے نویدِ مسرت لے کر آئی ہے اور اس رات کی سیاہی نے نور کی ایسی ندیاں جاری کردیں ، جن کے دم قدم سے ہدایت وحکمت کے پیاسے ہر دور میں سیراب ہوتے رہیں گے ۔
……………
رابطہ:-  اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی

No comments:

Post a Comment