رمضان کا عہد
-فرزانہ خالد
رمضان المبارک… نزولِ قرآن کا مہینہ… مبارک گھڑیاں… تشکر کے لمحات… رب کا شکر ادا کرنے کا سماں جس نے ہمیں قرآن کریم سے نوازا۔ دستورِ حیات عطا کیا۔ بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑا۔ دن میں روزہ اس شعور کے ساتھ کہ اللہ کے لیے میری یہ عبادت ہے وہ قبول فرمالے۔ زندگی کس طرح گزار رہے ہیں، غفلت سے یا شعور کے ساتھ؟ نعمتِ قرآن کی قدر کی یا ہم سے اس کی ناقدری ہورہی ہے؟ قرآن سے رہنمائی لے رہے ہیں یا صرف ناظرہ پڑھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں؟ یہ تو عمل کے لیے اتاری گئی۔ الفرقان‘ کسوٹی‘ کتابِ ہدایت ہے… جو اس سے ہدایت لے گا وہ کبھی نہ بھٹکے گا۔ رمضان کی راتوں میں قیام کریں تو سوچیں اس کی غرض و غایت کیا ہے۔ یہ محض رمضان کی رسومات نہیں جو ہم ادا کرتے ہیں، یہ تو تقویٰ حاصل کرنے کی سبیل ہے۔ دن بھر روزے میں اپنے رب کو اپنے اوپر نگراں پاتے ہیں، کوئی ذرہ برابر چیز بھی حلق سے نیچے نہیں اتارتے، حتیٰ کہ وضو کرتے ہوئے اتنی احتیاط کہ ایک قطرہ بھی نہ اترے۔ مگر رمضان کے رخصت ہوتے ہی ہماری یہ کیفیت نہیں رہتی۔ نہ ایمان کی یہ کیفیت رہتی ہے نہ قرآن سے تعلق میں بڑھوتری آتی ہے، اور نہ ہی تقویٰ پرورش پاتا ہے۔ پوری مسلم سوسائٹی کا یہی حال ہے، اسی لیے تمام مسلم امہ کی حالتِ زار بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے، مگر پوری امت سو رہی ہے، دشمن نقب لگاچکا ہے، ہم چوکنے پھر بھی نہیں ہوئے۔ دوسری اقوام ہم پر اس طرح ٹوٹ پڑی ہیں جس طرح بھوکے، دسترخوان پر۔ آج قرآن پر عمل چھوڑا ہے تو ذلت و مسکنت مسلم قوم کا مقدر ٹھیری ہے۔ خدا خوفی کو چھوڑا ہے تو دنیا بھر سے خوفزدہ ہیں۔ ہمارے انہی کرتوتوں کے سبب امریکا ہمارا خدا بن بیٹھا ہے۔ ہمارا عرصہ حیات تو وہ تنگ کرہی رہا ہے ہمارے پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے بھی نہیں چُوکتا۔ کبھی آپؐ کے خاکے اور کبھی آپؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی نہ صرف پشت پناہی بلکہ انعام و اکرام سے نوازنا۔ مگر اس میں قصور کس کا ہے؟ سوچنا ہوگا۔ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت… فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق وہن لاحق ہے تو ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔ ہم ظالم ہوئے تو ظالم حکمران ہم پر مسلط کردیے گئے۔ بے چین ہیں… بدامنی‘ مہنگائی‘ خونریزی اور ڈرون حملوں کا شکار ہیں… کوئی پرسانِ حال نہیں۔ آیئے رمضان المبارک میں اپنے رب سے معافی مانگ لیں۔ وہ جو 70 مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے اس کے آگے گڑگڑائیں، توبہ کریں… سچی توبہ۔ یاد کریں اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ… ۔ رات کو قیام میں قرآن سن کر اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ کتنا اس قرآن پر ہمارا عمل ہے۔ پہلے احتساب، پھر توبہ استغفار، اپنے رب کی طرف پلٹنے کی جستجو… ان باتوں کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔ دن بھر روزے کی حالت میں چپکے چپکے یا پھر قرآن کی محافل میں اپنے رب سےمسلمانوںکی سلامتی کی دعائیں مانگنی ہوں توبہ کرنے والوں کے لیے تو زمین سے رزق ابلتا ہے اور آسمان سے رزق برستا ہے، اے اللہ ہم سب کو توبۃ النصوع عطا کر۔ اے اللہ ہمارے اسلاف تو ننگے پیر، پھٹے کرتے کے ساتھ تلوار کی نوک سے قالینوں کو چیرتے ہوئے جاتے اور جزیہ وصول کرلیتے، ہم نااہلوں نے اپنی غیرت اپنی بیٹی عافیہ بھی ان کے حوالے کردی۔ مالک تُو ہمیں معاف کردے۔ تیرا تو وعدہ ہے سچی توبہ کرنے والوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے آئے گا، یااللہ یہ ظلم و قہر کی تاریکیاں چھٹ جائیں، ہمارے بچھڑے ہم سے آن ملیں، ظلمت کی سیاہ رات دور ہو، صبح نو طلوع ہو، روشنی اور نور کا ہالہ ہمارا مقدر ٹھیرے، آمین۔ |
No comments:
Post a Comment