حضرت لبیدؓ بن ربیعہ عامری
- طالب ہاشمی
ابوعقیل لبیدؓ بن ربیعہ عامری کا شمار جاہلی عرب کے ان شعراء میں ہوتا ہے جو عزت اور شہرت کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکے اور دنیا نے جنہیں امراء القیس، نابغہ ذبیانی، زہیر بن ابی سلمیٰ، عمرو بن کلثوم، اعشیٰ بن قیس اور طرفہ بن العبد جیسے نامور شعراء کی صف کا شاعر تسلیم کیا۔ لبیدؓ کی عظمت کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ خود سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بعض اشعار پر اظہارِ پسندیدگی فرمایا۔ وہ ان سات شعراء (اصحاب المعلقات یا المذّہبات) میں سے ایک تھے جن کے قصائد زمانۂ جاہلیت میں اہلِ مکہ نے کعبہ میں آویزاں کررکھے تھے۔ لبیدؓ کا نسب نامہ یہ ہے: لبیدؓ بن ربیعہ بن عامر بن مالک بن جعفر بن کلاب بن ربیعہ بن عامر صعصعہ عامری۔ لبیدؓ کے والد ربیعہ بن عامر اپنے قبیلے کے رئوسا میں سے تھے اور جودوسخا میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ بیسیوں غرباء و مساکین ان کے دسترخوان پر پرورش پاتے تھے، اور ان کی اسی فیاضی اور سیرچشمی نے انہیں قوم کی طرف سے ’’ربیع المقرّین‘‘ کا خطاب دلایا تھا۔ لبیدؓ اسی نامور باپ کے خلف الرشید تھے۔ فیاضی اور غریب پروری انہوں نے باپ سے ورثے میں پائی اور تمام عمر اسے بڑی شان اور وقار سے نباہا۔ اس کے علاوہ وہ شجاعت و شہامت، شہسواری، سلامتیٔ طبع اور راست بازی جیسے اوصاف سے بھی آراستہ تھے۔ ان کو اوائل عمر ہی سے شعر و شاعری سے لگائو تھا۔ عہدِ شباب میں ایک دفعہ اپنے چچائوں کے ساتھ نعمان ابوقابوس کے دربار میں گئے تو وہاں عظیم جاہلی شاعر نابغہ ذبیانی سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے ان کا کلام سن کر بہت داد دی اور کہا کہ تم بنی عامر اور بنو قیس کے تمام شاعروں سے بڑھ گئے۔ اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ جاہلی عرب کے شعراء کی صفِ اوّل میں آگئے اور تمام عالمِ عرب میں ان کی شہرت پھیل گئی۔ ……٭٭٭…… زمانۂ جاہلیت میں لبیدؓ اکثر مکے آتے جاتے رہتے تھے۔ اپنے شاعرانہ کمالات کی بدولت وہ قریش کے نزدیک بڑی قدرومنزلت کے حامل تھے۔ ابن اثیرؒ کا بیان ہے کہ 5 بعدِ بعثت میں ایک دفعہ وہ مکہ آئے تو اہلِ مکہ نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ وہ اُس وقت تک شرفِ اسلام سے بہرہ ور نہیں ہوئے تھے اس لیے حسبِ سابق قریش کی محافلِ شعر و سخن کو گرمانے لگے۔ ایک دن ایسی ہی ایک محفل میں اپنا قصیدہ سنا رہے تھے، جب یہ مصرع پڑھا: الاکل شیًٔ ماخلا اللہ باطِل (خبردار رہو کہ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے) تو جلیل القدر صحابی حضرت عثمانؓ بن مظعون، جو اس مجلس میں موجود تھے، بے اختیار پکار اٹھے: ’’تم نے سچ کہا۔‘‘ لیکن جب انہوں نے دوسرا مصرع پڑھا: وکل نعیمٍ لامحالۃ زائلٌ (اور ہر نعمت لامحالہ زائل ہونے والی ہے) تو حضرت عثمانؓ بن مظعون بول اٹھے: ’’یہ غلط ہے، جنت کی نعمتیں ابدی ہیں اور کبھی زائل نہ ہوں گی۔‘‘ اس پر سارے مجمع میں شور مچ گیا، لوگ حضرت عثمانؓ بن مظعون کو برا بھلا کہنے لگے اور لبید سے یہ شعر دوبارہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ انہوں نے اس شعر کی تکرار کی تو حضرت عثمانؓ نے بھی اپنے الفاظ کا اعادہ کیا۔ اس پر لبید سخت برافروختہ ہوئے اور قریش سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: ’’اے برادرانِ قریش، خدا کی قسم پہلے تمہاری مجلسوں کی یہ کیفیت نہ تھی، نہ ان میں بیٹھنا کسی کے لیے باعثِ ننگ و عار تھا اور نہ کبھی بدتمیزی نے ان میں راہ پائی تھی۔ اگر یہ شخص مجھے اسی طرح ٹوکتا رہا تو میں اپنا کلام سنا چکا۔‘‘ لبیدؓ کی باتیں سن کر مشرکین بھڑک اٹھے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ بن مظعون کو برا بھلا کہنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان پر ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اس موقع پر جو ہوا سو ہوا لیکن جب اس واقعہ کے پندرہ سولہ سال بعد اللہ تعالیٰ نے لبیدؓ بن ربیعہ کو بھی آستانۂ اسلام پر جھکادیا تو ان کے روئیں روئیں نے گواہی دی کہ بے شک عثمانؓ بن مظعون نے جو کچھ کہا تھا، وہ سچ تھا۔ حافظ ابن عبدالبرؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں لکھا ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیدؓ کا یہ مصرع بہت پسند تھا: الاکل شییًٔ ما خلا اللہ باطل حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ شعراء کے کلام میں لبیدؓ کا یہ کلام بہت اچھا ہے۔ ……٭٭٭…… لبیدؓ کے والد نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا، خود لبیدؓ بعثت ِنبوی کے وقت بوڑھے ہوچکے تھے۔ اگرچہ وہ فطرتاً ایک سلیم الطبع اور شریف النفس آدمی تھے لیکن تعجب ہے کہ وہ عہدِ رسالت کے آخر میں شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوئے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ بڑھاپے میں اپنا آبائی مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حافظ ابن عبدالبرؒ اور بعض دوسرے اہلِ سِیَر نے لکھا ہے کہ حضرت لبیدؓ بن ربیعہؓ 9 ہجری میں قبیلہ بنو جعفر بن کلاب کے وفد کے ساتھ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور سعادت اندوزِ اسلام ہوگئے۔ اُس وقت ان کی عمر بہ اختلافِ روایت نوّے یا ایک سو تیرہ برس کی تھی۔ علامہ ابن اثیر کا بیان ہے کہ حضرت لبیدؓ بن ربیعہ نے 41 ہجری میں 145 سال کی عمر میں بمقام کوفہ وفات پائی۔ اس حساب سے قبولِ اسلام کے وقت یعنی 9 ہجری میں ان کی عمر 113 برس کے لگ بھگ ٹھیرتی ہے، گویا وہ حالتِ اسلام میں 22 برس جیئے۔ دوسری طرف ’’اصابہ‘‘ اور ’’اغانی‘‘ کی راویت کے مطابق وہ حالتِ اسلام میں 55 برس جیئے۔ اس حساب سے قبولِِ اسلام کے وقت ان کی عمر نوّے برس قرار دینی پڑے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اکثر ارباب سِیَر نے لکھا ہے کہ ایمان لانے کے بعد حضرت لبیدؓ نے شاعری ترک کردی اور تادم ِمرگ ایک یا دو کے سوا کوئی شعر نہیں کہا، فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے شعر کے عوض سورۂ بقرہ اور آلِ عمران دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک مرتبہ حضرت لبیدؓ سے پوچھ بھیجا کہ آپ نے زمانۂ اسلام میں کون سے اشعار کہے۔ جب انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ شعر کے عوض مجھے اللہ نے بقرہ اور آلِ عمران دی ہیں تو حضرت عمرؓ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے لبیدؓ کا وظیفہ بڑھاکر دو ہزار کردیا۔ ایک روایت میں ہے کہ امیر معاویہؓ نے اپنے زمانے میں ایک مرتبہ حضرت لبیدؓ سے کہا: لبید میرا اور تمہارا وظیفہ برابر ہے، میں تمہارا وظیفہ گھٹادوں گا۔ انہوں نے کہا: ’’کچھ دن توقف کیجیے، اس کے بعد میرا وظیفہ بھی آپ ہی لے لیجیے گا۔‘‘ (یہ اپنی کبر سنی کی طرف اشارہ تھا) امیر معاویہؓ نے شاید ازراہِ تفنن وظیفہ گھٹانے کی بات کی تھی۔ حضرت لبیدؓ کا جواب سن کر وہ خاموش ہوگئے اور وظیفہ کی رقم میں کوئی کمی نہیں کی۔ حضرت لبیدؓ نہایت مخیر اور کشادہ دست تھے، اس لیے معقول وظیفہ کے باوجود وہ تنگدست رہتے تھے۔ حافظ ابن عبدالبرؒ کا بیان ہے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں عہد کیا تھا کہ جب بادِ صبا چلا کرے گی تو وہ جانور ذبح کرکے لوگوں کو کھلایا کریں گے۔ اس عہد کو وہ زندگی بھر نباہتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو ان کی تنگدستی کا علم ہوگیا تھا چنانچہ جب بادِ صبا چلتی تو وہ اونٹ جمع کرکے ان کی خدمت میں ہدیۃً پیش کردیتے تھے اور وہ انہیں ذبح کرکے لوگوں کو کھلا دیتے۔ اس طرح ان کا عہد اور ارمان دونوں پورے ہوجاتے تھے۔ ……٭٭٭…… اربابِ سِیَر نے حضرت لبیدؓ بن ربیعہ کے محاسنِ اخلاق کی بے حد تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ وہ نہایت مخیر، فیاض، شہسوار، شجاع اور صادق القول تھے۔ جاہلیت میں بھی معزز اور شریف تھے اور اسلام میں بھی۔ ابن قتیبہؒ نے ان کے سلیم الفطرت ہونے کے ثبوت میں یہ شعر پیش کیا ہے جو انہوں نے زمانہ جاہلیت میں کہا تھا؎ وکل امری یومًا سیعلم سعیہ اذا کشفٍ عندالا لہ المحاصل (اور ہر انسان کو اپنی کوششوں کا نتیجہ اُس وقت معلوم ہو گا جب اس کے نتائج اللہ کے سامنے ظاہر ہوں گے) عرب کے فحول شعراء میں حضرت لبیدؓ بن ربیعہ کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ ایک دفعہ عرب کا نامور شاعر فرزوق ان کا یہ شعر سن کر بے اختیار سجدے میں گر گیا: رجلا السیول عن الطول کانھا زبر تجد متونھا اقلامھا (اور سیلاب نے ٹیلوں کو اس طرح مجلّیٰ کردیا گویا وہ کتاب کے صفحات ہیں جن کے متن کو قلم نے درست کیا) لوگوں نے فرزوق سے پوچھا: ’’یہ کیسا سجدہ ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’یہ سجدۂ شعر ہے، جس طرح لوگ قرآن کے مقاماتِ سجدہ کو جانتے ہیں، میں شاعری کے مقامِ سجدہ کو پہچانتا ہوں۔‘‘ حضرت لبیدؓ بن ربیعہ کا دیوان چھپ چکا ہے اور اس کی جرمن زبان مین شرح بھی لکھی جا چکی ہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ |
No comments:
Post a Comment