اصحاب رسول ؐ کی معاشی زندگی حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ
-عابد علی جوکھیو
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ اُن آٹھ خوش نصیب ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپؓ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبولِ اسلام کے صرف دو دن بعد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپؓ ان دس خوش نصیب افراد میں سے بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بزبانِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بشارت دی۔ آپؓ کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے، آپؓ نے اسلام کے ابتدائی ایام کی تمام تکالیف کو برداشت کیا اور دینِ اسلام پر جمے رہے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام عبد عمرو تھا، لیکن قبولِ اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر عبدالرحمن رکھ دیا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب یہ ہے: عبدالرحمن بن عوف بن عبد جوف بن عبد بن الحارث بن زہرہ بن کلاب بن مرہ القرشی الزہری۔ آپؓ کی کنیت ابو محمد ہے۔ آپؓ ہجرتِ حبشہ میں بھی شامل تھے اور بعد میں مدینہ ہجرت کی۔ مدینہ پہنچنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعدالربیع انصاریؓ کا بھائی چارہ کرادیا۔ حضرت سعدؓ انصار میں زیادہ مالدار اور فیاض تھے۔ مواخات کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عبدالرحمنؓ سے کہا کہ میں اپنا نصف مال آپ کو دے دیتا ہوں اور اس وقت میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جو آپؓ کو پسند آئے میں اسے طلاق دے دوں گا اور عدت کے بعد آپ اس سے نکاح کرلینا۔ حضرت عبدالرحمنؓ نے ان کی اس پیشکش کا شکریہ ادا کرکے اس بات سے انکار کردیا اور فرمایا کہ اللہ آپؓ کے مال و متاع اور اہل و عیال میں برکت عطا فرمائے، مجھے اس کی حاجت نہیں۔ آپ صرف اتنا کیجیے کہ مجھے بازار کا راستہ بتائیے۔ اسی وقت آپ کو بازار پہنچایا گیا اور واپسی پر آپ کچھ گھی اور پنیر وغیرہ نفع میں بچا لائے۔ دوسرے روز سے باقاعدہ تجارت شروع کردی، اللہ کی برکت سے چند ہی دنوں میں اس قابل ہوگئے کہ وہاں ایک انصاریہ سے شادی بھی کرلی۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال میں برکت کی دعا دی۔ پھر کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت عبدالرحمن کے مال میں ایسی برکت دی کہ جس کی کوئی انتہا نہ تھی، آپؓ نے یہی مالی برکت دین کی خدمت میں خوب پیش کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے حوالے سے حضرت عبدالرحمنؓ فرماتے ہیں: ’’اس کے بعد دنیا اپنی پوری برکات اور فوائد کے ساتھ اس طرح میری طرف متوجہ ہوگئی اور میری تجارتی کامیابیوں کا حال یہ ہوگیا کہ اگر میں کسی پتھر کو اٹھاتا تو مجھے اس بات کی توقع ہوتی تھی کہ اس کے نیچے سونے یا چاندی کا کوئی ٹکڑا ملے گا۔‘‘ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اپنے مال کے ذریعے ہمیشہ دین اسلام کی نصرت کی۔ مسلمانوں کی امداد، امہات المومنینؓ کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ اپنے مال سے ناداروں کی مدد کرتے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اس کی رضا کے طلب گار رہتے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، مالی مشکلات کے باعث مجاہدین کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا تھا، مدینہ میں بھی قحط کا زمانہ تھا۔ کئی مجاہدین صرف اس لیے واپس کردیے گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انہیں دینے کے لیے سواریاں میسر نہ تھیں۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور اس کا بدلہ و ثواب اللہ ہی سے پانے کی نیت کریں۔ مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے خوب مال خرچ کیا۔ اس موقع پر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بھی خرچ کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ انہوں نے دو سو اوقیہ (ایک اوقیہ ساڑھے دس تولہ کے برابر ہے) بارگاہِ رسالت میں پیش کیے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایسا کرکے ایک گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔‘‘ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے دریافت کیا کہ ’’عبدالرحمن! تم نے بچوں کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے؟‘‘ تو آپؓ نے فرمایا: ’’ہاں، میں نے ان کے لیے جو کچھ چھوڑا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ اور بہتر ہے جو میں نے خرچ کیا ہے۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں فروخت کی اور وہ ساری رقم قبیلہ بنو زہرہ، ضرورت مند مسلمانوں، مہاجرین اور امہات المومنین میں تقسیم کردی۔ جب حضرت عائشہؓ کے حصے کی رقم ان کے پاس پہنچی تو انہوں نے دریافت کیا کہ یہ رقم کس نے بھیجی ہے؟ ان کو بتایا گیا کہ عبدالرحمنؓ بن عوف نے، تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’میرے بعد تمہاری نگہداشت صرف صابرین ہی کریں گے۔‘‘ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف امہات المومنینؓ کی ضروریات کا خصوصی خیال رکھا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سفر حج کے مواقع پر آپؓ امہات المومنینؓ کے ساتھ جاتے تھے، امہات المومنینؓ کے لیے سواری اور پردے کا انتظام کرتے، سفر کے تمام تر انتظامات آپؓ کے ہی ذمے ہوتے، جہاں پڑائو کرنا ہوتا وہاں امہات المومنینؓ کو انتظام اور اہتمام کے ساتھ اتارتے۔ یہ تمام تر اعزاز انہیں ان کی عصمت و عفت کے باعث ہی نصیب ہوا، اور آپؓ یہ تمام ذمہ داریاں ادا کرکے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ ’’میرے بعد امہات المومنین کی نگرانی و خبر گیری صرف صابرین ہی کریں گے‘‘ کے مصداق ٹھیرے۔ ایک بار حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کا سات سو اونٹوں پر مشتمل ایک تجارتی قافلہ مدینہ آیا۔ ان سات سو اونٹوں پر ضروریاتِ زندگی کا پورا سامان لدا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ قافلہ مدینہ میں داخل ہوا پورا شہر لرز اٹھا، گلیوں میں شور و غل سنائی دینے لگا۔ شور سن کر اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ یہ کیسا شور ہے؟ جب آپؓ کو بتایا گیا کہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کا سات سو اونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ پہنچا ہے تو انہوں نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں جو کچھ دیا ہے اس میں برکت دے۔ یقینا آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبدالرحمنؓ بن عوف گھسٹتے ہوئے جنت میں جائیں گے۔‘‘ ابھی تجارتی قافلہ مکمل بیٹھا بھی نہ تھا کہ کسی نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو یہ خوشخبری سنادی۔ آپ ؓ فوراً حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا: ’’اماں! کیا خود آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا؟‘‘ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ یہ سن کر حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف بڑے خوش ہوئے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’اماں جان! اگر ہوسکا تو میں کھڑا ہو کر جنت میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا۔ میں آپ کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں یہ پورا قافلہ، اس کے اوپر لدے ہوئے سامان، اس کے کجاووں اور ٹاٹوں سمیت اللہ کی راہ میں دے رہا ہوں۔‘‘ اس خوشخبری کے بعد حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے میں مزید تیز ہوگئے۔ انہوں نے چالیس ہزار درہم صدقہ کیے اور پھر دو سو اوقیہ سونا اللہ کی راہ میں خیرات کیا۔ مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے پانچ سو گھوڑے اور دوسرے مجاہدین کے لیے ڈیڑھ ہزار اونٹ فراہم کیے۔ اپنی وفات کے وقت بہت بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کیا۔ اس وقت اصحابِ بدر میں سے جتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زندہ تھے ان میں سے ہر ایک کے لیے چار چار سو دینار کی وصیت کی، اس وقت ان صحابہؓ کی تعداد ایک سو تھی۔ ان سب کو وصیت کے مطابق دیا گیا۔ انہوں نے امہات المومنینؓ میں سے ہر ایک کے لیے کثیر رقم کی وصیت کی۔ حضرت عائشہؓ اکثر ان کے لیے دعا کرتی تھیں: ’’اللہ تعالیٰ ان کو چشمہ سلسبیل سے سیراب کرے۔‘‘ لیکن اس قدر مال بھی ان کے لیے کسی فتنے کا باعث نہیں بنا اور نہ ہی ان کے رویّے میں کسی قسم کی تبدیلی لا سکا۔ لوگ جب آپؓ کو آپؓ کے غلاموں کے درمیان دیکھتے تو آپؓ کے اور غلاموں کے درمیان تمیز نہیں کرپاتے تھے۔ ایک دن ان کے سامنے کھانا لایا گیا، اس روز وہ روزے سے تھے۔ انہوں نے کھانے کو دیکھ کر بڑی حسرت کے ساتھ کہا: ’’جب مصعبؓ بن عمیر شہید کیے گئے اور وہ مجھ سے بہت بہتر تھے تو ان کو کفن دینے کے لیے ہم لوگوں کو صرف اتنا کپڑا میسر آسکا کہ جب اس سے ان کا سر چھپایا جاتا تو پائوں کھل جاتے، اور جب پائوں چھپائے جاتے تو سر کھلا رہ جاتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو غیر معمولی خوشحالی اور فراخی سے نوارا۔ مجھے اس بات کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں نہ دے دیا گیا ہو۔‘‘ یہ کہہ کر زار و قطار رونے لگے اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ حضرت نوفلؓ بن ایاس کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف ہم لوگوں کے پاس بیٹھا کرتے تھے، اور وہ کیا ہی اچھے شریکِ مجلس تھے۔ ایک روز ہم ان کے ساتھ کسی جگہ سے واپس ان کے گھر آئے، وہ خود گھر میں گئے، غسل کیا اور واپس ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے پاس ایک بڑا پیالہ لایا گیا جس میں روٹی اور گوشت تھا۔ جب وہ پیالہ ہم لوگوں کے سامنے رکھا گیا تو حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف رونے لگے، ہم نے ان سے رونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں اپنے پاس بلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے گھر والوں نے جَو کی روٹی سے بھی پیٹ نہ بھرا۔ میرے خیال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے لیے اتنے عرصے تک اس دنیا میں رہنا بہتر نہیں ہے۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ انہیں اس تجارت میں جو بھی برکت حاصل ہوئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے ہے، اس لیے آپؓ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرتے۔ غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور امہات المومنین کی ضروریات کا خصوصی خیال رکھتے، عام صدقات کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک دن میں ہزاروں خرچ کردیتے، ایک مرتبہ ایک ہی دن میں تیس غلاموں کو آزاد کیا۔ ایک موقع پر انہوں نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں حضرت عثمانؓ کو فروخت کی اور سب رقم اللہ کی راہ میں خرچ کردی۔ لیکن اس قدر فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کے باوجود یہ فکر ہمیشہ لاحق رہتی کہ کہیں یہ مال ان کی آخرت کے لیے نقصان کا باعث نہ بنے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف ہمارے یہاں تشریف لائے اور کہنے لگے: اماں جان! مجھے ڈر ہے کہ میرا مال مجھے برباد نہ کردے، میں قریش میں بڑا مالدار ہوں۔ میں نے کہا: اے میرے بیٹے! تم اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ میرے اصحابؓ میں سے بعض وہ ہوں گے جنہیں میرے چھوڑ جانے (وفات) کے بعد میرا دیدار نصیب نہ ہوگا (حُبِّ دنیا کی وجہ سے)۔ اس کے بعد حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف یہاں سے نکلے اور حضرت عمرؓ سے ملاقات کرکے انہیں حضرت ام سلمہؓ کی بات بتائی۔ یہ بات سن کر حضرت عمرؓ بھی سیدھے حضرت ام سلمہؓ کے پاس پہنچے اور انہیں خدا کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب نہ ہوگی؟ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا: نہیں، آپؓ ان میں سے نہیں۔ صحابہؓ کی دولت ذاتی راحت وآسائش کے لیے نہ تھی، بلکہ جو جس قدر زیادہ دولت مند تھا اسی قدر اس کا دستِ کرم زیادہ کشادہ تھا۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ہی سے شروع ہوچکا تھا اور وقتاً فوقتاً قومی مذہبی ضروریات کے لیے گراں قدر رقمیں پیش کیں۔ سورہ برات نازل ہوئی اورصحابہؓ کو صدقہ و خیرات کی ترغیب دی گئی تو حضرت عبدالرحمنؓ نے اپنا نصف مال یعنی چارہزار کی خطیر رقم پیش کی، پھر دو دفعہ چالیس چالیس ہزار دینار وقف کیے، اس طرح جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹوں کا انتظام کیا۔ اگرچہ آپؓ کا دسترخوان وسیع تھا، لیکن پُرتکلف نہ تھا۔ کبھی قیمتی اور خوش ذائقہ کھانا سامنے آجاتا تو گزشتہ فقر وفاقہ یاد کرکے آنکھیں پُرنم ہوجاتیں، لباس میں زیادہ تر ریشم کا استعمال تھا، کیونکہ فقر و فاقہ میں بیماری کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اجازت دی تھی۔ ایک دفعہ حضرت عبدالرحمنؓ کے صاحبزادے ابوسلمہ ریشمی کرتہ زیب تن کیے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے دیکھا تو گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کے چیتھڑے اڑادیے، حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہاں معلوم ہے، لیکن یہ اجازت صرف تمہارے لیے ہے دوسروں کے لیے نہیں۔ (طبقات ابن سعد)
|
No comments:
Post a Comment