Search This Blog

Friday 3 August 2012

شریعت ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

شریعت ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

اسد مفتی

ایک خبرکے مطابق مسلم کمیونٹی یا امہ یا ملت یا جوبھی کہہ لیجیے ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے حوالے سے تقسیم ہوکررہ گئی ۔یہ تقسیم تین حصوں پرمشتمل ہے‘ برطانیہ ‘ ہالینڈ‘ جرمنی اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں رہنے والے مسلمان جو سعودی عرب کا ’’اتباع‘‘ کرتے ہیں انہوں نے جمعہ کو پہلا روزہ رکھاجبکہ ‘مراکش‘ ترکی اور پاکستان کوفالوکرنے والے مسلمانوں نے ہفتہ کو رمضان کا پہلا روزہ رکھا۔ ایجنٹ پارک لندن کی جامع مسجد نے جمعہ کو پہلے روزہ کا اعلان کیا جبکہ اس کی ویب سائٹ پر ہفتہ کے دن پہلے روزہ کی نوید دی گئی قبل ازیں مسلمانوں کی مرکزی جماعت اہلسنت برطانیہ ویورپ نے یہ بیان دے دیاتھا کہ چونکہ برطانیہ میں جمعرات کو چاندنظرآنے کا امکان نہیں اس لیے جمعہ کو شعبان کے مہینہ کی 30 تاریخ سمجھی جائے گی‘ جماعت اہلسنت مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت ہے جس کی برطانیہ بھرمیں 600 سے زائد مسجدیں ہیں۔ میرے حساب سے رویت ہلال کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے دنیابھرمیں کوئی نیا یا انوکھا مسئلہ نہیں ہے یہ اختلافات صدیوں سے ہوتے آئے ہیں اور جب تک آبزرویٹری کی مددنہ لی جائے گی ہوتے رہیں گے۔ یہاں مجھے ایک فتویٰ یاد آرہاہے۔ فرماتی ہیں کہ چاندکی ہلالی شکل کی موجودگی شرعی حدکے لیے بہت ضروری ہے۔ آبروریزی کا نظام اسی وقت قابل قبول ہے جب وہ شرعی حقوق کو پوراکرے اورشرعی حدکے لیے چاندکی ہلالی شکل میں افق پر موجودگی بے حدضروری ہے۔ آپ کو یادہوگا کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیرقاضی حسین احمدنے کیا پتے کی بات کہی تھی انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہاتھا کہ مولوی چانددیکھنا چھوڑدیں اور رویت ہلال کمیٹی توڑدی جائے۔ انہوں نے مزیدکہاتھاکہ میں کوئی مفتی نہیں ہوں یہ میری ذاتی رائے ہے‘ میرے خیال میں رویت ہلال کمیٹی کے ارکان میں اختلاف کی صورت میں حتمی فیصلہ حکومت وقت کو کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ اسی طرح یورپ اورامریکا میں مقامی حکومتوں کے فیصلوں پرعمل کرنا چاہیے‘‘قاضی حسین احمد کے جواب میں مفتی نہیں بلکہ مفتیان اہلسنت لندن کا ایک بیان شائع کیاگیا جس میں قاضی صاحب کے بیان کے برعکس یہ بتایاگیا کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے خلاف فتویٰ (حالانکہ قاضی صاحب نے فتویٰ نہیں دیاتھا) خلاف شرع ہے جس کے نتیجہ میں انتشارپیداہوگا‘ رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ پاکستان میں موثرہے توبیرون پاکستان کیسے ردکیاجاسکتاہے؟بیان میں یہ بھی کہاگیاکہ یہ مداخلت فی الدین ہے۔ اس سال بھی لندن کے علاوہ ایمسٹرڈیم برلن اورپیرس کے علماء کا تبصرہ لائق توجہ ہے‘ایک عالم دین فرماتے ہیں کہ قاضی کے فیصلے میں اگر خدانخواستہ خطابھی ہوجائے تب بھی وہ موثراور واجب التعمیل ہے‘ شک وشبہ کی بناء پر ’’شک‘‘ کا روزہ بھی رکھاجاسکتاہے‘ میرے حساب سے علماء حضرات کو چاہیے کہ وہ سائنسی معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے صیام اور عیدوغیرہ کا تعین کرنے کے لیے مل بیٹھ کر فیصلہ کریں تاکہ یورپ کے مسلمان ایک ہی دن عیدمناسکیں‘ بعض علماء کے نزدیک عید کی تاریخ کا اعلان قبل ازوقت نہیں ہونا چاہیے اوردوسرے ملکوں بالخصوص سعودی عرب سے شہادت پرعمل کیاجائے۔ لیکن میرے حساب سے ایسا ممکن نہیں اور اس طریقے سے یہ مسئلہ حل بھی نہیں ہوسکتا کہ ایک غیرمسلم ملک میں رہتے ہوئے ہمارے کئی مخصوص مسائل ہیں‘ ضروریات ہیں مثلاً بچوں کے اسکول‘ دفاتر‘فیکٹریاں‘ہوٹل اوردوسرے اداروں سے پیشگی چھٹی‘ مسجدوں میں سیکورٹی کا انتظام اور پارکنگ سے متعلق محکمہ پولیس کی پلاننگ‘ نماز‘ روزہ اورعیدکے لیے مناسب وقت پرعمارتوں کو کرایہ پراصل کرنا اوریہ سب مسائل ’’ننگی آنکھ سے چانددیکھنا‘‘ سے حل نہیں ہوں گے اور پھر اکثروبیشتر یورپ کا موسم اپنے ابرآلودمطلع کی وجہ سے ’’ہمارے چاند‘‘ کو چھپائے رکھتاہے اس لیے حالات ‘ وقت اور موسم کا تقاضہ ہے کہ فلکیاتی وسائنسی معلومات اور حساب کتاب کی مدد سے پہلے سے چاندکی تاریخ کا تعین کرلیاجائے تاکہ عین وقت پر ’’چاند‘‘ دھوکا نہ دے جائے۔ فلکیاتی معلومات کی روشنی میں جس تاریخ کو وجود قمر اورامکان رویت ہو دونوں فارمولوں کو مدنظررکھتے ہوئے عیدکے دن کا اعلان کیاجائے اس میں مسلم یا غیرمسلم ہونے کی کوئی بندش نہیںہے‘ہم عیدوصیام کا چاند آبزرویٹری کے کہنے پر کیوں نہیں نکال سکتے؟ ایک بات جو سمجھ میںقطعی نہ آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ غیرمسلم سورج کے طلوع ہونے اورغروب آفتاب کی اطلاع دے تو امریکا برطانیہ اور مغرب کے دوسرے ملکوں میں بسنے والے تمام مسلمان ایمان لے آتے ہیں لیکن اگروہ چاندکی اطلاع دے تو علماء اورآئمہ یہ کہہ کر ماننے سے انکارکردیتے ہیں کہ یہ غیرمسلم ہیں اورغیرمسلم کی شہادت شریعت میں معتبر نہیں ۔ برطانیہ اوریورپ میں مسلمانوں سے نمازوں اور روزوں کے جوٹائم ٹیبل بنارکھے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیاہے؟ چاندکے قبل ازوقت یا بعدازوقت نمودارہونے کا اعلان اگرقابل اعتراض ہے تو پھر سورج پر اعتراض کیوں نہیں ؟جبکہ سورج کے غروب وطلوع ہونے کا بہت پہلے اعلان کردیاجاتاہے۔ یورپ کے علمائے دین اورمفتیان شرع متین بتائیں کہ اسلامی اورشرعی نقطہ نظرسے صرف چاند کی اطلاع غیرمسلموں کی زبان ونظرسے دی جائے توناجائزہے یا سورج کے طلوع ہونے یا غروب ہونے پربھی غیرمسلم کی اطلاع باطل ہے؟ آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق یہی غروب آفتاب‘ طلوع آفتاب اورنمازیوںکی نمازوںکے اوقات طے کیے جاتے ہیں۔ اگرغیرمسلموں کی شہادت شرعاً درست نہیں یا معتبرنہیں تو پھر روزوں کی طرح نمازبھی اسلام کا ایک اہم رکن ہے ایسی صورت میں سورج کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات بھی آبزرویٹری سے نہ لیے جائیں اگر’’کافروں‘‘ کی بنائی ہوئی آبزرویٹری سے نمازوں کی فال نکالی جاسکتی ہے تو عید وصیام کے چاند پرکس بات کا جھگڑاہے؟ مفتیان دین متین عصری تقاضوں کو مدنظررکھیں نہ کہ ذاتی اور وقتی مفادات کو۔ ہوسکے تومیرے اس شعرپرغورکیجیے راہبران قوم یوں تو راہبری کرتے رہے پھربھی ساری قوم یونہی ٹھوکریں کھاتی رہی

No comments:

Post a Comment