شب ِنزولِ قرآن اور یومِ عید میزانِ احتساب میں اپنا وزن کریں بشارت بشیر
زہے نصیب وہ رات جب حرا کے غار سے مقدس نور کی برسات کا آغاز ہوا۔آمنہ کا لالؐ طلوع صبح کے ساتھ ہی یہ نسنحۂ کیمیا لے کر سُوئے قوم آیا ۔اس روز باد صبا کے جھونکوں میں بسی خوشبوؤںنے ظلمت کدہ دہر کے ہر گوشہ کو مہکا دیا ۔قرآ ن مقدس کا نزول شروع ہوا۔ پیغامِ الٰہی کو حرز جان بنا نے والا ایک صداقت شعار گروہ عرب کے جاہلی معاشرے سے چھٹ چھٹ کر کلام اللہ کاشیدائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ ہو کرایک ایما نی معاشرہ کی تشکیل کر نے لگا۔ اسی نو تشکیل شدہ مسلم معاشرے کی وقتی اور دائمی ضرورتوں کے مطا بق اور حا لا ت وواقعات کی روشنی میں بتدریج کتاب مبین کا نزول ہوتا رہا۔سلیم الفطر ت لوگ قرآن کی آغوش رحمت میں آکر اس کے آ فا قی اور زمان ومکا ن کی قید سے با لا تر پیام نور و نگہت کو عام کرنے کے کام میں مصروف ہوگئے ۔ جا ہلیت کے پر ستاراور اللہ کے خلاف سرکشی کر نے والے مشرک وکا فر اس یکا یک بہ یک تبدیلیٔ عقیدہ سے بھڑ ک اٹھے اور حق پرستو ں کے درپیٔ آ زار ہو گئے ۔ حق کی ندا پر لبیک کہنے والو ں کی جان کے لال پڑنا شروع ہو ئے لیکن سودا ایسی عشق و مستی کا کیا تھاکہ سوئے دار بھی چلے تو نغمۂ توحید سے قلزمِ ہستی میں عجب تلا طم پیدا کیا، مادہ پر ست و عیش و نشاط کے دلدادوں کی جبینوں پر بل پڑگئے ، جن کی صدیوں پر محیط ہم ہستی اور چودھراہٹ قائم تھی ،اُنہیں پیروں تلے زمین کھسکتی نظر آئی۔حسب و نسب کے خول میں رہنے والے متکبروں کی نیندیں اُڑ گئیں،غربت و پسماندگی کا استحصال کرنے والے عناصر قرآن کا پیامِ مساوات دیکھ کر سیخ پاہو گئے۔کعبتہ اللہ کی آمد نی سے پیٹ کی آگ بجھانے اور اعلیٰ منصبوں پر فائز حرام خوروں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ یہ سب کفر وشر ک اور اندھ کا ر کے حامی عنا صریکجاہوئے اور حق کی اس مشعل ِنور کو بجھانے کا ہر وہ سامان کیا اور اوچھا حربہ اختیار کیاجو اُن کے بس میں تھا، تاریخ انسانی میں یکہ وتنہاحق کے عظیم ترین علمبردار اور صاحب ِقرآن ؐ کے خلاف زبان درازیوں، کردار کشیوں اور الزامات کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا لیکن آ پ ؐ پیغمبرانہ عزیمت اور شریفا نہ مزاحمت سے مخالفتوں اور تہمتوںکے تمام تیر وتفنگ برداشت کرتے رہے کہ یہ سب کنداور بے اثر ثابت ہو تے رہے ، فریق مخا لف کے طنز واستہزاء اورپھبتیوں میں جان تھی نہیںاس لئے وہ منہ کی کھا کے رہ گئے لیکن حملوں کی شدت و حدت میں بتدریج ا ضافہ نے جہاں ان مُٹھی بھر اہل حق کی زندگی اجیرن بنادی وہاں قرآن نے ان صحابہ کرامؓ کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے اس راہ کی صعوبتوں سے پیشگی آگاہ فرما کر انہیں استقامت کا کو ہ گراںبنا کے رکھ دیا ۔حضرت صاحبؐ قرآن کی مقدس ذات تو نشانے پر تھی ہی،قرآن مقدس کے حوالہ سے بھی اُنہوں نے شکوک و شبہات کی فضا پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھائی …کبھی اِسے خود گڑھا ہوا قرار دیا تو کبھی کہا کہ کوئی جن یاخفیہ انسان یہ باتیں سُنا کر چلا جاتا ہے لیکن قرآن کی اثر آفرینی اور استد لال میں مخفی مقنا طیسی قوت ہی تھی کہ ایک جانب سوسائٹی کا سنجیدہ، باکردار،خوش اخلاق اور من وتو کی بیما رذہنیت سے پاک افراد روزبروز اس کی دعوت کو جی جان سے قبول کرتے رہے کہ مخالفین کے تراشیدہ الزامات کے کاغذی محل بکھر کر تنکے تنکے ہوکر رہ جاتے۔ دوسری جانب اہل عرب چو نکہ خود اہل زبان تھے ،فصا حت و بلاغت تو شیر مادر کے ساتھ ہی اُن کی غذا بن جاتی تھی ،یہاں تک کہہ ڈالا کہ ہم چاہیں تو ایسا کلام ( یعنی کلام اللہ )ترتیب دے سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی ۸۸ویں آیت میں انہیں یو ں چلینج دیا’’کہ اگر سبھی جن وانس اس قرآن کی مثل لانے کے لئے جمع بھی ہوں ،نہیں لاسکتے ۔اگر چہ یہ ایک دوسرے کے معاون بھی بنیں‘‘۔پھر ایک دم ان سے سورہ ہود کی ۱۲ ویں آیت میں قرآن جیسی دس سورتیں لانے کو کہا گیا،پھر اُن کے جھوٹے دعوے کی قلعی سورہ بقرہ کی ۲۳ ویں آیت میں یہ کہہ کر کھول دی کہ قرآن جیسی ایک ہی سورت یعنی اس جیسا ایک ہی جملہ تو لے آو۔ خدائی چیلنج کے سامنے کفاران قریش کی بے بسی کا اندازہ بھی لگا ئیے کہ وہ انکاراور بغاوت کے تما م لا ؤ لشکرسمیت بے بس ہوگئے،زچ ہوکے رہ گئے ۔ایسا بھی تو نہیں کہ کا دشیں نہیں ہوئیں،ہوئیں لیکن بے سود،بلکہ ایسا کرنے والے خود اپنی قوم میں مذاق بن گئے۔عرب ناکام ہوئے تو عجم کے عربی ادیبوں کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر ُسونا کامی کا سامنا کرتے ہوئے منکر ین اب بس ہٹ اور ضد کو ہی دین و دھرم بنا بیٹھے۔دلیل کے سامنے بے بس تو اب مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ کے مصداق ادھر اُدھر کی ہانکنے لگے ۔ ان کی جہا لت کا مخمصہ شدومدسے جاری تھا کہ اُدھر قرآن کی حقانیت اور اثر آفرینی سے مکہ کے بڑے بڑے جگر گوشے اسلام کے خیمہ میںداخل ہونے لگے اور عجب بات یہ کہ اس لا مثال تا ثیرکلام اللہ نے دشمنو ںکو بھی اس قدرمسحور کر دیا خود کفروطاغوت کا سب سے بڑا سرغنہ ابوجہل اپنے کئی ساتھیوں سمیت حجرہ نبویؐ کے باہر زبان و حی ؐ ترجمان سے تلاوت کلام مجید سُنتا اور سر پکڑ کے رہ جا تا، اسے کفر کے ساتھ یہ ’ غداری‘ کر تے ہو ئے پکڑ لیا گیا لیکن انا اور ہٹ غالب تھی ،دل کی زمین بنجر تھی،دولت و سرمایہ کو معبود بنالیا تھا، اس لئے کوئی حق کا بیج اس سخت دل کی زمین میں پنپ نہیں سکا اور قرآ ن مجید کی غلا می کا قلا دہ اپنی گردن میںڈالنے سے گریزاں رہا۔اس طرح ظلمت شب کا یہ پاسبان حق کے آ فتاب کے ساتھ دو دو ہا تھ کر تے ہو ئے میدان جنگ میں مرا تو عبرت انگیز موت مرا۔بہر حال بات شب نزول قرآن کی ہورہی ہے۔ اصل میں اس کتاب کے ماننے جاننے اور اس کی تعلیمات دل میںاتارنے اور پھر اس روشنی میں اپنی زندگی کے ہر شعبہ زندگی میںاپنا نے والوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے استفادہ کر یں گے تو صرف متقین ہی ۔(البقرہ)۔آخر یہ متقین ہیں کو ن؟۔کتاب ہدایت تو نازل ہو ئی ہے ساری دنیا کو صراط المستقیم دکھا نے کے لئے لیکن عملاًاِس سے مستفید وہی ہوگاجس کے اندر حق کی طلب و تلاش اور ضمیر زندہ اور پا ئندہ ہو۔دِل کا نہاں کا نہ تالہ بند نہ ہوں اور آنکھوں پر عصبیت کی عینک نہ لگی ہو۔مفسرین قرآ ن ، شارحین شریعت اور مفکرین اسلام پر اللہ کی رحمتوں کا بے شمار نزول ہو ،کس انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آفتاب اپنی جگہ عالم تاب سہی لیکن جن کی بصارت ہی ضائع ہوچکی ہو ان کے لئے تیز سے تیز تر شعاعیں بھی بے کار ہیں کیو نکہ وہ ان کی ضو فشانیو ں کے با وجود دنیا دیکھنے سے قاصر ہیں۔زمین اگر مردہ ہے تو اس کے حق میں اچھی سے اچھی بروقت بارش بھی بے اثرثابت ہو تی ہے،غذا بہتر سے بہتر ہے لیکن ہیضہ کے مریض کے لئے بے فا ئدہ بلکہ مضرہے ۔چمن میں بُلبل لاکھ چہکے لیکن بہرہ کیا خاک اس چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہو پائے گا؟اس طرح قرآن کا نور بصیرت سر چشمہ ہدایت ، ذکر شفاء ہونا درست لیکن اگر ایک شخص نے وہ صلاحیت ہی جو اِس نور ہدایت سے فائدہ اُٹھا نے کے لئے درکار ہے کھو دی ہو تو قرآناس کے لئے کیا کرے گا؟ ’’اس میں تو خدا سے ڈرنے والوں کے لئے درس عبرت ہے(النازعات)‘‘قرآن تو ہے ہی ایسی کتاب کہ اوباش اور بے فکر ے لوگ اس کی جانب متوجہ نہیں ہوتے۔اس کی جانب نیکی اور شرافت کا جو ہر اپنے اندر موجود رکھنے و الے ہی مائل ہوتے ہیں ۔
تاریخ یہی کہتی ہے کہ قرآن نے عربوں میں سے اُن کے قلب وذہن کو اپیل کیا جو سنجیدہ اور معقول قسم کے لوگ تھے اور اہل کتاب میں سے بھی وہیں اس کی آ غوش رحمت میں آ گئے جو متقی اور خدا ترس تھے۔یاد رکھئے کہ خدا کی سب سے بڑی نعمتوں میں عقل بھی شامل ہے اور اس سے بڑی نعمت قرآن اور شارع اسلامؐ ۔ عقل بہر حال اپنی حدو د میں مقید ہے اور قرآن سے ہی اس کو سوچنے سمجھنے کی رہنمائی ملتی ہے،یہ نہ ہو تو عقل سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور بینیں لگا کر بھٹکتی ہی رہے گی۔ افلا ک کی بلندیا ں چھو کر بھی ٹھوکر کھا ئے گی ۔اس کے مقابلے میں قرآ ن کو جس نے اپنے مکلف کے برابر سمجھا اوراسے عملی زندگی میںبرتا تو اس کو وہ نعمت ملی کہ عقل اس کا احاطہ نہیں کرسکتی ؎
گزر جا عقل سے آ گے کہ یہ نو ر
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
غرض قرآن اللہ کی طرف سے عالم انسانیت کیلئے نعمت غیرمترقبہ ہے اورایک بے بدل و بے مثال کتاب اور لاجواب وزندہ معجزہ ہے ،جس کا اعتراف بر ملا عرب کے عظیم ترین شعراء و ادبأ نے کیا اور اسی منا سبت سے انہیں اسلام کے دامنِ رحمت میں آئے بغیر کوئی چارہ کا ر نظر نہیں آیا۔وہ طفیل دوسیؓ، عربی زبان و علوم اور شاعری و نثر پر جس کا ملکہ اور دبد بہ تسلیم کیا جاتا تھا،قرآن کی فصاحت و بلا غت کے سامنے سرتسلیم خم کئے بغیر نہ رہ سکا۔دنیا کے بے شمار مستشرقین و غیر مسلم مفکرین کے اس حوالہ سے تاثرات جمع کریں تو ایک کتاب بن جائے گی۔شائد ڈاکٹر سیل کا یہ تاثر اُن سب کی ترجمانی کر سکے:’’قرآن انتہائی پاکیزہ و لطیف زبان میں ہے اس کتاب سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسان اس کی مثل نہیں لاسکتا۔یہ لازوال معجزہ ہے جو مردہ کو زندہ کرنے سے بہتر ہے۔‘‘۔یا علامہ اقبال کی زبان میں یوں کہئے ؎
فاش گو یم آنکہ در دِل مضمراست
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
ہاںتو اوپرعرض کرچکا ہو ں کہ اس مقدس کتاب کا نزول رمضان المبارک میں ہوا اور رمضان کی ساری برکات اور حمتیں محض اسی وجہ سے ہیں۔بہر حال یہ مقدس ماہ اب رختِ سفر باندھ رہا ہے ، یہ بس چند ساعتوں کا مہما ن ہے ۔ رخصت ہو گا تو کیا پتہ اگلا رمضان کسے دیکھنا نصیب ہو اور کسے نہیں۔ہم صیام کے دوران بہ حیثیت روزہ دارمخصوص اوقات میں اکل و شرب سے ضروردور رہے اور کیا اصل مقصد نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام دے کر اپنے آ پ کو مکمل طور خدائی احکام کی تعمیل میں دینے کے کام میں ہم کامیاب ہوئے؟ رمضان کی رخصتی کے ساتھ اس بات کو جانچنا ضروری ہے ۔رمضان کے ان ایام پُرانوار میں بالخصوص حضرت خدیجتہ الکبریؓ ،حضرت فاطمتہ الزھراؓ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے حوالہ سے خطابات سے ہم محظوظ ہوئے لیکن کیا ان عظیم خواتین کے جذبۂ ایثارو انفاق دین کے حوالہ سے اُن کی قربانیوں،اُن کی زھد و ورع اور اپنے شوہر ان عظیم کی اطاعت کے واقعات سے ہم نے کوئی سبق حاصل کیا ہے ؟یہ دیکھنا باقی ہے۔ہم نے بہ چشم نم معر کۂ بدر اورفتح مکہ کے مواقع پر ہونے والے تاریخی واقعات کا تذ کرہ تو سُنا لیکن کیا اظہار حق،ثا بت قدمی اور آزمائشی مواقع پر اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے بعد بھی انہیںمعاف کرنے کے عمل نے ہمارے اندرون میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما کی؟ یہ بھی ایک چبھتا ہوا سوال ہے۔ہم اس ماہ مقدس میں روئے بھی گڑ گڑائے بھی اورآج ۲۷ویں شب ہم پھر نالہ و فریاد لے کر خدائے قدوس کی بارگا ہ میں آکر خوب روئیں گے،کیا دِل کی آنکھ بھی روئی یا روئے گی؟ جذ بو ںکی سوکھی دنیا میں ہریالی پھیل گئی ؟ نیتوں کا فتور وجود کے دفینے میں دب گیا؟ اگر یہ ہو اتو آ پ واقعی شبِ قدر پا گئے کہ آ پ کو انپی اصلا ح کا قرینہ آ گیا۔ بہر حال ماہِ رحمت رخصت ہورہا ہے اور کئی دنوں کے بعد ہی ہلال عید ہمارے اکل و شرب پر لگائی گی قدغنوں کے خاتمہ کا اعلان کرنے اُفق پر جلوہ گر ہونے والا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ رمضان کاپیغامِ حیا ت ِنو کی کتنی چھاپ سارے سال ہماری زندگیوں پر نظر آئے گی؟۔
اب عیدالفطر کی آمد آمد ہے۔اس روز گھروں میںکھا نے پینے کا مناسب اہتمام دُرست لیکن خوشی کے ان اوقات میں حد و دالہٰی کو خدا نخواستہ جا نے انجانے پھلاند گئے تو کونسا روزہ اور کہاں کی تسبیح ومنا جا ت؟ ۔اسی لئے اِن مواقع پر خدا کی کبر یائی بیان کرنے کا حکم ہے۔اب ہم عید گاہوں کا رُخ کریں گے تو ہماری اجتماعیت کا اظہار ہوگا لیکن کیا ہم گلیوں،محلوں میں ایک ہیں؟کیا ہم مدارس و مساجد میں ایک ہیں؟نہیں قطعاً نہیں۔افطار و سحری کے اوقات ہم قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ساتھ مقرر نہیں کر پاتے ،اپنے مسالک پر عمل پیرا ہو نادُرست لیکن یہ ایک دوسرے کوطرز نماز کا مذاق اڑانے اور زبا ن کے چٹخاروں میں ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ جھاڑنے کا عمل کیا ہمارے دِلوں میںکد ورت اور نفرت کی آگ پیدا نہیں کرتا ؟۔آخر ہمارے روّیوں میں لچک اور فکر و سوچ میں وسعت کب پیدا ہوگی؟اسلاف میں کیا اختلاف نہیں ہوا کرتے تھے لیکن اُن کی عالی ظرفی ،وسعت قلبی اور بالغ نظری پرقربان جایئے، پھر بھی ایک دوسر ے کا احترام کرتے تھے کیو نکہ انہیں سلیقۃ الاختلاف کے اسلا می آ داب ہمیشہ ملحوظ نظر رہتے۔اس مو ضوع پر لکھیں تو ایک دفتر بن جائے۔ہاں !روزہ تو ہم نے رکھنے کو رکھ لیا،کیا ذخیر ہ اندوزی،ملاوٹ،گراں بازاری،ایک دوسرے کو لتاڑنے پچھاڑنے،بے زاہ روی کے اشغال میں شامل ہونے یا اس کا اہتمام کرنے ،جھوٹ ،مکر،فریب اور ماپ تول میںڈنڈی کر نے سے ہم تائب ہوئے؟اگر ایسا نہیں ہے تو عید کی یہ خوشی محض سطحی اور رسمی ہے اور یہ عید بس اس حد تک ع دِل کو بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ہاں! مجموعی اعتبار سے ہم کولگے یہ روگ حساس دل انسانو ں کو رُلاتے اورلرزہ براندام کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہم نے دین کو مسجدوں تک محدود کر کے رکھ دیاہے ،اس کی چھاپ اب ہمارے گھروں ،تہذیب و ثقافت آرٹ،کلچر،معیشت،سیاسیات اور سب سے بڑھ کر ہمارے نظم تعلیم پر بھی ہو ،اس کے لئے ہمیں اپنی کاوشوں کا جائزہ لینا ہوگا۔یہ با ت بھی واضح ہے کہ عید کے موقعے پر ہم اپنے لاڈلوں کی دِل جوئی کا ہر سامان کریں گے، یہاں تک کہ حدود شریعت کو پھلانگنے سے بھی کچھ دوست اجتناب نہیں کریں گے،خریداری میں اپنی پونجی لُٹائیں گے لیکن یہ جو ہمارے گرد نواح میں،شہرو دیہات میں،گلی کوچوں میںستم رسیدوں،پریشان حالوں،مصائب کی چکی میں پسنے والوں، کشت و خون کے شکار لوگوں،غربت و پسماندگی سے سوکھ کر کانٹا ہونے والوں،حالات کے ماروں،یتیموں ،بیواؤں اور معذوروں کے رونے چیخنے بلکنے کی درد ناک صدائیں اور دِل کو خون رُلانے والی آوازیں آرہی ہیں ،کیا ہم انہیں سُن رہے ہیں؟۔اگر جواب اثبات ہیں ہے تو کیا ان کی اعانت اور عید کی خوشیوں میں ان کی شمولیت کا کوئی سامان ہم نے کیا بھی ؟یہ بھی ایک اہم سوال ہے جس کی ا َن سنی نہیں ہو نی چا ہیے۔یہ جوہم نے رمضان میں اسلاف کی سخاوت کے با رے میں ایمان افروز واقعات سُن کر مساجد کے بام و در کو رو رو کر ہلادیا،کیا یہ اللہ نہ کر ے سب دھو کہ تھا،فریب تھا یا ریا کار ی تھی؟۔بس یہ بھی ایک دو دن میں پتہ چل جائے گا۔
کیا سورہ محمد کا یہ پیغام ہمارے دِلوں میں اُتر کر گھر کر گیا کہ :’’دیکھو تم لوگوں کو دعوت دی جارہی ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو،اس پر تم میں سے کچھ لوگوں جو بخل کر رہے ہیں،حالانکہ جو بخل کرتا ہے وہ اصل میں اپنے آپ سے بخل کر رہا ہے۔اللہ توغنی ہے تم ہی اُس کے محتاج ہو ،اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔آیت میں انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کا کس درجہ حکم ہے اور بخل سے اللہ تعالیٰ کی کس قدر نفرت عیاں ہو رہی ہے۔اس حوالہ سے بھی عید کے موقع پر اپنا محاسبہ کریں۔
ہاں!ان مصائب کے ماروں کی غم انگیز اور کربناک صدائیں اگر ہمارے وجود میں لرزہ پیدا نہیں کرتیں تو عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا سید ابو الحسن ندوی نے اس حوالہ سے کیا خوب اور برمحل تصویر کھینچی ہے کہ نوک قلم ان الفاظ کا بوسہ کرنے پر آمادہ ہے اور اس کی روشنی میںہم اپنے اعمال اور احوال کا جائزہ لیں۔لکھتے ہیں’’وہ آنکھ انسان کی آنکھ نہیں نر گِس کی آنکھ ہے جس میں نمی نہ ہو۔وہ دِل انسان کا دل نہیں،چیتے کا دِل ہے جس پر کسی درد کی چوٹ نہ لگے ،جو کبھی انسانیت کے غم میں رونا تڑپنا نہ جانے۔وہ پیشانی جس پر کبھی ندامت کا پسینہ نہ آنے وہ پیشانی نہیں بلکہ کوئی چٹان ہے ،جو ہاتھ انسانیت کی خدمت کے لئے نہیں بڑھتا ہے اس سے شیر کا ہاتھ بہتر تھا۔اگر انسان کا کام کاٹنا تھا تو قدرت دو ہاتھوں کے بجائے تلوار دے دیتا۔اگر انسان کا مقصد زندگی صرف مال جمع کرنا تھاتو اس کے سینے میں دھڑ کتے دل کے بجائے ایک تجوری رکھ دی جاتی۔اگر انسان کا کام صرف تخریب کے منصوبے بنانا تھا تو اس کے اندر انسان کا نہیں کسی شیطان، کسی راکھشش کا دماغ رکھ دیا جاتا‘‘۔
پڑھی آپ نے دلوں کو دہلانے والی یہ تحریر؟کتنی بصیرت افروز ہے یہ ؟ آیئے عید سعید کے موقعے پر زند دِلی اور رحمیت وغیرت کا مظاہرہ کر کے سِتم رسیدوں کی انفرادی اور اجتماعی طور امداد کا عہد کریں ۔کہاں وہ دن کہ اسلاف کی نیند یں ان مواقع پر پریشان حالوں کو ڈھونڈ تے ڈھونڈتے اُڑ جاتیں اور کہاں یہ دن کہ نفسا نفسی کا یہ عالم کہ بغل میں رہ رہے ہمسایہ کی حالت زاروزبوں سے یکسر غفلت کا مُجر مانہ مظاہرہ ؎
خزاں میں مجھ کو رُلاتی ہے یادِ فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیوں کر کہ سوگوار ہوں میں
|
Search This Blog
Wednesday 15 August 2012
شب ِنزولِ قرآن اور یومِ عید میزانِ احتساب میں اپنا وزن کریں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment