اپنے بچے کو مشکل میں نہ ڈالیں
-ڈاکٹر خالد مشتاق
سر یہ بچہ پیٹ میں درد کی شکایت کرتا ہے۔ اس کی سانس پھولتی ہے اور اس سے بات بھی نہیں کی جاتی۔ ہم نے بہت سے ڈاکٹر تبدیل کر لیے 6ماہ سے یہ تکلیف ہے کوئی بھی فائدہ نہیں۔ کوئی کچھ بتاتا ہے کوئی کچھ۔ مختلف طرح کی دوائیں استعمال کرچکے ہیں۔ اس بچے کو والدین لے کر آئے تھے۔ ان کے پاس بڑا سا تھیلا تھا۔ جس میںسے اب تک استعمال ہونے والی ادویات کی خالی شیشیاں‘ گولیوں کے پتے وغیرہ تھے۔ ایک فائل انہوں نے سامنے رکھ دی یہ سارے ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ بچے کی عمر 11 سال تھی۔ نام کاشف تھا۔ والدین نے بتایا کہ یہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ اس کے 80-90 فیصد سے زیادہ نمبر آتے۔ ہم اس سے بہت خوش تھے۔ ہر سال جب اس کا رزلٹ آتا تو ہم خاندان کی دعوت کرتے اور سارا خاندان ہمارے بچے کی اچھی تعلیم کی تعریف کرتا۔ میری بیوی اس بچے کی وجہ سے اپنی بہنوں بھائیوں اور چچا کے گھر والوں میں خوب بڑی بڑی باتیں کرتی، وجہ یہ ہے کہ ہماری مالی حیثیت اچھی ہے۔ ہم نے اپنے بچے کو بہت اچھے انگلش اسکول میں داخل کرایا تھا۔ اس اسکول میں انگریزی زبان میں بات کی جاتی تھی ہے۔ بچہ گھر پر بھی آکر انگریزی بولتا اور سب بہت متاثر ہوتے۔ پچھلے چھ ماہ سے یہ اسکول جاتا ہے تو شکایت آتی ہے کہ بچے کی طبیعت خراب ہے اس کی سانس پھول جاتی ہے۔ پیٹ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ اس کی چند دن کی چھٹی کرائی علاج کرایا ٹھیک ہوگیا لیکن اسکول جاتے ہی پھر یہی کیفیت ہوجاتی ہے ہم نے پہلے فیملی فزیشن کو دکھایا۔ یہ ٹھیک ہوگیا لیکن اسکول جانا شروع کرتا ہے تو چند دن میں پھر طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ بچے کو بخار نہیں تھا۔ بچہ کا معائنہ کیا گیا۔ اس سے تفصیلات پوچھیں ساری رپورٹس دیکھیں سب رپورٹس نارمل تھیں۔ دوائیں دیکھیں مختلف برانڈ کی درد کی دوا، اینٹی بائیوٹک‘ ملٹی وٹامن وغیرہ شامل تھیں۔ بچے کو خون کی کمی بھی نہیں تھی۔ تفصیل پر پتا چلا کہ بچے کو ایک مسئلہ تو اسکول میں بھاری بیگ اٹھا کر تیسری منزل تک لے جانا پر ہوتا ہے بچہ کی جسامت عمر کی لحاظ سے کم تھی۔ بچے نے بتایا کہ پہلے ان کی کلاس گرائونڈ فلور پر تھی۔ تو مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ اب تیسری منزل تک بیگ اٹھا کر جانا پڑتا ہے۔ اسکول بیگ بھاری ہے کلاس کے دیگر بچے قد میں مجھ سے بڑے اور موٹے ہیں وہ باآسانی بیگ لے جاتے ہیں میں جب کلاس میں پہنچتا ہوں تو میرا سانس پھولا ہوا ہوتا ہے کچھ دیر تک مجھ سے بات بھی نہیں کی جاتی۔ ہمارے اسکول میں نئی تعمیرات ہوئی ہیں۔ اسمبلی میدان میں ہوتی ہے۔ ہماری کلاس اسمبلی کے قریب تھی۔ میں جب اسکول وین سے اترتا تو پہلے کلاس میں بیگ رکھ دیتا پھر اسمبلی میں آجاتا۔ اب ہماری کلاس نئے بلاک میں ہے جو اسمبلی کی جگہ سے دور ہے۔ اسکول وین سے اتر کر اگر بیگ کلاس میں رکھ کر آئیں تو لیٹ ہوجاتے ہیں۔ چند روز پہلے ایسا ہوا کہ اسکول وین جلدی پہنچ گئی میں کلاس میں بیگ رکھنے چلا گیا واپس اسمبلی پہنچا تو سانس پھولی ہوئی تھی۔ ترانہ کے بعد سر ہمیں ورزش کراتے ہیں، میں وہ نہیں کرپاتا تھا۔ اس لیے پھر یہ طے کیا کہ اسکول پہنچ کر پہلے اسمبلی میں شریک ہوں گا پھر بیگ لے کر کلاس میں جائوں گا۔ والدین نے بتایا کہ یہ سارے مسائل تو اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ کاشف کہنے لگا کہ امی کو تو بس میرے ٹیسٹ اور امتحان کے نمبروں کی فکر ہوتی ہے وہ اچھے ہوں خوش رہتی ہیں‘ وہ صرف پڑھائی کا معلوم کرتی ہیں۔ کاشف کا گھر نارتھ کراچی میں تھا اور اسکول صدر کے قریب تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ وہ آتے ہوئے اور تقریباً سوا گھنٹے جاتے ہوئے طے کرتا۔ اس طرح تقریباً تین گھنٹے اس کے وین میں گزرتے۔ سردی میں فجر کی نماز سے پہلے نکلتا۔ کاشف نے بتایا کہ اتنی جلدی اس سے ناشتہ بھی نہیں کیا جاتا۔ اس لیے اسکول میں ہاف برک سے پہلے اسے شدید بھوک لگ رہی ہوتی ہے۔ جس سے اکثر اس کے سر میں درد ہوجاتا ہے۔ میں جب مس سے کہتا ہوں تو وہ ڈانٹ دیتی ہیں کہتی ہیں صبح تمہاری سانس پھولی ہوئی ہوتی ہے۔ سوال کرو تو جواب نہیں دیا جاتا۔ پھر سردرد‘ تم کیا بیمار ہو؟ کاشف نے بتایا کہ کلاس میں چند بچے جن کے نمبر مجھ سے ہمیشہ کم آتے ہیں مجھ پر ہر وقت تنقید کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چھوٹو‘ کوئی کہتا ہے بھائی کیا تمہارے گھر میں ناشتہ نہیں بنتا کہ تمہیں اتنی بھوک لگ رہی ہوتی ہے کوئی کہتا ہے شاید گھر والے کھانا نہیں دیتے تب ہی تو ٹڈے ہو وغیرہ… میں نے کئی مرتبہ مس سے شکایت کی لیکن انہوں نے کہا کہ تم ہر روز کسی نہ کسی بچے کی شکایت کرتے ہو۔ چغلی لگانا ٹھیک بات نہیں۔ ہم ساری کلاس کو تو سزا نہیں دے سکتے۔ مجھے جس کے رویے سے بہت تکلیف ہوئی انہوں نے بھی کئی مرتبہ کہا کہ تم اپنا علاج کرائو۔ کاشف نے بتایا کہ میں نے امی کو بتانے کی کوشش کی کہ سب مجھ پر تنقید کرتے ہیں انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا۔ بیٹا وہ تمہاری پڑھائی سے جلتے ہیں تمہاری پوزیشن آتی ہے۔ ان کی نہیں‘ تمہیں اسکول میں اسٹیج پر بلا کر ہر سال ٹرافی ملتی ہے اس سے وہ جلتے ہیں۔ تین ماہ پہلے میرا ٹیسٹ ہوا میرے نمبر کم آئے۔ کلاس میں بھی سب نے کٹ لگائی اور امی نے بھی خوب ڈانٹا حالانکہ میں بہت پریشان تھا۔ وین والے نے چند اور بچے لے لیے ہیں میں وین میں پھنس کر بیٹھتا ہوں۔ اسکول تک پہنچتے پہنچتے بہت تھکن ہوجاتی ہے۔ پھر بھاری بستہ تین منزل تک لے جانا سانس بھولنا‘ سر کا درد اور اس کے ساتھ کلاس میں دوسروں سے تنقید سننا۔ اس سب سے میں پریشان تھا میرے نمبر حساب اور سوشل اسٹڈیز میں کم نمبرآئے یہ پیریڈ اس وقت ہے جب میرے سرد میں درد ہوتا ہے۔ اس وقت میری توجہ پوری طرح کلاس میں نہیں ہوتی۔ نمبر کم آنے پر امی نے خوب ڈانٹا۔ انہوں نے کہا تم نے خاندان میں ناک کٹوادی۔ میرے بھائی کے بچے کے نمبر تم سے زیادہ ہیں۔ چچا‘ تایا کے وہ بچے جو بہت ہی کم نمبر لیتے تھے وہ بھی تم سے زیادہ نمبر لائے ہیں۔ میں خاندان کے سامنے ذلیل ہوگئی۔ کاشف نے کہا کہ گھر والوں‘ اسکول کے اس رویہ کے بعد تو میری یہ حالت ہوگئی کہ اسکول جاتے ہی میری طبیعت خراب ہوجاتی۔ والدین کاشف کے ان انکشافات پر حیران تھے۔ میں نے کاشف کی امی سے پوچھا کہ آپ نے کاشف سے بات چیت کی تھی۔ وہ بولیں ہاں ہم رات کا کھانا ساتھ کھاتے ہیں۔ کاشف اسکول سے آکر قاری صاحب سے پڑھتا ہے۔ ٹیوشن پڑھتا ہے۔ جب اس کی والدہ سے یہ معلوم کیا کہ وہ کتنا وقت بچے کو دیتی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سوشل ورکر ہیں۔ ایک ویلفیئر ادارہ چلاتی ہیں۔ صبح جاتی ہیں شام کو لوٹتی ہیں اس لیے دن میں تو کاشف سے بات چیت نہیں ہوتی شام کو میں خود اتنی تھکی ہوئی ہوتی ہوں رات کو کھانا ساتھ کھاتے ہیں۔ دوپہر کو کاشف کو کھانا گھر کی نوکرانی دیتی ہے۔ صبح کا ناشتہ وہ کرتا نہیں۔ رات ہی کو بیکری سے بسکٹ‘ سینڈوچ آجاتے ہیں وہ کولڈ ڈرنگ کے ساتھ لے جاتا ہے۔ کاشف کے والد نے کہا کہ میرے لیے تو یہ سب انکشافات ہیں۔ میں نے MBA کیا ہے ایک فرم میں مارکیٹنگ ڈائریکٹر ہوں میں تو دیر ہی سے گھر لوٹتا ہوں میں تو بس گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دیتا ہوں۔ بچوں کے لیے اچھے سے اچھا اسکول‘ مہنگی ٹیوشن، اچھے کپڑے سب کچھ میں دے رہا ہوں۔ کاشف سے اکیلے میں معلوم کرلیا تھا کہ اس کی دوستی گھر پر ہے یا نہیں۔ والدین نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے اتنا وقت دیا ہم تو حیران ہیں۔ کاشف کو جسمانی طور پر کوئی بیماری نہیں تھی۔اس کے والدین کو بتایا کہ کاشف کے بارے میں آپ سنجیدگی سے سوچیں اور ا س سے دوستی کریں اسے وقت دیں۔ اس کے مسائل حل کرنے کے لیے تجاویز دی گئیں۔ ٭…اس کا اسکول تبدیل کروایا جائے۔ ٭…اسکول وین میں آدھا گھنٹہ سے زیادہ سفر نہ کرے اور وہ بھی تکلیف دہ نہ ہو۔ ٭…والدہ بچے کو وقت دیں۔ والد بھی بچے سے دوستی کریں۔ ٭…بچے سے اس کے مسائل پر بات کریں۔ ٭…بچے کو ناشتے کے بعد اسکول بھیجیں۔ انہوں نے کہا کہ فوری طور پر تو یہ ممکن نہیں سیشن مکمل ہونے پر کریں گے۔ کاشف اور اس کے والدین کی الگ الگ سائیکو تھراپی کے سیشن کرائے گئے۔ والدین نے بتایا کہ انہوں نے اسکول کی انتظامیہ سے بات کی انہوں نے کہا کہ آپ کا بچہ اچھی انگلش بول رہا ہے۔ نمبر اچھے آتے ہیں‘ بیمار ہے آپ علاج کرائیں۔ یہاں بچے اسٹینڈرڈ کی تعلیم لینے آتے ہیں تاکہ اچھے نمبر آئیں اور دنیا میں ترقی کرسکیں ہم آپ کے بچے کی وجہ سے انہیں اخلاقیات کے لیکچر نہیں دے سکتے۔ وہ اسکول انتظامیہ کے رویے پر بہت حیران ہوئے ان کی والدہ کو بتایا کہ خاندان میں فخر جتانے‘ اپنے کو بڑا بنانے کے لیے بچے کو انگلش بولنا سکھانا اور اچھے نمبر پر اترانا بہت ہی برا فعل ہے۔ فخر‘ غرور‘ تکبر اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ یہ شیطانی عمل ہے جو آپ کرتی رہیں۔ آپ بچے کی پوزیشن آنے پر بڑا پن دکھانے کے لیے دعوت کرتیں۔ اس سے خاندان میں جلن پیدا ہوئی۔ دوسروں کو جلانے سے خود آپ کے گھر تک بھی آگ پہنچی اور آپ کا بچہ بیمار ہوگیا پھر بچے کے نمبر کم آئے تو دوسروں نے تنقید کرکے آپ کو پریشان کیا۔ آپ اپنی فخریہ سوچ کی وجہ سے بچے کو بھی یہ بتاتی رہیں کہ خاندان میںنام پیدا کرنا اصل چیز ہے۔ چند ماہ بعد کاشف کے والدین نے اسکول بھی تبدیل کرادیا۔ وین کا مسئلہ حل کیا۔ کاشف ناشتہ کرکے جانے لگا۔ والدین نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق باہر کے ناشتے کے بجائے انڈا وغیرہ دیا۔ کولڈ ڈرنگ کے بجائے پانی یا دودھ دینا شروع کیا۔ 7ماہ میں کاشف کی صحت بہتر ہوگئی۔ اس کیس کا تجزیہ کریں۔ ٭…اسٹینڈرڈ کے نام پر بچوں کو دور دراز اسکولوں میں بھیجنے سے ان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ٭…والدین بچوں کے اسکول بیگ کے اٹھانے‘ ویگن کے مسائل پر توجہ دیں۔ ٭… بچوں کو ناشتہ گھر پر بنا کر دیں کولڈ ڈرنگ سے صحت متاثر ہوتی ہے۔ ٭…بچوں کی تربیت کے لیے اچھی تعلیم اور صحت کے لیے والدین بچوں کو وقت دیں۔ ٭… فخر جتانا‘ دوسروں کو کمتر سمجھنا وہ خرابیاں ہیں جو گھروں‘ خاندان کو پریشانی میں مبتلا کردیتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت بچوں کی ہی ضرورت نہیں والدین کی بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ فخر جتانے‘ دوسروں کو نیچا دکھانے کے جذبے سے جب اسکول کو منتخب کیا جائے گا بچے داخل ہوں گے۔ بچوں کی اسکول کی فیس Statusکی علامت ہوگی۔ اسی بنیادپر اسکول بھی بنائے جائیں گے۔ تو نتیجہ مثبت برآمد نہیں ہوگا۔ دنیا میں کہیں بھی کیکر کے بیج لگا کر آم کی فصل کی امید رکھنے والوں کو عقل مند نہیں کہا جاتا۔ بچوں کو اچھی تعلیم تر بیت کی مثال ہمیں مدینہ کے معاشرے سے ملتی ہے۔ ہم بھی اگر مقابلے کے رجحان‘ ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے کے رجحان اور انسانوں کو برابر سمجھنے اور سب کو قابل عزت سمجھنے کے انداز کو اپنائیں اور اپنے بچوں کو اسی انداز میں تعلیم و تربیت کریں تو معاشرے میں مثبت تبدیل آئے گی۔ مگر خاندان معاشرے میں امن چین اور سکون آئے گا۔ |
No comments:
Post a Comment