قربِ قیامت کی نشانیاں
کیا یہ وقت آ چکا ہے ؟
احادیث میں قیامت سے پہلے بڑی جنگوں کی پیش گوئی کی گئی ہے
ڈاکٹر اسرار احمد
مغربی دنیا میں آج یہ بات عام ہو چکی ہے نوع انسانی اپنے آخری دور میں جی رہی ہے ۔ایسی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں یہ بات کہی جا رہی ہے ۔جیسے فوکویاما کی بہت مشہور کتاب ” End of History“ ہے۔ اس کتاب کا تعلق اس وقت کے دنیا کے حالات سے ہے پھر 1974ءمیں کتاب End of Philosophyآئی ‘ جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ فلسفہ ختم ہو گیا ۔1988ءمیں کتاب End of Ideologyآئی یعنی نظریات کا دور ختم ہوا ۔1990میں کتاب End of Natureآئی ۔1991ءمیں کتاب End of Modernityسامنے آئی جس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ آج کل لوگوں کے ذہنوں پہ جس جدیدیت کا تصور سوار ہے، وہ اب ختم ہو رہی ہے ۔1994ءمیں کتاب End of Physicsآئی ۔1995ءمیں End of Education،1996ءمیں End of Science،End of Religion،End of Worldاور End of Economics،1997ءمیں End of InfluencesاورEnd of Continuity Lifeنامی کتابیں آئیں۔اسی دور میں عابد اللہ جان نے End of Democracyکے نام سے کتاب لکھی ۔آج کے موضوع سے متعلق ان کی کتاب Afghanistan,the Genesis of last Crusadeہے ۔جس میں بتایا گیا ہے کہ جنگ افغانستان درحقیقت آخری صلیبی جنگ کا نقطہ آغاز ہے ۔یہ کتابیں تو مغربی دنیا کے حوالے سے ہیں ۔ہندوو ¿ں کے ہاں بھی دنیا کے مختلف ادوار شمار ہوتے ہیں ۔ان کے مطابق بھی یہ آخری دور ہے جس سے نوع انسانی گزر رہی ہے ۔ہمارے ہاں بھی احادیث مبارکہ میں آخری چار ابواب آتے ہیں جو انہی حالات کے بارے میں ہیں ۔یہ ابواب ہیں :کتاب الفتن‘ کتاب الملاحم‘ کتاب اشراط الساعہ اور کتاب علامات القیامتہ ۔ہمارے ہاں لوگوں کو عام طور پر پیش گوئیوں کے حوالے سے الرجی سی ہے ۔خاص طور پر حدیث کے حوالے سے سر سید احمد خان مرحوم سے جو ایک سلسلہ شروع ہوا تھا اب وہ انکار حدیث کی صورت میں بہت بڑا فتنہ بن چکا ہے ۔اس فتنے کے اثرات وسیع حلقے میں پھیلے ہیں ۔اس فتنے سے متاثر ہونے والوں میں ایک تو وہ لوگ ہیں جو منکر حدیث ہو گئے ۔وہ صرف قرآن کو شریعت کا ماخذ سمجھتے ہیں ،سنت کو حجت، تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ۔شریعت کی دو بنیادی اساسات کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ان میں سے کسی ایک کی نفی اسلام کی نفی ہے ۔دوسرے وہ لوگ ہیں جو جدید تعلیم یافتہ طبقے میں شمار ہوتے ہیں ۔ان لوگوں میں حدیث رسول ﷺ کی طرف سے بے اعتنائی کا انداز ہے ۔پیش گوئیوں سے یہ بے توجہی برتتے ہیں حالانکہ یہ بہت بڑی محرومی ہے ۔پیش گوئی تو مذہب کی جڑ اور بنیاد ہے ۔آخر یہ بھی تو پیش گوئی ہے کہ قیامت واقع ہو گی ۔اس کے یہ حالات و واقعات ہوں گے ۔پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑیں گے ۔تم دیکھتے ہو کہ وہ جامد ہیں ،اس دن وہ ایسے چلیں گے جیسے بادل چلتے ہیں ۔انسان پتنگوں کی مانند ہو جائیں گے ،بہت بڑا زلزلہ آئے گا ،زمین کانپے گی ،تم مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جاو ¿ گے ،حساب کتاب اور اس کے بعد جنت دوزخ کے فیصلے ہوں گے ،یہ سب پیش گوئیاں ہی تو ہیں ، ہماری نگاہوں کے سامنے کے معاملات تو نہیں ہیں ۔
قرآن مجید میں پیش گوئی کی ایک مثال موجود ہے ۔سورة الروم میں ایک عظیم پیش گوئی کی گئی :”رومی مغلوب ہو گئے قریب کی سر زمین میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گے ۔“
یہاں قریب کی سر زمین سے مراد شام اور عراق ہیں جو جزیرہ نمائے عرب سے ملحق ہیں ۔وہاں 614ءمیں ہر قل اعظم نے ایرانیوں سے شکست کھائی ،یہ وہ وقت تھا جبکہ حضور اکرم ﷺ پر وحی کے نزول کو چار سال ہوئے تھے ۔عام طور سمجھا جاتا تھا کہ رومی تو عیسائی ہیں ۔ان کا ذکر تو قرآن کریم میں ہے ۔گویا وہ اہل ایمان سے قریب تر ہیں ۔ایرانی چونکہ آتش پرست تھے لہٰذا وہ مشرکین سے قریب تر تھے ۔مکہ کے قریشی سرداروں نے رومیوں کی شکست پر بغلیں بجائیں کہ مسلمانو!دیکھو تمہارے ساتھی مار کھا گئے اور ہمارے ہم خیال لوگوں کو فتح ہو گئی ۔قرآن کریم نے پیش گوئی کی کہ اگرچہ رومی مغلوب ہو گئے ہیں لیکن وہ عنقریب دوبارہ غالب آئیں گے ۔قرآن حکیم کی اس پیش گوئی کے عین مطابق 622ءمیں ایرانیوں کو دوبارہ شکست ہوئی اور ہر قل اعظم نے بہت بڑی فتح حاصل کی ۔اس پیش گوئی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس دن اہل ایمان کو بھی بہت خوشی ہو گی ۔ایسا ہی ہوا، کیونکہ اسی دن غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔
کتاب الملاحم سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے قریب بڑی بڑی جنگیں ہوں گی ۔ان جنگوں کے دو ادوار ہوں گے۔ پہلے دور میں مسلمانوں کو زبردست ہزیمت ہو گی ۔پورا مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا لیکن کچھ عرصہ بعد پانسا پلٹے گا اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہونا شروع ہو جائیگی اور ان کا غلبہ ہو جائیگا ۔
احادیث مبارکہ میں آخری دور کے جو واقعات آئے ہیں ان میں ترتیب قائم کرنا مشکل ہے کہ کب کیا ہو گا ۔ان واقعات پر تو ہمارا یقین ہے کہ ایسا ہو گا کہ ان کی خبر حضور اکرم ﷺ الصادق المصدوق نے دی ہے ۔آپ ﷺ کی سچائی پر تو اللہ گواہ ہے لیکن یہ کہ کون سا واقعہ پہلے ہو گا اور کون سا اس کے بعد ہو گا ،یہ احادیث کی کتابوں سے معلوم نہیں ہوتا ۔اس ضمن میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فرزند شاہ رفیع الدینؒ نے ایک کتاب ”علامات قیامت‘’ لکھی تھی ۔اس میں جنگوں کا سلسلہ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے یہ جنگ ہو گی ،پھر یہ ہو گی وغیرہ ۔ممکن ہے انہیں کچھ معلومات کشف کے ذریعے حاصل ہوئی ہوں پھر بھی یقین سے یہ ترتیب نہیں بتا سکتے ۔مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ”بہشتی زیور“ عوامی تصنیف ہے ۔اس میں جنگوں کے بارے میں بیانات موجود ہیں جو مولانا شاہ رفیع الدینؒ کی کتاب سے لئے گئے ہیں ۔
آخری دور کی جنگوں کے پہلے دور کے بارے میں فرمایا گیا کہ عربوں کیلئے بڑی ہلاکت ہے ،اس شر کی وجہ سے جو قریب آ چکا ہے ۔ایک موقع پر حضر اُم سلمیٰ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ جب یہ ہو رہا ہو گا تو عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عرب بہت کم رہ جائیں گے ۔معلوم ہوا کہ عربوں کیلئے جنگ کا پہلا دور بہت تباہ کن ہے ۔حدیث رسول اکرم ﷺ کے مطابق اُمت میں سب سے بڑا فتنہ مال ہے اور یہ فتنہ مسلمانوں میں سب سے بڑھ کر عربوں میں ہیں ۔عربوں کی عیاشیاں اور ان کے گلچھرے ہر آمی ملاحظہ کر سکتا ہے ۔سعودی عرب جو عرب ممالک میں بنیاد پرست ملک شمار ہوتا تھا اب وہاں مخلوط تعلیم کیلئے یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے ۔مخلوط تعلیم پر جب ایک عالم دین نے احتجاج کیا تو انہیں فوراً وہاں سے نکال دیا گیا ۔اسی طرح پہلے یہ ہوتا تھا کہ عوامی مارکیٹوں میں بے پردہ خواتین کو روکا جاتا تھا لیکن اب نہیں ۔اسی طرح وہاں اب کوئی پوچھنے والا نہیں کہ لوگ نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے ۔ایک مشہور حدیث مبارکہ جو حدیث جبرئیل کے نام سے موسوم ہے ،اس میں آپ ﷺ نے قربِ قیامت کی دو علامات بتائیں ۔پہلی علامت یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی ۔اس کا کیا مطلب ہے ؟بیٹیاں اتنی سر کش ہو جائیں گی گویا کہ وہ ماو ¿ں پر حاکم ہوں ۔ پھر فرمایا کہ تم دیکھوگے کہ وہ لوگ جو بھوکے ننگے تھے وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں مقابلہ کریں گے ۔آپ دیکھ لیں ،دوبئی میں سیون سٹار ہوٹلز موجود ہیں ۔حال ہی میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج الدوبئی کا افتتاح ہوا ہے ۔اب سعودی عرب میں اس سے بھی اونچی عمارت بنائی جائے گی ۔
ملحمہ جنگ کو کہتے ہیں ۔ایک تو جنگ ہوتی ہے اور ایک لڑائی ۔جیسے پہلی جنگ عظیم جو کئی سال چلی ہے اس میں مستقل کئی لڑائیاں ہوئی ہیں ۔آخری زمانے میں جو جنگیں یعنی ملاحم ہونی ہیں ان میں ہونے والی لڑائیاں بہت اہم ہوں گی ۔حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ایک روایت میں حضور ﷺ نے پہلے دور کی ایک جنگ کو ”الملحمة العظمیٰ“ قرار دیا یعنی سب سے بڑی جنگ ۔اس حدیث میں آپ ﷺ نے مزید فرمایا : مسلمانو! عیسائی 80 علم لے کر تم پر حملہ آور ہوں گے اور ہر علم کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی ۔اس جنگ کی خبر بائبل میں بھی ہے ۔عہد نامہ جدید کا آخری باب Revelation of St. Johnہے ۔اس میں یوحنا کی پیش گوئیاں ہیں ۔اس باب میں ایک بڑی جنگ کا تذکرہ ہے ،جس کا نام” آرمیگاڈان“ ہے ۔اگر آپ ڈکشنری میں آرمیگا ڈان کے بارے میں معلوم کریں گے تو اس کے بارے میں یہ الفاظ ملیں گے :
"A big war which will be fought between the forces of evil and good before the end of this world".
حضرت عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ عزوہ تبوک کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ ﷺ نے فرمایا :”اے عوف ،یاد رکھو قیامت سے قبل چھ باتیں ہوں گی ۔ایک میرااس دنیا سے جانا ۔(فرماتے ہیں یہ سن کے مجھے رنج ہوا ۔) اس کے بعد دوسری نشانی بیت المقدس کا (مسلمانوں کے ہاتھوں) فتح ہونا ۔سوم ایک بیماری تم پر ظاہر ہو گی جس کی وجہ سے تمہیں اور تمہاری اولادوں کو اللہ تعالیٰ شہادت سے سرفراز فرمائیں گے اور تمہارے اعمال کو پاک صاف کریں گے ۔چہارم تمہارے پاس مال و دولت خوب ہو گا حتیٰ کہ سائل کو سو اشرفیاں دی جائیں گی پھر بھی وہ ناراض ہو گا ۔پنجم تمہارے درمیان ایک فتنہ ہو گا جو ہر مسلمان کے گھر میں داخل ہو گا ۔ششم تم میں اور رومیوں میں صلح ہو گی پھر رومی تم سے دغا کریں گے اور اسی جھنڈوں تلے اپنے فوج لے کر تمہارے طرف آئیں گے ۔ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوجی ہوں گے ۔“
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قیامت قائم ہونے سے پہلے چھ باتوں کے پیش آنے کا تذکرہ فرمایا ۔پہلی بات آپ ﷺ کی رحلت ،دوسری بیت المقدس کی فتح ،تیسری ایک خاص بیماری ہے ۔اس کے بعد آپ ﷺ نے دولت اور مالداری کے فتنے کا ذکر فرمایا کہ دولت کی اتنی بہتات ہو گی کہ کسی سائل کو سو دینار بھی دئیے جائیں تو وہ ناراضی کا اظہار کرے گا ۔یہ نقشہ آج آپ عرب ممالک میں جا کر دیکھ سکتے ہیں ،جہاں دولت پانی کی طرح بہتی ہے ۔مزید فرمایا کہ پھر ایک ایسا فتنہ آئیگا کہ کوئی گھر نہیں بچے گا جس میں وہ داخل نہ ہو ۔آج یہ فتنہ ٹی وی اور مغربی تہذیب کے ذریعے آچکا ہے ۔تھوڑا سا پردہ ہوتا ہے جو خواتین گھر سے باہر نکلتے وقت عبا کی شکل میں لے لیتی ہیں ،اب وہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے ۔اب تو امریکی سٹائل کے نئے شہر آباد کئے جا رہے ہیں پھر ایک صلح کا دور آئیگا ۔یہ وہ دور ہے جو آج گزر ہا ہے ۔آج امریکہ اور عالم عرب میں صلح ہے ۔خلیج کی تمام امارات امریکہ کے سہارے کھڑی ہیں ۔اس پورے علاقے کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکہ کے بڑے بڑے اڈے وہاں موجود ہیں ۔
٭٭٭
قرآن مجید میں پیش گوئی کی ایک مثال موجود ہے ۔سورة الروم میں ایک عظیم پیش گوئی کی گئی :”رومی مغلوب ہو گئے قریب کی سر زمین میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گے ۔“
یہاں قریب کی سر زمین سے مراد شام اور عراق ہیں جو جزیرہ نمائے عرب سے ملحق ہیں ۔وہاں 614ءمیں ہر قل اعظم نے ایرانیوں سے شکست کھائی ،یہ وہ وقت تھا جبکہ حضور اکرم ﷺ پر وحی کے نزول کو چار سال ہوئے تھے ۔عام طور سمجھا جاتا تھا کہ رومی تو عیسائی ہیں ۔ان کا ذکر تو قرآن کریم میں ہے ۔گویا وہ اہل ایمان سے قریب تر ہیں ۔ایرانی چونکہ آتش پرست تھے لہٰذا وہ مشرکین سے قریب تر تھے ۔مکہ کے قریشی سرداروں نے رومیوں کی شکست پر بغلیں بجائیں کہ مسلمانو!دیکھو تمہارے ساتھی مار کھا گئے اور ہمارے ہم خیال لوگوں کو فتح ہو گئی ۔قرآن کریم نے پیش گوئی کی کہ اگرچہ رومی مغلوب ہو گئے ہیں لیکن وہ عنقریب دوبارہ غالب آئیں گے ۔قرآن حکیم کی اس پیش گوئی کے عین مطابق 622ءمیں ایرانیوں کو دوبارہ شکست ہوئی اور ہر قل اعظم نے بہت بڑی فتح حاصل کی ۔اس پیش گوئی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس دن اہل ایمان کو بھی بہت خوشی ہو گی ۔ایسا ہی ہوا، کیونکہ اسی دن غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔
کتاب الملاحم سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے قریب بڑی بڑی جنگیں ہوں گی ۔ان جنگوں کے دو ادوار ہوں گے۔ پہلے دور میں مسلمانوں کو زبردست ہزیمت ہو گی ۔پورا مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا لیکن کچھ عرصہ بعد پانسا پلٹے گا اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہونا شروع ہو جائیگی اور ان کا غلبہ ہو جائیگا ۔
احادیث مبارکہ میں آخری دور کے جو واقعات آئے ہیں ان میں ترتیب قائم کرنا مشکل ہے کہ کب کیا ہو گا ۔ان واقعات پر تو ہمارا یقین ہے کہ ایسا ہو گا کہ ان کی خبر حضور اکرم ﷺ الصادق المصدوق نے دی ہے ۔آپ ﷺ کی سچائی پر تو اللہ گواہ ہے لیکن یہ کہ کون سا واقعہ پہلے ہو گا اور کون سا اس کے بعد ہو گا ،یہ احادیث کی کتابوں سے معلوم نہیں ہوتا ۔اس ضمن میں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فرزند شاہ رفیع الدینؒ نے ایک کتاب ”علامات قیامت‘’ لکھی تھی ۔اس میں جنگوں کا سلسلہ بیان کیا گیا ہے کہ پہلے یہ جنگ ہو گی ،پھر یہ ہو گی وغیرہ ۔ممکن ہے انہیں کچھ معلومات کشف کے ذریعے حاصل ہوئی ہوں پھر بھی یقین سے یہ ترتیب نہیں بتا سکتے ۔مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب ”بہشتی زیور“ عوامی تصنیف ہے ۔اس میں جنگوں کے بارے میں بیانات موجود ہیں جو مولانا شاہ رفیع الدینؒ کی کتاب سے لئے گئے ہیں ۔
آخری دور کی جنگوں کے پہلے دور کے بارے میں فرمایا گیا کہ عربوں کیلئے بڑی ہلاکت ہے ،اس شر کی وجہ سے جو قریب آ چکا ہے ۔ایک موقع پر حضر اُم سلمیٰ ؓ نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ جب یہ ہو رہا ہو گا تو عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عرب بہت کم رہ جائیں گے ۔معلوم ہوا کہ عربوں کیلئے جنگ کا پہلا دور بہت تباہ کن ہے ۔حدیث رسول اکرم ﷺ کے مطابق اُمت میں سب سے بڑا فتنہ مال ہے اور یہ فتنہ مسلمانوں میں سب سے بڑھ کر عربوں میں ہیں ۔عربوں کی عیاشیاں اور ان کے گلچھرے ہر آمی ملاحظہ کر سکتا ہے ۔سعودی عرب جو عرب ممالک میں بنیاد پرست ملک شمار ہوتا تھا اب وہاں مخلوط تعلیم کیلئے یونیورسٹی قائم ہو رہی ہے ۔مخلوط تعلیم پر جب ایک عالم دین نے احتجاج کیا تو انہیں فوراً وہاں سے نکال دیا گیا ۔اسی طرح پہلے یہ ہوتا تھا کہ عوامی مارکیٹوں میں بے پردہ خواتین کو روکا جاتا تھا لیکن اب نہیں ۔اسی طرح وہاں اب کوئی پوچھنے والا نہیں کہ لوگ نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے ۔ایک مشہور حدیث مبارکہ جو حدیث جبرئیل کے نام سے موسوم ہے ،اس میں آپ ﷺ نے قربِ قیامت کی دو علامات بتائیں ۔پہلی علامت یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی ۔اس کا کیا مطلب ہے ؟بیٹیاں اتنی سر کش ہو جائیں گی گویا کہ وہ ماو ¿ں پر حاکم ہوں ۔ پھر فرمایا کہ تم دیکھوگے کہ وہ لوگ جو بھوکے ننگے تھے وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں مقابلہ کریں گے ۔آپ دیکھ لیں ،دوبئی میں سیون سٹار ہوٹلز موجود ہیں ۔حال ہی میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج الدوبئی کا افتتاح ہوا ہے ۔اب سعودی عرب میں اس سے بھی اونچی عمارت بنائی جائے گی ۔
ملحمہ جنگ کو کہتے ہیں ۔ایک تو جنگ ہوتی ہے اور ایک لڑائی ۔جیسے پہلی جنگ عظیم جو کئی سال چلی ہے اس میں مستقل کئی لڑائیاں ہوئی ہیں ۔آخری زمانے میں جو جنگیں یعنی ملاحم ہونی ہیں ان میں ہونے والی لڑائیاں بہت اہم ہوں گی ۔حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ایک روایت میں حضور ﷺ نے پہلے دور کی ایک جنگ کو ”الملحمة العظمیٰ“ قرار دیا یعنی سب سے بڑی جنگ ۔اس حدیث میں آپ ﷺ نے مزید فرمایا : مسلمانو! عیسائی 80 علم لے کر تم پر حملہ آور ہوں گے اور ہر علم کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی ۔اس جنگ کی خبر بائبل میں بھی ہے ۔عہد نامہ جدید کا آخری باب Revelation of St. Johnہے ۔اس میں یوحنا کی پیش گوئیاں ہیں ۔اس باب میں ایک بڑی جنگ کا تذکرہ ہے ،جس کا نام” آرمیگاڈان“ ہے ۔اگر آپ ڈکشنری میں آرمیگا ڈان کے بارے میں معلوم کریں گے تو اس کے بارے میں یہ الفاظ ملیں گے :
"A big war which will be fought between the forces of evil and good before the end of this world".
حضرت عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ عزوہ تبوک کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ ﷺ نے فرمایا :”اے عوف ،یاد رکھو قیامت سے قبل چھ باتیں ہوں گی ۔ایک میرااس دنیا سے جانا ۔(فرماتے ہیں یہ سن کے مجھے رنج ہوا ۔) اس کے بعد دوسری نشانی بیت المقدس کا (مسلمانوں کے ہاتھوں) فتح ہونا ۔سوم ایک بیماری تم پر ظاہر ہو گی جس کی وجہ سے تمہیں اور تمہاری اولادوں کو اللہ تعالیٰ شہادت سے سرفراز فرمائیں گے اور تمہارے اعمال کو پاک صاف کریں گے ۔چہارم تمہارے پاس مال و دولت خوب ہو گا حتیٰ کہ سائل کو سو اشرفیاں دی جائیں گی پھر بھی وہ ناراض ہو گا ۔پنجم تمہارے درمیان ایک فتنہ ہو گا جو ہر مسلمان کے گھر میں داخل ہو گا ۔ششم تم میں اور رومیوں میں صلح ہو گی پھر رومی تم سے دغا کریں گے اور اسی جھنڈوں تلے اپنے فوج لے کر تمہارے طرف آئیں گے ۔ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوجی ہوں گے ۔“
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قیامت قائم ہونے سے پہلے چھ باتوں کے پیش آنے کا تذکرہ فرمایا ۔پہلی بات آپ ﷺ کی رحلت ،دوسری بیت المقدس کی فتح ،تیسری ایک خاص بیماری ہے ۔اس کے بعد آپ ﷺ نے دولت اور مالداری کے فتنے کا ذکر فرمایا کہ دولت کی اتنی بہتات ہو گی کہ کسی سائل کو سو دینار بھی دئیے جائیں تو وہ ناراضی کا اظہار کرے گا ۔یہ نقشہ آج آپ عرب ممالک میں جا کر دیکھ سکتے ہیں ،جہاں دولت پانی کی طرح بہتی ہے ۔مزید فرمایا کہ پھر ایک ایسا فتنہ آئیگا کہ کوئی گھر نہیں بچے گا جس میں وہ داخل نہ ہو ۔آج یہ فتنہ ٹی وی اور مغربی تہذیب کے ذریعے آچکا ہے ۔تھوڑا سا پردہ ہوتا ہے جو خواتین گھر سے باہر نکلتے وقت عبا کی شکل میں لے لیتی ہیں ،اب وہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے ۔اب تو امریکی سٹائل کے نئے شہر آباد کئے جا رہے ہیں پھر ایک صلح کا دور آئیگا ۔یہ وہ دور ہے جو آج گزر ہا ہے ۔آج امریکہ اور عالم عرب میں صلح ہے ۔خلیج کی تمام امارات امریکہ کے سہارے کھڑی ہیں ۔اس پورے علاقے کو کنٹرول کرنے کیلئے امریکہ کے بڑے بڑے اڈے وہاں موجود ہیں ۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment