Search This Blog

Thursday 9 August 2012

AB BURMI MUSALMAN LAHOOLAHAN

اب بر می مسلمان لہو لہا ں
خو ں کی ندیا ں کتنی صدیا ں ما نگتیں؟

برما میں مسلم قوم کا قتل وخو ں جا ری ہے ۔ وہا ں کے ان بے نو ا شہر یو ں کا خو ں کیو ں اس قدر مباح کیو ں ہے ؟ ان کو بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ تکا بو ٹی کر نے کے پیچھے اکثریتی بودھ آ با دی کے مکروہ عزایم کیا ہیں ؟ یہ سارا طوفا نِ بد تمیزی دیکھ کر عالمی برادری کہلا نے والی خفتہ ضمیر ملکوں اور قومو ں کے کا ن پر جوں تک کیو ں نہیں رینگتی؟ دُنیا کو جمہوریت، امن، بقائے باہم ، حقو ق البشر، روشن خیالی اور نیو ورلڈ آ رڈر کے سنہر ے سپنے دکھا نے والے رنگے سیاربرما کی اس سنگین صورتحال پر لب بستہ کیو ں ہیں؟ ان سوالا ت سے زیادہ تکلیف دہ، اذیت ناک اور تیکھا سوال یہ ہے کہ بر می مسلما نو ں پر بودھوں کی اس ظلم وبربریت کے خلا ف مسلم ممالک کے حکمران دکھا وے کی ہمددری تک شو کر نے کی تو فیق سے کیو ں تہی دامن رہے؟ اس اہم سوال کا جو اب تلا ش کرنے کے لئے ہمیں ایک وسیع الجہت کنو اس پر اپنے اندر کے تلاطم اور جذباتی ہیجا ن کو پھیلا نا ہو گا ۔    
تاریخ عالم کا یہ ازلی فتویٰ ہے کہ زوال پذیز ملتیں اوراقوام آخر مٹ جاتی ہیںاور تاریخ کے اوراق پریشاں میں محض اس لئے کبھی کبھی زیر تذ کرہ رہتی ہیں تا کہ دوسری اقوام کے لئے وہ عبرت کے تازیانہ بنے رہیں اور وہ ان کی تقلید سے باز آ کر اپنی عاقبت سنوارنے میں کو ئی بھو ل چوک نہ کر یں ۔ قومو ں کے عروج وزوال کے اس چکر ویو کے کھو نٹے سے پو ری تا ریخ انسانی بندھی ہوئی ہے۔ تاریخ یہ بھی گواہی دیتی ہے کہ جب بھی کوئی قوم جر یدہ ٔ عالم کے اوراق گم گشتہ میں اس حیثیت سے یاد کی جاتی ہے تو مباحث کا مر کزی نکتہ سے اس کے اسباب ِ زوال کی وجوہات پر مر تکز رہتا ہے۔ قانون قدرت یہی ہے کہ سورج اسی آنگن میں چمکتا ہے اور تہذیب و تمدن کی شان اور دبدبہ اسی قوم کے ماتھ کا جوجھو مر بنتا ہے جس کے پاس صالحیت وصلا حیت کی ناقاب تسخیر قوت ہوتی ہے، جو معاشی ، زرعی ،سائنسی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اس قدر غالب ہو کہ زمانہ اس کے اشارے پہ اُٹھک بیٹھک کر ے اور اس کی ہر اچھی بر ی بات میں وزن ہو نے کا اقرار کیا جا ئے ۔ اس تمہید کو ملحو ظ نظر رکھتے ہو ئے ذرا قیاس کے گھو ڑے دوڑا کر اندازہ لگا ئیں کہ کیا زمانہ رہاہوگا جب ایک مسلم عورت قید ہوکر ایک چھوٹے سے کاغذ کے پرزے پر صرف اتنا لکھتی ہے کہ امیرالمومنین ! آپ کی ایک بہن بے بسی کے عالم میں ہندو راجہ کی قید وبند میں ہے اور آپ اپنے محل میں آرام فرما ہیں۔ اس تحریری فریاد کا پڑ ھنا تھا کہ وقت کی عظیم الشان سلطنت کا رئیس وامیرتڑپ اُٹھتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنے کا مصمم ارادہ با ندھ لیتا ہے جب تک اس مظلو مہ کو ظالم وقاہر کی چنگل سے نہ چھڑا لیں۔اس واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ کچھ مسلمان سوداگر سراندیپ( آ ج کل کا سری لنکا) میں بہ حالت سفر فوت ہوئے تھے اوروہا ںکے راجہ نے موقع غنیمت جان کر خلیفہ ولید بن عبدالملک اور حجاج کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ان یتیم بچوں اور بیوا ؤں کو عزت و احترام کے ساتھ تحفے تحائف دے کر اپنی بندرگاہ سے روانہ کیا مگر بادِ مخالف نے ان کشتیوں کو بد قسمتی سے سندھ کی بندرگاہ پر دھکیلا جہاں راجہ داہر نے ان کشتیوں کو نہ صر ف لوٹا بلکہ مالِ مسروقہ سمجھ کر ان بے بس مسلم بچوں اور عورتوں کو قید کیا۔ اُدھر ان لٹے پٹے مسلما نو ں کا یہ حشر ہو تا ہے ادھریہ آواز نالہ و فریاد  بن کر یوسف بن حجاج کے گو ش سما عت تک پہنچ کر اس کی راتوں کی نیند اڑانے کا مو جب بنتی ہے اور ان میں قلبی اضطراب پیدا کرنے کی باعث بنتی ہے ۔ یوسف بن حجاج ایک محبوس مسلما ن عورت کو جیل وزندان سے چھڑانے کے لئے جہاد کا اعلان کرتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں صرف پانچ ہزار سر فرو شوں کا لشکر لے کر جواں سال محمد بن قاسم نہ صرف اس مسلم محبوس کارواں کو ظالم ہندو راجہ کی قید سے رہائی دلاتا ہے بلکہ سندھ اور ملتان کو فتح کرکے ساری دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی مسلم اپنے دوسر ے ہم عقیدہ بھائی کا سی طرح پشت پناہ اور نگران ہے کہ ان کو جسد واحدہ کہا گیا ہے، لہٰذا کوئی مسلما ن تن تنہا نہیں، نہ وہ اغیار کے لئے نرم نوالہ اور مال مسروقہ ہے ، نہ اس کا خوں ارزاں ہے ،نہ وہ بے یارو مدد گار ہے، نہ اسے بلا وجہ قید کیا جاسکتا ہے اور نہ اس پر شان بے نیا زی کے ساتھ ظلم وجبر کے پہاڑ توڑے جاسکتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ اس دور ِزرّیں میںمسلم دنیا میں اخلا ق اورانسانیت ، ہمدردی اور اخوت ، پا مردی اور غیرت اور اس کے بین بین وقت کے حالات اور فضا کے مطا بق امت مسلمہ میں جدید سے جدید تر ساما ن حر ب وضرب مہیا تھا۔ اس کلمہ خوانو ں کے اس سنہر ی جہا ں میں ہر مسلمان کے اندر اتنی بے پناہ اور نا قابل شکست ایما نی قوت بدرجۂ اتم موجودتھی کہ وہ یکہ و تنہا اللہ کے بھر وسے پر کسی بھی دشمن ملک یا حریف فوج کے دانت کھٹے کر تے ہو ئے بزور بازو عدل وانصاف کی جو ت جگاکر ہی دم لیتا ۔ اتنا ہی نہیں کہ وہ مظلو م کی دارسی اور ظالم کے استیصال کے لئے جان جوکھم میں ڈال دیتا اور حق کا بو ل با لا کر نے اور ظلم وتشدد کا سر نیچا کر نے میں کو ئی بھی قربا نی دینے کو ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ مسلم پاور اور طاغوتی طاقت میں یہی جو ہر ی فرق واضح طور مو جو د ہے کہ اسلامی قوت عدل وانصاف ، حقیقی بھا ئی چارہ اور امن واتحادقائم کرتی ہے اور طاغوتی قوتیں جب بھی غالب ہوتی ہیں تو اولین فر صت میں عدل وانصاف کا خو ن کر کے فتح کا جشن منا تی ہیں چاہے اس کے لئے اسے اپنو ں اور غیروں کو خوں کے سمندر وں مین ڈبو نا پڑ ے ۔
 تاریخ شاہد عادل ہے کہ محمد بن قاسمؒ ایک سترہ سالہ نوجو ان سپہ سالار نے یوسف بن حجا ج کے حکم پرایک مظلو م مسلم خا تو ن کی زندگی اور حرمت بچا نے کے لئے ہندوستان پر فوج کشی کی اور بدلے میں جہاں سارے مغربی ہندوستان کو فتح کیا وہاں مسلما نا نہ اخلا قیا ت کا پر چم یہا ں لہرا کر ساری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کسی بھی مسلم کی جا ن اورعزت بچا نے کے لئے مسلما ن اجتما عی طور سب کچھ داؤ پر لگا سکتے ہیں اور یہ کہ کسی بھی مسلمان کا خون ارزاں نہیں۔ اندازہ کیجئے کہ آج برما میںمسلما نو ں کے لئے نا مساعد حالات اور قاتلا نہ ہو اؤ ں کے جھکڑ چل رہے ہیں اور مسلما نانِ عالم ٹس سے مس نہیں ہو رہے اوروہ وقت کیا رہا ہو گا کہ مسلمان اپنی مو رو ثی بیدار ضمیری کی شان لئے با طل سے بے خوف ہو کر ٹکرائے اور صداقت کا جھنڈا لہراکر دم لیا۔ اس حیا ت بخش فضا میں ضمیر اور قلب ونظر میں حمیت و غیرت کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے کتنے سمندر موجزن رہے ہوں گے جب کسی بھی فریاد ی کی ندا وقت کے امیر کا سکون ِقلب چھین کر اسے شاندا ر محل میںنرم وگداز بستر خا ر زارمحسوس کراتی۔ اس کے مقابلے میں یہ بات کتنی رنجیدہ کر نے والی ہے کہ پچھلی چار پانچ دہائیوں سے جتنا خون مسلم دنیا کے مختلف ممالک اور خود مسلم ممالک میں بہایا جاچکا ہے وہ اس سے بہت زیادہ  ہے جتنا کہ تمام جنگ عظیموں میں بہا ہوگا اور آ ج کا دن ہے کہ اس خون کا نہ تو کوئی حساب لینے والا ہے اور نہ ہی حساب دینے والا ہے ، یہ خون سب پہ حلال قرار دیا جا چکا ہے ، چا ہے وہ اسرائیل کا سرطا ن ہو ، امریکہ کا خم خا نۂ غرور ہو ،  برطانیہ کے مسلم فو بیا کی بے خو ابی ہو ، نا ٹو کاصلیبی جنوں ہو ، بر ما کے فوجی حکمرانو ں اور لاماؤں میںبدروحون کا حلول ہویا بھارت کی اقلیت دشمنی کا خمارہو… ان سب جان لیوابیما ریو ں کا سرچشمہ مسلم بیزاری کے فرقہ پرستانہ جذبات کے  بطن سے پھو ٹتا ہے ۔ لہٰذا مسلما ن ان کے ہا تھو ں مختلف عنوانات سے تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں۔   
 میں یہا ں مسلما نو ں کے زوال وپستی کے اسباب پر بات نہیں کروںگا۔ یہ تاریخ دانوں کا کام ہے مگر ایک اہم بات جو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کی جا سکتی وہ یہ ہے کہ مسلم امت میں اس وقت عملی طور دو طبقے ہیں: ایک وہ جو مسلم ممالک میں اقتدار میں رہتے ہوئے بھی کفر و الحاد اور امریکی و اسرائیلی ظالما نہ خاکوں میں رنگ بھرنے کے صلّے میں اقتدار میں ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے کوئی سر حد اورجغرافیائی لکیر نہیں کھینچی جاسکتی ۔ یہ حضرات اسلامی اقدار سے دوربھا گتے ہیں اور اسلام کو اپنا دین قرار دینے میں شرمسار رہتے ہیں بلکہ بسا اوقات اس بات کا اعلان تک کر نے سے انہیں باک محسوس نہیں ہو تی کہ ہم جی اتا تر ک کے شیدائی ہیں یعنی مذہب کو ترک کر کے سیکولر ازم اور جدیدیت کو خدائی کے درجے پر رکھنے کے قائل ہیں …اور ’’ ترقی پسند ‘‘ اتنے کہ کو ئی مسلمان آ با دیوں کو ڈرؤن میزائلوں سے بھو ن ڈالے ، کسی عافیہ صدیقی کو جرم بے گناہی کی پا داش میں اسی سال کی سزا سنا ئے ، کسی گو نتا نا ما بے اور ابو غریب میں قیدیوں کے ساتھ شر مناک اور بدترین سلوک کا تختۂ مشق بنا ئیں یا آ ج کی تا ریخ میں کسی بے بس وبے کس برمی مسلم نو جو ان ، بزرگ ، بچے ، عورت کوگرفتار بلا کر ے اور انہیں زندہ جلا ئے یا گولیو ں ، کلہاڑیو ں اور پتھروں سے بے موت مارے ،تو ان حکمرانو ں میں درد کی وہ ٹیسیں نہ اٹھیں گی جو یو سف بن حجاج کے دل میںپیداہو ئی تھیں بلکہ وہ انسانیت کے کھلے اور چھپے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بھی بڑ ھا ئیں گے اور منافقانہ خا مو شی اختیار کر کے ان کی خوں آ شامیو ں کی خامو ش تائید بھی کر یں گے ۔اس لئے کہ کہ ان کا اقتدار اور چند دنوں کی عیش کوشی کے لئے یہ کرنا ان بزدلو ں کے لئے ازبس ضروری ہے ۔   
مسلما نوں کا دوسرا وہ طبقہ ہے جو ابھی تک آبرو مندانہ زندگی اسلامی شعار کے مطابق اپنی زندگی گذارنے کا جتن کر رہا ہے ۔ اپنے ہی حکمرا نو ں کی طر ف سے پیدا کر دہ نا مساعد اور نا موافق حالات کے باوجود یہ لوگ پوری طرح سے اسلام کو گلے سے لگا ئے ہو ئے ہیں ۔ یہ جبر وقہر کی بارشوں کے با وجود اپنے مزاحمتی جذ بے کو پروان چڑ ھا تے ہو ئے ان ریشہ دوانیو ں کا ڈٹ کر مقابلہ کر تے ہیں جو ان پر مسلط حکمران ان کو بیخ وبن سے اُکھا ڑنے کے لئے حربوںاور ہتھکنڈوں کی صورت میںآ زما تے ہیں۔ ان لو گو ں کو مختلف ممالک میں مختلف رسوائے زمانہ نامو ں سے پکا را جا تا ہے … رجعت پسند ، بنیاد پرست، قدامت پسند ، دقیا نو سی ، تر قی نا آ شنا، انتہا پسند، تنگ نظر ، ملا ئیت کے پر ستار ، جدید یت کے بیزاراور نہ جا نے کن کن القابات سے انہیں یاد کیا جا تا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دل ہی آج برما کے مسلمانوں کی حشر ساما نی پر رو رہے ہیں ، یہی لو گ ان کے ساتھ اظہا ر یکجہتی کے لئے سڑکو ں پر آ کر ان کے حق میں نعرہ بازیا ں کر تے ہیں ، واویلا کر تے ہیں اور مذمتی بیا نات اور قرار دایںجا ری کر کے اپنے جذبات کو اظہار کی زبان عطاکرتے ہیں ۔ سیا سی وحکو متی طا قت سے لیس پہلے طبقے کی جنگ ویسے بھی اس دوسرے طبقے کے ساتھ کئی عشروں سے جاری ہے۔ تصویر کا یہ دونو ںرُخ چشم کشا ہی نہیں بلکہ ملت واحدہ کے تصور کے عین منا فی ہے۔
دوسری جا نب غیر مسلم ورلڈ کو دیکھئے کہ اس نے اپنے سیاسی وسفارتی پاور ، سائنس ٹیکنالوجی اور مادی ترقی کی بنیاد پہ اس بات کا متحد طور گو یا فیصلہ کیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے وجود کو دنیا کے ہر کونے سے  مٹانے کے لئے منضبط اور منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھناہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں رام راجیہ کی چیخ وپکار کرنے والا  فر قہ پر ست پریواری بھی مسلم خون بہانا  پنُیہ کا کا م سمجھتا ہے وہاں بر می بھکشو ،جسے گوتم بدھ جیسے اہنسادادی اوتار نے بنیادی تعلیم یہ دی تھی کہ کسی بھی جاندار کو مارنے سے پرہیز کیا جائے ، خون مسلم بہا کر اپنا دھرم بھر شٹ ہو نے پر ذرہ برابر بھی شر مندگی محسوس نہیں کر تا ہے ، افغانستان میں طالبان نے اپنی حکمرانی کے دوران بامیان علاقے میں پتھر کے تراشے ہوئے مہا تما بدھ کا پہاڑ جیسا بت تو ڑا( جو بہرصورت حالا ت کے تناظر میں ایک غیرضروری اور مذہبی طور اشتعال انگیز کارروائی تھی) تو پو ری دنیا میں ان کے خلاف رائے عامہ منظم ہو ئی کہ اس نے پتھر کے مجسّمے کی توڑ پھوڑ کی، بڑی ہا ہا کار مچی ۔ طالبان کے نزدیک بتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے حکو مت کابل نے بت منہدم کر نے کی اجازت دے کر اپنی دانست میں ان پا بندیو ں کا تو ڑ کر نے کا رقص نیم بسمل کیا تھا جو اُن کے اقتصادی اور معاشی وجود پر کا فی دیر تک ناطقہ تنگ کر چکی تھی ۔ بہر حال آپ کو یاد ہوگا کہ ساری دنیا کا میڈیا طالبان کو کس طرح گدھوں کی طرح نوچ کھانے پر ا مڈآیا تھا، امریکہ سے لے کر اسرائیل اور انڈیا تک تمام ممالک اورقومیںطالبان پر پل پڑے تھے جیسے طالبان نے اس ایک بت کو نہیں بلکہ سارے عالم میں انسانیت کا قتل عام کیا تھا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ تمام دنیا کی ہومن رائٹس انجمنوںاور این جی اوز نے اس کے ردعمل میں آہ وبکا سے آسمان سر پہ اٹھا لیا تھا اور طالبان کے خلاف تمام ممکن پابندیاں لگوائی تھیں مگر اب یہی بودھ بھکشو کھلم کھلا میا نمار کے ارکان مسلما نو ں کو نو چ کھا رہے ہیں، نسلی تطہیر کا بد ترین مظاہرہ ہو رہا ہے، مسلم بستیو ں ، املا ک اور گھرانو ں کا صفایا ہو رہا ہے ۔بچوں ، بوڑھوں،عورتوںپررحم کھا ئے بغیر ان کی چیر پھا ڑ ہو رہی ہے تو کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ،کوئی چیخ وپکار نہیں اور جن دلوں کو پتھر کے مجسّمے کو ریزہ ریزہ ہو نے پردُکھ ہوا تھا، انہیں ہزاروں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں اور نوجوانوں کی نہ تو چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ دریاؤں کی مانند بہتا لہو نظر آتا ہے۔

بھارت میں مسلم کش فسادات ۴۷ء سے متواتر ہوتے رہے ہیں ۔ حال ہی میں آ سام اور اترپردیش میں پھر ایک بار مسلم کش فسادات پھوٹ پڑ ے تھے جن کی بھینٹ چڑ ھ کر بہت سارے مسلما نو ں کو جا ن ومال کا نقصان اُٹھانا پڑا۔ تادمِ تحریرکچھ مسلم کش فسادات اتنے گھناؤنے ،اتنے خوفناک اور اس قدر وحشیانہ پن کے حامل تھے کہ تاریخ کے پنوں پر یہ داستان ظلم وجبر با ضمیر انسانو ں کو خوں کے آنسو رلا تی رہے گی ۔ کو ن سلیم الفطرت انسان بھا گلپور، بھیونڈی، ممبئی اور نریندر مودی کے زیر تسلط گجرات میں بے قصور مسلمانو ں کو تہ تیغ کر نے کی روح فرسا کہانیوں کو فرامو ش کر سکتا ہے؟ اب میانمار کی سڑ کو ں ، گلیو ں ، گاؤں دیہا ت اور شہروں میںچن چن کر مسلما نو ں کو دن دھا ڑے ذبح کر کے اسی داستان میں نئے سیاہ ابواب درج کئے جا رہے ہیں ۔ برما غالب اکثریت بو دھوں کی ہے۔ یہاں مسلمان نویں صدی عیسوی میںاس وقت آئے جب ا سلام کا سورج اپنی پوری آ ب و تاب کے ساتھ عرب ، فارس،یورپ،اور چین میں اپنی لازوال کرنیںبکھیر رہا تھا ۔اسی دور میں امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز ؓ کے صاحبزادے محمد حنفیہ برما وارد ہوئے اور لوگ دین اسلام ( پیغام امن و سلامتی اوراخوت وبرادری) سے متعارف ہوئے۔ اراکان کا خطہ بیس ہزار مربع میل پر محیط ہے اوریہ ایک مسلم مملکت تھی جس پر۱۷۷۴ء میں برما نے قبضہ کیا ۔۱۸۲۴ میںارکان پر برطانیہ نے قبضہ کیا اور ۴۷ء میں انگریزوں نے بھارت کی طرح یہاںسے انخلاء کیا مگر کشمیر ، حیدر آباد اور جونا گڑھ کی طر ح عوام کی خواہشوں اور اُمنگوں کے باوجود ارکان کو خود مختاری نہیں ملی ۔یہ مسلمان ارکان کے قدیم نام کی وجہ سے اپنے آپ کو (روہنگ ) کی نسبت سے روہنگیا کہلواتے ہیں ۔برما کے روہنگیوں کو اکثریتی بو دھوں کی آ مریت وتعصب نے پسماندہ طبقے میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان کم نصیب مسلما نوںکے لئے فوج اور دوسرے سرکاری اداروں کے دروازے بند ہیں ۔ کڑواسچ یہ ہے کہ جس طرح راجندر سچر رپو رٹ نے یہ بات عیاں وبیاں کر کے رکھ دی کہ بھارت کے مسلمان ملک میں زندگی کے ہر شعبے میں دوسرے درجے کے شہری بنائے گئے ہیں ،اس سے کچھ زیادہ ہی برمی مسلما نو ںکوکسی قسم کی سرکاری سہولیات اور مراعات میسر نہیں ۔ یہاں تک کہ اس دورِ جدید میں ان پر موبائیل استعمال کرنے پر قید اور جرمانے کی قد غن عائد ہے ۔ ۱۹۴۲ء میں یہاں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا ، اس کے بعد۱۹۵۰ء میں ان مسلمانوں پر پھر ایک قیامت ڈھائی گئی۔  ۱۹۷۸ء میں برمی فوج نے با ضابطہ طورپھر ایک بار مسلمانوں کے خلاف قاتلا نہ آپریشن شروع کیا اور آناً فاناً ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتارا اور پانچ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو گھروںبے دخل کیا۔ ۱۹۹۱ء میں پھر ایک بار مسلم کش فسادات کرائے گئے ، اس بار مگھوں اور فوج اور پولیس نے مل کر مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یہ با لکل نریندر مودی اور ایہو د براک تخلیق کردہ ہو بہو کہانی ہے جو برما میں آج کل من وعن دہرائی جا رہی ہے ۔ برما میں مسلمانوں پر کسی دہشت گردی کا لیبل نہیں ،ان کے بارے میں یہ بھی الزام نہیں کہ وہاں ایک الگ روہنگیا وطن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور نہ یہ الزام ہے کہ وہ برما کے خلاف کسی سازش میں ملوث ہیں مگر ان سب باتوں کے باوجود یہاں بھی دوسرے ممالک کی طرح وقفے وقفے سے مسلمانوں کا قتل عام اس لئے جائز ومباح ما نا جاتاہے اورآ ثار وقرائن سے لگتا ہے کہ یہ تب تک جائز قرارپائے گا جب تک یہ سر زمین مسلم وجود سے خالی نہیںہوجاتی ہے ۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کو ئی بہانہ بھی ہاتھ آئے ۔ بایں ہمہ حسرت کا مقام ہے کہ برما جو ایک بدھ اکثریتی ریاست ہے میں یہ سب کیو ں کیا جا رہا ہے ؟ بدھ مت ماننے والے عقیدے کے لحاظ سے عدم تشدد کے فلسفے پہ ایما ن رکھتے ہیں ہے ، ایسے میں مسلمانو ں کو جینے کی آزادی کیو ں میسر نہیں؟ یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ آنگ سانگ سوچی جن کو امن کا نوبیل انعام ملا اور جنہیں جمہو ریت اور آ زاد خیا لی کی مثال سمجھا جا تا ہے ، وہ آج مسلم اقلیت کے قتل وانہدام پر کیو نکر اس انداز سے چپ سادھی ہو ئی بیٹھیں ہیں ؟ کیا وہ بھی اذیت پسند طبیعت کی مالکن ہیں کہ خون مسلم سے تسکین کا سامان پا رہی ہیں ؟ کیا اس انہوں نے طرز عمل سے باور کیا جا سکتا ہے کہ جب مسلم کمیو نٹی کی بات آتی ہے تو تمام فلسفے عقیدے صرف ہو ائی قلعے یا ذہنی عیا شی کے قصے بن جا تے ہیں ؟کیاحربی طاقت اور مادی قوت سے مسلمانوں کا ہر پہلو سے قتل عام جاری رکھنے پر اس فتنہ سامان فلسفے کے امام یہودیوں پرنا ن مسلم ورلڈ نے اتفاق رائے کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو برما جیسے حالات ایک یا دوسری شکل میں تمام دنیا میں کیو ں بپا ہے؟ لگ بھگ مسلم دنیا کا کوئی گو شہ ایسا نہیں جہاں کسی کلمہ خواں کو امن اور شانتی نصیب ہو بلکہ دنیا کے ہر گو شے میں تہذیبوں کے تصادم کی تھیو ری کے عین مطا بق وہ مسلمان یکساں طور پریشان اورپراگندہ ہیں جو اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس کے لئے اس اندھیر نگری میں دین وایمان سب سے انمول شئے ہے ۔ رہاوہ طبقہ جس نے اپنے حقیر مفادات کیلئے حالات سے سمجھو تہ کر کے حکمرانی ، عیاشی اور لز ت کو شی کو اپنا کعبۂ مقصود بنا یا ہے اس کی کھا ل اتنی مو ٹی ہے کہ اگر ایک برما کیا پو رے مسلم بلا ک کی اینٹ سے اینٹ بجا ئی جا تی ہے اس کی جبین پر کو ئی شکن پڑنے والی نہیں۔ اس مقتدر اور نام نہا د اشراف طبقے کا گلا کر نا ہی بے سود ہے ، نہ ان سے یہ تو قع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ بر ما کے مقہور مسلما نو ں یا دمشق ، صنعا، غزہ ، کابل ، بغداد ، طرابلس وغیرہ کے مظلو مین کے درد کا درماں بنیں۔ البتہ سوال یہ ہے کہ مسلمانو ں کا آ خر قصور کیا ہے ؟ ؟ اس سوال کا جو کچھ بھی جواب ہو بہرکیف یہ ایک امرواقع ہے کہ بشمول طا غوت انسانی ذہن کے تراشیدہ ہر عقیدے، فلسفے ، ازم ، تہذیب و تمدن، کلچر وثقافت ، ادب و آرٹ کو اس ایک خدائی، الہا می اور آفاقی مذہب میں اپنی موت نظر آتی ہے جو اس کے سامنے ایک ہمہ گیر متبادل سوشو اکنا مک نظامِ حق کا نظریہ مع عملی خا کہ سامنے رکھتا ہے ۔ یہ چیز چونکہ نا حق کے امامو ں سمیت وقت کے دبدبہ والے متکبرین اور جا برین کے مفادات پر زد ڈالتا ہے، اسلئے مسلمان دشمن قوتیں اس میں اپنی موت سمجھ کر مسلما نو ں کو دبا رہے ہیں ، کچل رہے ہیں اور صفحۂ ہستی سے مٹا رہے ہیں    ؎

ستیزہ کار رہا ہے اَزل سے تا امروز

چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بو لہبی

اس صورت حال میں مسلم عوام کے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟ اس آپشن پہ اگر اب بھی ہم بہ حیثیت آ فا قی امت سر جو ڑ اپنے مقام ومرتبہ ، اپنی صفو ں کی کج روی، اپنے ذہنو ں کے بانجھ پن اور اپنے ایما ن واخلا ق میںکمزوریو ں پر غور وفکر کر کے انہیں دور نہیں کر تے تو کو ئی وجہ نہیں کہ برما کا یہ الا ؤ خدانخواستہ کل ہمارے گھر آ نگن تک بھی پہنچ سکتا ہے اور پھر ہمیںانتظار کرنا ہو گا کہ اللہ ہماری جگہ کسی اور قوم سے حرم کی پاسبانی کا کام لے گا کیونکہ اس کا چہیتا وہی ہے جو اس کے مقاصد کی تکمیل کرے اور اپنے پیارے لاڈلے چہیتے پیدا کر نے میں یا کن فیکون کی ندا پر کسی اور قوم کو کسی اہم ترین کام میں لگا نے سے اللہ جل شانہ کل کسی کا محتاج تھا نہ آج ہے اور نہ آ یندہ ہو گا۔ 

(ختم شد)

 rashid.parveen@gmail.com

No comments:

Post a Comment