رابطہ عالم اسلامی ایک تعارف
سینٹر پروفیسر ساجد میر
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز ؒ ایک پرہیز گار حکمران تھے جو ملت اسلامیہ کے اتحاد کیلئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے ۔ 1962 میںن کی کوششوں سے عالم اسلام کے ممتاز علماءاور داعیان دین کا نمائندہ اجلاس مکة المکرمہ میں طلب کیا گیاجس میں رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے قبل1936 ءمیں مکہ المکرمہ میں ہی مسلم امہ کو درپیش مسائل پر غور کیلئے ایک نمائندہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ جس میں ایسی ہی تنظیم کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ موتمر عالم اسلامی کے نام سے تنظیم قائم کی گئی جس کی کانفرنسوں میں ہندوستان سے سید سلیمان ندوی ،ؒ مولانا محمد علی جوہرؒ، سید ابولحسن ندوی ؒ اور علامہ اقبالؒ جیسی عظیم شخصیات نے شرکت کی ۔جس نے امت مسلمہ کی نشاة ثانیہ کیلئے تجاویز پیش کی گئیں۔ آگے جاکر پھر موتمر کی جگہ رابطہ عالم اسلامی نے لے لی جو آج عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین عوامی تنظیم بن چکی ہے۔ جسکا صدر دفتر مکہ المکرمہ میں واقع ہے۔ اسکے موجودہ جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن الترکی ہیں۔ یہ پوری دنیا کی اسلامی این جی اوز اور نمائندہ شخصیات کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔
اسکے قیام کا مقصد دعوت دین اور اسلامی عقائد وتعلیمات کی تشریح اور انکے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات یامعاندین اسلام کے اعتراضات کو بہتر طریقہ سے زائل کرنا ہے اور اس عالمی تنظیم کے پلیٹ فارم سے مسلمانان عالم کے مسائل ومشکلات کو حل کرنے اور انکی تعلیمی وثقافتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے مالی تعاون اسکی ترجیحات میں شامل ہے۔ گزشتہ مہینے مکہ میں رابطہ کا سالانہ تاسیسی اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں اسکی باڈی کے نئے نام مجلس اعلی کی منظوری دی گئی اور اسکے لیے میری رکنیت کی بھی توثیق کی گئی۔ دنیا بھر سے خصوصا اسلامی ممالک سے وابستہ اسکے کل ارکان کی تعداد60 ہے جن کی مدت 5 سال ہو تی ہے ۔
مسلم زعماءرابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم پر ان امور کو زیر بحث لارہے ہیں جنہیں اوآئی سی صحیح معنوں میں اٹھانے کا حق ادا نہیں کرسکی۔ اس وقت رابط کی تنظیم اقوام متحدہ کی اقتصادی کمیٹی اور غیر حکومتی تنظیموں کی مجلس میں بطور مبصر یا مشیر کی حیثیت سے شریک ہو تی ہے۔ اسی طرح مسلم ممالک کی جملہ کانفرنسوں میں بھی مبصر کے طور پر شرکت کرکے اپنی آواز بلند کرتی ہے جبکہ تربیت وتعلیم اور ثقافتی امور کی بین الاقوامی تنظیم یو نیسکو اور بہبود اطفال کی بین الاقوامی تنظیم یونیسف کی مستقل رکنیت بھی اسے حاصل ہے۔مختلف اجلاسوں میں اتحاد اسلام کی اہمیت وضرورت اور غیر اسلامی افکار ونظریات سے اجتناب کی تجاویز منظور کی گئیں۔
حرمین شریفین کی عظمت، شعائر حج کی تقدیس اور مسلم حکمرانوں کا شعائر اللہ سے خاص تعلق، وحدت امت، دعوت الی اللہ، میثاق مکہ اور قضیہ فلسطین کے بارے میں تجاویز منظور کی گئیں۔گزشتہ ماہ 16 جون کو مکہ المکرمہ میں ہونےوالے اجلاس میں برما کے مسلمانوں کے قتل عام پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔اسکے علاوہ افغانستان کے مسائل بھی زیر بحث آئے۔ اس سلسلے میں ایک نمائندہ وفد نے افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات بھی کی ہے۔
جن شعبہ جات کی اب تک تشکیل کی جا چکی ہے۔اس میں اشاعت وترویج قرآن کیلئے ایک کونسل ہے جو مسلمانوں کے بچوں میں قرآن سے لگاﺅ پیدا کرنے کیلئے حفظ قرآن کے مقابلوں کا اہتمام کرتی ہے کہ ،پھرتعلیمی کونسل ہے جسکا کام دنیا بھر میں مسلم ممالک کے علاوہ مسلم اقلیتوں کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کاخیال رکھنا ہے۔، اس ضمن میں جہاں نئے اداروں کی ضرورت ہے انکے قیام کی جدوجہد کرنا اسکے پیش نظر ہے۔ اسی طرح ،چیئرٹی فاﺅ نڈیشن، اقصی مسجد فاﺅ نڈیشن، انٹرنیشنل اسلامک ریلیف آرگنائزیشن، قرآن وسنت کے سائنسی انکشافات اور نشانیوں پر کمیشن ۔ورلڈ سپریم کونسل برائے مساجد، الفقہ کونسل کی شکل میں کمیٹیاں فعال ہیں۔ انہیں جدید اسلوب اور جدید فقہی، معاشی اور اقتصادی معاملات کے تناظر میں امور سونپے گئے ہیں۔ پاکستان سے دو علمی شخصیات مولانا تقی عثمانی فقہ کونسل جبکہ ڈاکٹر انیس احمد مساجد کمیٹی کے رکن ہیں۔
دنیائے اسلام با لخصوص جبکہ یورپ ، افریقہ ودیگر غیر اسلامی ممالک بالعموم جہاں مسلم اقلیتیں ہیں وہاں انکے میڈیکل اور ویلفیئر کے مشن کام کرتے رہتے ہیں۔پاکستان میں آنےوالے زلزلوں اور سیلابوں سمیت قدرتی آفات کے موقع پر سعودی عرب کی حکومت نے رابطہ کے ذریعے کروڑوں روپے کی امداد بھجوائی تھی۔ مصیبت اور پریشانی کا کوئی بھی موقع ہو رابط عالم اسلامی تعاون میں پیش پیش نظر آتا ہے۔اسلام دشمن عناصر کی طرف سے مسلمانوں پر طرح طرح کے الزامات اور اسلام کا غلط تصور پیش کرنےوالے عوامل کے تدارک کیلئے تقابل ادیان کے شعبہ کے تحت علمی وتحقیقی کام کررہی ہے۔ رابطہ کے فورم پر یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں مذاہب کے درمیان مکالمے کی ضرورت واہمیت پر کانفرنسز منعقد کرائی گئی ہیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات بیان کرکے اسے پر امن مذہب کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے ۔ رواداری اور برداشت پر مبنی اسلامی تعلیمات عام کی جارہی ہیں اور مذہبی انتہا پسندی وغیرہ کے پراپیگنڈہ کی نفی کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں اب تک کئی کا نفرنسیں ہو چکی ہیں ۔ یعنی اسلام اور مسلمانوں کےخلاف جب بھی کوئی سازش ہوتی ہے اسکا حکمت عملی سے جواب دیا جاتا ہے۔ بین المذاہب مزاکرے اور مکالمے اسکے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے شدت پسند گروہوںکے انفرادی کردار اور سرگرمیوں کو اسلام کے کھاتے میں ڈالنا بڑی زیادتی ہے۔ غیرمسلموں کو اسلام کا خوبصورت امیج دینا اور دنیا کو تہذیبی ٹکراﺅ سے بچانا اسکی ترجیحات کا حصہ ہے۔ میں فرقہ ورانہ کشیدگی، فقہی اور گروہی مذہبی منافرت کم کرنے کیلئے رابطہ کا پلیٹ فارم بھرپور کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بعض اندرونی وبیرونی اسلام اور ملک دشمن قوتوں کی خواہش ہے کہ مذہب کے نام پر فساد کو ہوا دی جائے۔ حالانکہ قرآن وسنت کی تعلیمات کو عام کرکے ایسی تمام خرافات ومنکرات اور سازشوں کو مل کر ناکام بنا یا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment