ڈپریشن انسان کا بدترین دشمن نگہت حفیظ
جس دن ناہید بانو کا دوسرا بیٹا گم ہوگیا ۔ اس کی حسرتوں کا شمار نہ رہا۔ پہلے دو مہینے وہ پل پل جیتی مرتی رہی۔ اُمید وبیم کی کشمکش کا سلسلہ کم ہوا تو اُمید فوت ہوگئی اور صرف افسردگی زندہ رہی ۔ اس کی آنکھیں ساون بھادوں بن گئیں او روہ آنکھوں سے زمین تک آنسووں کی کڑیاں بناتی گئیں ۔ حالات نے اسے خوفزدہ اور حواس باختہ کردیا۔ کئی برس پہلے جب اس کا پہلا بیٹا گھر کے عین باہر نُکّڑ پر ماراگیاتھا تب بھی وہ ایسے ہی ٹوٹ پھوٹ گئی تھی ۔ اس چن سے غموں کا لامنتہیٰ سلسلہ شروع ہوگاتھا ۔ جس کی وجہ سے زندگی سرے سے بے کیف بے رنگ اور بدمزہ ہوگئی تھی ۔ اس نئی صورت ِ حال نے بچی کھچی چند خوشیوں کو چھین کر اسے زندہ درگورکیا تھا ۔ وہ جیسے کی چاہ کھو بیٹھی ، اس کے سارے جذبے یخ بستہ ہوگئے اور وہ اداسی کے گہرے اندھیروںمیں ڈوب گئی ۔ اس کا وجود درد کی پکاربن گیا ۔ حالات کے اس دلدوز رُخ نے ناہیدبانو کو ہمیشہ کے لئے بے حِس اور پُرملول بنادیا ۔ وہ مسکرانا بھول گئی۔ اور اس کے لبوں پر خاموشی کی مہر مسلط ہوگئی ۔ وہ ہر بُرا حادثہ اپنی ذات سے منسلک کرتی گئی اور اپنے آپ کو ساری مصیبتوں کی جڑ تصور کرنے لگی، جیسے اس سے کئی ناقابل معافی گناہ سرزد ہوئے ہوں ،جیسے وہ خطر ناک جرائم میں حصہ دار ہو ، جیسے اس کی ذات صرف ایک الزام ہو ، جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے ناکردہ گناہوں کے عوض سزا کے لئے مخصوص کر دیا ہو ۔ بے جا احساسِ جرم کی ذلت نے اسے شرمسار کیا اور وہ تنہائی پسند ہوگئی ۔ اپنے گھر کے بچے کھچے افراد سے منہ موڑ کر ان سے کترانے لگی ۔ وہ ایک کونے میں پڑی رہی اور اپنے خیالات کے تانے بانے سلجھانے میں دنیا و مافیھا سے بے خبر ہوگئی ۔ اسی ادھیڑ بن میں جب ایک دن اسے ہوش آیا تو اپنے آپ کو ایک آدھ کھلی الماری میں سے سُدھ پڑاپا یا ۔ ایک زندہ لاش کی مانند جسے کوئی بتائے بنا اس کی لاش کو ایک بے نشان قبرمیں بند کر گیا ہو ۔ وہ اپنی حالت ِزار پر چیخ چیخ کر رونے لگی ۔ اپنے بال نوچ ڈالے ۔ منہ پر بے تحاشا طمانچے مارے ۔ اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور گِرکر بے ہوش ہوگئی۔ وہ ڈیپریشن کا شکار ہوگئی تھی ۔ ہذیان اور شوریدگی نے اسے آدبوچا تھا اور مالیخو لیا نے ایک تیمار دار کی مانند تھپکیاں دے کر اسے سُلا دیا تھا ۔ اس پر ڈیپریشن کی وجہ سے پہلا Panic attack ہوا تھا ۔
ڈپریشن ایک نہایت ہی گہرا جذباتی پسماندگی کا احساس ہے جس میں دکھ ، درد ،مصیبت یا سیت، سستی ، حزن وملال ، تنگ دلی اور آہوں اور آنسوؤں کا تاثر غالب رہتا ہے ۔ اس کا تعلق اندرونی خلفشار اور نجی خسارے سے منسلک ہے ۔ یہ کسی خاص ردِ عمل کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے جس میں انسان صلاحیت کے ذاتی فقدان کی وجہ سے اپنے حالات اور ارد گرد کے ماحول کو منظم کرنے میں ناکام رہتاہے کہ زندگی اپنی ترتیب کھوبیٹھتی ہے ۔ یہ ترتیب اس شدید ذہنی دباو کے باعث بھی غیر منظم ہو جاتی ہے جو ماضی کی ناکامیوں اور مستقبل سے جڑے وسوسوں اور اندیشوں سے پیدا شدہ خوف اور ہراس کی عکاسی کرتی ہے ۔ ڈپریشن انسان کو ماحول اور لوگوں سے دور کردیتا ہے ۔ اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور جی اُچاٹ جاتا ہے ،ہر چیز کشش اور دلچسپی کھودیتی ہے ۔ اس کی بھوک پیاس مٹ جاتی ہے اور وہ حفظان صحت کے اصولوں سے لاپرواہی برتنے لگتاہے ۔ میلے کچیلے کپڑے سرجھاڑ وہ مہینوںنہائے بنا رہ سکتا ہے ،اس کی قنوطیت اس کو پُراسرار اور بعید الفہم بنا دیتی ہے ۔وہ خاموش دیے کی طرح اند ہی اندر ٹھنڈی آگ میں سلگتا رہتاہے۔
ڈپریشن ایک خاص رفتار سے انسان کو اپنے بس میں کر لیتاہے اور یہ ایک دھیمی رفتار سے بتدریج بڑھتا رہتا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے ان دیکھے وسوسوں سے شروع ہو کر بڑی بڑی پریشانیوں کا باعث بیتا ہے ۔یہ ہر عمر ، ہر جنس اور ہر پس منظر میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ اس مایوس کن بیماری کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہمیشہ تہمت زدہ محسوس کر کے اپنے اندر تنگ دلی ار مفلسی کی ایسی فضا قائم کر تا ہے ، جو اسے ہر وقت مجروح رکھتی ہے۔ ڈپریشن انسان کو دن بھر مالیخولی خیالات سے تھکا کر چُور کرتا ہے اور ذہن پر نیند کا خمار قائم کر تا ہے لیکن ساتھ ہی آنکھوں کو بند ہونے سے روکتا ہے ۔ انسان بے خوب راتوں کے ڈر سے سہما سہما رہتا ہے اوریو ں اداسی اس پر پہرہ زن ہوجاتی ہے۔ اس انسان کی دنیا میں ترتیب کا فقدان اتنا غالب آجاتا ہے کہ ذہنی طور پر معمولی چیزوں کو تلاش کر نا اس کے بس میں نہیں رہتا ۔ بدنظمی ، افراتفری اور ابتری زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کے تجربات کا سرمایہ کوڑے کرکٹ کے ایسے ڈھیر میں بدل جاتا ہے ، جس میں سے چیزوں کی تلاش نا ممکن اور ان کا حصول مشکل بن جاتاہے۔ اس کشمکش میں اس پر بوکھلاہٹ طاری ہوجاتی ہے اور وہ جلد اٹھتا ہے ، تنک مزاجی ، بدظنی ، کاہلی اور سہل انگاری اسے گھیر لیتی ہے ۔ وہ اپنی ذات کے محور کے گرد گھومتا ہے اور ذات کی یہ قیداُسے ذاتی مشکلات او رنجی دکھ درد سے باہر آنے سے روکتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر خوشی کے موقع پر صرف اپنے دکھوں کی نمائش سے باز نہیں آتا، پُر مسرت لمحوں سے وہ دکھ اور درد نچوڑنچوڑ کر اپنے لئے رونے اور کُڑھنے کے سامان پیدا کرتا ہے۔
ڈپریشن کے موضوع یا مرض پر کافی تحقیق ہوئی ہے ۔ ہزاروں تجربات ہوئے اور لاکھوں کیابیں لکھی گئی لیکن ڈیپریشن اصل میں کیا ہے ابھی تک صحیح معنوں میں اس کی بنیاد یا صحیح وجہ کے بارے میں وثوق سے پتہ نہ لگایا جاسکا۔ اس کو سمجھنا کافی مشکل ہے لیکن تحقیقات اور تجربات کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دماغ کے Neurotrnsmitter system کے فاضل عمل کا نتیجہ ہے جو براہ راست ہمارے احساسات ، نیند ، بھوک اور پیاس کو اثر انداز کرتا ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی اپنے اندر اداسی اور کسمپرسی کے کچھ اس قسم کے تاثرات محسوس کر رہا ہو تو بہتر یہ ہوگا کہ اپنے اندر ہو رہی اس تبدیلی پر پردہ نہ ڈالا جائے بلکہ خاموشی کی دیوار کو توڑکر اپنے اس مسئلے سے اپنے افراد خنہ اور دوست احباب کو مطلع کریں ۔ ان سے مددمانگیں ۔وہ آپ کو اس مصیبت سے باہر لانے میں بہترین معاون ثابت ہونگے وہ آپ کو ڈپریشن سے باہر لانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اُداسی اظہار سے گھتتی ہے اپنے کھانے پر دھیان دیجئے ۔ اچھی خوراک اور ورزس اپنا معمول بنائے ۔ ماضی کے خوش کن لمحات کو اپنے ذہن میں بار بار دھرائے غم سے پرہیز کیجئے ۔کبھی کبھی یہ اداسی بدلتے موسموں کی دین بھی ہوتی ہے جیسے Seasonal Affective Disorder یعنی SAD یہ موسم سے وابستہ ہے اور اکثر موسم خزان یا موسم سرما میں انسان کو گھیر لیتا ہے ۔ سرد ، یخ بستہ موسم میں جب بادل گہرے ہو جائیں دن میں چھٹ پٹ اندھیرا چھا جائے ، جذبوں پر برف جم جائے تو تیز روشنی کا بلب جلایئے یا پھر خوشبودار خوب ساری شمعیں جلاکر اپنے کمرے کو روشن کیجئے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ڈپریشن دور کرکے پھر سے آپ کا دامن خوشیوں سے بھردے۔
|
Search This Blog
Thursday 9 August 2012
ڈپریشن انسان کا بدترین دشمن
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment