اعتکاف… درِ الٰہی پہ سرِ عبودیت
اسلام ہمیں اطاعت اور فرما برداری کا راستہ دکھاتا ہے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف لاتا ہے ۔زمانہ کوئی بھی ہو، کیفیت کسی بھی طرح کی ہو ، حالت جنگ ہو یا حالت امن ہو ، مسلمانوں کو ایک ہی سبق دیا جا رہا ہے کہ مستعدی چوکسی بیدارمغزی اور بھر پور ہوشیاری سے زندگی گزارو اسلام دین فطرت ہے۔ یہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے ملنے اور تعلق جوڑنے کا حکم دیتا ہے ، اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے اور رہبانیت یا گوشہ نشینی سے مکمل طور پر اجتناب کی ہدایت دیتا ہے لیکن بعض اوقات انسان میں یہ خواہش بھی پید ا ہوتی ہے اور اس خواہش کے پس پردہ کوئی زیادہ حیرت کی بات بھی نہیں کہ وہ یکسوئی کے ساتھ گوشہ تنہائی میں اپنے رب سے باتیں کرے۔ لوگ جب سوئے ہوئے ہوں تو وہ اپنے رب کے ساتھ سر گوشیوں میں دعائیں کرے۔ طویل قیام اور رکوع اور سجدود کے ذریعہ سے اپنے روح و جسم کو تقویت فراہم کرے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے پالنے والے رب کے حضور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور اس سے آئندہ کے لئے از سر نو اطاعت اور وفاداری کا عہد کرے۔ انسان کی یہ خواہش فطری ہے اور اسی خواہش کے تحت پروردگار عالم کے حکم سے اعتکاف کی عبادت کا تحفہ عطا کیا گیا ہے۔ در اصل اعتکاف عزلت نشینی نہیں کیونکہ اس کا وقت متعین ہے اور اس متعین وقت میں معتکف متحرک اور چست ہو کر اپنی بیدار مغری اور اپنی چوکسی و ہوشیاری کے جواھر کو دوبالا کرتا ہے۔
رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلعم راتوں کو جاگ کر زیادہ سے زیادہ عبادت کرتے اور امہات المومنین کو بھی شب بیداری کا حکم فرماتے۔ چنا نچہ آپ صلعم کی ہدایت پرامہات المومنین سب بھی مستعد ہو جاتیں اور زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لئے بڑے جوش و انہماک کے ساتھ عبادات میں مصروف ہو جاتیں۔رمضان المبارک کے آخری ایام میںآپ صلعم اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اس اعتکاف کے لئے مسجد نبویؐ میں خیمہ گاڑدیا جاتا تھا ، جس میں آپ صلعم اعتکاف فرماتے اور تنہائی میں رب العالمین سے دست بدعا ہو جاتے۔ اعتکاف کی حالت میں سوائے انسانی ضرورت کے خیمے سے باہر تشریف نہیں لے جاتے تھے جب شوال المکرم (عید) کا چاند نظر آجاتا تو آپ صلعم کی حمد و تقدیس بیان کرتے ہوئے اعتکاف سے باہر تشریف لے آتے تھے۔ اس طرح اعتکاف کی یہ بے مثال عبادت مکمل ہو جاتی تھی۔
اسلام میں بنیادی چیز اعتدال ہے۔ ویسے بھی مسلماںکو زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو میں اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ ر ب العزت نے ہمیں معتدل مزاج تو بنایا ہے ، ساتھ ہی ہمیں مذہب بھی معتدل ہی عطا فرمایا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کا جو حکم دیا ہے اس کے پیچھے بھی ایک عظیم اور بڑی مصلحت پوشیدہ ہے اور وہ ہے قرب الٰہی کی خواہش۔ پروردگار عالم کا قرب حاصل کرنا ہر مسلمان کی اولین خواہش ہوتی ہے اور اسی خواہش کے حصول کے لئے اہل ایمان ہر سال رمضان کے مہینے میں پابندی اور تواتر سے اعتکاف کی سنت ادا کرتے ہیں اور اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے جو دنیا وی معاملات اور معمولات سے الگ تھلگ ہو کرتنہائی میں ادا کی جاتی ہے۔ جہاں بندے اور مالک حقیقی کے سوا اور کوئی نہیں ہوتا۔یہ عبادت جسے اعتکاف کا نام دیا گیا ہے در ا صل آپ صلعم کی اس سنت مبارکہ کا نام ہے جس کے تحت اللہ کے آپ صلعم نے غار حرا میں خدائے واحد کی عبادت کی اس سے لو لگائی اس سے ہدایت کے طلب گار ہوئے اور اس حالت میں کم و بیش پندرہ برس گزارے۔ غار حرا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہائی خدا کو پسند آئی اور قرین قیاس یہ ہے کہ اسی تنہائی کی تقلید کو بعد میں اعتکاف کا نام دیا گیا اور مسلمانوں کو بھی اس عظیم عبادت کا اعزاز بخشا گیا۔امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے افراد اہل ایمان آپ صلعم کی اس سنت عبادت کی پیروی ہر سال رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں اس سنت کا اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔
آپؐ اللہ تعالیٰ کے آخری نبیؐ ہیں۔قیامت تک اب کوئی نبی اوررسول کرہ ارض پر مبعوث نہیں ہوگا۔ ہدایت ورشد کی کوئی دوسری کتاب نازل نہیں ہو گی۔ قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ نے تمام تعلیمات اسلامی اور تعلیمات آدمیت کا نچوڑ اور اس کی روح بیان فرما دی ہے مسلمانوں کو قیامت تک صرف قرآن اور سنت سے مکمل راہنمائی حاصل کرنے کاحکم دیا گیااور اسے اس امر کا پابند بھی بنا دیا گیا ہے کہ قرآن اور سنت کے برعکس وہ کسی شئے کو قبول اور تسلیم نہ کرے۔ قرآن کریم وہ الہامی کتاب ہے جو ہر طرح کے الحاق سے مبرا ہے۔ نہ اس میں کوئی نئی تحریر داخل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی پیشی کی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ َگنا ہوا ہے اور یہ قرآن وہ نسخہ کیمیا ہے جو اسلامی دنیا کے حفاظ کے سینوں میں اللہ نے محفوظ فرمادیا ہے۔ اعتکاف اس امر کا نام ہے کہ انسان اپنی بشریت کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنی روح کو بھی انوار و برکات سے اور فیضان اسلام سے آراستہ کرے۔ مسلمانوں کو اعتکاف کی عبادت یا خلوت گزینی میں تلاوت قرآن کا ذوق بڑھا کر اس میںارشاد فرمائے گئے تمام احکامات کو اپنی زندگی پر نافذ کرنے کا عہد کرنا ہوتا ہے اوراپنے رب سے اس عہد کی تجدید کرنی ہوتی ہے کہ روئے زمین پر قرآنی نظام کے نفاذ کیلئے یہ بندہ بھر پور جدوجہد کرے گا۔اگر وہ اس جدوجہد میں کامیاب ہوا تو فبہا اور اگر اس کی جدوجہد کامیاب نہ ہو سکی تب بھی اسے رضائے رب العالمین نصیب ہو جاتا ہے،جس سے اس بندے کا بیڑہ پار ہو جاتا ہے۔آئیے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم ہر عبادت کو اس کے نفس مضمون کے ساتھ ادا کرتے رہیں تا کہ ہم سے ہمارا رب راضی ہو جائے۔
مرسلہ : -فدامحمد بٹ …تالاب تلو،جموں
|
Search This Blog
Friday 10 August 2012
ETEKAF.. DARE ILAHI PE SARE ABUDIYAT
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment