Search This Blog

Friday 3 August 2012

Roza: Rooh ko hamdard ghamgusar bananey ka nuskha

روزہ:روح کو ہمدردمہربا ن اور غم گسار بنا نے کا نسخہ


اللہ رب العالمین کا منتخب کردہ مہینہ جوبابرکت اور باعظمت ہے جس کو ہم رمضان المبارک کے نا م سے جانتے ہیں ہمارے اوپر سایۂ فگن ہے ۔ اس کا عشر ہ ٔ رحمت تین دنقبل ہم سے رخصت بھی ہو ا۔ اب عشرہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں پر روزے فرض کئے گئے ہیں تاکہ وہ تقویٰ او رپرہیزگاری سے اپنے نفس کو سیراب کریں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اے ایمان والو! تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر لازم کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔(البقرہ:۳۸)
سب سے پہلی اور سب سے نمایاں چیز تو یہ ہے کہ روزہ انسان میںخدا ترسی کی صف اور تقویٰ کا جوہر پیدا کرتاہے جیسا کہ قرآن مجید نے روزے کے فرضیت کا جو اعلان کیا ہے اس میں یہ حقیقت صراحت سے مذکورہے ۔
اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوسکے۔(سورہ البقرہ:۳۸)۔اسی طرح نبیؐ فرماتے ہیں : الصوم جنۃ ۔(مسلم)
روزہ دنیا میں گناہوں سے اور آخرت میں دوزخ سے بچانے والی ڈھال ہے یعنی روز ہ انسان میں تقویٰ کی صفت پیداکرتا ہے ۔ تقویٰ کی جامع اور مختصر تعریف جو حضرت ابی ابن کعبؓ نے حضرت عمرؓ کے سوال کے جواب میں بیان کی وہ یہ ہے حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا’’ تقویٰ کسے کہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اے امیر المومنین ! کیا آپ کو کبھی کسی ایسے راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے جس کے چاروں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں اور راستہ تنگ ہو ؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا : ’’بارہا‘‘ ۔ انہوں نے پوچھا تو ایسے موقع پر آپؓ کیا کرتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا : ’’میں دامن سمیٹ لیتاہوں اورو بچتا ہوا چلتاہوں کہ دامن کانٹوں میں نہ اُلجھ جائے‘‘۔ حضرت ابی بن کعبؓ نے کہا ’’ بسی اس کا نام تقویٰ ہے‘‘۔
تقویٰ کی اس تعریف سے رہبانیت اور اس جیسے دوسرے باطل تصورات کی یکسر نفی ہوتی ہے جن میں یہ باور کرایا جاتاہے کہ اللہ رب العالمین کا تقویٰ اختیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک بندہ دنیوی مصروفیات اور مشغولیات سے یکسر بے نیاز ہوکر جنگل اور بیابان کا رُخ کرے اس کے بغیر وہ تقویٰ کے ادنیٰ درجے تک بھی نہیں پہنچ سکتاہے مگر شریعت اسلامیہ میں ان باطل تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ تقویٰ کی حقیقی اور صحیح تعریف ایک داعی حق کے لئے ہمت اور حوصلہ کا مقام رکھتی ہے کہ معاشرے میں رہ کر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کی پیروی کرنا اور اس راہ میں مصائب اور مشکلات برداشت کرنا ہی اصل میں تقویٰ کی شاہراہ خاص ہے جو تکلیف ہم ماہِ رمضان میں اُٹھانے کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں تاکہ ہم پرہیزگار بن جائیں اسی بات کو اللہ کے رسولؐ نے ایک حدیث میں کچھ اس طرح سے ارشاد فرمایا : وہ مومن جو لوگوں میں جاکرتکلیف اُٹھاتا ہے اور اس پر صبر کرنا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے نہیں ملتا اور تکلیف بھی نہیں اُٹھاتا‘‘۔
بظاہر روزے کی یہی امتیازی حقیقت تھی جس کی بناء پر قرآن نے لعلکم تتقون اگرفرمایا ہے تو صرف روزے کے حکم کے ساتھ فرمایاہے کسی اور عبادت کے حکم کے ساتھ ان لفظوں کا اعادہ نہیں کیا ہے حالانکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم تھی کہ انسان میں نیکی کا جوہر اور تقویٰ کا نور ہرعبادت پیدا کرتی ہے پھر غالباً روزے کی یہی امتیازی حیثیت تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مخصوص اسی ایک فعل عبادت کو اپنا ’’یا‘‘ اپنے لئے فرمایا اور اجروثواب کی میزان میں بھی اسے سب سے زیادہ باوزن قرار دیا ہے ۔ نبیؐ نے فرمایا ان انسان کے ہر عمل خیرکا اجردس گناہ سے لے کرسات سو گنا تک ملے گا ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ لیکن روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا جتنا چاہوں گا بدلہ دوںگا۔ آخر اپنی شہوت نفس اور اپنا کھانا پینا میری ہی خاطر تو روکے رہتاہے ۔ اگر روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ کی صف پیدا ہو ۔ جیسا کہ معلوم ہوا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہی تقویٰ روزے کی اصل کسوٹی بھی ہے ۔روزے کی صورت او راس کا قانونی وجود اگر یہ ہے کہ انسان کھانے  پینے سے دور رہے تو اس کی حقیقت اور اس کا واقعی وجود یہ ہے کہ ان تمام باتوں سے دور رہا جائے جو اللہ کی ناراض کرنے والی ہوں ۔ اگر ایک شخص روزہ رکھ کر ہی صرف تین خواہشوں کو کنٹرول نہیں کرتا بلکہ ساری خواہشوں کواحکام الٰہی کے کنٹرول میں دے دیتاہے تو وہ حقیقی معنوں میں روزے دار ہے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا روزہ نہیں بلکہ صرف فاقہ ہے کیونکہ کھانے پینے اور جنسی خواہش سے اجتناب ہی اصل روزہ نہیں بلکہ اصل روزے کی طرف ظاہری صورت اور قانونی علامت ہے ۔جیسا کہ نبی ؐ فرماتے ہیں کہ ’’کتنے ہی روزے دار ہیں جن کے پلّے اپنے روزے سے پیاس کے سوا اور کچھ نہیں پڑتا یہ نام نہاد روزہ دار کس طرح کے لوگ ہوتے ہیں ؟ اس کی وضاحت ایک دوسرا ارشادرسولؐ اس طرح کرتے ہیں ’’جس کسی نے روزے کی حالات میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا وہ جان لے کہ اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ وہ شخص بس اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ ان ارشادات نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ نفس کے صرف ان تین مطالبات پر بندش لگانے کا مقصد دراصل اس کی تمام خواہش پرقابو حاصل کرلیناہے ۔اس نے اگر کوئی شخص اس مشق اور تربیت کے ذریعے اپنے نفس کو لگام نہ لگا سکا اور روزے کی حالت میں بھی اس کی شرارتیں جاری ہیں تو بہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ اس نے روزے کے مقصد کو ہی نہیں سمجھا اور اگر سمجھا تو اسے اپنایا نہیں اور جب اس نے روزے کے مقصد کو سمجھایا اپنایا نہیں تو کوئی شک نہیں کہ وہ روزہ رکھ کر بھی بے روزے کا رہا اور حقیت کے اعتبار سے اس میں اور ایک بے روزہ شخص میں کوئی فرق نہ ہوگا۔
دراصل یہ مبارک مہینہ باہمی شفقت ومحبت ہمدردی وغم گساری اور ایک دوسرے کے غم اور تکلیف میں شریک ہونے کا درس دیتاہے ۔  ان معنو ں میںجہنم سے خلاصی اور جنت میں دخول کا یہ مہینہ  ہمارے لئے ایک عطیہ الہیٰہ ہے ۔ اپنی روح کو مضبوط اور نفس کو کمزور کرنے کا اس سے بہتر کوئی او رموقع نہیں ہوسکتا۔اس مہینہ کی قدر شناسی سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں اور اس کی ناقدری سے بڑھ کر کوئی خسارہ نہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ رمقضان کی فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کا قوت بخشے ۔(آمین)
موبائل نمبر:- 9797213459

No comments:

Post a Comment